جامعہ فاروقیہ کراچی کا جلسہ ٴ دستار بندی

جامعہ فاروقیہ کراچی کا جلسہ ٴ دستار بندی

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

جامعہ فاروقیہ کراچی کی تقریب دستار بندی میں جامعہ فاروقیہ کراچی کے استاذ الحدیث، رئیس دارالافتاء، استاذ محترم حضرت مولانا محمدیوسف افشانی صاحب دامت برکاتہم، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان ، حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب دامت برکاتہم نے اس موقع پر مجمع عام سے خطاب بھی فرمایا، ان حضرات کے بیانات کو قدرے اختصار کے ساتھ نذر قارئین کیا جاتا ہے۔

استاذ محترم حضرت مولانا محمدیوسف افشانی صاحب دامت برکاتہم نے مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میرے عزیز طلباء او رمہمانان گرامی قدر! اپنی قلت بضاعت اور پیرانہ سالی کی وجہ سے کوئی طویل گفت گو میرے لیے آسان نہیں ہے۔ لیکن اپنے استاذ محترم، رئیس المحدثین نوّرالله مرقدہ سے چند باتیں جو اس موقع پہ ہم سنا کرتے تھے او رکچھ میری یاداشت میں محفوظ ہیں، میں وہی آپ کے سامنے پیش کروں گا۔

حضرت شیخ رحمة الله علیہ ایسے موقع پر طلباء سے ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ، آپ کے سروں پر جو یہ دستار سجائی جائے گی درحقیقت یہ دستار فضیلت اساتذہ کرام کا اعتماد ہے اپنے طلبا پر، اعتماد بایں معنیٰ کہ یہ طلباء جو ہماری صحبت میں رہے باہر جاکر ان یادوں کو فراموش نہیں کریں گے، جو نصیحتیں درس گاہ میں ان کو کی گئیں ان نصیحتوں کو فراموش نہیں کریں گے۔

دوسری بات جو حضرت رحمة الله علیہ فرمایا کرتے تھے وہ یہ کہ اخلاق حمیدہ سے ہمیشہ آراستہ رہیں اور رذائل سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔

عالم چاہے کتنا بڑا ہو، لیکن اگر وہ متکبر ہے، اوّل تو وہ الله کی نگاہ سے گر جاتا ہے، جب الله کی نگاہ سے گر گیا تو مخلوق کی نگاہ سے بھی وہ گر جاتا ہے۔

اگر آپ بااخلاق ہوں گے تو آپ کا فیض جاری ساری ہو گا، بد اخلاق ہوں گے تو آپ کا فیض چند انچوں سے بھی آگے نہیں بڑھے گا، بلکہ علمی فیض سے آپ خود بھی محروم رہیں گے۔

شیخ سعدی رحمہ الله فرماتے ہیں:
        ہر کجا چشمہ بود شیریں                     .        …..مردم ومرغ ومور گرد آیند
        کس نہ بیند کہ تشنگان حجاز            …..برلب آب شور گرد آیند

کہ جہاں بھی آپ میٹھا چشمہ دیکھیں گے، میٹھے چشمے کے پاس انسان بھی جمع ہوتے ہیں، حیوان بھی، پرندے بھی، حتی کہ چیونٹیاں بھی میٹھے چشمے کے پاس پہنچ جاتی ہیں، لیکن پانی پینے کے لیے کوئی بھی کھارے کنویں کے پاس یا کھارے چشمے کے پاس نہیں جاتا۔

حضرت عبدالله بن المبارک رحمة الله علیہ ایک دفعہ سفر پر تشریف لے گئے اور حضرت اکثر سفر فرمایا کرتے تھے، لوگ آپ کے ساتھ ہوتے تھے، ایک سفر میں ایک بد اخلاق آپ کے ساتھ ہوا، اس بد اخلاق نے سب کی ناک میں دم کیا ہوا تھا، سب کو پریشان کیا ہوا تھا، خیر سفر جب ختم ہوا، سارے ساتھی الگ الگ منتشر ہونے لگے تو حضرت عبدالله بن مبارک رحمة ا لله علیہ ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگے، ساتھی قریب آئے کہ حضرت آپ کیوں رو رہے ہیں؟ تو فرمایا: فلاں ساتھی ہم سے الگ ہو رہا ہے، اس لیے میں رو رہا ہوں، تو ساتھیوں نے کہا کہ حضرت یہ تو اچھا ہوا، ایک بد اخلاق ہے، اس سے ہماری جان چھوٹ گئی، یہ تو اچھا ہوا۔

