تقویٰ… اور اس کی اقسام

تقویٰ… اور اس کی اقسام

مولانا محمد اعجاز مصطفی

انسان کی ظاہری وباطنی چیزوں اور لباس وپوشاک کی خوش نمائیوں سے زیادہ مکرم، زیادہ مزین، زیادہ حسین اور زیادہ فضیلت والی چیز تقویٰ ہے۔ تقوی یعنی الله تبارک وتعالی کے اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے اجتناب، ان تمام چیزوں سے زیادہ مکرم، مزین، افضل اور احسن ہے، جنہیں ہم چھپاتے ، ظاہر کرتے، ذخیرہ کرتے اور پہنتے ہیں۔

تقویٰ کا معنی یہ کہ الله تبارک وتعالیٰ سے ثواب کی تمنا اور اُمید پر آپ کے تمام اوامر اور احکامات پر عمل کیا جائے او رالله تعالیٰ کی سزا کے خوف سے آپ کے تمام نواہی کو ترک کیا جائے۔

تقویٰ کا حق یہ ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ کے تمام احکامات پر پورا پورا عمل کیا جائے اور الله تعالیٰ کی منع کردہ ہر ہر چیز سے اجتناب اور پرہیز کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان اپنے رب کا اطاعت گزار ہو گا، اس کا نافرمان نہیں، اس کا ذاکر ہو گا، اس کو بھولنے والا نہیں، اس کا شکر گزار ہو گا، ناشکر انہیں، وہ ایمان اور توکل کی دولت سے مالا مال ہو گا۔

الله تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے صرف اہل ِ ایمان کو ہی تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ، کیوں کہ اہل ِ ایمان ہی جانتے ہیں کہ تعظیم وجلالت، توقیر ومحبت، طاعت وبندگی کا مستحق صرف اور صرف الله تعالیٰ ہی ہے۔ یہ بھی الله تبارک وتعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ اس نے فرمایا:﴿فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِیعُوا وَأَنفِقُوا خَیْرًا لِّأَنفُسِکُمْ﴾․ (التغابن:16)
ترجمہ: سو ڈرو الله سے جہاں تک ہو سکے اور سنو اور مانو اور خرچ کرو اپنے بھلے کو ۔“

ورنہ کمال ِ تقویٰ پر عمل کرنے کی استطاعت اور قدرت انسانی طاقت او رہمت سے، باہر ہی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ﴾․(الحشر:7)
ترجمہ:”او رجودے تم کو رسول سولے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو اور ڈرتے رہو الله سے، بے شک الله کا عذاب سخت ہے۔“

تقویٰ کی بنیاد الله تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان ہے۔ اعمالِ صالحہ ایمان کے آثار، دلائل اورایمان کا نور ہیں۔ اخلاق حسنہ انسانی سیرت کا حسن وجمال شمار ہوتے ہیں، جو ان صفات سے متصف ہو گا وہ ابرار، صادقین اور متقین میں شمار ہو گا۔

تقویٰ کی ایک تعبیریوں بھی کی جاتی ہے کہ رذائل سے کنارہ کشی کرتے ہوئے فضائل سے آراستہ ہوا جائے، یعنی گناہوں اور گندگیوں سے اجتناب ِ کلی کرتے ہوئے طاعات اور عبادات سے اپنے آپ کو مزین کیا جائے۔ انسان جو بھی نیکی کرتا ہے، اس کا تعلق یا تو قلب یعنی دل سے ہے یا قالب یعنی بدن سے یا مال سے ہے۔

اعمال قلبیہ میں اصل ایمان ہے، اعمال ِ بدنیہ کی جامع نماز ہے، جس کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے او راعمالِ مالیہ کی سردار زکوٰة اور صدقات ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿الٓم ،ذَٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِینَ، الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ﴾․ (البقرة:3,2,1)
ترجمہ:” الٓم، اس کتاب میں کچھ شک نہیں، راہ بتلاتی ہے ڈرنے والوں کو، جو کہ یقین کرتے ہیں بے دیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو او رجو ہم نے روزی دی ہے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“

