دامن ِمصطفی سے وابستگی تمام مسائل کا واحدحل

دامن ِمصطفی سے وابستگی تمام مسائل کا واحدحل

مولانا ڈاکٹر محمد جہان یعقوب

امتِ مسلمہ سیرتِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے وابستگی کے لمبے چوڑے دعوے توکرتی ہے، لیکن اس کی عملی زندگی سیرت رسول سے بہت دور ہے۔بالفاظِ دیگر ہم سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعتقادی وابستگی تو رکھتے ہیں ،لیکن عملی وابستگی نہیں۔سیرت سے اعتقادی وابستگی کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا برحق رسول تسلیم کیا جائے، آپ کی تعلیمات کو پاکیزہ تعلیمات مانا جائے، یہ صرف اعتقادی وابستگی ہے۔الحمدللہ!ہر مسلمان سیرت سے اعتقادی وابستگی رکھتا ہے،لیکن صرف یہ کافی نہیں،بلکہ سیرت سے عملی وابستگی بھی مطلوب ہے۔سیرت کے ساتھ عملی وابستگی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے طورطریق کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے۔اس حوالے سے مسلم امہ کافی کوتاہی کا شکار ہے۔

جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخروغرور، ریاودکھلاوا، غداری ودھوکا دہی، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی؛ غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں، عام انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں؛ بلکہ خواص میں بھی اخلاقیات کاانحطاط پایاجاتاہے۔ اِس انحطاط و تنزل کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہر بری خصلت کی برائی وشناعت اوراس کے دنیوی واخروی نقصانات کومعقول انداز میں بیان کیا جائے؛ تاکہ معقولیت پسند طبقہ شریعت سے قریب ہو، اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کو بھی بیان کیاجائے اور ان کو اختیار کرنے کی تلقین کی جائے۔اس کے لیے ضرورت ہے کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے اوراس کی تفسیر کو عام کیا جائے، ساتھ ہی احادیث کی تعلیم کا بھی اہتمام ہو، غیروں کے بجائے اپنی خرابیوں پر غور کیاجائے اوراصلاح کی کوشش کی جائے؛ نیز تذکیر و موعظت اور تبلیغ و دعوت کا اہتمام کیا جائے ۔دنیا کو بتایا جائے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد دنیا کو اعتدال اور حق سچ پرلانا تھا،اِس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں درج ذیل امور کااہتمام تھا:

غیروں کی اصلاح سے پہلے اپنی ذات کی اصلاح ،اللہ رب العزت کے سارے احکام سے لوگوں کوروشناس کرانا،اللہ کے سارے احکام کو زمین پر نافذ کرنے کی کوششیں اور تدبیریں کرنا،ہر ایک کے حقوق وفرائض کو واضح کرنا، کمزور طبقات، مثلا ً:عورتوں، بچوں، غلاموں، خادموں اور جانوروں کے حقوق کو متعین فرماکر ان کی ادائی کی تلقین،معاشرہ میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر گرفت،احکامِ الہٰی کی تعمیل کی تلقین کامزاج بنانا، آیات واحادیث کی تعلیم کے ساتھ ان پر عمل ، خود احتسابی کی تعلیم، آیات کی تفسیر اور احادیث کے یاد کرنے اور ان کے مذاکرے کا ماحول، اخلاقِ رذیلہ کی خرابیوں کو بیان کرکے ان سے بچنے اور اخلاقِ فاضلہ کو اختیار کرنے کی تلقین،ایسا ماحول بنانا کہ ہر شخص دعوت اصلاح و تبلیغ کو اپنی ذمہ داری سمجھنے لگے۔

اس سبق کو دہرایا جائے کہ ایک مسلمان کو اپنے اخلاق و کردار میں کیساہونا چاہیے؟ درس گاہِ نبوت کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیسے تھے؟ ان کے اندر اخلاص و تقویٰ، شرم و حیااورصبر وشکر کی صفات تھیں، وہ دیانت دار، امانت دار اور سخاوت و شرافت کے خوگر تھے، ان کے اندر ایثار وقربانی، عفت و پاک دامنی اور تواضع و انکساری کی اعلیٰ صفات پائی جاتی تھیں۔ وہ خوش کلام، خوش دِل اور رحم و کرم کے پیکر تھے، وہ ہمیشہ موت کو یاد رکھتے تھے، ان کے معاملات کی صفائی سے لوگ متاثر تھے، یہ ساری چیزیں آیات واحادیث کی روشنی میں بیان کی جائیں،اس سے اپنوں کی اصلاح ہوگی اورا غیار بھی مستفیدہوں گے۔آخر کیا وجہ ہے کہ ان مسلمانوں کو دیکھ کر ان کے بلند و بالا اخلاق سے متاثر ہوکر لوگ اِسلام قبول کرتے تھے؟! آج کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کو دیکھ کر اسلام نہیں سمجھ سکتا،بلکہ اسلام اوراِسلام کی اخلاقی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے کتب خانوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اخلاقِ نبوی وکردارِصحابہ پر نہ خود چلتے ہیں اور نہ اس کی درست تعبیر وتشریح اقوامِ عالم کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اِس سلسلے میں قرآن وحدیث کے نصوص واضح کیے جائیں توکوئی وجہ نہیں کہ اس سے ایک ایسا صالح معاشرہ وجود میں نہ آئے،جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خیرالقرون کے معاشرے کی طرح ہو۔ان مبارک ا دوار کی خوبیاں،جو تاریخ کے صفحات کی زینت بنی ہوئی ہیں، ہماری عملی زندگی میں نہ آجائیں ۔

سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسوہ حسنہ کو پوری طرح اپنی زندگی میں رائج کرنے کے لیے اجتماعی حیثیت سے امت کو کچھ عملی اقدامات کرنے ہوں گے اور اتباعِ سنت اور اسوہ حسنہ کو امت مسلمہ میں عام کرنے کے لیے تعارفِ سیرت کی طرح باقاعدہ مہم چلانی ہوگی۔مختلف اداروں اورتحریکوں کے ذریعے نبوی سنتوں کی عملی مشق کرانی ہوگی۔گھروں میں والدین اور سرپرست حضرات کو موقع محل کے اعتبار سے بچوں کو سنتوں کی عملی تربیت دینی ہوگی؛ کھانے کا موقع ہوتو کھانے کی سنتیں،سوتے وقت سونے کی سنتیں اور لباس پہننے کا موقع آئے تو اس کی سنتیں یاد دلائی جائیں،علیٰ ھٰذاالقیاس․

ائمہ مساجد یومیہ چند سنتوں کی جانب توجہ دلائیں اور ان پر عمل کی ترغیب دیں۔روز مرہ کی زندگی سے متعلق سنتوں کے مستند مجموعے مسلم گھرانوں میں عام کیے جائیں۔

سیرتِ رسول سے متعلق ایک ذمہ داری سیرت کے دفاع کی ہے۔تاریخ کا شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ صلیبی جنگوں کے خاتمے پر عیسائیوں کے ایک رہبر سینٹ لوئس نے جو لائحہ عمل مرتب کرکے دیا تھا ،اس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کے درمیان سے اپنے ہم خیال لوگ تلاش کرو،ایسے لوگ تمھیں اشرافیہ یعنی ایلیٹ کلاس اور حکم رانوں کے طبقے سے با آسانی ملیں گے۔سو اِن خطوط پر محنت شروع کی گئی ۔’اسلامی اسکالرز‘کے نام سے ایسے آزاد خیال لوگ تیار اور تلاش کیے گئے،جن کی نظر میں شریعت گویا موم کی گڑ یا تھی۔مکالمہ کا دائرہ اس قدر وسیع کردیا گیا کہ شعائرِ اسلام اور مسلّماتِ دین بھی اس کی زد میں آگئے،مکالمے کے نشتر ان اصول ِ دین پر بھی بے دردی سے چلائے گئے۔ذاتِ نبی اور باتِ نبی میں فرق کرنے کی کوشش کی گئی۔سنت کی من مانی تشریحات کی گئیں؛اِن سب کوششوں کا مقصود اقبال کے لفظوں میں سوائے اِس کے کچھ نہ تھا:”روحِ محمدصلی الله علیہ وسلم اس کے بدن سے نکال دو“۔لیکن کفرکوسخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

سیرت سے وابستگی کے نتیجہ میں عائد ہونے والی ایک اہم ذمہ داری تحفظ ختمِ نبوت کی ہے،بہت سادہ لوح مسلمان قادیانیت کا شکار ہورہے ہیں ، عام مسلمانوں کے ذہنوں میں ختم نبوت کاتصور واضح نہیں، اضلاع اور دیہاتوں میں قادیانیت سرگرم ہے، شہروں میں بھی کافی سرگرمیاں جاری ہیں ، ربیع الاول کے موقع پر جلسوں میں ختم نبوت کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے، علاوہ ازیں مختلف تحریکات کے ذمہ دار حضرات قادیانیت سے متاثرہ مقامات کا دورہ کرکے مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کریں ، قادیانیت کا فتنہ جس تیزی سے پھیلتا جارہا ہے، امت مسلمہ میں اسی قدر غفلت پائی جاتی ہے، سیرتِ رسول سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ ہم ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہر چیز کی قربانی کے لیے تیار ہوجائیں ۔