فرمایا کہ ٹھیک ہے ہم سے وہ جدا ہو گیا، ہم اس کی دل آزاری سے محفوظ ہو گئے، لیکن اس کی بد اخلاقی اس کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے، سوئے خلق، بد اخلاقی اس کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے، یہ جب گھر میں جائے گا گھر والے اس سے تنگ ہوں گے، دوست احباب اس سے تنگ ہوں گے، اس پر مجھے رونا آرہا ہے کہ خود بھی عذاب میں اور دوسروں کو بھی یہ عذاب میں رکھے گا۔

ایک مرتبہ نعمان بن منذر نے اوس بن حارثہ کو بلایا، نعمان بن منذر عربوں کے بادشاہ تھے او راوس بن حارثہ اپنی قوم کے سردار تھے، تو اوس بن حارثہ سے کہا کہ حاتم طائی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ اور آپ کا مقام اس کے مقابلے میں کیا ہے ؟ اوس بن حارثہ نے کہا، بادشاہ سلامت! حاتم طائی، حاتم طائی ہیں، لن أصلح أن اکون عبداً لہ مجھ میں تو اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ میں اس کا غلام بن سکوں۔

اس کے بعد نعمان بن منذر نے حاتم طائی کو بلایا، اس سے کہا کہ اوس بن حارثہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ تو حاتم طائی نے جواب میں کہا ، اوس بن حارثہ قوم کے سردار ہیں، بڑے آدمی ہیں:” لن أصلح أن اکون مملوکا لہ“ میں تو اس کا غلام بننے کا بھی لائق نہیں، وہ تو بہت بڑے آدمی ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وقت کے بادشاہ نعمان بن منذر نے کہا، یہ ہے حقیقی سرداری کہ حسد کو بالائے طاق رکھ دیا، ورنہ عام طور سے ایک دوسرے کے خلاف بولتے ہیں۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالله بن المبارک رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:أین علماء زماننا، أین قرّاء زماننا عن ھذہ القصَّة کہ ہمارے زمانے کے علماء، ہمارے زمانے کے قرّاء کہاں ہیں؟ یہ واقعہ ان کے سامنے نہیں ہے؟!

تیسری بات حضرت شیخ رحمہ الله فرمایا کرتے تھے کہ اخلاق حاصل کرنے کے لیے صحبت کی ضرورت ہے، اس لیے میں اپنے عزیز طلبا سے یہ گزارش کروں گا کہ جتنا موقع ملے جب بھی موقع ملے آپ اساتذہ کرام سے مکمل مربوط رہیں، جب تک آپ اپنے اساتذہ سے مربوط رہیں گے آپ کام یاب رہیں گے #
        پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ

جب تک آپ اساتذہ کرام کے ساتھ مربوط رہیں گے ان شاء الله آپ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوں گے، جو اساتذہ سے کٹ کر یہ سمجھے کہ میں بڑا ہوں یہ اس اونٹ کی طرح ہے جو صحرا میں ہو، ریگستان میں جب اونٹ ہوتا ہے وہاں پر چھپکلیاں ہوتی ہیں، گوہ، بچھو چھوٹے چھوٹے جانور ہوتے ہیں، جو اونٹ کے ٹخنے تک بھی نہیں پہنچ سکتے، اونٹ صحرا میں یہ سمجھتا ہے کہ بس میں ہی میں ہوں، مجھ سے بلند وبالا کوئی نہیں۔ لیکن ہم درخواست کرتے ہیں کہ اس اونٹ کو دامن کوہ میں لایاجائے، کسی پہاڑ کے دامن میں لایا جائے، پھر اونٹ کو پتہ چلے کہ مجھ سے اونچی، طاقت ور اور بھی مخلوق ہے۔

چوتھی بات حضرت شیخ نوّر الله مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ آپ علوم نبویہ کے ساتھ وابستہ رہیں، درس وتدریس کی صورت میں، تصنیف وتالیف کی صورت میں اور اسی طرح امامت کی صورت میں، خطابت کی صورت میں۔

حتی کہ حضرت شیخ رحمة الله علیہ صاف لفظوں میں فرمایا کرتے تھے کہ نورانی قاعدہ پڑھانے کا بھی موقع ملے آپ پڑھائیں۔

شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ جب جیل میں تھے، حضرت قاری طیب صاحب رحمة الله علیہ او رساتھیوں کے ساتھ ملاقات کے لیے تشریف لے گئے، وہاں جب گئے تو دیکھا کہ شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مدنی رحمة الله علیہ قیدیوں کو تعلیم الاسلام پڑھارہے ہیں، حضرت قاری صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ حضرت! آپ تو بخاری پڑھانے والے آدمی ہیں اور یہاں تعلیم الاسلام آپ پڑھارہے ہیں؟ فرمایا کہ بخاری بھی ہم الله کے لیے پڑھاتے تھے، تعلیم الاسلام بھی الله کے لیے پڑھارہے ہیں۔

اور آنے والے معزز مہمانوں سے میں ایک دو باتیں کہہ کر بات ختم کروں گا، اپنے شیخ حضرت مولانا قاری نور محمد صاحب رحمة الله علیہ سے ایک بات میں نے سنی، حضرت مولانا محمد حسن صاحب نوّر الله مرقدہ جامعہ اشرفیہ کے مہتمم کا یہ جملہ نقل فرماتے تھے۔کہ ایمان مسلمان کا قیمتی اثاثہ ہے اس اثاثے کو بچا بچا کے رکھیں، تندوتیز ہوائیں چلتی ہیں، ایمان کو ختم کرنے کے لیے، ضعیف کرنے کے لیے، لیکن فرماتے ہیں کہ اس ایمان کو بچا بچا کر محفوظ حالت میں قبر میں اپنے ساتھ لے جائیں، یہ بڑی دکھ کی بات ہو گی کہ آج ہمارا شمار مسلمانوں میں ہو اور الله نہ کرے، الله نہ کرے ، قبر میں ہمارا شمار اور لوگوں میں ہو۔

حدیث میں آیا ہے ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی صبح کو مسلمان، شام کو کافر، شام کو مسلمان، صبح کو کافر ۔”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: بادروا بالأعمال فتنا کقطع اللیل المظلم، یصبح الرجل مؤمنا ویمسی کافرا، أو یمسی مومنا ویصبح کافرا، یبیع دینہ بعرض من الدنیا․“(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب الحث علی المبادرةبالأعمال قبل تظاہر الفتن، رقم الحدیث:313) تو یا درکھیے بقول امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کے بسااوقات آدمی کبائر پر اصرار کر تا ہے، یاد رکھیں کبائر میں غیبت بھی داخل ہے او رکبائر میں چغل خوری، بھی داخل ہے او رکبائر میں دل آزاری ، تحقیرو تذلیل بھی داخل ہے اور کبائر میں تکبر بھی داخل ہے، موقع ملے الزواجر علامہ ہیثمی رحمة الله علیہ کی، اس کو دیکھیں، انہوں نے سب سے زیادہ کبائر کو جمع کیا ہے”الزواجر“ کے اندر ۔تو بسا اوقات کبائر پر اصرار کرنے کی وجہ سے آدمی مسلوب الایمان ہو جاتا ہے، آدمی کے ایمان کو سلب کر لیا جاتا ہے او رجب میدان حشر میں اٹھتا ہے تو وہ مسلمان اور مؤمن نہیں ہوتا، کبائر پر اصرار کی وجہ سے ایک فارسی شاعر نے کہا:
        ایمان چوں سلامت بلب گور بریم
        احسن برین چستی وچالاکی ما
کہ ایمان کو اگر محفوظ حالت میں ہم قبر میں اپنے ساتھ لے جائیں تو ہم قابل صد مبارک باد ہیں۔

اسی طرح معاصی او رگناہوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ”استغفروا الله في مجالسکم وعلی مواعدکم وفي أسواقکم وعلی طرقکم․“