تقویٰ اختیار کرنے کا حکم الله تبارک وتعالیٰ نے تمام آسمانی مذہب کے ماننے والوں کو دیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :
﴿ وَلَقَدْ وَصَّیْْنَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَإِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّہَ وَإِن تَکْفُرُواْ فَإِنَّ لِلّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَانَ اللّہُ غَنِیّاً حَمِیْداً﴾․ (النساء:131)
ترجمہ:” اور ہم نے حکم دیا ہے پہلے کتاب والوں کو اور تم کو کہ ڈرتے رہو الله سے او راگر نہ مانو گے تو الله ہی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں اور ہے الله بے پروا، سب خوبیوں والا۔

تقویٰ کا حاصل یہ ہے کہ جن کاموں کے کرنے کا الله تعالیٰ نے حکم دیا ہے، ان کے کرنے میں انسان پیچھے نہ رہے،جہاں جانے سے شریعت نے منع کیا ہے، انسان وہاں نہ جائے، ایمانی نور کی روشنی میں ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے الله تعالیٰ کی اطاعت میں لگا رہے او رایمانی نور کی روشنی میں الله تعالیٰ کی سزا کا خوف رکھتے ہوئے الله تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتا رہے۔

تقویٰ کی دو قسمیں ہیں:
1..قلوب کا تقویٰ 2..جوارح کا تقوی۔

او ران میں اصل تقویٰ قلوب کا ہی تقویٰ ہے اور تقویٰ کا محل دل ہے۔ جوارح کا تقویٰ قلوب کے تقویٰ کااثر اور لازمی نتیجہ ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:﴿ذَٰلِکَ وَمَن یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّہِ فَإِنَّہَا مِن تَقْوَی الْقُلُوبِ﴾․(الحج:32)
ترجمہ:” یہ سن چکے او رجو کوئی ادب رکھے الله کے نام لگی چیزوں کا، سو وہ دل کی پرہیز گاری کی بات ہے۔“

اگر دل میں تقویٰ نہیں تو جوارح کے تقویٰ کا کوئی وزن او رکوئی قیمت نہیں۔

حضور اکرم صلی الله علیہ و سلم کی ذات بابرکات مجسم تقویٰ کے باوجود نوافل میں اتنا قیام فرماتے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا، اتنا نفلی روزے رکھتے، کہا جاتا کہ آپ کبھی روزے چھوڑیں گے نہیں، جہاد کرتے، حج اور عمرے ادا فرماتے، امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کرتے، لوگوں کو الله تعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے، مہمانوں کا اکرام فرماتے، محتاجوں کی غم خوارگی کرتے، اپنے صحابہ سے میل جول کرتے، مطلب یہ کہ تمام فرائض کی بجا آوری کے باوجود نوافل، اور ادواَذکار میں سے، کسی کو نہیں چھوڑتے تھے۔

الله تبارک وتعالیٰ کے قرب کے حصول کا قریب ترین ذریعہ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی پیروی اور ظاہر وباطن کے اعتبار سے اس پر ہمیشگی اور ہر قول وعمل او رنیت میں اخلاص ہو کہ میں صرف اور صرف الله تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے یہ کام کر رہاہوں۔

یہ بہت بڑا ظلم او رجہالت ہے کہ انسان لوگوں سے تو اپنے لیے تعظیم وتکریم کا طالب اور خواہش مند ہو ، لیکن اس کا دل الله تعالیٰ کی تعظیم وتکریم اور جلال وتقویٰ سے خالی ہو۔

ہر انسان کے لیے دو اُمور بہت ضروری ہیں فعل ِ مامور اور ترک ِ محظور سے الله تعالیٰ او راس کے رسول ( صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرے اور اس کے نتیجے میں الله تعالیٰ کی جانب سے جو تکلیفیں اورپریشانیاں آئیں ، اس پر صبر کرے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : ﴿إِنَّہُ مَن یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ﴾․(یوسف:90)

ترجمہ:”البتہ جو کوئی ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو الله ضائع نہیں کرتا حق نیکی والوں کا۔“ الله تبارک وتعالیٰ نے انسان کے اندر تین قوتیں رکھی ہیں 1..بذل واعطاء کی قوت 2..کف وامتناع کی قوت 3..ادراک وفہم کی قوت۔

