صحابہ کرام رضی الله عنہم کا مقام ومرتبہ

صحابہ کرام رضی الله عنہم کا مقام ومرتبہ

حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب

الحمد للہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفی…اما بعد!

جب تک قرآن رہے گا امت میں صحابہ کا چرچا اور ان پر تفوق رہے گا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مقدس ترین طبقہ نبی کے بلا واسطہ فیض یا فتہ اور تربیت یا فتہ لوگوں کا ہے،جن کا اصطلاحی لقب” صحابہ کرام“ ہے(رضی اللہ عنہم اجمعین)خدا اور اس کے رسول نے من حیث الطبقہ اگر کسی گروہ کی تقدیس کی ہے تو وہ صرف حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا طبقہ ہے، ان کے سوا کسی طبقہ کو من حیث الطبقہ مقدس نہیں فرمایا کہ طبقہ کے طبقہ کی تقدیس کی ہو، مگر اس پورے کے پورے طبقہ کو راشد ومرشد،راضی مرضی،تقی القلب، پاک باطن،مستمر الطاعت، محسن وصادق اور موعود بالجنہ فرمایا، پھر ان کی عمومی مقبولیت وشہرت کو کسی خاص زمانے اور دور کے ساتھ مخصوص اور محدود نہیں رکھا، بلکہ عمومی گردانا۔کتب سابقہ میں ان کے تذکروں کی خبر دے کر بتلایا کہ وہ اگلوں میں بھی جانے پہچانے لوگ تھے اور قرآن کریم میں ان کے مدائح ومناقب کا ذکر کر کے بتلایا کہ وہ پچھلوں میں بھی جانے پہچانے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔جب تک قرآن کریم رہے گا زبانوں پر،دلوں میں، ہر وقت کی تلاوت میں ،پنج وقتہ نمازوں میں،خطبات وموعظت میں،مسجدوں میں اور معبدوں میں، مدرسوں اور خانقاہوں میں ،خلوتوں اور جلوتوں میں،غرض جہاں بھی اور جب بھی اور جس نوعیت سے بھی قرآن کریم پڑھا جاتا رہے گا وہیں ان کا چرچا اور امت پر ان کا تفوق نمایاں ہوتا رہے گا۔پس بلحاظ مدح وثنا وہ امت میں یکتا وبے نظیر ہیں،جن کی انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے بعد اوّل وآخر کوئی نظیر نہیں ملتی، مگر علمائے دیوبند نے اپنے اس مسلک میں جو صحابہ کرام کی بابت عرض کیا گیا رشتہٴ اعتدال کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور کسی گوشہ سے بھی اس میں افراط وتفریط اور غلوآنے نہیں دیا۔

مثلاً وہ عظمت وجلالت کے معیار سے صحابہ کرام میں تفریق کے قائل نہیں کہ کسی کو لائق محبت سمجھیں اور کسی کو معاذ اللہ لائق عداوت سمجھیں،کسی کی مدح میں رطب اللسان ہوں اور عیاذاً باللہ کسی کی مذمت میں یا انہیں سب وشتم اور قتل وغارت کرنے پر اتر آئیں اور ان کا خون بہانے پر اتر آئیں اور ان کا خون بہانے میں بھی کسر نہ چھوڑیں اور پھر ان میں سے بعض کو نبوت سے بھی اونچا مقام دینے پر آجائیں،انہیں معصوم سمجھنے لگیں، حتیٰ کہ ان میں بعض میں حلول خداوندی ماننے لگیں۔

علمائے دیوبند کے مسلک پر یہ سب حضرات مقدسین،تقدس کے انتہائی مقام پر ہیں، مگر نبی یا خدا نہیں، بلکہ بشریت کی صفات سے متصف لوازم بشریت اور ضروریاتِ بشری کے پابند ہیں، مگر عام بشر کی سطح سے بالا تر کچھ غیر معمولی امتیازات بھی رکھتے ہیں، جو عوام تو بجائے خود اس امت کے اولیائے کرام بھی ان مقامات تک نہیں پہنچ سکے۔یہی وہ نقطہٴ اعتدال ہے جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں علمائے دیوبند نے اختیار کیا ہوا ہے،ان کے نزدیک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرف صحابیت اور صحابیت کی برگزیدگی میں یکساں ہیں، اس لیے محبت وعظمت میں بھی یکساں ہیں، تا ہم ان میں باہم فرق مراتب بھی ہے، لیکن یہ فرق چوں کہ نفس صحابیت کا فرق نہیں،اس لیے اس سے نفس صحابیت کی محبت وعقیدت میں بھی فرق نہیں پڑسکتا۔

پس اس مسلک میں اَلصَّحَابةُ کُلُّھم عَدولٌ(صحابہ سب کے سب عادل تھے)کار فرماہے، جو اس دائرہ میں اہل سنت والجماعت کے مسلک کا ،جو بعینہ مسلک علمائے دیوبند ہے،اولین سنگ بنیاد ہے۔