صلیبی جنگوں میں دو سو سال مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما رہنے اور سلطان صلاح الدین ایوبی  ونورالدین زنگی  جیسے شیر دل مسلم سپہ سالاروں سے شکست فاش کے بعد عیسائی شہ دماغوں نے مسلمانوں کے نا قابل تسخیر ہونے کی وجوہات پر غور کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ان کے دل میں حب ّ رسالت کی جو شمع فروزاں ہے ،وہی ان کا اصل اثاثہ ہے،ورنہ مادی ومالی وسائل اور افرادی وفوجی طاقت میں مسلمانوں کا ہم سے کوئی مقابلہ نہیں۔چناں چہ اب مسلمانوں کے دل سے اس شمع فروزاں کو گل کرنے کی تدبیریں شروع ہوئیں۔تحریک استشراق ومستشرقین کا یہی ہدف تھا،بعد میں مشنریز کی محنت کا بنیادی نکتہ بھی یہی قرار پایا۔شان رسالت میں گستاخیوں کا سلسلہ شروع ہوا ،مگر مسلمانوں نے گستاخوں کی گردنیں ناپنے اور انھیں واصل جہنم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔باطل کبھی کھل کراور کبھی چھپ کر اپنا کام کرتا رہا،اس کے شکوک وشہبات کے جال محض تار ِ عنکبوت ثابت ہوئے،اس کی تمام محنت پرِکاہ وپارہٴ سنگ کی طرح بے اثر وبے ثمر رہی،مگر اس نے ہار نہیں مانی ،کیوں کہ اس کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا:
        یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں کبھی
        روح محمد صلی الله علیہ وسلم اس کے بدن سے نکال دو

اسلام کے خلاف ایک پروپیگنڈہ شد ومد کے ساتھ ہمیشہ کفریہ طاقتوں نے یہ کیا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔یہ اپنے علاوہ کسی دین ومذہب کے پیروکاروں کو انسانی حقوق تک دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اسلام عدم برداشت کا سبق دیتا ہے۔اسلام کو تلوار کے زور پر پھیلایا گیا۔اگر ایک طرف منصف مزاج غیر مسلم دانش وروں نے اسلام اور پیغمبر آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم کی عظمت کا اپنے مقالات ومضامین اور تقاریر وخطبات میں برملا اعتراف کیا،اس حوالے سے جرنلز اور کتابیں لکھیں؛تو دوسری طرف انتہا پسند غیرمسلم ”اسکالرز“کی بھی کمی نہیں رہی۔سورج کی طرف منھ کرکے تھوکنے والے ہر طبقے میں پائے جاتے ہیں،اگرچہ یہ تھوک خود ان کے منھ پر پڑتے ہیں،لیکن اپنے سفلی وابلیسی جذبات کی تکمیل کے لیے وہ اس سے باز نہیں آتے۔سورج کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کرنے والوں کواس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ ہم اس حرکت کی وجہ سے لوگوں کے سامنے تماشا بن جائیں گے،لیکن سورج کی تاب ناکی میں ذرہ برابر کمی نہیں آئے گی۔ان عناصر کی اس نوع کی کوششوں کے بنیادی طور پر دو مقصد ہوتے ہیں۔ایک اپنے ابلیسی جذبات کی تسکین اور دوسرا مسلمانوں کو طیش دلانا،تاکہ وہ رد عمل میں بھی ایسی کوئی حرکت کریں،جس کی وجہ سے اُن کے لیے یہ پروپیگنڈا آسان ہوجائے کہ مسلمان عدم برداشت کا شکار اور دہشت گرد وانتہاپسند ہیں۔

خاتم المرسلین، نبی الثقلین ،امام الانبیا، سرکار دوجہاں، محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے خاکے بنانا اور انھیں شائع کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔مختلف ممالک اس قسم کی حماقت کرچکے ہیں،اب فرانس نے یہ حرکت کی ہے اور اپنی حماقت پر اسے تادم تحریر کسی قسم کی ندامت بھی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے منکر وگستاخ کی تو رسی دراز کرتا ہے،لیکن اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے منکر وگستاخ سے نقد حساب لیتا ہے۔تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے،جن کے مطالعے سے ہمارے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔شاہ ایران کسریٰ پرویز کا انجام جریدہٴ عالم کے اوراق پر ثبت ہے،جس نے حبیب ِ پاک صلی الله علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کیا،تو اللہ تعالیٰ نے اسے تاج وتخت سے محروم کرکے وہ سانسیں بھی چھین لیں،جو بلامبالغہ باعثِ تخلیقِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کا صدقہ ہیں۔کاش!اِن بدباطن کفار کو اس بات کا اِ دراک ہوتاکہ اِ س عالم کو وجود ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ِ پاک صلی الله علیہ وسلم کی وجہ سے عطافرمایاہے۔ان کے یہ ہاتھ، چلتی سانسیں، حواس اور ان کا اقتدار واختیار؛بلکہ ان کا اپناوجود بھی نبی الثقلین صلی الله علیہ وسلم کا صدقہ ہے۔جس کی وجہ سے وجود ملا،جس کی وجہ سے زندگی ملی،جس کی وجہ سے سانسوں کی آمدورفت قائم ہے،جس کے صدقے سے اقتدار واختیار ملا،اس کی شانِ اقدس میں گستاخی سے بڑھ کر اور نمک حرامی کیا ہوسکتی ہے؟!

