ذکر الہٰی الله کے قرب ورضا کا بہترین ذریعہ

ذکر الہٰی الله کے قرب ورضا کا بہترین ذریعہ

مولانا محمد اشہب

الله جل شانہ کے کثیرانعامات، بے مثال کرم نوازیاں اور مسلسل احسانات کسی ذی شعور اور صاحب عقل سے مخفی نہیں اور احسان کا ایک لازمی اثر ہوتا ہے ”احسان مندی“ یعنی اگر کسی نے آپ پر احسان کیا ہے تو آپ اس کا تذکرہ ضرور کریں گے اور بہت عزت سے کریں گے او رجو اپنے محسن کی شکر گزاری کا اظہار نہ کرے، وہ تمام مذاہب کی نظر میں قابل مذمت ہے، اس سے ثابت ہوا کہ شکر گزاری کا اظہار نہ کرنا اور اپنے محسن کو یاد نہ رکھنا قبیح ہے، جب کہ اس کے ذکر اور اس کی یاد سے وابستہ رہنا پسندیدہ او رمطلوب ہے۔

بس جب الله تعالیٰ کے احسانات ہر آن ،ہر لمحہ، بلا انقطاع ہماری طرف متوجہ ہیں تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر آن، ہر لمحہ اپنے اس محسن حقیقی کا ذکر کرتے رہیں، کیوں کہ احسان مندی اور شکر گزاری کا آسان ترین اور زماں ومکان کی تمام قیودات سے آزاد ذریعہ الله تعالیٰ کا ذِکر ہی ہے، جب کہ نماز کے لیے خاص وقت، حج کے لیے خاص جگہ اور زکوٰة کے لیے خاص مالی طاقت مطلوب ہے۔ غرض ذکر الہی انتہائی اہم ترین عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی آسان بھی ہے اور یہ الله رب العزت کا بندوں پر فضل بالائے فضل ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ ضروری اور اہم ہوتی ہے، اس کو الله تعالیٰ اتنا ہی سہل الحصول بنا دیتے ہیں، مثلاً ہمیں سانس لینے کے لیے ہوا کی ضرورت ہے او رزندگی کا تسلسل سانس پر ہی موقوف ہے، اسی طرح ہر مخلوق پانی کی اشد محتاج ہے، پانی کے بغیر نشو ونما، بلکہ بقا کا تصور محال ہے تو الله تعالیٰ نے ان چیزوں کو سب سے زیادہ عام اور آسانی سے مل جانے والی بنا دیا، بس جس طرح پانی اور ہوا پر انسان کی جسمانی زندگی کی بقا اور ترقی موقوف ہے، اسی طرح ذکر الله پر انسان کی روحانی بقا او رترقی کا مدار ہے، اسی بنا پر الله رب العزت نے ذکر کو جملہ شرائط وقیودات سے خالی رکھا او راس کو آسان ترین عبادت بنا دیا، تاکہ بندہ ہر جگہ، ہر حال اور ہر وقت میں ذکر کی لذت سے سرشار رہے۔

پھر جب محسن ومنعم کا ذکر فطری تقاضا اور لازمی داعیہ ہے تو انسان کے ہمہ وقت ذکر میں مشغول رہنے کے لیے کسی ترغیب کی لازمی ضرورت نہیں تھی، لیکن الله رب العزت نے خود بھی اور نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبانی بھی قرآن وحدیث میں ذکر کابارہا حکم دیا اور اس کی ترغیب دی، تاکہ بندے دنیاوی مشاغل میں منہمک ہو کر اپنی اس اہم ترین ذمہ داری کو بھلا نہ بیٹھیں۔ ذیل میں چند آیات واحادیث پیش کی جاتی ہیں:

”او رکثرت سے اپنے رب کو یاد کیا کریں اور صبح وشام تسبیح کیا کریں۔“ (سورہٴ آل عمران)

”اور اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں، عاجزی کے ساتھ اور (الله سے) ڈرنے کی حالت میں اور ذرا دھیمی آواز سے صبح او رشام کے وقت اور غافلوں میں سے مت ہو ۔“ (سورہٴ اعراف)

”اور ان لوگوں کو اپنی مجلس سے علیحدہ سے علیحدہ نہ کیجیے جو صبح شام ( ہر وقت) اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں، اس کی رضا چاہتے ہوئے۔“ (سورہٴ انعام)

”(حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علی نبینا وعلیہماالسلام کو ارشاد ہوا ) او رمیری یاد میں سستی نہ کرنا۔“ (سورہٴ طہٰ)