اے لوگو! تم استغفار کرو، استغفار کا اہتمام کرو، اپنی مجالس میں،جہاں بیٹھتے ہو، دسترخواں پر بھی استغفار کا اہتمام کرو اور اسی طریقے سے جب بازاروں میں ہوں تب بھی استغفار کا اہتمام، راستوں میں چل پھر رہے ہوں تو بھی استغفار کا اہتمام ،اس لیے کہ الله بندے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اس استغفار کی برکت سے الله تبارک وتعالیٰ آپ کے گناہوں کو معاف فرما دیں گے۔

ایک آدمی رات کو لیٹا ہوا تھا، تاریک رات تھی، ستارے چمک رہے تھے، ستاروں کو دیکھ رہا تھا، اے الله! چاند کا خالق بھی تو ہے، چاند کا پیدا کرنے والا بھی تو ہے، ستاروں کو پیدا کرنے والا بھی تو ہے، اس کے بعد فوراً یہ کہا: اللھم اغفر اے الله! میرے گناہوں کو معاف فر ما، فغفرلہ اس کے سارے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔

اس لیے بہت بیدار مغزی کے ساتھ سمجھ داری کے ساتھ اپنی زندگی کو آپ استعمال کریں اور علماء کی صحبت میں رہیں، اس صحبت کی برکت سے ان شاء الله آپ محفوظ ہوں گے۔

حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہندوستان میں جب ارتدار کی وبا پھیلی، عیسائیوں نے بڑی محنت کی، مسلمانوں کو مرتد کرنے کی، تو وہ لوگ وہ عوام الناس وہ مسلمان جو اپنے بزرگوں سے علماء سے مرتبط تھے وہ محفوظ رہے، وہ مرتد نہیں ہوئے، اس کے علاوہ باقی لوگوں پر یہ لوگ اثر انداز ہوئے، اس لیے کوشش ہماری یہ ہو کہ علماء کو پیار و محبت کی نگاہ سے دیکھیں اور علماء، اہل علم، مدارس کو، کبھی بھی عداوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔

حدیث قدسی ہے:”من عادی لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب“․ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الرقاق، باب التواضع، رقم الحدیث:6502) کہ جو میرے اولیاء میں سے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرے، میں الله کی ذات اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہوں، آپ مجھے بتائیں کہ الله کسی کے ساتھ اعلان جنگ کرے، اس آدمی کا ایمان محفوظ رہ سکتا ہے؟

ایک آدمی نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کو بُرا بھلا کہا اورانہی کے ہم مسلک ایک بڑے عالم نے کہا کہ یہ آدمی مرتد ہو کر مرے گا۔ خیر کچھ دنوں کے بعد دیکھا گیا کہ وہ بُرا بھلا کہنے والا مرتد ہو کر مرا، لوگ آئے اور کہا کہ حضرت جو پیشن گوئی آپ نے کی تھی وہ بالکل ٹھیک نکلی، وہ مرتد ہوا، آپ نے یہ پیشن گوئی کس بنیاد پر کی؟ تو اس عالم دین نے کہا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے لاکھ اختلاف سہی،ہزاروں اختلافات سہی، ہمارے فقہی اختلافات ہیں، لیکن میں بخوبی اس بات کو جانتا ہوں کہ امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ اولیاء الله میں سے ایک بہت بڑے ولی ہیں، عابد ہیں، زاہد ہیں، اس نے ان کے ساتھ دشمنی کی اور حدیث میں آتا ہے: من عادی لی ولیا فقد آذتہ بالحرب․ اس حدیث کی بنیاد پر میں نے کہا کہ محفوظ نہیں رہے گا۔

حافظ شیرازی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:
اس مکافت کی زندگی میں ہم نے بہت تجربہ کیا کہ الله والوں کو جس نے چھیڑا اس کو منھ کی کھانی پڑی۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
 


ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب نے فرمایا:
میں دو باتیں عر ض کرنا چاہتا ہوں، ایک بات تو ان فضلا سے، جو دورہ حدیث یا تخصص سے فارغ ہو کر میدان عمل میں جارہے ہیں۔

بخاری شریف کتاب العلم میں آپ حضرات نے امام مالک رحمة الله علیہ کے استاذ ،عظیم محدث اور فقیہ ربیعة الرائے رحمة الله علیہ کا یہ ارشاد گرامی پڑھا، سمجھا وہ مجھے اور آپ کو یاد کرنا ہے، حضرت ربیعة الرائے فرماتے ہیں:
لاینبغی لأحد عندہ شيء من العلم أن یضیع نفسہ․
جس کو الله نے تھوڑا سابھی علم عطا کیا ہو، اس کے شایان شان نہیں، اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ضائع کرے۔

اپنے آپ کو ضائع کرنے کا کیامطلب ہے؟ اس کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا کہ جو الله نے اس کو قرآن وحدیث کے اور وحی اور شریعت کے علوم عطا کیے ہیں، وہ اپنے اس علم دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ نہ بنائے۔

حسن بصری رحمة الله علیہ، جو سید التابعین ہیں، ایک سو بیس صحابہ کی زیارت کی ہے، انہوں نے ایک مداری کو رسی کے ساتھ کچھ کرتب کرتے دیکھا، جو ایک چوک پر کرتب کر رہا ہے تو حسن بصری نے اس کو دیکھ کر فرمایا: ھذا أحسن من أصحابنا یہ ہمارے ساتھیوں سے اچھا ہے ۔کیوں؟ یطلب الدنیا بالدنیا یہ دنیا کے ذریعے دنیا کمار ہاہے، أصحابنا یطلبون الدنیا بالدین۔ او رہمارے وہ لوگ جو دنیا کو دین کے ذریعے کمارہے ہیں، ان سے یہ آدمی بہتر ہے، جو دنیا کو دنیا کے ذریعے کما رہا ہے۔

دوسرا مطلب اس کا بعض حضرات نے یہ بیان کیا کہ اپنے آپ کو ضائع کرنا یہ ہے کہ الله نے آپ کو علم دین کی دولت عطا کی، آپ اسے حکم رانوں، بادشاہوں اور بڑے لوگوں سے تعلقات کا ذریعہ بنائیں، اپنے علم دین کو کہ میرا اس علم دین کے ذریعے بادشاہ سے، صدر سے، وزیراعظم سے، امراء سے میرا تعلق قائم ہو جائے۔

فرمایا کہ اگر کوئی اپنے علم دین کو امراء وسلاطین کے قرب کا ذریعہ بناتا ہے تو اس نے بھی گویا اپنے آپ کو ضائع کر دیا اور اپنا علم ضائع کر دیا۔

امام بخاری رحمة الله علیہ فرماتے ہیں : لا أذل العلم میں علم کو کبھی رسوا نہیں کروں گا،ولا أحملہ إلی أبواب السلاطین او رکبھی میں اپنے علم کو بادشاہوں کے دروازے پر لے کر نہیں جاؤں گا۔

اور تیسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ اپنے آپ کو ضائع نہ کریں،ضائع کرنا یہ ہو گا کہ جو آپ نے علم حاصل کیا اس کو آپ نے بھلا دیا، اگر آپ نے اس کو بھلا دیاتو گویا اپنے آپ کو ضائع کر دیا اور اپنے آپ کو ضائع کرنا یہ بھی ہے کہ جو علم حاصل کیا اس پر عمل نہیں کیا۔

حضرت بشر حافی رحمہ الله فرماتے ہیں:
یا أصحاب الحدیث، أدوا زکوٰة الحدیث․
اے حدیث پڑھنے والو، حدیث سے وابستہ لوگو! حدیث پڑھنے کی زکوٰة ادا کرو اور کیا زکوٰة؟ فرمایا:اعملوا من کل مأتي حدیث بخمسة أحادیث“ اگر زیادہ نہیں تو کم از کم ہر دوسو حدیثوں میں سے پانچ حدیثوں پر عمل کرلو۔

دوسری بات آئے ہوئے آپ سے محبت کرنے والوں سے کہنے لگا ہوں کہ ان علماء کی عزت اور قدر کرو ، مدارس کی عزت او رقد رکرو۔

تفسیر کبیر میں حدیث ہے:
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: من أھان العلماء فقد أھان العلم، جس نے علماء کی توہین کی اس نے علماء کی توہین نہیں کی، اس نے علم کی توہین کی، ومن أھان العلم فقد أھان النبی اور جس نے علم کی توہین کی اس نے نبی او رپیغمبر کی توہین کی ومن أھان النبی فقد أھان جبریل علیہ السلام اور جس نے حضور علیہ السلام کی توہین کی، اس نے اس علم کے لانے والے جبرئیل علیہ السلام کی توہین کی، ومن أھان جبرئیل فقد أھان الله او رجس نے جبرئیل علیہ السلام کی توہین کی اس نے الله کی توہین کی، کیوں کہ اس علم کو بھیجنے او راتارنے والے الله تعالیٰ ہیں۔

ومن أھان الله اور جس نے الله کی توہین کی فقد أھانہ الله یوم القیامة الله اس کو قیامت کے دن رسوا اور ذلیل کرے گا۔

سفیان ثوری رحمة الله علیہ نے کیا پیارا جملہ فرمایا:
الأعمال السیئة داءٌ والعلماء دواء․

فرماتے ہیں: تمام برائیاں او ربرے اعمال، یہ تمام کے تمام بیماری ہیں ، اور علماء اس کا علاج ہیں اور یہ علماء تیار کون کرتے ہیں؟ یہ قوم کے ڈاکٹر کون تیار کرتے ہیں؟ یہ مدارس تیار کرتے ہیں اور الله کا فضل ہے ہمارے شیخ رحمة الله علیہ نے جو وفاق کو آفاق تک پہنچایا، جس وفاق کو نیچے سے اٹھا کر آسمانوں پہ پہنچایا۔آج الحمدلله اس وفاق المدارس میں شامل مدارس سے جو ایک سال میں قرآن کے حافظ تیار ہو کر جارہے ہیں وہ دو، چار، پانچ سو نہیں، بلکہ الحمدلله اس سال وفاق کے تحت پورے قرآن حفظ کا امتحان دینے والے طلباء اورطالبات کی تعداد 75 ہزار ہے، ایک سال میں ان مدارس نے قوم کو 75 ہزار حافظ دیے، پاکستان کو بنے75 سال ہو گئے، ان 75 سالوں میں کسی گورنمنٹ پرائمری سکول ، مڈل سکول، ہائی سکول، کالج اور یونی ورسٹی نے ایک قرآن کاحافظ نہیں دیا، جن کے لیے میں اور آپ ٹیکس دیتے ہیں، حالاں کہ قرآن کا حافظ قوم کی ضرورت ہے، تراویح میں آپ نے قرآن سننا ہے، اگر مدرسوں کے حافظ نہ ہوتے تو آپ کی مسجد میں تراویح میں پورا قرآن کون سناتا؟

اور جو فضلا مدارس سے فارغ ہو کر جارہے ہیں، ایک سال میں ان کی تعداد تقریبا34 ہزار سے زیادہ ہے، جو ایک سال میں دورہ حدیث سے فارغ ہو رہے ہیں، علماء کی عزت کرو ، عالمی سازش ہے، اسلام سے مسلمان کو دور کرنے کی او راس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ علماء سے لوگوں کو دورکیا جائے تو اپنے آپ ہی اسلام سے دور ہو جائیں گے۔

علماء سے تعلق قائم کرو، مدارس کو آباد کرو، مدرسہ آباد اسلام آباد، مدرسہ آباد دین آباد۔

الله تعالیٰ مجھے اور آپ کو مدارس کی قدر کرنے کی، علماء کی قدر کرنے کی او ران کا تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 


حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب نے فرمایا:
الحمدلله! آج جامعہ فاروقیہ کا یہ سالانہ پروگرام ہے او رہمارے عزیز فضلا کی دستار بندی ہے، ہر سال سینکڑوں عالم، مفتی، قاری بن کر فارغ ہو رہے ہیں، پورے ملک کے مدارس سے کہیں دس، کہیں پچاس، کہیں سو، کہیں اس سے زیادہ علماء فارغ ہو رہے ہیں۔ اس مدرسے نے کبھی اپنا کام نہیں روکا، اپنی درس گاہ کو تالا نہیں لگایا، کرونا کی وبا ہو یا کسی قسم کی وباہو، جتنا جتنا مدارس کو دیوار سے لگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، کبھی رجسٹریشن کے نام پر، کبھی یکساں نصاب کے نام پر ،کبھی ماڈل مدرسوں کے نام پر، کبھی علماء کو ماہانہ اعزازیہ کے نام پر ، کبھی وفاق کے مقابلے میں دوسرے وفاقوں کے نام پر، لیکن حضرت اقدس نور الله مرقدہ کا جملہ میں دہراتا ہوں ۔