فرانس قہرِالٰہی کے نشانے پر آچکاہے۔میکرون کواب اپنے اقتدار کے دن شمار کرنے چاہییں اور اس لمحے کا انتظار کرنا چاہیے جب وہ رہتی دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنے۔جو ممالک اس کی تائید کررہے ہیں،وہ بھی اس کے ساتھ اِس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے لیے کفریہ طاقتوں نے اِس بارفرانس کا انتخاب کیا،یہ ’ٹیسٹ کیس‘تھا، تاکہ دیکھیں!مسلمانوں کی اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وابستگی اور عشق ومحبت کا تعلق اُسی طرح قائم ہے،جس طرح اِن کے آبا واجداد کا طرہٴ امتیاز تھایا ہماری ’نظریاتی محاذوں‘پر قلبِ مسلم سے عشقِ محمد صلی الله علیہ وسلم کو نکالنے کی کوششیں کچھ اثر دِکھانے میں کام یاب ہوگئی ہیں؟سوشل بائیکاٹ نے فرانس اور اس کے ہم نواوٴں کی چیخیں نکال دی ہیں۔اس سلسلے کو مزید مربوط،مضبوط اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔اِن شاء اللہ!ہمارا یہ عمل نہ صرف عاشقانِ رسول صلی الله علیہ وسلم کی فہرست میں ہمارا نام لکھوائے گا،بلکہ کفر بھی ناک رگڑ کر اپنا تھوکا خود چاٹنے پر مجبور ہوجائے گا۔

دعوت دین کے لیے غیرمسلموں میں سیرت رسول کو موثر ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں: ” غیر مسلم طبقہ پر اتمام حجت کے دو طریقے ہیں : ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی عملی زندگی کو اسلام کی صداقت کا عملی نمونہ بناکر پیش کریں اور ہماری عملی زندگی میں لوگ اسلام کی برکتیں اور رحمتیں دیکھ کر اسلام کو نجات وہدایت کا راستہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں ،دوسرا طریقہ یہ ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی کمالات اور آپ کے معجزانہ کیرکٹرکو لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ہر طبقہ کو اس کی زبان،اس کی سمجھ اور اس کی استعداد کے مطابق سمجھانے کی کوشش کی جائے، تاکہ رحمت للعالمین اور صاحب خلق عظیم رسول کی محبت لوگوں کے دلوں میں اتر جائے اور پھر اس محسن ِانسانیت کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات کو لوگ سچی ماننے پر اپنے آپ کو مجبور پانے لگیں ۔ “

اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں، مثلاً:مختلف زبانوں میں سیرت سے متعلق موثر لٹریچر تیار کرکے عام کیا جائے۔غیر مسلم عوام کے سامنے سیرتِ رسول کے رحمت والے پہلو اور آپ کی وہ تعلیمات جو انسانی رواداری اور امن عالم پر مبنی ہیں،کو رکھا جائے۔غیر مسلموں کے اہل علم طبقہ کے لیے علمی انداز اختیار کیا جائے، مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے الگ الگ اجلاس بھی منعقد کریں ، اسی طرح مسلم ڈاکٹرغیرڈاکٹروں کو مدعو کریں ، تاجر حضرات غیر مسلم تاجروں کا اجلاس منعقد کریں اوران کے سامنے سیرت کے پہلووٴں کواجاگر کریں۔

اگر سیرت کے پروگراموں میں رسمی سیرت کے بیان کے ساتھ ساتھ مندرجہ بالا دستور العمل کو بروئے کار لانے کا اہتمام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ سیرت کی خوش بو سے سارا عالم منور نہ ہو،مسلمانوں میں اتباع سنت کا ذوق ایک بار پھر بیدار نہ ہو،غیر مسلموں کو مطالعہ سیرت کی ترغیب نہ ہو،جو ان میں سے سعید روحوں کے قبولِ اسلام کی نوید بھی ثابت ہوسکتی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کواس دستور العمل کے مطابق اپنے اپنے دائرہٴ کار میں اپنی ذمے داریاں پوری دیانت وامانت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین!