حرام او رمشتبہ سے اپنے آپ کو بچائیں

حرام او رمشتبہ سے اپنے آپ کو بچائیں

مولانا غلام مصطفی رفیق

حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ
ذخیرہٴ احادیث میں چند احادیث ایسی ہیں جنہیں اُمت کے علماء اور فقہائے کرام نے نہایت اہم اور اُصولی سمجھا ہے، ان ہی میں سے ایک حدیث حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ سے صحیح مسلم میں منقول ہے جو حلال وحرام او رمشتبہات کے احکام سے تعلق رکھتی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ پہلے صحابی ہیں جوانصار میں سے سن 2ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، نہایت ہی خوش بخت ہیں کہ ان کی والدہ حضرت عمرہ بنت رواحہ رضی الله عنہا انہیں لے کر سرکار ِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ کو کھجور چبا کر کھلائی، جسے تحنیک کہتے ہیں۔ تاریخ ابن خلدون میں ان کا ایک ملفوظ لکھا ہوا ہے کہ ”مجھے کم زور ہو کر الله کی اطاعت میں رہنا زیادہ محبوب ہے، بہ نسبت اس کے کہ میں گناہ گار ہو کر عزت ولا بنوں۔“

کتب ِ حدیث میں ان کا ایک مشہور واقعہ بھی آتا ہے اور یہ واقعہ ایک فقہی مسئلہ سے بھی تعلق رکھتا ہے ، اس کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے اور وہ مسئلہ ہمارا معاشرتی مسئلہ بھی ہے، حقوق سے بھی متعلق ہے، یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :
”میرے والد حضرت بشیر رضی الله عنہ مجھے لے کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور فرمایا کہ : میں نے اپنے اس بیٹے کو کچھ دیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ ان کے والد نے عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے ( نعمان) کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ صلی الله علیہ و سلم نے ان کے والد سے فرمایا کہ: کیا تم نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر نعمان سے بھی اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت نعمان رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے ایک چیز دی تو میری والدہ نے میرے والد حضرت بشیر رضی الله عنہ سے کہا کہ : میں اس پر اس وقت تک رضا مند نہیں ہوں جب تک کہ تم اس ہبہ پر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کو گواہ نہ بنالو، چناں چہ میرے والد آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ : یا رسول الله! میں نے اپنے بیٹے نعمان کوایک چیز دی ہے اور میری اہلیہ عمرہ بنت رواحہ نے مجھ سے کہا کہ میں اس ہبہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم کو گواہ بنا لوں۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:”افعلت ھذا بولدک کلھم؟“…” جس طرح تم نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے، کیا اسی طرح اپنے سب بیٹوں کو بھی ایک ایک غلام دیا ہے؟“ انہوں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”اتقوالله واعدلوا فی اولادکم“… ”الله تعالیٰ سے ڈرو او راپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“ حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ :” میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ سنا: ”واھوی النعمان باصبعیہ إلی اذنیہ“…” حضرت نعمان رضی الله عنہ نے اپنے سننے کو یقینی طور پر بیان کرنے کے لیے اپنی انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میرے ان کانوں نے خود سنا۔“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”إن الحلال بین وإن الحرام بین“…” حلال بھی واضح ہے او رحرام بھی واضح ہے۔“ یہ پہلا جملہ ہے اوراس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کومعلوم ہے اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا سب کو معلوم ہے، یعنی ان دونوں کا معاملہ صاف اور روشن ہے۔ واضح ہے کہ انسان حلال کو اختیار کرے اور حرام سے اپنے آپ کو بچائے۔حلال جیسے نیک کام، اچھی گفت گو،حلال ذرائع سے کمایا ہوا مال وغیرہ۔ اور حرام جیسے کفر ہے، شرک ہے، مردار ہے، جھوٹ ہے، سود کھانا ، غیبت کرنا، چغل خوری کرنا، شراب پینا ،کسی کا مال چھین لینا، کسی کے حق پر قبضہ کر لینا ، وغیرہ تو ان میں سے حلال چیزوں کو انسان اختیار کرنے والا بنے اور حرام سے دور رہے۔

