شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق 

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق 
(متوفی 7 ستمبر 1988ء )

مولانا عرفان الحق

شیخ الحدیث حضرت جدی المکرم مولانا عبدالحق رحمة اللہ علیہ کی ذات اور شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ جامع الکمالات اور جامع الصفات وہمہ گیر اور ہمہ پہلو شخصیت کے حامل تھے۔ علمی، دینی، تدریسی، مذہبی، روحانی، سیاسی، تحقیقی، معاشرتی، جہادی، دعوتی، تبلیغی، تصنیفی، انفرادی اوراجتماعی، غرض ہر میدان میں آ پ کی خدمات اظہرمن الشمس ہیں۔ رحلت کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود عوام و خواص کی عقیدت، محبت اور اعتراف واظہارِ عظمت میں آپ کے ساتھ کوئی بھی کمی محسوس نہیں ہورہی ہے۔ اہل اللہ اور فنا فی اللہ لوگوں کی شان ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ زندگی اورموت کے بندھنوں سے آزاد رہ کر لوگوں کے دلوں پر حکم رانی کرتے ہیں۔ شیخ سعدی نے کیا خوب کہا:
        دولت جاوید یافت ہرکہ نیکونام زیست
        کز عقبش ذکرِ خیر زندہ کند نام را

مختصر احوال
آپ  1908ء میں اکوڑہ خٹک میں الحاج مولانا معروف گل صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اور دادا زراعت پیشہ تھے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اچھی خاصی تجارت بھی کرتے تھے اوراپنے قصبہ کے خوش حال اور متمول افراد میں شامل تھے۔ہیبت، دبدبہ، تواضع، ہم دردی، زہدو تقویٰ، سادگی وللہیت کے عجیب اوصاف کے حامل بزرگ تھے۔ عظیم جہادی راہ نما حاجی صاحب ترنگزئی اوران کی تحریک جہادمیں ممد و معاون رہے۔

حضرت حاجی صاحب ترنگزئی نے اکوڑہ خٹک آنے کے موقع پر ایک دفعہ بچپن میں حضرت شیخ الحدیث کو اپنی گود میں لیا اور سر پر دست شفقت پھیر کر ایک مشفقانہ رشتہ قائم فرمایا۔علاقہ بھرکی دینی و ملی خدمات میں آپ کے والد ماجد پیش پیش رہتے۔ یہی حال آپ کی والدہ ماجدہ کا بھی تھا، ان کا کوئی لحظہ یادِ خداوندی اور فکر آخرت سے خالی نہ رہتا۔ گھر کے کام کاج کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر اذکار ان کا خاص مشغلہ تھا۔ گھر کی ایسی پاکیزہ فضا اور والدین کے صلاح و تقویٰ اوردین سے تعلق کی وجہ سے بچپن ہی سے مولانا عبدالحق کے دل میں تحصیل علم اور اہل اللہ سے محبت و تعلق کے احساسات جاگزیں ہوئے۔

ابتدائی مکتبی تعلیم گھر سے اوراکوڑہ خٹک کے ایک معروف بزرگ حاجی صاحب قصابان اور ممتاز عالم دین مولانا عبدالقادر سے حاصل کی۔ باقاعدہ طور پر تعلیم کے لیے آٹھ دس برس کی عمر میں قصبہ اکھوڑی ضلع اٹک کا پہلا سفر اختیار کیا۔پشاور کے مضافات ملوگی، امازو گڑھی، طورو مردان اور علاقہ چھچھ میں جلالیہ کے جید علمائے کرام سے درس نظامی کی ابتدائی درجات کی کتابیں پڑھیں اورپھر یہاں سے ہندوستان امروہہ، میرٹھ، گلو ٹھی، کلکتہ وغیرہ جا کر مشاہیرِعلم و فن سے استفادہ بھی کیا اور آخر کار شوال 1347ھ کو ایشیا کی اسلامی یوینورسٹی دارالعلوم دیوبند پہنچ کر داخلہ لیا اور وہاں درس نظامی کی تکمیل کرکے 1352ھ میں سند فراغت حاصل کی۔

آپ کے اساتذہ میں شیخ العرب والعجم مولاناحسین احمد مدنی،حضرت مولانا اعزاز علی دیوبندی ، مولانا عبدالسمیع دیوبندی ، مولانا اصغرحسین دیوبندی ، حضرت مولانا ابراہیم بلیاوی اورمولانا مرتضی حسن رحمہم الله کے نام شامل ہیں۔

