جامعہ فاروقیہ کا سالانہ مسابقہ اور تقریب تقسیم انعامات

جامعہ فاروقیہ کا سالانہ مسابقہ اور تقریب تقسیم انعامات

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

جامعہ فاروقیہ کراچی کو اللہ تعالیٰ نے صرف تعلیمی کارکردگی کے حوالے سے ہی امتیازی شان سے نہیں نوازا ،بلکہ ان مفید سلسلوں اور شعبوں میں بھی وہ موجد کی حیثیت رکھتا ہے جن کی وجہ سے ایک طالب علم جب مدرسے سے فارغ ہوکر عملی میدان میں قدم رکھے تو وہ اپنے علم کو بہترین انداز بیان اور طرزِ تحریر کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے والا ہو۔

چناں چہ جامعہ فاروقیہ میں پورا سال بھر پور تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ درج ذیل مفید سلسلے بھی ہوتے ہیں۔
ہر ہفتے طلباء کو تقاریر کے لیے ایک نیا موضوع دیا جاتا ہے، طلباء پورا ہفتہ اس کی تیاری کرتے ہیں اور شبِ ہفتہ کو ہر درس گاہ میں الگ الگ بزم کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں طلبائے کرام اساتذہ کی موجودگی میں تلاوت، حمدونعت اور تقاریر کرتے ہیں۔

جامعہ میں طلباء کے لیے تلاوت او ر تجوید کی اصلاح کے لیے فجر کی نماز کے بعد اور عصر کی نماز کے بعد باقاعدہ نظم قائم ہے۔

اسی طرح طلبائے کرام کے خط کی اصلاح کے لیے بھی باقاعدہ انتظام ہے۔

طلبائے کرام میں تصنیفی خوبیاں اجاگر کرنے کے لیے جامعہ میں تین جداری مجلوں کا ماہانہ اہتمام ہوتا ہے اور یہ جتنے سلسلے ہیں، ان سلسلوں کا طلباء میں سال میں ایک مسابقہ ہوتا ہے، فائنل مسابقے سے پہلے کئی مراحل ہوتے ہیں جن سے گزر کر چند مخصوص طلباء کا انتخاب ہوتا ہے۔

چھوٹے بچوں کو مطالعے کا خوگر بنانے کے لیے ان کے لیے ایک کتاب مقرر کی جاتی ہے، طلبائے کرام اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور دورانِ مسابقہ ان طلباء سے اس کتاب کے متعلق سوالات کیے جاتے ہیں اور درست جوابات دینے والوں کو کتب کی صورت میں نقد انعام سے نوازا جاتا ہے، چناں چہ اس سال 1443ھ کا مسابقہ 25ربیع الاول کو منعقد ہوا، جو دو مرحلوں پر مشتمل تھا، صبح کے مرحلے میں تلاوت اور تقاریر کا مسابقہ ہوا، مسابقہ کے پہلے مرحلے کے اختتام پر حضرت مولانا مفتی محمد انس عادل خان صاحب (نائب رئیس جامعہ فاروقیہ کراچی) اور رئیس دارالافتاء حضرت مولانا محمد یوسف افشانی صاحب دامت برکاتہم نے خطاب فرمایا، جس کو نذرِ قارئین کیا جاتا ہے، حضرت مولانا مفتی محمد انس عادل خان صاحب مدظلہ نے فرمایا:

آپ کو معلوم ہے کہ ہم اپنے آپ کو اہل السنة والجماعة کیوں کہتے ہیں؟ اہل السنة سنی کو کہا جاتا ہے او رسنی کون ہوتا ہے؟ جو پیارے نبی فداہ أبی وأمی صلی الله علیہ وسلم کی ہر ہر سنت پر عمل کرنے والا ہو،اور کیسے ہم اپنے آپ کو سنی کہیں گے اور کہلوائیں گے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے والے نہ ہوں؟آج کے زمانے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری محبت زبانی اور کلامی ہے ، لیکن حقیقت میں اپنے فعل، اپنے عمل، اپنے صبح وشام کے لوگوں کے ساتھ معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اختیار کرنے والے ہم نہیں ہیں تو میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پیارے نبی کا اپنے مخالفین سے، اپنے دشمنوں سے تعامل، سلوک ۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ہم یہاں تقریری مقابلے میں بیٹھے ہیں، بہت اچھی اچھی تقریریں سنیں اور بات ختم ، کیا اس کا یہی مطلب ہے ،ہمیں یہاں سے کچھ سیکھ کر جانا چاہیے یا نہیں؟