اسی طرح علمائے دیوبند، ان کی اس عظمت وجلالت کی وجہ سے انہیں بلا استشناء نجوم ہدایت مانتے ہیں۔اور یہ کہ بعد والوں کی نجات ان ہی کی علمی وعملی اتباع کے دائرہ میں محدود ہے،لیکن انہیں شارع تسلیم نہیں کرتے کہ حق تشریع ان کے لیے ماننے لگیں اور یہ کہ وہ جس کو چاہیں حلال کردیں اور جسے چاہیں حرام بنادیں،ورنہ نبوت اور صحابیت میں فرق باقی نہیں رہ سکتا۔پس وہ امتی تھے، مگر امت کے مخلص ترین جانثارخادم تھے ،جن کی بدولت دین اپنے پیروں پر کھڑا ہوا اور اس نے دنیا میں قدم جمائے،اس لیے وہ سب کے سب مجموعی طور پر مخدوم العالم اور خیر الخلائق بعد الانبیاء ہیں۔ہاں! مگر یہ حضرات اس مسلک کی رو سے گوشارع تو نہ تھے، مگر فانی فی الشریعة تھے۔شریعت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی تھی اور وہ اس میں گم ہو کر اس کے درجہ کمال پر آگئے تھے، جو مدارِاطاعت ہوتا ہے۔اس لیے علمائے دیوبند انہیں شریعت کے بارہ میں العیاذ باللہ خائن،متساہل یا بدنیت یا حب جاہ وجلال کا اسیر کہنے کی معصیت میں مبتلا نہیں۔ان کے نزدیک یہ سب مقدسین دین کی روایت کے راوی اوّل، دینی درایت کے مبصر اوّل، دینی مفہومات کے فہیم اوّل اور پوری امت کے مربی اوّل،حسب فرمودہ نبوی، امت کے معیار حق وباطل تھے،جن کی رو سے فرقوں کے حق وباطل کا سراغ لگایا جاسکتا ہے، اگر ان کی محبت وعظمت دل میں ہے اور بلا استشناء ہے تو وہ فرقہ حقہ کافردہے اور اگر ذرا بھی ان کی عظمت وعقیدت میں کمی یا دل میں ان کی نسبت سے سوءِ ظن ہے تو اسی نسبت سے وہ فرقہ نا جیہ سے الگ ہے۔

پس حق وباطل کے پر کھنے کی پہلی کسوٹی ان کی محبت وعظمت اور ان کی دیانت اور تقوائے باطن کا اعتراف اور ان کی نسبت قلبی پر اذعان واعتماد ہے،اس لیے جو فرقہ بھی با استشناء انہیں عدول ومتقن مانتا ہے، وہی حسب ارشاد نبوی فرقہ حقہ ہے اور وہ الحمداللہ اہل سنت والجماعت ہیں۔اور جوان کے بارہ میں بدگمانی یا بد زبانی کا شکار ہے تو وہ حقانیت سے ہٹا ہوا ہے،اس لیے شریعت کے باب میں ان کے بارے میں کسی ادنیٰ دخل وفصل کا تو ہم پورے دین پر سے اعتماد اٹھا دیتا ہے، اگر وہ بھی معاذاللہ دین کے بارے میں اِدھر اُدھر ہٹے ہوئے تھے تو بعد والوں کے لیے راہ مستقیم پر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پوری امت اوّل سے آخرتک نا قابل اعتبار ہو کر رہ جاتی ہے۔

اس لیے حسب مسلک علمائے دیوبند جہاں وہ منفرد اپنی اپنی ذوات کے لحاظ سے تقی ونقی اور صفی وفی ہیں،وہیں بحیثیت مجموعی امت کی نجات بھی ان ہی کے اتباع میں منحصر ہے اور وہ بحیثیت قرن من حیث الطبقہ پوری امت کے نبی کے قائم مقام اور معیار حق تھے۔پس جیسے نبوت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے ایسے ہی ان کے اجماع کا منکر بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے، حتیٰ کہ ان کا تعامل بھی بعض ائمہ ہدایت کے یہاں شرعی حجت تسلیم کیا گیا ہے،اس لیے جذباتی رنگ سے انہیں گھٹانا، بڑھانا یا چڑھانا اور گرانا، جس طرح عقل ونقل قبول نہیں کرتی، اسی طرح علمائے دیوبند کا جامع عقل ونقل مسلک بھی اسے قبول نہیں کرسکتا۔علمائے دیوبند،ان کی غیر معمولی دینی عظمتوں کے پیش نظر انہیں سرتاج اولیاء مانتے ہیں، مگر ان کے معصوم ہونے کے قائل نہیں، البتہ انہیں محفوظ من اللہ مانتے ہیں ،جو ولایت کا انتہائی مقام ہے۔جس میں تقوٰی کی انتہا بشاشت ایمان جو ہر نفس ہوجاتی ہے اور سنت اللہ کے مطابق صدور معصیت عادةً نا ممکن ہوجاتا ہے:” ذَالِکَ اِذَا خَالَطَ بشَاشَة الْاِیْمَانِ الْقُلُوْب “اس مقام کے تقاضا سے ان کا تقوٰی باطن ہمہ وقت ان کے لیے مُذکِّرہتاتھا۔

پس معصوم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں معصیت کا امکان تھا مگر محفوظ من ا لله ہونے کی وجہ سے ان میں معصیت کا صدور اور ذنوب کا اقدام نہ تھا، پھر اس طبقہ میں معصیت کا امکان تھا معصیت کا احتمال بھی بیرونی عوارض یا طبیعت کی حدتک تھا، قلبی دواعی کی حد تک نہ تھا کیوں کہ ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے تقوٰ ی کے پر کھے پر کھائے ہونے کی شہادت قرآن کریم دے رہا ہے۔اس لیے اگر عوام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے ابتدائی منزل میں طبعا کوئی لغزش سرزد بھی ہوئی تو جیسا کہ وہ قلبی داعیہ یا گناہ کے کسی ملکہ سے، جو دل میں جڑ پکڑے ہوئے ہو ،سر زدشدہ نہ تھی، ایسے ہی اس کا اثر بھی ان کے قلبی ملکات واحوال یا باطنی تقویٰ تک نہ پہنچ سکتا تھا، اس لیے ایسی اتفاقی لغزش سے بھی ان کی باطنی بزرگی، جس کی خدا تعالیٰ نے شہادت دی ہے متہم نہیں ٹھہر سکتی۔