زبان کی حفاظت ایمان کی علامت

زبان کی حفاظت ایمان کی علامت

حکیم محمد احمد بیگ

لفظ زبان ہمارے معاشرے میں مختلف مواقع پر او رہر شخص کی استعداد اور علم کے لحاظ سے بولا جاتا ہے او رہمارے منھ میں زبان تقریباً ایک عضو کے طور پر یکساں ہوتی ہے، لیکن یہ ایک بہت ہی کثیر المعانی اور کثیر الفہم لفظ ہے۔

عام طور پر زبان اس عضو کو بولا جاتا ہے جو چلے تو ہمیں اس شخص کے ذہن اور علم کے لحاظ سے الفاظ اپنے کانوں میں محسوس ہوتے ہیں، زبان کے اثرات انسان کے پورے جسم پر مرتب ہوتے ہیں اور زبان ہی بربادی اور آبادی کا سبب بنتی ہے، زبان اتنی اہم ہے کہ جناب سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے اس کو باقاعدہ پکڑ کر فرمایا:”اس کی حفاظت کی ضمانت جنت کی طرف لے جاتی ہے۔“

زبان سے ایسا کلمہ نکلتا ہے کہ جنت میں داخلہ ہوتا ہے اور اسی زبان سے کوئی ایسا کلمہ صادر ہوتا ہے کہ دوزخ او رالله کی پکڑ کا سبب بنتا ہے،درحقیقت ہمارے پورے جسم کی ترجمانی زبان کرتی ہے، یعنی جو دماغ سوچتا ہے وہ فوری بیان کر دیتی ہے، دل جو چاہتا ہے زبان اس کا فوری اظہار کرنا چاہتی ہے، یعنی جسم انسانی کے جذبات واحساسات خوشی، غم، علم، عمل، عقل، دانائی کا علم زبان کی خوبی سے پتا چلتا ہے، یہی زبان اگر خاموش رہے تو بے وقوف اور جاہل اور کم علم کا پردہ رکھتی ہے اور یہی زبان اگر کوئی صاحب علم، دانا اور عقل مند استعمال کرے تو اس کی عزت بڑائی اور پذیرائی کا سبب بنتی ہے، دانا لوگ کہتے ہیں:

”زبان کا گھاؤ تلوار کے گھاؤ سے کہیں زیادہ تیز او راثر کرتا ہے کہ تلوار کا گھاؤ اسی عضو پر ہو گا جس پر حملہ کیا ہو، لیکن زبان کا زخم پورے جسم، قلب ودماغ اور عقل وخرد کو ایسا زخمی کرتا ہے کہ انسان کبھی کبھی اس دار فانی سے کوچ بھی کر جاتا ہے۔“

زبان سے جتنے گناہ ہوتے ہیں اتنے پورے جسم واعضاء جوارح سے نہیں ہوتے، یوں کہیں نوے فیصد زبان سے اور دس فیصد باقی اعضاء سے۔ اسی زبانی اقرار، انکار سے مسلمان اورکافر کا پتا چلتا ہے او راسی زبان سے نکاح اور طلا ق ہوتی ہے او راسی زبان سے انسان کے ایمان اور شرک کا پتا چلتا ہے او راس زبان کے نیچے کسی بھی شخص کے مزاج، کردار اور حیثیت کا پتا چلتا ہے۔

زندگی کے ہر کام میں زبان کی اتنی حیثیت جتنی خود انسان کی ہو، گویا انسان کی زبان ہی اس کی زندگی کو ظاہر کر دیتی ہے، کسی نے ایک مفکر سے پوچھا اگر خواتین ایک منٹ کے لیے چپ ہو جائیں تو ایسا ممکن ہے؟ تو اس نے کہا: قیامت برپا ہوجائے گی اگر عورتیں خاموش ہو جائیں۔ یعنی ان کی زبانیں رک جائیں۔