اس نشست سے جب آپ اٹھیں گے ، تو اگر جیسے خالی ہاتھ آئے تھے او رخالی ہاتھ چلے گئے توکچھ بھی حاصل نہ ہوا، آج کے زمانے میں اپنے اندر برداشت ، تحمل اور صبر، سامنے والا کوئی بھی ہو، دشمن ہو یا مخالف ،اس کی بات کو برداشت کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے جو کچھ ہم نے سیکھا ۔

مشہور واقعہ ہے کہ ایک یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے سامنے روز کچرا ڈال دیا کرتا تھا، ایک دن آپ نے دیکھا کہ گھر کے سامنے کچرا نہیں ہے، معلوم کیا تو پتہ چلا وہ یہودی بیمار ہے، تو اس کائنات کی سب سے عظیم ہستی ، سب سے مبارک انسان اور شخصیت، کسی مسلمان کا نہیں، بلکہ ایک یہودی کی بیماری کا سن کر اس کے گھر تشریف لے گئے اور وہ صرف یہودی ہی نہیں تھا، بلکہ مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا تھا۔

بہت مشہور حدیث ہے: أرسل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیلا قبل نجد فجاء ت برجل من بنی حنیفة یقال لہ ثمامة بن أثال سید أھل الیمامة، حضرت ثمامہ بن اثال رضی الله عنہ اپنے قبیلے کے بڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت جو وہاں گئی ، ان کو گرفتار کر کے لائی، لمبا قصہ ہے،”فربطوہ بساریة من سواری المسجد“ اور پھر دو دن تک ، تین دن تک معاملہ چلتا رہا، آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أطلقوا ثمامة، ان کو چھوڑ دو، آزاد کردو،جب کہ اس سے پہلے جو قصہ تھا ،ثمامة کو پتہ تھا کہ اس وقت میری گردن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے نیچے ہے،”إن تقتلنی تقتل ذا دم، وإن تنعم تنعم علی شاکر وإن کنت ترید المال فسل تعط منہ ماشئت“․

تو آپ نے ان کو آزاد کرنے کا حکم دیا، فانطلق إلی نخل قریب من المسجد، فاغتسل ثم دخل المسجد، فقال أشھد أن لا إلٰہ الا اللّٰہ ،وأشھد أن محمداً عبدہ ورسولہ ،مسلمان ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کی وجہ سے مسلمان ہوگئے اور اہم بات جس حصے کو میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کی وجہ سے اس انسان میں کتنی تبدیلی آئی،چناں چہ فرماتے ہیں: یا محمد! واللّٰہ ماکان علی الأرض وجہ أبغض إلي من وجھک آج سے پہلے اس روئے زمین پر جس چہرے سے مجھے سب سے زیادہ نفرت تھی، وہ آپ کا چہرہ تھا ، فقد أصبح وجھک من أحب الوجوہ کلھا إلي اور آج آپ کا چہرہ میرے لیے اس کائنات میں سب سے محبوب چہرہ بن گیا۔واللّٰہ ماکان من دین أبغض إلي من دینک فأصبح دینک من أحب الدین کلہ إلي اور نہ کوئی مذہب اور دین مجھے اس اسلام سے زیادہ برا لگتا تھا، اسلام سے مجھے نفرت تھی، لیکن آج وہی اسلام مجھے اس روئے زمین پر سب سے محبوب دین ہوگیا، واللّٰہ ماکان من بلد أبغض إلي من بلدک، اور یہ جو آپ کا علاقہ ہے، مدینہ منورہ ہے اس سے پہلے مجھے اس جگہ سے بھی نفرت تھی، فأصبح بلدک من أحب البلاد کلھا إلي، اور آج یہی مدینہ منورہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگیا۔