حلال پر قناعت کرنا
حلال پر قناعت کرنے اور حلال کو اختیار کرنے سے الله تعالیٰ برکت بھی دیتے ہیں اور نیک اعمال کی توفیق بھی عطا فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے کئی مقامات پر حلال کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کھانے پینے سے متعلق بھی انبیاء علیہم السلام کو او ران کے ذریعہ ان کی اُمتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ حلال اور پاکیزہ چیزوں کو کھاؤ اور نیک اعمال کرو، سورہٴ مومنون میں ارشاد ہے:

﴿یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ﴾․(المومنون:51)
ترجمہ:” اے پیغمبرو! تم ( اور تمہاری امتیں) نفیس، پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو ( اور) میں تم سب کے کیے ہوئے کو خوب جانتا ہوں۔“

مفسرین نے لکھا ہے کہ الله تعالیٰ نے یہاں حلال روزی کے ساتھ عمل صالح کا ذکر فرمایا ہے، جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے۔ جب انسان کی غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق اسے خود بخود ہونے لگتی ہے اور جب غذا ہی حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس راہ میں مشکلات حائل ہو جاتی ہیں اور آدمی نیکی سے محروم ہو جاتا ہے۔

حرام کی نحوست
اسی طرح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا کھانا پینا حرام ہو، اسے دعاؤں کی قبولیت کی بھی آس نہیں لگانی چاہیے، اسے دعاؤں کی قبولیت کی بھی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ سنن ترمذی میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا: ” یطیل السفر اشعث أغبر یمد یدہ إلی السماء“…” جو طویل لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال ہے او را س کے بال خاک آلود ہو رہے ہیں، وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے “:”یا رب ! یارب!“…” اے میرے رب ! اے میرے پرروردگار!“ یعنی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا کر پکار رہا ہوتا ہے، اس کی ظاہری حالت سے مسکنت عیاں ہے، قابل رحم شخص لگتا ہے، ایسی حالت میں اس کی دعا قبول ہونی چاہیے ، قبولیت کے ظاہری اسباب بھی موجود ہیں اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسافر کی دعا رد بھی نہیں ہوتی، اس سب کچھ کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:” ومطعمہ حرام، ومشربہ حرام، وملبسہ حرام، وغذی بالحرام“…” اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام، پینا اس کا حرام، کپڑے اس کے حرام اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا“…” فأنی یستجاب لذلک؟“…”اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو؟!“ (ترمذی)

آج کل بہت سی دعائیں کی جاتی ہیں، مگر لوگوں کا شکوہ یہ ہوتا ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اس لیے ہر شخص کو اپنے حال پر غور کرنا چاہیے او راپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے، میں کتنا حلال کماتا ہوں اور کس قدر اپنے آپ کو حرام سے بچاتا ہوں؟

مستجاب الدعوات بننے کا عمل
معلوم ہوا کہ دعاؤں او رعبادات کی قبولیت کے لیے بھی حلال کھانا شرط ہے، اسی لیے ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ نے گزارش کی کہ یا رسول الله!”ادع الله ان یجعلني مستجاب الدعوة“…” آپ میرے حق میں دعا کیجیے کہ الله تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے۔“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یا سعد! طیب مطعمک، تکن مستجاب الدعوة“…” سعد! پاکیزہ چیزیں کھاؤ ،حلال لقمہ کھایا کرو، الله تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا۔“

حرام کی آمیزش سے بھی بچنے کا حکم
ہمارا دین او رہمارے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں حرام کی ذرہ برابر آمیزش سے بھی بچنے کا حکم دیاہے حرام مال اگرچہ قلیل کیوں نہ ہو اس کو بھی اپنے حلال مال میں خلط ملط نہ کریں، حرام کو حلال میں شامل نہ کریں، اگرچہ زیادہ مال حلال ہو اور اس میں کسی قدر حرام شامل ہو جائے یہ بھی انسان کے لیے عبادات اور دعاؤں کی قبولیت کی راہ میں روکاوٹ بن جاتا ہے۔ مشکوٰة شریف میں سیدنا حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے ایک روایت منقول ہے ، وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:”من اشتری ثوبا بعشرة دراھم وفیہ درھم حرام“…” اگر کوئی شخص ایک کپڑا دس درہم میں خریدے او ران دس دراہم میں سے ایک درہم بھی حرام مال کا ہو ”تو“”لم یقبل الله لہ صلاة مادام علیہ“…” الله تعالیٰ اس وقت تک اس شخص کی نماز نہیں قبول کرے گا جب تک کہ آدمی کے جسم پر وہ کپڑا ہو گا۔“ اس حدیث کے بیان کرنے کے بعد حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما نے اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں او رکہا کہ :”صمتا إن لم یکن النبی صلی الله علیہ وسلم سمعتہ یقولہ“…” یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے یہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہو۔“

مشتبہات سے بچنا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:”وبینھما مشتبھات، لا یعلمھن کثیر من الناس، فمن اتقیٰ الشبھات استبرأ لدینہ وعرضہ، ومن وقع فی الشبھات وقع في الحرام․“
ترجمہ:”حلال وحرام کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں ، جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا، اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کومحفوظ کر لیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا۔“

یعنی کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی حرمت یا حلت ، یعنی ان کے حلال وحرام ہونے کے بارے میں دلائل مختلف ہوتے ہیں اور دلائل کے تعارض کی وجہ سے کوئی واضح حکم معلوم نہیں ہوتا، بلکہ یہ اشتباہ رہتا ہے کہ آیا یہ چیزیں حرام ہیں یا حلال ہیں اور ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی، تو اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی، تو عام شخص کے بارے میں شریعت کی تعلیم یہی ہے کہ ایسی مشتبہ چیزوں سے انسان اپنے آپ کو بچائے، مشتبہ چیزوں سے بھی احتراز اور اجتناب کرے۔ علماء نے اس کی بہت ساری مثالیں لکھیں ہیں اور یہ اشتباہ معاملات میں زیادہ پیش آسکتا ہے، لہٰذا ایسے معاملہ سے بھی انسان بچے جس میں شبہ پایا جاتا ہو اور جو آدمی شبہات سے بچتا ہے وہ حرام سے بھی محفوظ رہے گا او رجو شبہات سے نہیں بچے گا وہ ایک نہ ایک دن حرام میں واقع ہوجائے گا او رجہاں کہیں شبہ پیش آئے وہاں انسان کو مستند علماء سے پوچھ لینا چایہے کہ آیا یہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟ یہ کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟ وغیرہ۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کامشتبہ کھجور نہ کھانا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں صحیح بخاری میں حضرت انس رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم راستے سے گزر رہے تھے، وہاں آپ نے ایک کھجو رکا دانہ پڑا دیکھا، تو ارشاد فرمایا کہ: ”لو لا انی اخاف ان تکون من الصدقة لاکلتھا‘…” اگر مجھے اس کھجو رکے بارے میں صدقہ کا خوف نہ ہوتا تو میں اسے کھا لیتا“ یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صدقہ کے شبہ کی وجہ سے وہ کھجور نہیں کھائی، باوجودیکہ آپ کو ضرورت تھی۔ اس لیے ضرورت کے مواقع پر بھی انسان اپنے آپ کو مشتبہ سے بچا لے ۔یہ کمال احتیاط ہے۔

امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کا مشتبہ نفع سے بچنا
حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ :جہاں شبہ آجائے اس سے بھی اپنے آپ کوبچاؤ۔ امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ بہت بڑے فقیہ، عالم او ربزرگ گزرے ہیں، یہ کپڑے کے بہت بڑے تاجر بھی تھے۔ آپ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ مشتبہ چیزوں سے بالکل اجتناب کرتے تھے۔ ان کے بار ے میں ایک واقعہ یہ لکھا ہے کہ انہوں نے ایک کپڑا بنوا کر سپلائی کیا اور کپڑا لاکھوں روپے کا تھا، ایک تاجر کو وہ کپڑا فروخت کرنے کے لیے بھیجا، اس تاجرنے یہ دیکھا کہ فی الحال اس کے کپڑے کے دام ذرا سستے ہیں او رکچھ مہینوں بعد اس کے دام زیادہ ہوجائیں گے تو کپڑا فروخت کرنے سے روک لیا،تاکہ کچھ عرصے کے بعد زیادہ بیچنے سے زیادہ رقم وصول ہو۔کچھ ماہ بعد جب لوگوں کی ضرورت بڑھی تو انہوں نے دام بڑھا کر کپڑا فروخت کر دیا، اب جب زیادہ رقم لے کر امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کے پاس پہنچے او رخوشی سے بتایا کہ اس کے کچھ عرصہ روک دینے او رکچھ قیمت بڑھانے سے زیادہ دام وصول ہوئے ہیں، تو امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ نے عجیب جواب دیا، فرمایا کہ : معاذ الله! الله کی پناہ! آپ نے تو لوگوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے، یہ کہہ کر خفا ہو گئے، فرمایا کہ : اس مال میں اشتباہ پیدا ہو گیا، لوگوں نے اپنی مجبور ی کی وجہ سے زیادہ رقم ادا کی ہے۔امام صاحب رحمة الله علیہ اس نفع پر خفا ہوئے کہ چوں کہ اس نفع میں شبہ پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا یہ مال میں نہیں لوں گا، یہ میرے کام کا اب نہیں ہے۔ فرمایا:جاؤ! یہ سب غریبوں میں تقسیم کر دو، اس لیے کہ جب لوگوں کو ضرورت تھی تو تمہیں اسی وقت یہ چیز مقررہ قیمت پربیچنی چاہیے تھی۔ اصل رقم اور نفع سارا تقسیم کروا دیا۔ دیکھیے! یہ لوگ کیسے اپنے آپ کو مشتبہات سے بچاتے تھے!

صحابہ رضی الله عنہم کا طرز عمل
اور صحابہ کرام رضی الله عنہ کا تو کیا ہی کہنا! ان کے بلند رتبے اور ذوق تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے ! یہ حضرات اور جائز امور کو بھی بسا اوقات ترک کر دیتے تھے کہکہیں ہم ممنوع کی جانب نہ چلے جائیں۔

حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کے بارے میں بخاری شریف میں آتا ہے کہ ان کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز ان کی خدمت میں پیش کی، آپ نے اس چیز میں سے کچھ کھا لیا، اس کے بعد غلام نے بتایا کہ مجھے یہ چیز اس طرح حاصل ہوئی تھی کہ اسلام کے دور سے پہلے جاہلیت کے دور میں ایک آدمی کو میں نے اپنے آپ کو کاہن ظاہر کرکے کچھ بتلایا تھا، جیسے نجومی کاہن لوگ ہوتے ہیں، لوگوں کو مستقبل کے احوال وغیرہ بتلاتے رہتے ہیں، شریعت نے ان چیزوں سے سخت منع کیا ہے، ایسے لوگوں کے پاس جانا بھی جائز نہیں، چہ جائیکہ ان سے مستقبل کے احوال پوچھے جائیں یا ان پر یقین کیا جائے، شریعت میں اس کی سخت ممانعت ہے۔ بہرحال! غلام نے کہا کہ اس کہانت کے بدلہ میں اس شخص نے مجھے یہ چیز دی تھی، جو میں نے آپ کو کھانے کے لیے دی۔ بخاری شریف میں ہے :” فادخل ابوبکر یدہ فقاء کل شیءٍ في بطنہ“…” صدیق اکبر رضی الله عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے فوراً حلق میں انگلی ڈال کر قے کر دی کہ یہ چیز تو مشتبہ ہو گئی“۔ دیکھے! یہ لاعلمی میں جو کھا لیا یہ حرام نہیں تھا، مگر یہ ان حضرات کا تقوی تھا کہ جیسے ہی اشتباہ پیدا ہو گیا تو انہوں نے فوراً اپنے پیٹ سے اس چیز کو نکال دیا۔

اسی طرح حدیث کی کتابوں میں سیدنا عمر فارق رضی الله عنہ کے بارے میں حضرت زید بن اسلم کہتے ہیں کہ ایک دن امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے دودھ نوش فرمایا تو انہیں بہت اچھا لگا ،جس شخص نے انہیں دودھ پلایا تھا اس سے امیر المومنین نے پوچھا کہ یہ دودھ کہا ں کا ہے ؟ اس نے انہیں بتایا کہ ایک پانی پر (یعنی نام لے کر بتایا کہ فلاں جگہ جہاں پانی(چشمہ تھا) میں گیا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ زکوٰة کے بہت سے اونٹ موجود ہیں او رانہیں پانی پلایا جارہا ہے، پھر اونٹ والوں نے اونٹوں کا تھوڑا سا دودھ نکالا، اس میں سے تھوڑا سا دودھ میں نے بھی لے کر اپنی مشک میں ڈال لیا، یہ وہی دودھ ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منھ میں ڈالا اور قے کر دی۔حضرت عمر رضی الله عنہ کا یہ عمل کمال تقویٰ او رانتہائی ورع کی بنا پر تھا، ورنہ تو جہاں تک مسئلے کی بات ہے، یہ تو اگر مستحق زکوٰة، مال کا مالک ہو جانے کے بعد اسے کسی غیر مستحق زکوٰة کو ہبہ کر دے یا اسے تحفہ کے طور پر دے دے تو اسے استعمال میں لانا او رکھانا جائز ہے۔

مشتبہ الفاظ سے اجتناب کا حکم
ایسی باتوں سے اجتناب کریں جن سے اشتباہ پیدا ہوتا ہو، قرآن کریم نے اہل ِ ایمان کو مشتبہ الفاظ استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ احادیث ِ مبارکہ میں بھی اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اپنے غلام یا باندی کو ”عبدي“اور ”امتی“ نہ کہو، اگرچہ”عبدي“ کا ظاہری ترجمہ یہی ہے کہ اے میرے غلام! مگر اس لفظ سے یہ اشتباہ ہو سکتا ہے کہ پکارنے والا شاید اپنے آپ کو معبود سمجھ رہا ہو او رکہہ رہا ہو کہ ”عبدي“ اے میرے بندے! اور ”امتی“ اے میری بندی! حالاں کہ معبود تو صرف الله کی ذات ہے، تو ان الفاظ کے استعمال ے منع فرما دیا، ان کے بجائے فرمایا کہ : یہ کہہ دو: اے جوان! اسی طرح صحیح مسلم کی ایک روایت میں ارشاد فرمایا کہ : ”لا تقولوا للعنب الکرم“…” انگور کو ”کرم“ نہ کہو “کیوں کہ کرم کے معنی فیاضی، سخاوت اور بخشش کے ہیں او رکرم تو مومن آدمی کا دل ہوا کرتا ہے۔ انگور سے چوں کہ شراب بنائی جاتی ہے، اس لفظ سے بالواسطہ شراب کی تعریف ہوتی ہے، اس لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے انگور کو کرم کہنے سے بھی منع فرما دیا۔

تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا، اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کر لیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا۔ لہٰذا جو شخص مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرتا ہے اسے نہ اپنے دین کے معاملہ میں کسی خرابی کا خوف رہے گا اور نہ کوئی اس پر طعن وتشنیع کرے گا۔ پھر رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلاہو گیا اور اس کی مثال اس چروا ہے کہ سی ہے جو ممنوعہ چرا گاہ کی مینڈپر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چرا گاہ میں گھس کر چرنے لگیں۔“

آپ( صلی الله علیہ وسلم) نے مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے والے کو ممنوعہ چراگاہ کے قریب عام جانور چرانے والے چَروا ہے کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح چروا ہے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو کسی دوسرے شخص کی ممنوعہ چرا گاہ سے دورر کھ کر چرائے، تاکہ اس شخص کے جانور اس دوسرے آدمی کی چرا گاہ میں نہ گھس جائیں او راگر چرواہا اپنے جانوروں کو ممنوعہ چرا گاہ کی مینڈ پر چرائے گا تو پھر اس بات کا ہر وقت اندیشہ رہے گا کہ اس کے جانور ممنوعہ چرا گاہ میں گھس جائیں، جس کے نتیجہ میں اسے مجرم قراردے دیا جائے گا۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ مشتبہ چیزوں سے دور رہے، تاکہ حرام چیزوں میں مبتلا نہ ہو جائے اور مشتبہ چیزوں سے دور رہنے کا حکم اسی بنا پر ہے، تاکہ آدمی حرام سے بچ پائے اور شریعت کی اصطلاح میں اس کو ”سد ِذرائع“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ امام قرطبی رحمة الله علیہ نے اس کی ایک مثال حدیث سے بیان فرمائی ہے۔حدیث پاک میں ہے :”من الکبائر شتم الرجل والدیہ“…”اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔“ صحابی رضی الله عنہ نے یہ سن کر عرض کیا: یا رسول الله! کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ اپنے ماں باپ کو اگرچہ حقیقت میں خود گالی نہیں دیتے، مگر ان کو گالی دلوانے کا سبب ضرور بنتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ اس حدیث کے ذریعہ معلوم ہوا کہ دوسروں کے والدین کو گالی دینا یہ ذریعہ اور سبب بنتا ہے اپنے والدین کو گالی دلوانے کا، لہٰذا دوسروں کے والدین کو سب وشتم کر دینے سے بھی منع کر دیا، تاکہ یہ ذریعہ اور سبب نہ بنے آدمی کے اپنے والدین کی بے حرمتی کا۔ اس کو ”سد ِ ذریعہ“ کہا جاتاہے۔ اسی طرح حدیث میں شبہات سے بچنے کاحکم دیا، تاکہ حرام میں پڑنے سے آدمی محفوظ ہو جائے۔

اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے، اس کی اپنی حدود ہوتی ہیں، جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی اور جو داخل ہو جائے وہ مجرم سمجھا جاتا ہے، سزا کا مستحق بنتا ہے، اس کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ اسی طرح الله تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ اور حدود حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لیے ممنوع قراردے دیا گیا ہے، لہٰذاجو کوئی اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہو گا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کرے گا وہ عذاب کا مستحق قرار دیا جائے گا او رپھران حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہوگی، جیسے، شرک اور کچھ گناہ اور جرائم ایسے ہیں جو الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چاہے ان کے مرتکب کو الله تعالیٰ بخشے، چاہے نہ بخشے، البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسی چیزوں کے قریب بھی نہ جائے جن کی وجہ سے حرام کا دروازہ اس کے لیے کھلتا ہو یا جن کی وجہ سے وہ حرام میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رکھتا ہو۔ علماء لکھتے ہیں کہ جب بندہ اپنی معاشی ، تمدنی اور سماجی زندگی کے تمام گوشوں میں ضرورت پر اکتفا کر لیتا ہے، یعنی بقدر ِ ضرورت ہی کمائی ،نفع اور کھانا پینا ہو کہ جس سے اس کا وجود اور اس کی عزت باقی رہے تو ایسا شخص اپنے دین میں ہر خطرہ سے سلامت رہتا ہے او رجب انسان ضرورت کی حد سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو مکروہات میں داخل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ حرص وہوس حد ِ مکروہات سے نکال کر محرمات کی حد میں داخل کر دیتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اس کا اگلا قدم کفر میں پہنچ جاتا ہے۔ العیاذ بالله!

حدیث مبارکہ کے آخر میں رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ : ”اس بات کو بھی ملحوظ رکھو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ (ایمان او راعمال خیر کی وجہ سے ) درست رہتا ہے تو پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکڑے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، یاد رکھو! گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے۔“ علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں اخیر میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دل کا ذکر کیا ہے اور حدیث کی ابتدا میں حلال وحرام اور مشتبہات کا ذکر ہے۔ اس ترتیب سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ دل کی صفائی او رپاکی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان حلال پر اکتفا کرنے والا بنے۔ حرام سے بھی اور مشتبہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھے۔ الله تعالیٰ ہمیں حلال پرقناعت نصیب فرمائے اور حرام اور مشتبہ چیزوں سے ہمیں محفوظ فرمائے۔