حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ

مولانا محمد اسماعیل ریحان

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ خیر القرون کے ان علمائے کبار میں سے ہیں جن کے احسانات علوم ِ اسلامیہ کے ہر شعبے اور ہر شاخ پر ہیں۔ انہیں حبر الامت کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔

آپ حضور صلی الله علیہ وسلم کے سگے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کے فرزند ہیں۔ ہجرت سے پہلے شعب ابی طالب میں بنو ہاشم کی قید کے دنوں میں پیدا ہوئے۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلمنے گھٹی دی ، منھ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا۔ آپ کی والدہ اُم فضل لبابہ بنت الحارث رضی الله عنہا، اُم المؤمنین حضرت میمونہ رضی الله عنہا اور حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کی والدہ ، یہ تینوں خواتین آپس میں سگی بہنیں تھی۔

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت تین سال کے تھے۔ ان کے خاندان نے ہجرت نہیں کی تھی، بلکہ اس وقت تک ان کے والدعباس رضی الله عنہ نے اسلام ظاہر بھی نہیں کیا تھا۔(سیر اعلام النبلاء،:2/331-332، ط: الرسالة)

ذوالقعدہ7ھ میں عمرہٴ قضا کے موقع پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے مکہ سے 12 کلو میٹر دور ”سَرِف“ کے مقام پر ان کی خالہ حضرت میمونہ رضی الله عنہا سے نکاح کیا تھا۔اس نکاح کے انتظامات میں حضرت عباس رضی الله عنہ او ران کی اہلیہ پیش پیش تھے۔(سنن نسائی مجتبیٰ، ح:3272، سیر اعلام النبلاء:2/239،ط: الرسالة) عبدالله بن عباس رضی الله عنہ اس وقت دس برس کے تھے۔

اگلے سال فتح مکہ کے بعد 8ھ کے اواخر میں حضرت عباس رضی الله عنہ اپنے خاندان سمیت مدینہ منورہ منتقل ہو گئے۔ اس وقت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کی عمر گیارہ سال تھی۔ حضور صلی الله علیہ وسلم سے انہیں تقریباً اڑھائی سال استفادے کا موقع ملا۔ قریبی رشتہ داری کی وجہ سے ہر وقت بارگاہ ِ رسالت میں حاضر ہوسکتے تھے ۔ (سیر اعلام النبلاء:3/332)

اس مختصر سی مدت میں ہی ان کی عملی جستجو اور طالب علمانہ ذوق کا اندازہ ہو گیا۔ کبھی کبھی اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی الله عنہا کے ہاں رات کو بھی ٹھہر جاتے، تاکہ معمولات نبویہ کا مشاہدہ کریں۔ اس دوران ہرممکن خدمات بھی انجام دیتے اور دعائیں لیتے۔ایک بار اسی طرح بیت ِنبوی میں ٹھہرے ہوئے تھے تو حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے وضو کے لیے ایک برتن میں پانی ڈال کر رکھ دیا۔ آپ صلی الله عیہ وسلم نے دیکھا تو دریافت فرمایا:” پانی کس نے رکھا ہے؟“

حضرت میمونہ رضی الله عنہا نے فرمایا:” عبدالله بن عباس نے۔“

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
”اللھم فقھہ في الدین وعلمہ التاویل․“ (اے الله! اسے فقہ ِ دین اور علم تفسیر عطا فرما۔) (فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل،ح:1858، صحیح البخاری،ح:143، کتاب الوضوء، باب وضع الماء عند الخلاء)

ایک بار معمولات نبویہ دیکھنے کے لیے خالہ کے گھر رُکے او رتہجد کے وقت حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہی اٹھ گئے۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نوافل کے لیے کھڑے ہوئے تو یہ اقتدا کے لیے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کھینچ کر اپنے برابر کھڑا کر دیا۔ جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے نماز شروع کی تو یہ پھر ذرا سا پیچھے ہٹ گئے۔

جب حضور صلی الله علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:” یہ کیا کیا؟“

انہو ں نے عرض کیا:”أو ینبغي لأحد أن یصلي حذائک وأنت رسول اللہ؟“
(کسی کو کہاں زیب دیتا ہے کہ آپ کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھے، جب کہ آپ الله کے رسول ہیں۔ )

حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس ذہانت اور فہم سے خوش ہو کر دعادی : ”اے الله! ان کے علم اور سمجھ میں اضافہ فرمایا۔“ (مسند احمد،ح:306، الرسالة) حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ تیرہ برس کے تھے۔ اس لیے انہیں پوری طرح استفادے کا موقع نہیں ملا تھا، مگر علوم نبوت کی جستجو دل میں جاگ چکی تھی۔ اس لیے ایک ایک صحابی کے پاس جا کر احادیث یاد کرنا شروع کیں۔ خود فرماتے تھے۔