فراغت کے بعد اپنے گاؤں میں درس و تدریس کا سلسلہ قدیم انداز سے شروع کیا۔کچھ ہی عرصہ میں آپ کا حلقہ علم وسیع ہوگیا اور آپ کے والد نے پڑھانے کے لیے ایک اور استاذ کا بھی تقرر کرلیا۔ اس دوران آپ کو دارالعلوم دیوبند سے 1362ھ پڑھانے کا بلاوا آگیاتو تقسیم ہند تک آپ نے وہاں علمی خدمات انجام دیں۔ دیوبند میں آپ سے تین ہزار طلباء نے استفادہ کیا ۔

تقسیم کے بعد دارالعلوم حقانیہ کی ابتدا آپ نے ایک چھوٹی سی تنگ مسجد میں کی، مگر قدرت کو منظور تھا کہ اسے ایک بڑے اور عالمی دارالعلوم اور علوم و معارف کا بحرناپیداکنار کا سرچشمہ بنناتھا۔ آج دارالعلوم میں پانچ ہزار طلباء کسبِ فیض پا رہے ہیں۔دارالعلوم نے خدا کی زمین پر علم و ہدایت کا ایک ایسا نور پھیلا دیا ۔ شاید ہی ملک میں کوئی ایسی جگہ ہو جہاں اس کی روشنی نہ پہنچی ہو۔

سیاسی خدمات
دادا جان کی پیدائش ایسے علاقہ اورماحول میں ہوئی جوحضرت شیخ الہند کے انقلابی مشن کامرکز اورسوسوا سوسال قبل سیداحمدشہید اورشاہ اسماعیل شہید کی تگ وتاز کامیدان رہ چکاتھا۔ پھروالد گرامی کی تربیت ، گھریلو ماحو ل کی پاکیزگی اورحضرت حاجی صاحب ترنگزئی جیسے مجاہدین سے مراسم نے بچپن سے جذبہ جہاد، قومی اورملی خدمات ، سرفروشی وجان نثاری اورملکی سیاسیات کی سوجھ بوجھ اورفکر وتدبرکے ملکہ کوجِلابخشی۔دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ بالخصوص شیخ مدنی  (جو تحریک ولی اللہی اورمسلک شیخ الہند کے رازداں اورترجمان تھے اورحضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کوان سے اکتساب فیض کا خصوصی شرف حاصل ہوا)سے تلمذ نے تواس شعلہ کواوربھڑکایا،لہٰذا قیام پاکستان سے قبل تحریک آزادی ہند میں آپ اپنے اکابرواساتذہ کے دوش بدوش جنگ آزادی ہند میں سپاہیانہ کردار اداکرتے رہے ۔قیام پاکستان کے بعد ملک کی تعلیمی، دینی اورآئینی خدمات میں پیش پیش رہے، پاکستان کے سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے اسلامی قانون کے سلسلہ میں22، 23 نومبر1952ء کوملک بھرسے جن آٹھ علماء کومدعوکیاتھااوران کے مشوروں سے استفادہ کرناتھا،ان میں آپ بھی شامل تھے ۔ اجلاس میں وزیر اعظم کے علاوہ سردار عبدالرب نشتراورردیگرکئی بڑے سرکاری عہدیدار شریک رہے ۔ آپ کی علمی اورسیاسی تربیت اگرچہ حضرت شیخ الہند کے مدنی  حلقے میں ہوئی ہے، مگرعلماء کاکوئی حلقہ بھی ایسانہیں جسے آپ پراعتمادنہ ہو۔ 1969 ء میں جب علماء کے درمیان سوشلزم وغیرہ کے مسائل پرشدید اختلافات پیداہوئے توفریقین کی مصالحت کے لیے جن دوچار اکابر پرنظر پڑی ان میں آپ بھی تھے، آپ نے اس سلسلہ میں ہرممکن کوشش کی اورکراچی وغیرہ کے اسفار کیے جن سے بہت سی غلط فہمیوں کاازالہ ہوا۔ 1970ء میں جب کہ نظریاتی انتشار، بالخصوص بھٹوازم اورعلاقائی وگروہی سیاست نے ملک کی بنیادیں ہلاکررکھ دی تھیں اورایک اضطراب انگیز ماحول میں صدر یحییٰ نے آئین کی تشکیل کے لیے آزادانہ کمیشن کااعلان کردیا،جس کے نتیجہ میں قانون ساز ادارہ بنناتھاجس میں اسلام کی بالادستی ، عملی نفاذ اوراسلامی معاشرہ کاقیام اوراس سلسلہ میں سیاسی تگ و دواورجدوجہد علمائے اسلام کابنیادی فرض تھا، حضرت شیخ الحدیث رحمہ الله بھی چوں کہ جہاد و عزیمت کے علم بردار مکتب فکر علمائے حق سے وابستہ اوران ہی کی خطوط پردینی ، علمی ، تدریسی، اصلاحی اورسیاسی کاموں میں منہمک تھے، مگراپنی افتاد طبع کی بناپرانتخابی سیاست کے ہنگاموں سے کوسوں دور تھے ۔ دوسری طرف گوناگوں اورمتنوع دینی خدمات ، بے پناہ مصروفیات اورمختلف عوارض وعلالت ، ضعف اورامراض میں گھرے ہوئے تھے ۔ الیکشن کاغلغلہ بلند ہواتوآپ پشاور ہسپتال میں صاحب فراش تھے ۔ جمعیةعلمائے اسلام کے اکابر نے ہرحالت میں حضرت شیخ الحدیث  کوانتخابات میں حصہ لینے پرمجبور کرنے کافیصلہ کیا، اس امر کے متعلق خود ایک اجلاس میں فرمایا:

”مجھے تین چار ماہ سے قلق اوراضطراب رہا،یہ میری طبعی کم زوری ہے حیاکی وجہ سے ، لیکن بالآخر شرح صدر ہواکہ اگراس راہ میں موت بھی آئی تومصر کی بڑھیاکی طرح خود کوخریدار ان یوسف میں پیش کرسکوں گاکہ چلیے! اس بڑھاپے میں کچھ خریداروں میں نام توشامل ہو جائے ۔ شاید اسلام کی راہ میں گالی گلوچ، تحقیر وتوہین میرے لیے نجات کاباعث ہو“۔

مقابلہ میں نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری اجمل خٹک اورپیپلز پارٹی کے نصراللہ خٹک تھے ۔حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ دونوں کے مقابلہ میں قومی اسمبلی کے لیے بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے ۔ کام یابی کے بعد قومی اسمبلی کے ایوان میں آپ نے اسلام اوراہل اسلام کی زبردست وکالت کی، ملکی وملی مسائل پراسلامی نقطہ نگاہ سے بحث کی اورقومی اسمبلی کے ہراجلاس میں،ہرموضوع پراسلام کی آواز بلندکی،ملک کے تعلیمی، سیاسی، سماجی، اخلاقی، معاشرتی اورمعاشی ہرپہلوسے متعلق قراردادیں سوالات تحاریک التوا پیش کیے ۔ کارپردازان حکومت کے ہرغلط اقدام پرتنقید کی اور ارباب اقتدار کوجھنجوڑا۔

1973ء کے آئین میں آپ نے تقریباً دوسوسے زائد ترمیمات پیش کیں۔ ایوان حکومت میں آپ کی مخلصانہ سرگرمیوں اورمساعی جمیلہ کی کچھ اجمالی تفصیلات عم محترم مولاناسمیع الحق صاحب کی مرتب کردہ کتاب ”قومی اسمبلی میں اسلام کامعرکہ“ (جواسمبلی کی رپور ٹوں کی مدد سے ترتیب دی گئی ہے) میں چھپ چکی ہے، یہ کتاب چارسو سے زائد صفحات پرمشتمل ہے۔

1977ء کے الیکشن میں اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر حصہ لے کر کام یاب ہوئے، بعد ازاں تحریک نظام مصطفی میں بھی رہبرانہ خدمات انجام دیں۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی ان ہی مقاصد بالا کی خاطر حصہ لیا اور اسمبلی کی تحلیل ، اعلا ئے کلمة اللہ اور نفاذ شریعت کے لیے، باوجود ضعف ونقاہت کے، اسمبلی کے اندر اور باہر پیش پیش رہے۔

