صحابہ کرامؓ کی گستاخی سنگین گناہ اور عظیم جرم

صحابہ کرامؓ کی گستاخی سنگین گناہ اور عظیم جرم

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

حضرات صحابہ کرام  سے عقیدت ومحبت اور ان کا ادب واحترام ایک مسلمان کے لیے لازم اور ضروری ہے ،اس روئے زمین پر حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد مقدس ترین جماعت صحابہ کرام  ہی کی ہے ،جن کی عظمت وفضیلت میں قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں اور جن کے مقامِ بلند کو بتانے اور ان کے حقوق سے امت کو آگاہ کرنے کے لیے امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے گراں قدر ارشادات سے نوازا۔صحابہ کرام  وہ مقدس ترین طبقہ ہے جس نے براہ ِ راست شمعِ رسالت صلی الله علیہ وسلمسے روشنی پائی اورمنبع علم وعرفاں صلی الله علیہ وسلم سے فیض یاب ہوئے،اپنی آنکھوں کوآپ صلی الله علیہ وسلم کے دیدارسے مشرف کیا،اپنے کانوں سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک ارشادات کو سماعت کیا،جن کی زندگی کا بڑا مقصد نبی کے اشارہ پر جان وتن کو لٹانا اور خود کو نبی کے قدموں پر نثار کرنا تھا،کٹھن منزلیں ،سخت مرحلے اور مسلسل آزمائشوں نے بھی ان کے جذبہ اطاعت وفرماں برداری میں کمی آنے نہیں دی، نہ ہی پائے استقامت میں جنبش آنے دی،وہ دیوانہ وار اپنے نبی سے محبت کرتے تھے ،فدائیت وفنائیت کا حیرت انگیزنمونہ پیش کیااور رہتی دنیاتک کے انسانوں کوبتادیاکہ نبی کے عاشق ، دین ِ حق کے متوالے اورمحمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سپاہی کیسے ہوتے ہیں!جن کی وفاداری ،خلوص وجاں نثاری کے واقعات آج بھی ہمارے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے ایمان کو تازہ کرنے اور جذبہ وفا کو برانگیختہ کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ جنھوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے اشارہ ابروپر مال ودولت کونچھاورکیا،اسلام کی اشاعت اور دین کی تبلیغ کے لیے ناقابلِ فراموش قربانیاں دیں اور ہرطرح کی مشقت کو برداشت کیا۔

امت اور نبی کے درمیان کا مضبوط واسطہ اور اہم ذریعہ یہی صحابہ کرام ہیں ۔صحابہ کرام کی عظمت اور فضیلت کے لیے کافی ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان سے رضامندی کا اعلان فرمادیا :﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ﴾․ (التوبہ:100)

اور جو مہاجرین وانصار سابق بالایمان ہیں اور بقیہ امت میں جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے متبع ہیں ،اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے۔

صحابہ کرام کی گستاخی سے بچیں !
صحابہ کرام کے فضائل ،محاسن ،کمالات پر مشتمل بہت سی آیتیں اور احادیث ہیں، جن کاتذکرہ یہاں نہیں کیاجارہا ہے ؛ بلکہ ان کی بے ادبی اور گستاخی سے بچنے کی جو تعلیم دی گئی اس سلسلہ میں چند ارشادات ِ نبویہ پیش ہیں ۔نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جہاں اپنے تربیت یافتہ صحابہ کرام  کے مقام ومرتبہ کو بتایا، وہیں امت کو آگاہ کیا کہ وہ کسی بھی طرح ان کی شان میں گستاخی نہ کرے اور بے ادبی ہونے نہ دے۔نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جن کو تیارکیااور محنتوں کے بعد جن کو سجا،سنوارکرامت کے سامنے پیش کیا ،اب کسی کی مجال نہیں کہ وہ ان کے خلاف زہر اگلے،بے ادبی کرے اور نازیبا باتیں کرے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے محبت کو اپنی محبت کے مترادف قراردیااور ان سے بغض کو نبی سے بغض کی وجہ بتلایا۔مشہور حدیث ہے:”اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِیْ اَصْحَابِیْ، لَا تَتَّخِذُوْھُمْ غَرَضًا مِّنْ بَعْدِی، فَمَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّیْ اَحَبَّھُمْ، وَ مَنْ اَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِیْ اَبْغَضَھُمْ…“․ میرے صحابہ کرام کے (حقوق کی ادائیگی )کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،اللہ سے ڈرو! ان کو میرے بعد (سب وشتم اور طعن و تشنیع کے لیے )تختہ مشق نہ بنانا، (اور یہ بھی سمجھ لو کہ ) جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی ہے اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض ہی کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ہے اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف دی اور اس کا پورا خطرہ ہے کہ(اللہ ) ایسے شخص کو (دنیا و آخرت میں ) عذاب میں مبتلا کردے ۔(ترمذی :حدیث نمبر؛3826)