”بے شک وہ ( سب انبیاء جن کا پچھلی آیات میں ذکر تھا) نیک کاموں کی طرف دوڑتے تھے اور (ثواب کی) رغبت اور (عذاب کا) خوف رکھتے ہوئے ہم کو پکارتے تھے۔“ (سورہٴ کہف)

”اور جس نے میرے ذکر سے منھ موڑا اس کے لیے تنگی والی زندگی ہے او رہم اس کو حشر میں اٹھائیں گے اندھا کرکے۔“ (سورہٴ طہٰ)

یہ چند آیات مبارکہ مثال او رنمونے کے طور پر ہیں، اہل علم جانتے ہیں کہ ذکر سے متعلق آیات کس قدر وضاحت او رکثرت سے موجود ہیں، ایسے ہی ذخیرہٴ احادیث میں بے شمار ترغیبات وفضائل وارد ہیں:
1..حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو لوگ بھی الله کے ذکر کے لیے جمع ہوں اور ان کا مقصد صرف الله کی رضا ہو تو آسمان سے ایک فرشتہ آواز لگاتا ہے کہ تم لوگ بخش دیے گئے او رتمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں۔ (مسند احمد)
2..حضرت عبدالله بن مغفل رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور پھر اٹھ کھڑے ہوں، اس حال میں کہ مجلس میں الله کا ذکر نہ کیا ہو تو یہ مجلس قیامت کے دن حسرت وافسوس کا سبب ہو گی۔ (بیہقی)
3.صحیح مسلم میں حضرت سمرة بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کلمے چار ہیں: ”سبحان الله والحمدلله، ولا الٰہ الا الله والله اکبر“․
4..حضرت ابو ذر غفاری رضی الله عنہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرما دیجیے۔ ارشاد ہوا کہ جب کوئی برائی کر بیٹھو تو کفارہ کے طور پر فوراً کوئی نیکی کر لیا کرو، تاکہ اس برائی کی نحوست دھل جائے، صحابی نے عرض کیا یا رسول الله! کیا:” لا الہٰ الا الله“ پڑھنا بھی نیکیوں میں داخل ہے ؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ساری نیکیوں میں افضل ہے۔
5..ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول الله! شریعت کے احکام تو بہت سے ہیں ہی، آپ مجھے کوئی ایک چیز ایسی بتا دیں جس کو میں اپنا دستور اور مشغلہ بنا لوں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تیری زبان ہمیشہ الله کے ذکر سے تررہنی چاہیے۔
6..طبرانی اور سنن بیہقی وغیرہ میں حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ تم میں سے جو آدمی راتوں کو (عبادت کی) محنت سے عاجز ہو او ربخل کی وجہ سے (نفلی صدقات میں ) مال بھی نہ خرچ کرسکتا ہو اور بزدلی ( وکمزوری) کی وجہ سے جہاد بھی نہ کرسکتا ہو اس کو چاہیے کہ کثرت سے الله کا ذکر کیا کرے، یعنی نفلی عبادات میں جس قسم کی کوتاہی ہو جاتی ہے اس کی تلافی ذکر الہٰی کے ذریعے ممکن ہے، احادیث کی روشنی میں الله کا ذکر ایمان کی علامت، نفاق سے برات، شیطان سے حفاظت او رجہنم سے بچاؤ ہے۔

قارئین کرام! آج کل لوگ شیطانی وساوس سے بہت پریشان رہتے ہیں ، وساوس کا مضبوط علاج ہمیں حضور صلی الله علیہ وسلم دے گئے ہیں ،یعنی ”ذکر“ جس کے باعث دل اتنا قوی ہو جاتا ہے کہ وساوس کا مقابلہ کرسکے۔ ایک حدیث کے مطابق جو شخص فجر کی نماز کے بعد اسی ہیئت پر بیٹھ کر کسی سے بات کرنے سے قبل یہ کلمات دس مرتبہ پڑھ لے تو وہ سارا دن شیطان اور برائیوں سے محفوظ رہے گا، وہ کلمات یہ ہیں:”لا الہ الا الله وحدہ، لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، یحیی ویمیت، وھو علی کل شيٴ قدیر․“

الله جل شانہ، ہم سب کو ہمہ وقت اپنی طرف توجہ اور بکثرت اذکار مسنونہ میں انہماک نصیب فرماکر مخلصین کا درجہ عنایت کرے، کیوں کہ ہر انسان ہلاکت کے خطرے سے دو چار ہے، سوائے اہل علم کے اور علماء بھی سب خطرے میں ہیں، سوائے عمل کرنے والوں کے او راہل عمل بھی سب خدشہ ہلاکت میں ہیں، سوائے مخلصین کے اور اہل معرفت سے منقول ہے کہ اخلاص کے حصول کا ایک موثر ترین ذریعہ الله تبارک وتعالیٰ کا ذکر ہے۔