تحریک تحفظ ختم نبوت اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی جدوجہد
چوں کہ حضرت شیخ الحدیث کی وابستگی، تلمذ اورتعلقِ خاطر اہل حق کے اس طائفہ سے ہے جن کواللہ تعالیٰ نے طبیعت حساس ، فکرعاقبت اندیش اورمرزائیت کے بارہ میں دلِ بینا اورشرح صدر سے نوازا تھا۔ چناں چہ ان حضرات نے اسی صدی کے آغاز ہی سے مسلمانوں کواس مارِ آستیں سے بچنے کی تاکید کی اورنازک وپرخطر حالات میں اس کے خلاف علم جہاد لہرایااورانہیں للکارا۔ حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ نے بھی علمی وفکری، سیاسی ومذہبی اورمعاشرتی خطرات سے ملتِ مسلمہ کوخبردار کیا،بلکہ غداران خاتم النبیبن اورسارقین تاج وتخت ختم نبوت کے محاسبہ اورتعاقب کوبھی بے پناہ مشاغل میں جگہ دی ۔

53ء کے خطرناک،نازک اورسخت ترین حالات میں تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیا۔74ء کی مشہور تحریک ختم نبوت کی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے نائب صدر رہے ۔ مجلس عمل کی تشکیل کے لیے شیرانوالہ گیٹ لاہور میں جوکل جماعتی اجلاس ہوااس میں مجلس عمل کی صدارت کے لیے آپ ہی نے حضرت علامہ مولانامحمد یوسف بنوری کانام پیش کیا،جسے کچھ تومولانابنوری کی شخصیت اورکچھ مجوز کی بزرگی وثقاہت کے پیش نظر تمام مکتب خیال کے لوگوں نے متفقہ طور پرمنظور کرلیا اورجب تحریک شروع ہوئی توآپ نے اس میں بھرپورحصہ لیااوراس کوکام یاب بنانے میں ہرممکن سعی کی اورکسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ تحریک کے دوران شاہی مسجد لاہور کے کل جماعتی تاریخی اجلاس میں بھی شریک رہے اورخطاب فرمایا۔ پھر74ء میں قومی اسمبلی میں قادیانیت کی سرکوبی میں بھرپورحصہ لیا۔ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد اورلاہوری جماعت کے سربراہ مرزا ناصر الدین پربحیثیت رکن اسمبلی مؤثر جرحیں داخل کیں،اس دوران ہنگامی طور پراسمبلی میں قادیانیت کے بارے میں ملت اسلامیہ کاایک ٹھوس اورواضح مدلل مؤقف پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ایک جامع ، مستند اورمدلل انداز میں مرزائی عقائد ونظریات ، مرزائیت کی تاریخ ، پس منظر ، محرکات وعزائم اورملت اسلامیہ کے خلاف اس جماعت کی گھناؤنی سازشوں اوراسلام دشمنی کے منظم ومربوط ہمہ گیر منصوبوں کاایک تحقیقی جائز ہ لینے اوراس کوکتابی شکل میں مرتب کرنے کے لیے مجلس عمل کی مرکزی قیادت نے جن دوشخصیتوں کاانتخاب کیاان میں ایک حضرت مولاناشیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کے صاحب زادے مولاناسمیع الحق صاحب اوردوسرے حضرت مولانامحمد تقی صاحب تھے، جنہوں نے اکابرمجلس ختم نبوت کی مددسے مختصر ترین وقت میں صدہا قادیانی وغیر قادیانی ماخذ کوکھنگالااور”ملت اسلامیہ کامؤقف“کے نام سے کتاب پیش کی۔ جسے حضرت مولانامفتی محمود صاحب نوّرالله مرقدہ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا اور کئی نشستوں میں پڑھ کرسنایا،جس سے ایوان کے تمام سرکاری ارکان کی رائے بھی قادیانیت کے بارے میں یکسر بدل گئی ۔