حضرت مولانا منظور نعمانی  حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ:آئندہ آنے والی نسلیں صحابہ کرام کے بارے میں احتیاط سے کام لیں ، ان کی تکریم و تعظیم اور ان کے حقو ق کی دائیگی کا لحاظ رکھیں ۔کسی قسم کی بے توقیری ان کے بارے میں نہ کریں ورنہ دنیوی یا اخروی عذاب کا خطرہ ہے۔ (معارف الحدیث:8/363)

اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد ہے:”إذَا رَأَیْتُمُ الذینَ یَسُبُّوْنَ أَصْحَابِیْ فَقُوْلُوْا: لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلٰی شَرِّکُمْ“جب تم ان لوگوں کو دیکھوجو میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو تم کہو: اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر پر۔( ترمذی)

ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لا تسبوا احدا من اصحابی، فان احدکم لو انفق مثل احد ذھبا ما ادرک مد احدھم ولا نصیفہ“․ (بخاری:حدیث نمبر:3420)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ میں کسی کو برانہ کہو، اس لیے کہ (وہ اتنے بلند مقام اور اللہ کے محبوب ہیں ) تم اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کروگے تب بھی ان کے ایک مد، بلکہ نصف مد خرچ کرنے کے برابر ثواب کے مستحق نہ ہوگے۔

ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا:”ان اشرار امتی اجْرَؤھُمْ علی اصحابی“․ بلاشبہ میری امت کے برے لوگ وہ ہیں جو میرے صحابہ کے بارے میں گستاخ ہیں ۔

تعظیم ِصحابہ کے بارے میں امت کا اتفاق
صحابہ کرام کی تعظیم امت پر لازم ہے اور امت کا یہ اتفاقی فیصلہ ہے کہ صحابہ کرام کی کسی بھی طرح کی بے ادبی اور گستاخی جائز نہیں ہے ،اس سلسلہ میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کی کتاب ”مقامِ صحابہ “سے چند اقتباسات پیش ہیں ۔علامہ ابن تیمیہ نے شرح عقیدة واسطیة میں لکھا ہے کہ: اہل سنت کے اصولِ عقائد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ اپنے دلوں اور زبانوں کو صحابہ کے معاملے میں صاف رکھتے ہیں ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایاہے۔علامہ سفارینی اپنی کتاب الدرة المضیة میں فرماتے ہیں:”والذی اجمع علیہ اھل السنة والجماعة انہ یجب علی کل احد تزکیة جمیع الصحابة باثبات العدالة لھم والکف عن الطعن فیھم والثناء علیھم، فقد اثنی اللّٰہ سبحانہ علیھم فی عدة اٰیات من کتابہ العزیز“․یعنی اہل السنة والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہ کو پاک صاف سمجھے،ان کے لیے عدالت ثابت کرے،ان پر اعتراضات کرنے سے بچے اورا ن کی مدح وتوصیف کرے ،اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب عزیزکی متعدد آیات میں ان کی مدح کی ہے۔عقائد کی مشہور درسی کتاب عقائد نسفیہ میں لکھا ہے کہ:”ویکف عن ذکرالصحابة الّابخیر“․یعنی اسلام کاعقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کا ذکر بجز خیر اور بھلائی کے نہ کرے۔(تلخیص از:مقام ِصحابہ)