فرمایا کر تے تھے 1962ء سے، ایوب خان کے زمانے سے، مدارس کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہو رہی ہیں۔ لیکن آج تک وہ ناکام ہوئے او ران شا ء الله قیامت تک ناکام ہوتے رہیں گے۔

اسلام آباد میں تین سال پہلے کی حکومتی رپورٹ، جس اسلام آباد میں مدارس کے خلاف منصوبے بنتے ہیں، ان کو دیوار سے لگانے او ران کے کردار کو محدود کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں، تین سال پہلے کی حکومتی رپورٹ یہ ہے کہ اسلام آباد میں مدارس کی تعداد اسکولوں سے بڑھ گئی ہے۔

کئی آئے سکندر مرزا جیسے جو کہتا تھا مولویوں کو چاندی کی کشتی میں بٹھا کر اکھٹے دریا میں پھینک دو، آج اس کی قبر کا بھی کسی کو پتہ نہیں ہے۔ مُلَّا آج بھی اذانیں دے رہا ہے، قیامت تک دیتا رہے گا ان شاء الله۔ ان علماء نے اپنے مطالبات کے حق میں کبھی ہڑتال نہیں کی، میں نے ایک پروگرام میں کہا کہ تمہاری تنخواہیں نہ بڑھیں تو پہیہ جام ہڑتال کرتے ہو، دھرنا دیتے ہو، قلم چھوڑ ہڑتال کرتے ہو، کبھی ہم نے بھی مصلی چھوڑ ہڑتال کی ہے؟

علماء نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ تنخواہیں بڑھاؤ ،ورنہ نمازیں نہیں پڑھائیں گے، نہ نماز جنازہ پڑھائیں گے، آج تک ایسانہیں کیا او رنہ قیامت تک ان شاء الله ایسا کریں گے۔

ان علماء نے اپنی آرزوؤ ں کا خون کرکے، چپڑاسی سے کم تنخواہ پر گزارہ کرکے، مسجد کے کسی تنگ حجرے میں گزارہ کرکے قوم کا رشتہ کلمے سے ٹوٹنے نہیں دیا۔

ہمارے ہری پور کے ساتھ ایک گاؤں ہے سکندر پور، وہاں ایک عالم تھے قاضی خلیل صاحب رحمة الله علیہ، ان کے گاؤں والے ان کو 30 روپے تنخواہ دیتے تھے، گوجرانوالہ سے خط آیا،حضرت! آپ ہمارے پاس تشریف لے آئیں، ہم آپ کو 300 روپے تنخواہ دیں گے۔ حضرت نے لکھا جہاں میں کام کر رہا ہوں مجھے کرنے دو، تمہیں300 روپے پہ کوئی او رمل جائے گا، میرے گاؤں والوں کو 30 روپے میں کوئی او رنہیں ملے گا۔ اسی 30روپے تنخواہ پر پوری زندگی وہاں گزار لی۔

ہمارے حضرت اقدس مولانا سلیم الله خان صاحب رحمة الله علیہ اکثر وبیشتر فضلاء سے علماء سے فرماتے تھے: کبھی چمک دمک سے متاثر نہ ہونا،کبھی دنیوی مفادات کو حاصل نہ کرنا، کبھی حکومتی مراعات کو پیش نظر نہ رکھنا۔

حضرت اقدس کو پنجاب کے وزیراعلیٰ نے مذاکرت کے دوران کہا کہ حضرت! ہم نے پنجاب حکومت کے لیے بہت اچھے جنریٹر امپورٹ کیے ہیں، میں چاہتا ہوں ایک جنریٹر آپ کو بھی پیش کروں، حضرت نے قمیص کے دامن کو یوں کیا اور فرمایا: وزیراعلیٰ صاحب اس دامن پہ آج تک کوئی داغ نہیں ہے اور میں چاہتا ہوں موت تک کوئی داغ نہ لگے۔