صدرجنرل ضیاء الحق صاحب کے دور حکومت میں جب آئین کی تنسیخ کے ضمن میں قادیانیت سے متعلق آئینی ترمیم کے بارے میں خدشات اٹھے اوردینی طبقوں میں شدید بے چینی پھیل گئی توآپ کے صاحب زادہ مولاناسمیع الحق صاحب نے بھی اس وقت، بحیثیت رکن مجلس شوریٰ، صدرمملکت کوباربارتوجہ دلائی اوروفاقی مجلس شوریٰ میں تحریک التوا پیش کی ،جس کے نتیجہ میں 12اپریل 82ء کودستور میں ترمیم (استقرا) کاصدارتی فرمان 8مجریہ 1982ء جاری ہوااورتشریحات کے ساتھ اس وقت کے قائم مقام وزیر قانون واطلاعات نے پڑھ کرسنایااورپورے ایوان نے اس پرصاد کیااوراس طرح ایک بارپھرپارلیمنٹ نے قادیانی دجل وتلبیس پرمہر تصدیق ثبت کردی۔ یہ سب مساعی درحقیقت حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ ہی کی تربیت، توجہات اورہدایات کانتیجہ تھیں اور ان کے نامہ اعمال میں ثبت ہوں گی۔

جہاد افغانستان
حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ علوم وفنون اورافکار وخیالات میں اکابر علمائے دیوبند کے پرتوتھے، اپنے شیخ حضرت مدنیکے صحیح جانشین تھے اوراکابر دیوبند کے دین کے مشن کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کوچن لیاتھا۔

آپ نے تعلیم وتدریس، وعظ وتبلیغ اوردارالعلوم حقانیہ کے انتظام وانصرام کے ساتھ ساتھ ملت کی بقا واستحکام اوراعلائے کلمة اللہ کے لیے مختلف محاذوں پرباطل قوتوں کی سرکوبی کے لیے نہ صرف یہ کہ جہاد کافتویٰ دے کراس کوضروری قرار دیا،بلکہ عملاً بھی بھرپور حصہ لیااورہرمیدان میں پیش پیش رہے، اختصار کے پیش نظر تفصیلات کااستقصا تونہیں کیاجاسکتا۔ سرِدست صرف جہاد افغانستان سے متعلق آپ کی مساعی ایک لمبی تاریخ کی مقتضی ہیں۔

پون صدی تک علمی خدمات سرانجام دینے کے بعد یہ علم و عمل کے شاہ کار 7/ستمبر 1988ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔آپ کی سیرت وسوانح اور فضائل و مناقب کے لیے تو ضخیم دفتر درکار ہے، تاہم فی الحال آپ کے پانچ اوصاف حمیدہ کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ماہنامہ”الحق“کا شیخ الحدیث مولانا عبدالحق  نمبر اور ماضی قریب ہی میں شیخ الحدیث مولانا عبدالحق  کے فرزند، مہتمم دارالعلوم حقانیہ مولانا سمیع الحق شہید کی مرتب کردہ مکتوبات مشاہیر بنام شیخ الحدیث مولانا عبدالحقاورمشاہیر بنام مولانا سمیع الحق (آٹھ ضخیم جلدوں میں،چار ہزارسے زائد صفحات پر مشتمل کتاب) ملاحظہ کی جائے ،جو دارالعلوم حقانیہ، شیخ الحدیث مولانا عبدالحق  اور حضرت مولانا سمیع الحق شہید کی عظیم علمی، دینی ، ادبی، سیاسی، جہادی اورملی خدمات کا بین ثبوت ہیں۔

حسن اخلاص
شیخ الحدیث  کی حیات طیبہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ ان کی سیرت کا جوہر اورپہلا عنصر حُسن اخلاص تھا۔ درحقیقت یہی وہ گُر ہے جس پرعمل کو قوام اور دوام ملتا ہے۔ شریعت نے اس لیے اخلاص کو عمل کی روح قرار دیا ہے۔اخلاص وللہیت آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جس کے مظاہر تو بہت سارے ہیں، لیکن یہ ایک واقعہ بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔

ایک دفعہ عصر کے بعد شیخ الحدیث  کے پاس دو طالب علم ان کے مکان کے قریب آبائی مسجد میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج دارالعلوم کے تعلیمی سال کا افتتاحی درس تھا، جس میں ہم بوجوہ شرکت نہ کرسکے اور اس طرح آپ کے ارشادات و افادات اور اولین درس سے محروم ہوگئے۔ اس پر حضرت نے بڑی بے تکلفی کے ساتھ ان دوطالب علموں کے لیے وہ تقریر اوردرس اور ارشادات اسی انداز میں دوہرا دیے جس طرح آپ نے صبح دوران درس سینکڑوں طلباء کے سامنے بیان فرمائے تھے۔ اس دوران چہرے پر تھکان اور ناگواری کااثر تو کجا ، بلکہ بشاشت اورتازگی جھلکتی رہی۔ یہ سب کچھ کیوں ؟ اس لیے کہ ان کی نظر للہیت واخلاص پر تھی۔جب سینکڑوں افراد کا مجمع تھا وہاں بھی تقریر اور درس اللہ کے لیے تھاا وراب جب کہ دو مخاطب ہیں تو تب بھی سب کچھ اُس اللہ کے لیے ہی تھا۔