”جب حضور صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو میں نے ایک انصاری ساتھی سے کہا:

”آؤ! صحابہ سے احادیث سیکھیں، آج وہ بڑی تعداد میں موجودہیں۔“

ساتھی نے کہا:” تعجب ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگوں کو مستقبل میں تمہاری ضرورت پڑے گی اور لوگ تمہارے پاس احادیث او رمسائل معلوم کرنے آئیں گے؟“

اس ساتھی نے اس کام کو کوئی اہمیت نہ دی اور میں اس دھن میں لگ گیا ، صحابہ کرام سے احادیث معلوم کرتا رہتاتھا۔ بعض اوقات کسی صحابی کے بارے میں مجھے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس کوئی حدیث ہے میں ان کے دروازے پر جاتا، وہ سو رہے ہوتے تو میں دروازے پر بیٹھ جاتا یا چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا ، جب وہ باہر نکلتے تو کہتے:”اے رسول صلی الله علیہ وسلم کے چچا زاد! آپ کس ضرورت کے تحت یہاں تشریف لائے؟ مجھے بلوا کیوں نہیں لیا؟“ میں کہتا:” حاضر ہونا میری ذمہ داری ہے۔“ پھر حدیث معلوم کرتا۔

آخر وہ زمانہ آیا کہ اس انصاری ساتھی نے دیکھا کہ لوگ میرے ارد گرد جمع ہیں او رمجھ سے احادیث ومسائل دریافت کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر اس ساتھی نے کہا:”یہ نوجوان زیادہ سمجھ دار ثابت ہوا۔“ (الاصابة:4/125،ط:العلمیة)

جن صحابی سے کچھ سیکھتے ان کا ویسا ہی ادب کرتے جیسا کوئی اپنے اساتذہ کا کیا کرتا ہے۔ ایک بار حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہ کی سواری کی لگا م تھام لی۔ انہوں نے فرمایا:”رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چچا زاد! ایسا نہ کریں۔“

حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا:”ھکذا أمرنا أن نفعل بعلمائنا“․

”ہمیں اپنے علماء کا ایسا ہی احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔“

حضرت زید رضی الله عنہ نے اسی وقت حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کے ہاتھوں کو چوم کر فرمایا:”ھکذا أمرنا أن نفعل بأھل بیت نبینا․“

”ہمیں خاندان ِ نبوت کے ساتھ ایسی ہی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے۔“(الاصابة:4/127)

حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی خلافت میں حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما عنفوانِ شباب میں تھے۔ اس کے باوجود خلیفہٴ ثانی انہیں خصوصی مجلسوں میں اکابر صحابہ کے ساتھ شریک کرتے تھے۔ پیچیدہ مسائل میں ان کی رائے اور فیصلے کو اہمیت دیتے تھے۔ ان کے والد گرامی حضرت عباس رضی الله عنہ نے یہ دیکھ کر ایک بار فرمایا:” میں دیکھتا ہوں کہ امیر المؤمنین تمہیں خلوت میں بلاتے ہیں ،تم سے مشورہ لیتے ہیں او راکابر صحابہ پر تمہیں ترجیح دیتے ہیں۔ میں تمہیں چا رباتوں کی نصیحت کرتا ہوں: کبھی ان کا راز فاش نہ کرنا۔ کبھی وہ تم سے جھوٹ سننے نہ پائیں۔ ان کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرنا۔ ان کی خیر خواہی کی بات ان سے کبھی مت چھپانا۔“ عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے ان میں سے ہر ایک بات کو ہزاروں نصیحتوں سے زیادہ اہمیت دی اور خلفائے راشدین کے مشیر خاص رہے۔ (عیون الاخبار لابن قتیبة الدینوری:1/73،ط: دارالکتب العلمیة)

ایک بار کسی نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے گلہ کیا کہ ” آپ ابن عباس کو شریک کرتے ہیں ، ہمارے بچوں کو نہیں؟“

حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا:” وہ نوجوان ہونے کے باوجود پختہ فکر، ذہین اور دور اندیش ہے۔“ (الاصابة:4/127)
اکابر صحابہ ان کی صلاحیتوں کے قائل تھے۔ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کہتے تھے:”اگر وہ ہمارے ہم عمر ہوتے تو ہم میں سے کوئی ان کی برابری نہ کرسکتا۔“ یہ بھی فرماتے:” قرآن مجید کے بہترین مفسر ابن عباس رضی الله عنہ ہیں۔“

حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے تھے:”إنہ لغوّاص“․” وہ علم کے سمندر سے موتی نکالنے والے ہیں۔“

حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا قول ہے:” عبدالله بن عباس حج کے مسائل سب سے زیادہ جانتے ہیں۔“

عروہ بن زبیر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے:” میں نے ابن عباس جیسا شخص کبھی نہیں دیکھا۔“

حضرت مجاہد رضی الله عنہ کا قول ہے:” عبدالله بن عباس رضی الله عنہ علم کا سمندر تھے۔“

مسروق رضی الله عنہ کہتے تھے:” جب میں ان کا چہرہ دیکھتا تو کہہ اٹھتا: یہ حسن وجمال میں بے مثال ہیں۔ وہ گفت گو کرتے تومیں انہیں سب سے فصیح وبلیغ پاتا۔ جب حدیث بیان کرتے تو میں پکاراٹھتا کہ سب سے بڑے عالم ہیں۔“

اعمش رحمہ الله نے انہیں سورہٴ نور کی تفسیربیان کرتے سنا تو بے ساختہ بولے:
”اگر روم وفارس والے یہ بیان سن لیتے تو اسلام قبول کر لیتے۔“ (الاصابة:4/128)

آپ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے بھی معتمد مشیر رہے۔ دور ِ خلافت میں جہادِ افریقہ میں شریک ہوئے، وہاں کے بادشاہ جُرجیر سے بات چیت کے لیے آپ کو بھیجا گیا۔ آپ کی عالمانہ باتوں اور فصاحت وبلاغت سے متاثر ہو کر جُرجِیر کہہ اٹھا:”آپ عرب کے یکتائے روز گار عالم ہیں۔“ (الاصابة: 4/131) 35ھ میں حضرت عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ نے گھر کے محاصرے کے دوران انہی کو امیر حج مقرر فرمایا۔(تاریخ الطبری،35ھ)

حضرت علی رضی الله عنہ کے دور میں آپ ان کے دست ِ راست رہے اور بصرہ کے امیر مقرر ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریبا چالیس سال تھی۔ علمائے بصرہ کہتے تھے کہ ہم نے انہیں حدیث، فقہ، تفسیر، شعر، ریاضی، علم میراث، سیرت وتاریخ سمیت تمام علمی کمالات میں بے نظر پایا۔ (اسد الغابہ:3/291،ط: العلمیة)

بصرہ میں آپ نے درس حدیث کا حلقہ قائم کیا، رمضان المبارک میں آپ کے پاس دورہٴ فقہ کے لیے ذی استعداد طلبہ کا ہجوم ہو جاتا تھا۔ مہینہ گزرنے سے پہلے آپ انہیں فقیہ بنا دیتے تھے۔ (الاصابة:4/129)

درس کا انداز بڑا ہی دل آویز ہوا کرتا تھا۔ حضرت سعید بن جبیر رضی الله عنہ فرماتے تھے:
”میں حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے حدیث سنتا تھا۔ وہ اس عالمانہ اور والہانہ انداز سے حدیث سناتے کہ اگر وہ اجازت دیتے تو میں ان کے سر کو بوسہ دے دیتا۔“ (الاصابة:4/129)

حضرت علی رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے اور سیاسی امور سے لا تعلق ہو کر خود کو علوم ِ دینیہ کی خدمت کے لے وقف کر دیا۔ یہاں آپ کا حلقہٴ درس اتنا مقبول ہوا کہ ہر طرف سے شاگرد اُمڈاُمڈآتے تھے۔
ان کے ایک شاگرد فرماتے تھے:” وہ چند باتوں میں تمام لوگوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ان سے پہلے جس قدر احادیث منقول ہوئی تھیں انہیں ان کا علم تھا۔ علم فقہ میں بھی ان کو برتری تھی۔ حلم او ربرد باری میں علم انساب میں اور تاویل وتفسیر میں سب سے فائق تھے۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی الله عنہم کے فیصلوں کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ ایک دن بیٹھتے تھے اور سوائے فقہ کے ان دن کچھ بیان نہیں کرتے تھے، ایک دن ان کا موضوع سخن صرف تفسیر ہوا کرتا تھا، ایک دن ان کی مجلس کا موضوع صرف اشعار ہوا کرتے تھے، ایک دن ان کا موضوع تاریخ عرب ہوتا تھا۔ (اسد الغابہ:3/291)

آخر چند سالوں میں جب عبدالله بن زبیر رضی الله عنہ اور عبدالملک کی کش مکش جاری تھی، آپ طائف منتقل ہو گئے اور وہیں 68ھ میں انتقال فرمایا۔ اس وقت آپ کی عمر71 بر س تھی۔ محمد بن حنفیہ رضی الله عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔(الاصابہ:4/125 تا133)