وہ اپنی سادگی میں بادشاہوں جیسا رعب رکھتے تھے اور وجہ یہ ہے کہ جو ہاتھ پھیلاتا ہے وہ پاؤں نہیں پھیلاسکتا اور جو پاؤں پھیلاتا ہے اس کو ہاتھ سُکیڑنے پڑتے ہیں۔

حضرت اقدس پوری قوت سے، پوری جرأت سے بغیر کسی مرعوبیت کے اپنی بات پیش فرماتے۔

پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف سے ہمارے مذاکرات تھے، حضرت کے داخل ہوتے ہی وزیراعلیٰ ہاوس میں، ادھر سے کیمرے آگئے، میڈیا والے آگئے سرکاری جگہ پر میٹنگ ہو رہی ہے، حضرت نے فرمایا: وزیراعلیٰ صاحب ان میڈیا والوں کو باہر نکالو، ورنہ ہم نہیں بیٹھیں گے۔ وہ حیران ہکا بکا رہ گیا اور آخر کار ان کو میڈیا والوں کو باہر نکالنا پڑا۔

اور پھر حضرت اقدس کی یہ کوشش کہ پیرانہ سالی میں پورے ملک کے دورے کرکے وفاق کو آفاق تک پہنچایا اور آج الحمدلله وفاق المدارس پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔

آج بھی اس وفاق کو او ران علماء کو کم زو رکرنے او ران کو دیوار سے لگانے کی کوششیں ہو رہیں ہیں۔

اسلام آباد میں کبھی وقف ایکٹ بل کے نام پر ان کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے او رپھر یہ کہ اسلام آباد نے یہ اعلان کیا کہ ہم ہر عالم کو اور ہر خطیب کو دس ہزار ماہانہ اعزازیہ دیں گے۔

ہم نے کہا کہ ہم تمہارے اس اعزاریے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، ہمارے اکابر علماء ان بوریوں چٹائیوں پر بیٹھ کر کام کرتے رہے۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے پاس ایک نواب آیا اور ہدیہ پیش کیا، حضرت نے فرمایا: لے جاؤ واپس، میرے ہدیہ قبول کرنے کے اصول ہیں، پہلے سے شناسائی نہ ہو تو میں ہدیہ قبول نہیں کرتا، وہ نواب تھا، کہنے لگا حضرت سوچ لیں ،ایک لاکھ روپے ہیں، ایک لاکھ روپے دینے والا مرید آپ کو نہیں ملے گا۔حضرت نے بڑی شان استغناسے فرمایا: لے جاؤ واپس، اگر ایک لاکھ دینے والا مجھے کوئی مرید نہیں ملے گا، تو ایک لاکھ دھتکارنے والا تمہیں کوئی پیر بھی نہیں ملے گا۔

اور آخری بات عرض کروں گا، فتنے کا دور ہے۔

حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ایک دورآئے گا، یصبح الرجل مؤمنا ویمسی کافراً آدمی صبح کو مومن ہو گا اور شام کو کافر ہو گا، شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہو گا۔

یہی فتنے کا دو رہے، اس دور میں عزیز طلباء بھی، فضلاء بھی ہمارے مہمانان گرامی بھی عزم کریں کہ ان شاء الله جئیں گے تو دین پر اور مریں گے تو دین پر او رپہلے سے بڑھ کر مدارس سے تعلق رکھیں گے اور اپنے اکابر پر اعتماد کرتے ہوئے جو درس اور سبق حضرت اقدس مولانا سلیم الله خان صاحب رحمہ الله نے دیا او رجس سبق کو مشعل راہ بنایا حضرت اقدس ڈاکٹر مولانا محمدعادل خان شہید رحمہ الله نے، نیت کریں کہ اپنے اکابر کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے علم نبوت کی اشاعت بھی کریں گے، مدارس ومساجد کا عقیدہ ختم نبوت اورناموس رسالت اورناموس صحابہ کا تحفظ بھی کریں گے ان شاء الله۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمہ الله کے ان اشعار پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں #
        میرا نقش ہستی مٹ نہیں سکتا
        بتوں کے مٹائے یہ مٹتا نہیں
        اسے مٹانے والے مٹ جائیں گے خود
        کہ یہ نقشِ سجدہ ہے کشکہ نہیں

وآخر دعوانا أن الحمدلله رب العالمین