خوشگوار ازدواجی زندگی کے راہنما اصول

خوشگوار ازدواجی زندگی کے راہنما اصول

محترم عبدالمتین

 

خطبہ ٴ نکاح کا پیغام
ہم اکثر نکاح کا خطبہ سنتے رہتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس خطبے میں کیا کہا جارہا ہے؟! خطبہٴ نکاح میں حمد وصلوٰة کے بعد قرآن کریم کے 3مقامات سے تلاوت کی جاتی ہے ،بلکہ تینوں جگہ ایک ہی مضمون پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے ”تقویٰ“۔ تقویٰ اور پرہیزگاری ایک ایسا موثر عنوان ہے جس کے تحت بہت سے مسائل خود حل ہوجاتے ہیں۔

خطبہ ٴ نکاح میں تقویٰ پر ہیزگاری کا حکم ارشاد فرما کر اس جانب توجہ دلائی جاتی ہے کہ میاں بیوی ایک خوش گوار ازدواجی زندگی اور ایک پرسکون گھر اس وقت بنا سکیں گے جب دونوں ”تقویٰ وپرہیزگاری“ کے زیور سے آراستہ ہوں، ان دونوں کو اپنے ہر عمل کے جواب دہی کی فکر لاحق ہو۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس وہ واحد پیمانہ ہے جس سے سچائی اور امانت کی انتہا ناپی جاسکتی ہیں۔

اگر یہ احساس نہ رہے تو دنیا کی کوئی عدالت، کمیونٹی، انجمن، سربراہی یا خاندان ان دونوں کو جوڑ نہیں سکتے، چوں کہ یہ ایسا گہرا تعلق ہے جس سے بڑھ کر قریب تر کوئی تعلق نہیں، دنیا کے ہر رشتہ مین سوتیلے پن کی گنجائش ہے، لیکن اس میں نہیں۔ دنیا میں شاید کوئی تعلق مصنوعی یا جھوٹ کے سہارے چل سکتا ہو، لیکن یہ تعلق بھرپور احساسات وجذبات کے بغیر ایک مردہ جسم کی مانند بن جاتا ہے۔

گھروں کا سکون
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس دنیا میں سب سے پہلے ”میاں بیوی“ کے تعلق سے انسانی عالم کی ابتدا فرمائی ۔اس تعلق کے مقاصد اور پختگی کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟ اس حوالے سے اللہ رب العزت کلام پاک میں ارشاد فرماتے ہیں۔

﴿وَمِنْ اٰیٰتِہِ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاْ جاً لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلْ بَیْنَکُمُ مَوَدَّةً وَّ رَحْمةً
ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے ہی وجود سے جوڑے پیدا فرمائے تاکہ تم اس کے ذریعے سکون حاصل کرسکو اور تمھارے درمیان اپنی قدرت سے محبت اور رحمت کا بیج بودیا۔(روم:21)

واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے میاں بیوی کے تعلق کو سکون کے خزانے کی چابی قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ سکون کا اصل مرکز انسان کا اپنا گھر ہونا چاہیے، جہاں کوئی شوہر اپنی بیوی بچوں کا چہرہ دیکھ کر سکون کی ناقابل بیان کیفیت میں آجائے، لیکن اگر گھر میں سکون کی فضا نہ رہے اور گھر اینٹ، پتھر اور فقط نقش ونگار کی آرائش سے مزیّن ہو تو وہ گھر گھر نہیں، بلکہ ”ڈپریشن کا مرکز“ بن جاتا ہے اور پھر ہر کوئی ہوٹل ، کلب ، دوست، یار، تفریح اور دیگر مصنوعی سرگرمیوں کے نام سے سکون کی تلاش میں فرار ہونے کی ناکام کوشش کرتا ہے ۔ کیوں کہ جس کسی کو اپنے گھر میں سکون نہیں مل سکتا تو دنیا کے کسی کونے میں بھی وہ پرسکون نہیں رہ سکتا۔

گھر کا یہ سکون کس طرح بحال ہو؟ اس حوالے سے چند امور پیش نظر رکھنا لازمی ہے، ان میں سے کچھ کا تعلق مرد کی ذمہ داریوں سے ہے اور کچھ کا تعلق عورت کی ذمہ داریوں سے ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

زوجین کا رشتہ قرآن کی روشنی میں
﴿ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسُ لَّھُنَّ
ترجمہ: وہ تمہارے لیے لباس کی مانند ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو۔(بقرہ: 187)

اللہ رب العزت نے اس تعلق کو ایک انتہائی بلیغ تشبیہ دے کر بات کو سمجھایا ہے کہ میاں بیوی فقط رسمی تعلق کا نام نہیں، بلکہ لباس سے تشبیہ دے کر سمجھایا کہ لباس انسانی بدن کے لیے کئی اعتبار اہم ہے، مثلاً ستر، عزت، تحفظ، زینت، صحت، تہذیب وغیرہ۔ یعنی جس طرح لباس ہمارے ستر کا ذریعہ ہے، یہ رشتہ بھی ہمارے عیوب کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس کی زینت عزت بخشتی ہے ایسے ہی یہ رشتہ عزت افزائی کا ذریعہ ہے، جس طرح لباس ہمیں سردی گرمی سے محفوظ رکھتا ہے اسی طرح لباس ہماری عزت وزینت کا بھی ایک مجموعہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح میاں بیوی کا معاملہ ہے ان کی عزت، ذلت، ان کا مقام، ایک دوسرے سے وابستہ ہے، ان دونوں میں ہر ایک کے ذمّے ہے کہ وہ اپنے رشتے کو دھوپ، سردی، گرمی، بارش،حادثات اور آفات سے بچا بچا کر رکھے۔

لباس سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے لباس پر اگر راہ چلتے کوئی کیچڑ ،گند یا داغ لگ جائے تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اسے پھینکنے، پھاڑنے یا اس حصے کو کاٹنے کی بجائے بہت خیال کے ساتھ فوری طور پر صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ میاں بیوی کے تعلق کا ہے کہ انسانی فطرت کے سبب اگر کوئی اَن بن ، جھگڑا، اختلاف یا ناراضگی ہوجائے تو ان کو اپنے گھر کا خیال رکھتے ہوئے اس اختلاف کو فوری سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

درحقیقت یہ رشتہ ذمہ داریوں کی تقسیم کا معاملہ ہے ۔ اس میں کسی ایک کو مکمل قصور وار ٹھہرانا حماقت ہے ۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور انسان کا نام ہی نسیان سے ماخوذ ہے ۔ جس کا مطلب اس کی فطرت میں بھلکڑ پن اور غلطیاں کرنا موجود ہے۔ لہٰذا جس طرح شوہر ایک انسان ہے، اسی طرح بیوی بھی ایک انسان ہے اور انسان ہونے کے ناطے دونوں کو اپنی کارکردگی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ اور فقہِ اسلامی کے ماہرین فقہاء نے دونوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

شکایات کا حل
اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر جوڑا شکایات کی ایک طویل لسٹ ذہن میں لیے پھرتا ہے اور جہاں کہیں موقع ملے شکایات سنانا شروع کردیتا ہے۔ جس میں رشتہ ٹھیک جگہ نہ ہونا، خدمت میں کوتاہی، جھگڑا ، گالم گلوچ، مارپیٹ ، طعنے ، رہائش، والدین، گھر والے، جمال ، کمال غرض ہر طرح کی شکایتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ان تمام کے بعد ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اتنی برائیاں سامنے آجانے کے بعد آپ کس صورتحال تک پہنچتے ہیں؟ آیا آپ نے ان خرابیوں کی وجہ سے یہ رشتہ ختم کرنا ہے ؟ اگر ہاں تو شریعت نے ہر دو کو یہ موقع دیا ہے، تاکہ کوئی انسان فضول میں اپنی مختصر زندگی کا سکون غارت نہ کرے، بلکہ خلع یا طلاق کے اختیارات استعمال کرکے علیحدہ ہوجائے اور اپنی نئی زندگی شروع کرے۔

لیکن حیرت انگیز طور پر اکثریت اس اختیار کو استعمال کرنے کی نہیں سوچتی، بلکہ ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جوڑا ایک دوسرے کے ساتھ رہنے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ اب اس موقع پر یہ بات بہت اہم ہے کہ جب آپ نے ساتھ ہی رہنا ہے تو آپ شکایات، اعتراضات کا بھاری بوجھ اٹھانے کے بجائے معاملات کو حل کرنے والی گفت گو کی طرف آئیں۔ آپ اعتراض نہ کریں، بلکہ سوال کریں کہ میرا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ میں کیسے اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکوں گی؟ میں کیسے اپنی بیوی کے ساتھ پرسکون رہ سکوں گا؟

لہٰذا یہ پہلو واضح ہوا کہ وقت بے وقت ، موقع بے موقع شکایتوں سے فقط غیبت ، حسد، بہتان ،گالم گلوچ اور فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا، بلکہ اپنے قوت ِ فیصلہ کو استعمال میں لاتے ہوئے کرنے یا نہ کرنے والی صورت کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ان امور کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن کا تعلق بیوی سے ہے۔

بیوی کی ذمہ داریاں
عورت اور امور خانہ داری:
بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کی تربیت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اپنے گھر کو جنت بنانے میں صرف کرے۔ ایک خاتون کو اپنے گھر کو جنت بنانے کے لیے کسی بڑے ساز وسامان کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ فقروفاقہ کی عین چوٹیوں میں رہ کر بھی یہ سب ہوجانا ممکن ہے۔

اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بیوی خاتون خانہ بنے، شمعِ محفل نہ بنے ، لیکن آج یہ بات سمجھنا ذرا مشکل ہوگیا ہے ۔کیوں کہ لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیش پیش ہیں اور ڈاکٹر، انجینئر، آفیسر لڑکیاں عام نظر آتی ہیں اور ایک اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لڑکی سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے گھر پر زیادہ توجہ دیں تو ان کو یہ مشورہ دینے والا تنگ نظر دکھائی دیتا ہے۔

لڑکیاں تعلیم حاصل ضرور کریں اور ایسے شعبوں میں جہاں خواتین ماہرین کی ضرورت ہے وہاں اپنی خدمات پیش کریں، لیکن وہ ایک استثنائی صورت ہے ، جب کہ عام حالات میں اگر آپ دیکھیں کہ میاں بیوی دونوں اپنی معاشی مصروفیات کے سبب اپنے گھر اور بچوں کا ٹھیک خیال نہیں رکھ پاتے اور ایک ماسی رکھ کر کام چلایا جاتا ہے، جس کے ہاتھ کے کھانوں میں نہ خلوص کا جذبہ ہے، نہ ہی اس کی تربیت میں ماں کی ممتا ہے، بلکہ وہ تو ایک ملازمہ ہے۔

گھر داری بظاہر ایک معمولی سا عنوان ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک طویل جدوجہد کا نام ہے، جس کے اثرات نسلوں تک جا پہنچتے ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک خاتون نے ایک عالم دین سے پوچھا کہ جتنے بھی انبیاء آئے ہیں سب مرد ہیں۔ اللہ نے عورتوں کو نبی بناکر کیوں نہیں بھیجا؟ جواب میں عرض کیا کہ عورتیں نبی بن کر نہیں آئیں، لیکن انبیاء کو جنم دینے کا سہرا انہی خواتین کے سروں کو جاتا ہے۔

خواتین کے لیے نبوی لائحہ عمل
نبی کریم سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ میں بیویوں کو ایک مختصر، مگر جامع پروگرام دیا گیا ہے ، جس میں ایک نصاب کی طرح ان کی ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں، فرمایا!

المرأةُ اذا صلَّتْ خَمْسَھَا وَصَامَتْ شَھْرَھَا وَاَحْصَنَتْ فَرْجَھَا وَاَطَاعَتْ بَعْلَھَا فَلْتَدْخُل مِنْ اَیِّ اَبْوَابِ الجنَّةِ شَاءَ تْ“․(حلیہ ابو نعیم)
ایک بیوی جب پنج وقتہ نماز کی پابندی کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی خدمت کرے تو اس کو اجازت ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ۔

اس حدیث میں آپ علیہ السلام خواتین کی 4ذمہ داریاں بتارہے ہیں۔
1..فرض نماز کی ادائیگی 2..فرض روزوں کی ادائیگی 3..عزت وعصمت کی حفاظت کرنا . 4..شوہر کی خدمت کرنا

اس حدیث میں آپ علیہ السلام خواتین کو ایک بہت بڑی بشارت سنارہے ہیں کہ جنت کے تمام دروازے ان کے لیے کھل جائیں گے، لیکن بدلے میں مطالبہ کسی لمبی چوڑی عبادت کا نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ فقط فرائض کی ادائیگی، جس میں نماز اور روزے کی فرض عبادتیں اور اپنی عصمت کی حفاظت جس میں پردہ خاص طور پر شامل ہے اور آخری اہم بات اپنے شوہر کی خدمت ہے اور شوہر کی خدمت میں وہ تمام کام آجاتے ہیں جو ایک بیوی اپنے گھر میں انجام دیتی ہے، جس میں بچوں کی پیدائش، ان کی تربیت ، کچن کا انتظام، صفائی کا انتظام وغیرہ شامل ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ جن کاموں کو خواتین خالص دنیوی یا رسمی سمجھتی ہیں اور ایک روٹین یا عادت یا بعض اوقات مجبوری کے تحت کرتی ہیں اس خالص دنیوی عمل کو ”دینِ اسلام“ ایک عظیم عبادت قرار دے کر اس کے بدلے اتنی بڑی بشارت سنارہا ہے۔ اللہ اکبر!

اس ضمن میں ایک اہم کام خواتین کے ذمے یہ ہے کہ وہ ”شکر“کا اہتمام کریں۔ اللہ نے ان کو بڑی قربانیاں دینے والی فطرت دی ہے۔ لہٰذا قربانی دینے کے بعد یا خدمت میں کھپ جانے کے بعد بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے ثواب کو بچاتے ہوئے اپنے ذہن اور اپنی زبان کو شکایات پر نہ لگائیں،بلکہ اللہ نے جو بھی دیا ہے اسے غنیمت جان کر اپنے گھر کو خوش حال اور پُرسکون رکھیں، ورنہ وقت بے وقت کی شکایتی راگنی ایک ایسی چنگاری ہے جو پورے گھر کو آگ لگاسکتی ہے ۔ لہٰذا شکر کا خاص طور پر معمول بنایا جائے۔

مردوں کی ذمہ داریاں
اب ہم مزید کچھ گزارشات مردوں کے حوالے سے ذکر کریں گے۔

مزاج شناسی
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں کے حقوق سے متعلق جو ہدایات ہیں ان میں ایک مجموعی طرز فکر یہ ہے کہ خواتین کا مزاج سمجھا جائے اور ان سے اسی مزاج کے موافق توقعات رکھی جائیں۔ علماء فرماتے ہیں کہ خواتین کے حوالے سے تین باتوں کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ خواتین کس مزاج کی حامل ہیں۔
1..تحفظ 2..عزت 3..حوصلہ افزائی
بیوی اپنے شوہر سے بھرپور امید اور توقع رکھتی ہے کہ میری اور میرے بچوں کی مکمل ذمہ داری میرا شوہر ادا کرے گا اور وہ رہائش ، خرچ اور ضروریات کی فکر میں لگے بغیر اپنے گھر کو سنبھالتی ہے، اس کے لاشعور میں یہ کھٹکارہتا ہے کہ میرا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں، سوائے میرے شوہر کے، تبھی وہ اپنے شوہر سے بے پناہ توقع رکھتی ہے ۔

اسی وجہ سے وہ سوتن سے ڈرتی ہے کیوں کہ اسے یہ خوف لگا رہتا ہے کہ وہ اس کے تحفظ میں رکاوٹ کا ذریعہ بن جائے گی، اسی لیے شوہر اس بات کا خاص خیال رکھے کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو شوق سے بلا تاخیر کرے، لیکن دوسری شادی کی مصنوعی دھمکیاں نہ دے، اس سے نقصان کا اندیشہ ہے ۔

بیوی عزت چاہتی ہے، اپنی، اپنے بچوں کی، اپنے والدین وغیرہ کی، اسے عزت نہ ملے تو وہ تھوڑا کام کرکے بھی خود کو ایک ملازمہ تصور کرتی ہے اور اسے عزت مل جائے تو جان کھپا کر بھی فخر کے جذبات رکھتی ہے۔

بیوی کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ عورت چاہے کسی بھی روپ میں ہو، ماں، بہن ، بیٹی، یا بیوی اسے حوصلہ افزائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے ،یہ اس کی فطری چاہت ہے ،جسے ختم نہیں کیا جاسکتا اور اگر اسے جائز طریقے سے حوصلہ افزا جملے سننے کو نہ ملیں تو وہ بعض اوقات ناجائز حوصلہ افزائی کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اس کی پڑھائی ، صفائی، کھانااور خوب صورتی و خوب سیرتی کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔

گھر کا ماحول
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ایک پیاری حدیث ہے، فرمایا:
”خیرکم خیرکم، لأھلہ وأنا خیرکم لأھلي“․
ترجمہ: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب میں سب سے زیادہ اچھا ہوں۔(ترمذی)

فرمایا کہ گھر میں تندخو، سخت مزاج یا فوجی بن کر نہ رہو، بلکہ ان کے ساتھ اچھے سے پیش آؤ اور کوئی اگر باہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو لیکن گھر میں برا ہے تو وہ برا ہے۔

گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھے اور اس نیت سے رکھے کہ یہ بھی عبادت کا حصہ ہے اور مجھے اس حسن سلوک پر نیکیاں مل رہی ہیں۔

اہل خانہ کی تربیت
اس بات کا بہت افسوس ہے کہ مرد حضرات اپنے گھر میں اچھا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن اس اچھے ماحول کی آبیاری کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے، حالاں کہمرد اپنی کوشش سے ایک نہایت خوب صورت ماحول تشکیل دے سکتا ہے۔

وہ اپنے گھر والوں سے کپڑے ، کھانا، صفائی اور آرام کے مطالبے کرلیتا ہے، لیکن نماز کے متعلق نہیں پوچھتا ۔ تلاوتِ کلام ِپاک کے متعلق نہیں پوچھتا ۔ شاپنگ کے لیے لے جاتا ہے، لیکن کسی نیکی کی مجلس میں نہیں لے جاتا، حالاں کہ اگر سب گھر والے روزانہ صرف 10منٹ بھی ایک اجتماعی ماحول قائم کرکے کوئی دینی کتاب کا مطالعہ کرلیں تو اس سے حیرت انگیز فوائد دیکھنے کو ملیں گے۔ انشاء اللہ۔

خواتین اور مردوں کے مزاج کا فرق
ایک اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اپنی بیوی کا مزاج سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے خواتین کے لیے ایک مقام پر ”غافلات“ کا صیغہ ذکر کیا ہے، جب کہ مردوں میں غفلت کا مطلب لاپرواہی یا اپنی ذمہ داریوں میں پورانہ کرنے والے کو ”غافل “کہا جاتا ہے ۔لیکن جن معنوں میں ”غافلات“ عورتوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے اس کا معنی ہے بھولی بھالی یا ایسی عورت جو حد درجہ ہوشیاری نہ جانتی ہو، بلکہ سیدھی سادی اور انتہائی مخلص مزاج ہو۔ جسے ہر با ت کی فلسفیانہ وجوہات اور تہہ میں جاکر سمجھنا نہ آتا ہو۔ اندازہ لگائیں کہ اس عورت سے جب مرد بار بار یہ شکایات کرتا ہے کہ تم بات نہیں سمجھتی ؟ تمھیں عقل نہیں ہے؟ تم ایک ہی بات بار بار کیوں کہتی ہو؟ تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو؟ تم کیوں نہیں سمجھتی؟ یہ سارے وہ جملے ہیں جن میں مرد اپنی بیوی سے دانش مندی کی انتہا درجہ توقعات رکھتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس نہج پر نہیں بنایا۔

نوٹ: البتہ کچھ خواتین واقعی علم وعقل وشعور اور دانش کی اعلیٰ سطح پر قائم رہتی ہیں ،لیکن وہ ایک استثنائی صورت حال ہے ۔

آپ علیہ الصلوٰة والسلام اپنی ازواج مطہرات کے کس قدر مزاج شناس تھے اس حوالے آپ علیہ السلام حضرت عائشہ  سے ایک مرتبہ فرماتے ہیں کہ ”عائشہ ! جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتہ چل جاتا ہے “پوچھا کیسے؟

آپ علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں ”جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو وربِّ محمد صلی الله علیہ وسلم(محمد کے رب کی قسم) اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو وربِّ ابراہیم (ابراہیم کے رب کی قسم)“۔

اور جواب میں ام المومنین حضرت عائشہ  فرماتی ہیں:
لاأھجرإلا اسمک ناراضگی کے عین موقع پر بھی میں فقط آپ کا نام چھوڑتی ہوں، باقی دل میں برابر آپ کی محبت برقرار رہتی ہے ۔

یہ کچھ گزارشات ہیں، جن کی زوجین کو ضرورت ہے اور ضرورت ہے کہ شادی سے پہلے نوجوان جوڑے ضرور ان اصولوں سے واقف ہوں۔

وآخردعواناأن الحمد للہ رب العالمین!