گستاخِ صحابہ کا عبرت ناک انجام
صحابہ کرام کی شان میں گستاخی خاتمہ بالخیر سے محرومی کا باعث ہوتی ہے ،چناں چہ علامہ جلال الدین سیوطی  نے ایک واقعہ لکھا ہے:ایک شخص پر موت طاری ہوئی ،اسے کہا گیا کہ لاالہ الااللہ کہو،اس نے کہا میں نہیں کہہ پارہا ہوں ،کیوں کہ میں ایسے لوگوں کے ساتھ رہتا تھاجو مجھے حکم دیتے تھے کہ ابوبکر وعمر(رضی اللہ عنہما)کو گالی گلوچ کرو۔(شرح الصدورفی احوال الموتی والقبور:38مصر)

حضرت سعد بن ابی وقاص کی توہین کرنے والے کو سزا بھی اللہ نے دنیا ہی میں دی اور انسانوں کے لیے نمونہ عبرت بنایا۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں حضرت سعد بن ابی وقاص کوفہ کے گورنرتھے،کچھ لوگوں نے ان کے خلاف سازشیں شروع کردیں اور دربارِ خلافت میں ان کی شکایت بھیجناشروع کردیں ۔حضرت عمر  نے ایک تحقیقاتی ٹیم ان شکایت کنندگان کے ہمراہ بھیجی،اس ٹیم کے ارکان نے کوفہ کی تمام مساجد میں جاجاکر معاملات کی تحقیق شروع کی،لیکن کسی بھی جگہ سے کوئی ایک شکایت بھی درست ثابت نہیں ہوئی، صرف ایک مسجد میں ایک شخص ابوسعدہ نے الزام لگایا کہ:بخدا! سعد نہ تقسیم ِ اموال میں انصاف سے کام لیتے ہیں ،نہ عدالتی فیصلوں میں انصاف کرتے ہیں اور نہ کفار کے خلاف جنگوں میں نکلتے ہیں ۔حضرت سعد بن ابی وقاص  نے فرمایا:اے اللہ! اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کی عمر دراز کر،اس کے فقر کو بڑھادے اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔واقعہ کے راوی کہتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو بہت بوڑھا دیکھا،بڑھاپے کی وجہ سے اس کی پلکیں آنکھوں پر گری ہوتی تھیں ،فقر سے بدحال تھااور راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑتا تھا۔جب اس سے پوچھتے کہ کیا حالت ہورہی ہے؟ توکہتا:میں فتنہ میں مبتلا بڈھاہوں ،مجھے سعد کی بددعا لگ گئی ہے۔(اولیاء اللہ کی اہانت کا وبال:54)

آخری بات
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام  کے مبارک نفوس کو انسانوں کے لیے ہدایت کے جگمگاتے ستاروں سے تعبیر فرمایا کہ جس طرح رات کی اندھیری میں انسان ستاروں کی روشنی سے منزل تک پہنچتا ہے اسی طرح کفرکی تاریکیوں میں صحابہ کرام  کی ہستیاں مشعل ِہدایت ہیں ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اصحابی کالنجوم، فبایھم اقتدیتم اھتدیتم“․ (مشکوةمع المرقاة:حدیث نمبر6018)میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں پس تم ان کی پیروی کرو، ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاوگے۔

صحابہ کرام کا ادب واحترام ہر ایک کے لیے ضروری ہے ،جو کوئی ان کی بے ادبی یاگستاخی کرے گا وہ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوگااور آخرت میں رسوا ونامراد ہوگا۔صحابہ کرام کی سیرت واخلاق، کردار واوصاف کو اپنانا اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر منزلِ مقصود کو پانے کی فکروکوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ یقینا جسے اپنے نبی سرورکونین صلی الله علیہ وسلم سے محبت ہوگی تو صحابہ سے بھی ضرور محبت کرے گا،دین کو ہم تک پہنچانے اور انسانوں تک نبی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے صحابہ کرام نے جو قربانیاں دی ہیں ان کا تصور بھی ہمارے دلوں میں عقیدت ومحبت کے جذبات کو موج زن کردیتا ہے۔ہمارے گھرانوں میں صحابہ کرام کی سیرت وواقعات کے تذکرے ہونے چاہییں ،ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام کے حالات ِ زندگی سے سبق لیں اور ایک بامقصد زندگی گزارنے والے بنیں ۔