تواضع اورخاکساری
آپ کی زندگی کا دوسرا بڑا وصف جو نمایاں نظر آتا ہے۔وہ تواضع، خاکساری اورعاجزی تھی۔ تواضع ان کی فطرت تھی، جاہ و مرتبہ اورمنصب ومقام پا کر بڑے رتبہ اور عظیم مقام پر پہنچ کر وفاق المدارس العربیہ کی سرپرستی، جمعیة علمائے اسلام کی مرکزی راہ نمائی، پارلیمنٹ کے لیے تیسری مرتبہ منتخب ہونے کی عزت افزائی، تحریک نفاذ شریعت کی قیادت، علم فقہ وحدیث میں جلیل القدر امامت ، جہادِ افغانستان میں اہم بنیادی کردار اور پورے عالم میں بے مثال محبوبیت کی بلند ترین منازل پر پہنچنے کے باوجود ایسے بے تکلف اور سادہ تھے جیسے کہ آپ ایک شیخ الحدیث نہیں، ایک مہتمم نہیں، ایک قائد وراہ نما نہیں، اسمبلی کے ایک ممبر نہیں، بلکہ محض ایک طالب علم ہی ہوں۔یہ منزل بڑے بڑوں کے لیے خاصا امتحان ہوتا ہے۔
        ذرا پی کر بہک جانا یہ کم ظرفوں کا شیوہ ہے
        جو عالی ظرف ہیں جتنی پئیں وہ کب بہکتے ہیں!

آپ کی گفتگو، نشست و برخاست اور نقل و حرکت میں ان مناصب کا دور دورتک پتہ نہیں چلتا تھا۔ انابت تذلل الی اللہ اور تواضع آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی۔ اس لیے ہر ملنے والا بآسانی اس کا مشاہدہ کرتا تھا۔

شفقت و محبت
شریعت نے اپنے پیروکاروں کو لوگوں کے ساتھ شفقت، محبت اور رافت کا حکم دیا ہے ۔ شیخ الحدیث  کی زندگی میں یہ وصف بھی بطور اتم نظر آتا ہے۔ اس وصف میں آپ کا اپنے معاصرین میں کوئی بھی ہم پلہ نہ تھا۔ آپ  حد درجہ شفیق و مہربان تھے۔ آپ کے ملنے کا انداز ایسا تھا کہ ہر کوئی آپ کا گرویدہ بن جاتا تھا۔ جو ایک مرتبہ ملاقات کرلیتا ہمیشہ دوبارہ ملاقات کے لیے بیتاب رہتا۔ بڑے لوگوں سے ملاقات ہر کس و ناکس کے لیے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے، لیکن ہمارے ممدوح کی شان یہ تھی کہ ہر ملنے والا ان سے جہاں چاہتا مل سکتا تھا۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو بغیر ملاقات کے واپس گئے ہوں۔ ہر کسی کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے۔ پیار اور نرمی کے لہجے میں سمجھاتے تھے۔ لوگوں کو اکثر بیٹا کہہ کر پکارتے۔ یہ سب کچھ کیوں کرتے ؟ اس لیے کہ احادیث و سنت کے ذخائر اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو مدنظر رکھتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ ”من یحرم الرفق یحرم الخیر کلہ“۔”جو نرمی سے محروم رہا وہ پورے خیر سے محروم رہا “۔

عظیم ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود بچوں کی دل جوئی اورملاطفت کے لیے بھی خصوصی وقت نکالتے تھے۔ بچپن میں جب ہم اکثر آپ کے سامنے آتے تو وہ بڑے اہتمام کے ساتھ ہمارے سروں پر نہ صرف دست شفقت پھیرتے، بلکہ جیب سے ٹافیاں یا نقدی نکال کر بھی نوازتے تھے۔ بچوں کو دعائیں دے کر اور کچھ پڑھ کر دم کرتے اورساتھ ساتھ سبق پڑھنے کی تلقین کرنے کا بھی معمول تھا۔

درس و تدریس سے عشق
تمام اخلاقی صفات و کمالات کے ساتھ ساتھ جو صفت شیخ الحدیث  کی زندگی کا جزولاینفک تھی وہ ان کی تدریسی زندگی تھی۔ حضرت شیخ الحدیث  کا مزاج ابتدا سے مطالعاتی اخذ و استفادہ، پڑھنے اور پڑھانے کا تھا۔ گویا وہ طبعی طور پر درس و تدریس کے عادی تھے۔ ان کا تدریسی سفر دوران تعلیم ہی شروع ہوچکا تھا۔طلباء بعض کتابیں خارجی اوقات میں ان سے پڑھتے تھے۔ دیوبندکے زمانہ تعلیم میں جب آپ طلباء کو تکرار شروع کراتے تو اساتذہ چپکے چپکے آپ کا تکرار سنتے اور علمی تفوق اور ذہانت و فطانت اور فصاحت وگویائی پر خوش ہوکر دعائیں دیتے۔

دارالعلوم دیوبند سے 1933ء میں فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے آبائی گاؤں اکوڑہ خٹک میں گھر کے متصل مسجد میں قدیم طرزپر درس نظامی کے مختلف علوم و فنون کی چھوٹی بڑی اہم کتابوں کا درس دینا شروع کیا۔ 1362ھ کو اکابرین دیوبند نے آپ کو اپنی مادر علمی میں تدریسی خدمات انجام دینے کی پیشکش اور اصرار فرمایا۔ جس پر آپ نے لبیک کہا۔ اور قیام پاکستان تک وہاں علمی موتی بکھیرتے رہے۔ تقسیم کے بعد دیوبند جانے کے راستے مسدود ہوگئے ۔چناں چہ علمی ورثہ اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے یہاں گاؤں میں بغیر کسی تشہیر اورنام و نمود کے پڑھانے کا کام شروع کیا۔تین سال تک یہ کام مخفی انداز سے چلتا رہا ۔حضرت شیخ الحدیث  کے علمی کمال اور تدریسی مہارت نے اتنی شہرت پائی کہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ دارالعلوم حقانیہ دیکھنے اور یہاں سے فیض پانے پہنچے، تدریس آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ عشق کی حد تک اس کے ساتھ آپ کا لگاؤ رہا۔

بلاضرورت کبھی ناغہ نہیں فرمایا۔ دور دراز کے سفر، اسمبلی کے اجلاس سے واپس آتے تو سیدھے دارالحدیث پہنچ کر درس دینا شروع فرماتے ۔

صبر و تحمل اور بردباری
صبر و تحمل اور حلم و بردباری کی صفات عالیہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس طرح سے نوازا تھا اس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ شیخ الحدیث  ہر قسم کی مشکلات پر صبر فرماتے، اگر کوئی گالی بھی دیتا تو جواب نہیں دیتے۔ کبھی بھی ہم نے نہیں سنا کہ کسی کو بددعا دی ہو۔ نہ کبھی کسی سے انتقام لیا، مخالفین کا تذکرہ کرنا تو کجا اپنی محفل میں ان کی شناعت سننا بھی گوارا نہ تھی۔ الیکشن کے دوران جس طرح کا عام طور پر دستور ہے کہ مخالفین کی بے لگام زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں، لیکن آپ اس کا کچھ جواب نہیں دیتے تھے۔

آپ کے ذاتی مخالفین کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ آپ دوستوں سے زیادہ دشمنوں کے لیے سراپا اور مجسمہ دعا بن جاتے تھے۔ آپ کی خلوت و جلوت میں کوئی تفاوت نہیں تھا۔ باہر اور اندر کا حال یکساں ہوتا، قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں تھا، شیخ الحدیث مولانا عبدالحق  ایک شخصیت کا نام نہیں، ایک فرد کا نام نہیں، بلکہ ایک خوب صورت دور اور ایک تاریخ ساز زمانے کا نام تھا۔ وہ جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے۔ لیکن روحانی طور پر وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کی ناقابل فراموش دینی خدمات ہمارے لیے عظمت اور روشنی کے مینار ہیں۔ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے علم بردار اور آسمانِ ملت کے ایک چمکتا ہوا ستارہ تھے۔
        ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
        ثبت است بر جریدہ عالم دوامِ او