دعا ۔۔ فضیلت ،اہمیت اور آداب

دعا ۔۔ فضیلت ،اہمیت اور آداب

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ

دین ودنیا کے ہر جائز کام کے لیے محنت وکوشش کے ساتھ ساتھ دعا کا اہتمام کرنا چاہیے، مثلاً کوئی کاروبار کر رہا ہے تو محنت وکوشش بھی کرے اور دعا بھی مانگے کہ اے الله! اس میں برکت فرما اور اس کاروبار کو نقصان سے محفوظ فرما، اگر کوئی دشمن ستائے، خواہ دین کا دشمن ہو یا دنیا کا تو اس سے بچنے کی تدبیر بھی کریں اور الله تعالیٰ سے دعا بھی کریں کہ اے الله! اس دشمن کو زیر فرما، یا مثلاًکوئی بیمار ہو تو علاج بھی کراتا رہے، مگر الله تعالیٰ سے دعا بھی مانگتا رہے کہ اے الله! اس بیماری کو دور فرما۔ اگر کوئی مال دار ہے تو مال کی حفاظت بھی کرے ، تالے میں رکھے، گھر والوں یا پہرے داروں سے اس کی حفاظت کرانے کی کوشش بھی کرے، مگر ساتھ ساتھ الله تعالیٰ سے دعا بھی مانگتا رہے ، اے الله! اس مال کی چوروں اور ڈاکوؤں سے حفاظت فرما، اگر کوئی کسی مقدمہ میں پھنسا ہوا ہے تو اچھے وکیل کا بھی انتظام کرے اور دعا بھی کرے اے الله! مجھے اس مقدمہ میں کام یابی عطا فرما، قرآن کریم اور علم دین پڑھنے والا طالب علم محنت سے پڑھے بھی اور دعا بھی کرے کہ اے الله! اسے میرے لیے آسان فرما دے اور اسے میرے ذہن میں جماد ے، نماز اور روزہ شروع کررہا ہے تو خشوع وخضوع واخلاص نیت کا اہتمام بھی کرے اور الله تعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہے کہ اے الله! میری مدد فرما او رمجھے اس پر استقامت عطا فرما اور وہ کام جن میں تدبیر کا کوئی دخل نہیں،جیسے بارش کا ہونا، اولاد کا زندہ رہنا، شفاء مل جانا، طاعون سے محفوظ رہنا یا غالب دشمنوں کے شر سے بچنا تو ان مسئلوں میں ساری کوشش صرف دعا ہی میں صرف کرنی چاہیے۔

دعا صرف اس کا نام نہیں کہ زبانی یاد کی ہوئی دو چار باتیں زبان سے کہہ دیں، یہ تو دعا کی نقل ہے، دعا تو الله تعالیٰ کے دربار میں ایک درخواست پیش کرنا ہے، ایک آدمی کسی حاکم وبادشاہ کے دربار میں کوئی درخواست کس طرح پیش کرتا ہے؟ اس طرح کہ دل بھی اسی طرف متوجہ ہوتا ہے اور آنکھیں بھی اور صورت بھی عاجزوں فقیروں جیسی بناتا ہے، اپنی درخواست کے منظور کروانے کے لیے پورا زور لگا دیتا ہے اور اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ قوی امید ہے کہ ہماری درخواست پر خصوصی غور کیا جائے گا اور اگر حاکم معذرت کر دے تو یہ شخص ناراضی ظاہر کرنے کے بجائے فوراً یہ جواب دیتا ہے کہ حضور! مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ اور اگر آئندہ دوبارہ درخواست پیش کرنی پڑے تو پھر کہتا ہے کہ مجھے پوری امید ہے کہ میری درخواست پر توجہ فرمائی جائے گی، اصل بات یہ ہے کہ مجھے میرے کام ہو جانے سے زیادہ عریز میرا اور آپ کا تعلق ہے جو سالہا سال سے قائم ہے، کیوں کہ یہی کام تو وقتی ہے اور ہمارا تعلق ہمیشہ کا۔