تو میرے دوستو! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہم اختیار کریں گے، ثواب اور اجر اپنی جگہ پر ہے، لیکن اس سے اللہ کی مدد آئے گی، اور ہمارے مخالفین اور دشمنوں کے دل اس طرح تبدیل ہوں گے۔اللہ تعالیٰ مجھے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس کے بعد استاد محترم رئیس دارالإفتاء حضرت مولانا محمد یوسف افشانی صاحب دامت برکاتہم نے طلباء سے مختصر خطاب فرمایا:
فرمایا:عبدالملک بن مروان سے کسی نے کہا: ”لقد تعجل المشیب یا أمیر الموٴمنین“! یا امیر الموٴمنین آپ کے سفید بال ظاہر ہورہے ہیں، آپ جلدی بوڑھے ہوگئے ، تو جواب میں انہوں نے کہا:”کیف لا أشیب وقد أعرض عقلي کل جمعة مرة أو مرتین أمام الناس“ میں کیوں بوڑھا نہ ہوں، میرے بال کیوں سفید نہ ہوں، جب کہ میں ہر جمعے کو ایک مرتبہ یا دو مرتبہ اپنی عقل کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں؟

اشارہ کیا کہ میں جمعے کو جو بیان کرتا ہوں، خطبہ دیتا ہوں یا اس کے علاوہ جو تقریر کرتا ہوں،تقریرمیں درحقیقت بیان کرنے والا اپنے دل ودماغ اور اپنی معلومات کا اہم ذخیرہ سامنے والوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔

الحمدللہ جو تقاریر ہم نے سنیں، ساتھیوں نے بڑی محنت کی اور اساتذہ کرام کو بھی اللہ جزائے خیر دے انہوں نے بھی بڑی محنت کی۔اللہ تعالیٰ اساتذہ کرام کو بھی اجر عظیم عطا فرمائے اور آپ حضرات کو بھی اجر عظیم عطا فرمائے، چاہے انعام ملے یا نہ ملے، جن طلبائے کرام نے حصہ لیا ہمارے نزدیک قابل صد مبارک باد ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ تمام کی محنت کو قبول فرمائے۔

مسابقہ کا دوسرا مرحلہ ظہر کی نماز کے بعد شروع ہوا، اس مرحلے میں حمد ونعت کا مسابقہ ہوا، جامعہ کے فاضل، ملک کے معروف نعت خواں حافظ منیر احمد صاحب بھی اساتذہ کے حکم پر اس پروگرام میں شریک ہوگئے اور اپنی مسحور کن آواز سے مجلس کو گرمایا۔

اس مرحلے کے اختتام پر مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی حضرت اقدس مولانا عبیداللہ خالد صاحب دامت برکاتہم نے طلباء کو مختصر نصائح فرمائے۔

فرمایا: وقت مختصر ہے، اذان میں چند منٹ باقی ہیں، میں صمیم قلب سے تمام طلباء کو اور تمام اساتذہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، اس لیے کہ یہ اساتذہ کرام کی محنتوں کا نتیجہ ہے اور جن طلباء نے دن رات محنت کر کے یہ امتیاز حاصل کیا اللہ تعالیٰ ان کو دنیا وآخرت میں بہترین اور امتیازی کام یابیاں عطا فرمائے، طلبائے کرام نے بہترین انداز میں حدر میں قرآن پڑھا، تقاریرکیں، بہت شان دار بہترین تقاریر کیں، حمد ونعت میں بھی طلباء نے بہترین محنت کا مظاہرہ کیا۔

میں اپنی طرف سے بھی جامعہ فاروقیہ کے تمام اساتذہ کی طرف سے بھی ان تمام طلباء کو جنہوں نے امتیازی کامیابیاں حاصل کی ہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ بقیہ طلباء بھی ان سلسلوں میں بھرپور حصہ لیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بہترین کام یابیوں سے نوازے، میں حضرت مولانا محمد انور صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے درخواست کروں گا کہ وہ اس مبارک پروگرام کا اختتام دعا سے فرمائیں۔

چناں چہ حضرت مولانا محمد انور صاحب دامت برکاتہم نے پروگرام کے آخر میں اختتامی دعا فرمائی۔اس پروگرام میں مسابقہ میں شریک طلباء میں اول، دوم، سوم پوزیشن پر آنے والے طلبائے کرام کو انعامات سے نوازا گیا۔

خوش خطی اور مضمون نویسی کا مقابلہ اس پروگرام سے پہلے مکمل ہوجاتا ہے اور اس پروگرام میں ان کو بھی انعامات سے نوازا جاتا ہے۔اسی طرح اس پروگرام میں ان طلبائے کرام کو بھی انعام کی صورت میں قیمتی کتب اور اعزازی شیلڈ سے نوازا جاتا ہے،جو طلبائے کرام اپنی درس گاہ میں اول، دوم، سوم پوزیشن پر آنے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں۔