زبان ایک ایسا عضو ہے جس میں کوئی ہڈی نہیں ہے، لیکن اس کی وجہ سے ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی ہے، یہ لچک دار ضرور ہے، لیکن جب کوئی فیصلہ صادر کر دے تو پھر ملک ٹوٹ سکتا ہے اور انسان کا سر پھٹ سکتا ہے، لیکن یہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتی ، روزانہ صبح جب انسان بیدار ہوتا ہے تو پورا جسم اس کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے کہ تو (زبان) صحیح رہے گی تو ہم بھی صحیح رہیں گے، یعنی ہماری بھی خیر ہے، ور نہ تیری وجہ سے ہمیں بھی سخت تکلیف اٹھانی پڑ سکتی ہے، انسان جتنا زبان سے پھسلتا ہے اتنا کیلے کے چھلکے سے نہیں پھسلتا۔

اسی زبان کی وجہ سے انسان الله کا قرب بھی حاصل کر لیتا ہے اورکبھی اس کی وجہ سے برباد بھی ہو جاتا ہے، معاشرے میں جتنا فساد اس زبان کی وجہ سے برپا ہوتا ہے اتنا کسی بھی چیز سے نہیں ہوتا، اگر انسان موجود بھی نہ ہو اس کا زبان سے ادا کیا گیا جملہ ضرور موجود ہوتا ہے ،جو کہ حوالے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، اسی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ انسان کو فن کی بلندیوں پر پہنچا دیتے ہیں، کوئی حافظ قاری کہلاتا ہے، کوئی خطیب ِ وقت کہلاتا ہے، کوئی شہرت یافتہ نعت خواں، کوئی شعلہ بیان مقرر، کوئی عظیم مدبر تو کوئی مفکر، محدث اور مبلغ کہلاتا ہے۔

اسلام میں زبان کی اہمیت اتنی ہے کہ زبان کا پاس رکھنا ہی ایمان کی علامت قرار پائی۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے منافق کی علامت یہ بتائی ہے کہ بات کرے او رجھوٹ بولے اور اسی زبان کی وجہ سے لعنت الله علی الکاذبین کے الفاظ قرآن مجید میں موجود ہیں۔

زبان کی سب سے بڑی خرابی کذب بیانی، وعدہ خلافی ہے، کاتبین ان الفاظ کو فوراً اپنے دفتر میں درج کر لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک تاجر جتنا جھوٹ بول اور وعدہ خلافی کر رہا ہے، ادائی کا وعدہ کرکے اپنے حلال رزق کو حرام کی آمیزش کے ساتھ حاصل کرتا ہے اور اس کو اپنی عقل مندی تصور کرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی روزی کی برکت ختم ہوجاتی ہے، اس کا کاروبار چلتا تو ہے، لیکن وہ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے،شوگر بلڈ پریشر ہو جاتا ہے، بچے فرماں بردارنہیں ہوتے، بیوی وفاشعار او رحقیقی محبت کرنے والی نہیں ہوتی۔

خواتین غیبت، لگائی، بجھائی اور زبان درازی کرکے اپنے آپ کو الله کی پکڑ او رجہنم کے قریب کر رہی ہیں، زبان کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہماری ماؤں بہنوں کی جانب سے ہو رہا ہے۔ معاشرے میں ہر انسان اپنی زبان کو جتنا بے دریغ استعمال کر رہا ہے، مذاق میں جھوٹ، خوشی غمی میں جھوٹ اور غصے میں جھوٹ، گالی گلوچ، فحش گوئی، بد گوئی کی وجہ سے ہم الله تعالیٰ کی پکڑ میں ہیں۔

آج دعا کے قبول نہ ہونے کا بھی کہا جاتا ہے، یہ زبان کے غلط استعمال او رجھوٹ کا خمیازہ ہے، دعا کے قبول ہونے کے لیے رزق حلال اور صدق مقال، یعنی حلال روزی، جائز اور حلال ذرائع سے کمائی کی جائے اورزبان جو بھی کہے سچ پر مبنی ہو، ہر حال میں الله کا شکر ادا کرے اور زبان کو الله کے ذکر سے تر رکھے، زبان کوئی سی بھی بولے، لیکن پاک صاف وشائستہ بولے، کیوں کہ زبان ہی انسان کی شخصیت کا آئینہ ہے۔