تو اے مسلمانو! ذرا سوچو کہ کیا تم الله تعالیٰ کے ساتھ بھی درخواست میں ویسا برتاؤ کرتے ہو جیسا ایک حاکم سے کرتے ہو؟ او راگر نہیں کرتے تو کس منھ سے کہتے ہو کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی، دراصل کمی تمہاری طرف سے ہے، اس الله نے تو دعا کا کوئی وقت بھی متعین نہیں کیا، وقت بے وقت جب چاہو درخواست کر لو۔ جب دعا کی حقیقت معلوم ہوگئی تو اس حقیقت کے مطابق دعا مانگو، پھر دیکھو کیسی برکت ہوتی ہے او ربرکت کا یہ مطلب نہیں کہ جو مانگو گے وہی مل جائے گا، کبھی تو وہی مل جاتا ہے جو کچھ مانگا جائے، جیسے آخرت کی چیزیں، جن میں بھلائی ہی بھلائی ہے او رکبھی وہ مانگی ہوئی چیز نہیں ملتی، جیسے دنیا کی چیزیں ہیں کہ وہ بندہ کے لیے کبھی بھلائی کی ہوتی ہے، کبھی برائی کی، جب کوئی چیز الله کے ہاں بھلائی کی ہوتی ہے تو وہ مل جاتی ہے، جب برائی کی چیز ہوتی ہے تو نہیں ملتی ہے جیسے باپ بچہ کو کبھی مانگنے پر پیسے دے دیتا ہے او رکبھی نہیں دیتا،جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ اس سے ایسی چیز خریدے گا کہ جس سے ڈاکٹر یا حکیم نے منع کیا ہے۔ بلکہ برکت کامطلب یہ ہے کہ دعا کرنے سے بندہ کو الله تعالیٰ کی طرف توجہ ہو جاتی ہے، مانگی ہوئی چیز نہ بھی ملے جب بھی الله تعالیٰ کی طرف سے دل میں تسلی اور قوت پیدا ہو جاتی ہے اور پریشانی جاتی رہتی ہے۔ یہی الله تعالیٰ کی طرف توجہ اتنی عظیم دولت ہے کہ جس کے سامنے کوئی دوسری حاجت وضرورت کوئی چیز نہیں۔ یہی توجہ الی الله بندہ کی اصل پونجی ہے،جس سے دنیا وآخرت کی راحتیں اور لذتیں ونعمتیں نصیب ہوتی ہیں، لہٰذا دعا سراسر برکت ہی برکت ہے۔ فائدے سے کبھی خالی نہیں، اب دعا کی فضیلت وآداب کے متعلق سات احادیث مبارکہ تحریر کی جاتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کسی گناہ یا رشتہ داروں سے بدسلوکی کی دعا نہ کرے، جب تک جلدی نہ مچائے، عرض کیا گیا: یا رسول الله! جلدی مچانے کا کیا مطلب ہے؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جلدی مچانا یہ ہے کہ یوں کہنے لگے کہ میں نے بار بار دعا کی، مگر قبول ہوتی ہوئی نہیں دیکھتا اور دعا کرنا چھوڑ دے۔ (مسلم) فائدہ… اس میں اس بات کی تاکید ہے کہ دعا قبول ہو یا نہ ہو، برابر دعا کیے جائیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز قدر کی نہیں۔ (ترمذی،ابن ماجہ)

حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا ( ہر چیز سے) کام دیتی ہے، ایسی (بلا) سے بھی جو کہ نازل ہو چکی ہو اور ایسی (بلا) سے بھی جو کہ ابھی نازل نہیں ہوئی۔ سواے بندو! دعا کو لازم پکڑو۔(ترمذی، احمد، نسائی)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا تو الله تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے۔ (ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم الله تعالیٰ سے ایسی حالت میں د عا کیا کر وکہ تم قبولیت کا یقین رکھا کرو اور یہ جان رکھو کہ الله تعالیٰ غفلت سے بھرے دل سے دعا قبول نہیں کرتا۔(ترمذی)

حضرت ابو سعیدخدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ایسا مسلمان نہیں جو کوئی دعا کرے جس میں گناہ اور قطع رحم نہ ہو، مگر الله تعالیٰ اس دعا کے سبب اس کو تین چیزوں میں سے ایک ضرور دیتا ہے : یا تو فی الحال وہی مانگی ہوئی چیز دے دیتا ہے ۔ اور یا اس کو آخرت کے لیے ذخیرہ کر دیتا ہے۔ او ریا کوئی ایسی ہی برائی اس سے ہٹا دیتا ہے۔صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا کہ اس حالت میں تو ہم خوب کثرت سے دعا کیا کریں گے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله کے یہاں اس سے بھی زیادہ ( عطا کی) کثرت ہے۔ (احمد)

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کو اپنے رب سے سب حاجتیں مانگنی چاہییں، یہاں تک کہ اس سے نمک بھی مانگے اور جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے مانگے۔ (ترمذی)

فائدہ… یعنی یہ خیال نہ کرے کہ ایسی حقیر چیز اتنے بڑے سے کیا مانگے، ان کے نزدیک تو بڑی چیز بھی چھوٹی ہی ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں سچا بندہ بنائے او راپنے ہی درکا پکا سچا بھکار ی بنائے، اپنے غیر کے در پر جبین جھکانے سے ہماری حفاظت فرمائے۔
وصلی الله وسلم علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ أجمعین!