الله تبارک وتعالیٰ جب انسان کو ایمان اور ہدایت کی توفیق سے نوازتے ہیں تو اس کی قوتوں کو ایسے کاموں میں لگا دیتے ہیں جو اس کو محبوب ہیں او راس انسان کو دنیا وآخرت میں آسانیوں کی طرف لے جاتے ہیں اورجب کسی انسان کو ذلیل وخوار کرنا چاہتے ہیں تو اسے ایسے کاموں میں لگا دیتے ہیں جو الله تعالیٰ کو مبغوض ہیں اور اسے مشکلات او رتنگیوں کی طرف لے جاتے ہیں ،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَیٰ وَاتَّقَیٰ، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَیٰ ، فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرَیٰ، وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَیٰ ، وَکَذَّبَ بِالْحُسْنَیٰ، فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرَیٰ﴾․ (اللیل:10-5)
ترجمہ:” سو جس نے دیا اور ڈرتا رہا اور سچ جانا بھلی بات کو تو اس کو ہم سہج سہج پہنچا دیں گے آسانی میں اور جس نے نہ دیا اور بے پروا رہا اورجھوٹ جانا بھلی بات کو، سو اس کو ہم سہج سہج پہنچا دیں گے سختی میں۔“

کسی انسان یا جماعت کے لیے الله تعالیٰ کی برکات کے دروازے کمال ِ ایمان او رکمال ِ تقویٰ کی بنا پر ہی کھلتے ہیں،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : ﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَیٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ وَلَٰکِن کَذَّبُوا فَأَخَذْنَاہُم بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ﴾․(الاعراف:96)
ترجمہ:” او راگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم کھول دیتے ان پر نعمتیں آسمان اور زمین سے، لیکن جھٹلایا انہوں نے، پس پکڑاہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے۔“

برکات الہٰیہ حدّ وشمار سے باہر ہیں، من جملہ اُن میں عمر میں برکت، رزق میں برکت، وقت میں برکت، آل واولاد میں برکت، مال میں برکت، اعمال میں برکت، اسی طرح اسباب کے بغیر ضرورتوں کا پورا ہونا، کسی درجہ میں جدوجہد ، محنت ومشقت کے بغیر اموال، اشیاء اور روزی کا حصول ، یہ سب ایمان او رتقویٰ کی بنا پر ہی حاصل ہوتی ہیں۔

آج کل مسلمانوں میں ایمانی ضعف اور تقویٰ کی کمی کی بنا پر الله تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند محسوس ہوتے ہیں او راکثر مسلمان ان برکات سے محروم نظر آتے ہیں، اس لیے کہ جب ہم نے الله تبارک وتعالی کو بھلا دیا تو الله تعالیٰ نے ہم سے یہ چیزیں چھین لیں اور جو چیزیں ہمیں ملی ہوئی ہیں ، وہ برکت سے خالی ہیں۔

الله تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام کی محبت حضور صلی الله علیہ وسلم کے کلام، یعنی سنت اور احادیث کی محبت، الله تعالیٰ کی عبادت کی محبت، اس کی اطاعت کی محبت، اولیاء کی محبت، الله تعالیٰ کے احکامات کی محبت، دین کی محبت کو ہم سے چھین لیا ہے، اس لیے کہ جب گناہوں اور دین کی مخالفت کی کثرت ہو گئی تو الله تعالیٰ نے خیرات اور برکات سے ہمیں محروم کر دیا۔

تقوی کی تین اقسام ہیں :
الله تعالیٰ کی ذات کے اعتبا رسے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾ (آلِ عمران:102)
ترجمہ:” اے ایمان والو! ڈرتے رہو الله سے جیسا چاہیے اس سے ڈرنا اور نہ مریو، مگر مسلمان۔“

الله تعالیٰ کی سزا کے مکان کے اعتبار سے، جیسا کہ ارشاد ہے : ﴿وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینََ﴾․(آل ِ عمران:131)
ترجمہ:” اور بچو اس آگ سے جو تیار ہوئی کافروں کے واسطے۔“

الله تعالیٰ کی سزا کے زمانہ کے اعتبار سے، جیساکہ فرمایا: ﴿وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیہِ إِلَی اللَّہِ ثُمَّ تُوَفَّیٰ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ ﴾(البقرة:281)
ترجمہ:” اور ڈرتے رہو اس دن سے کہ جس دن لوٹائے جاؤ گے الله کی طرف، پھر پورا دیا جائے گا ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا اور اُن پر ظلم نہ ہو گا۔“

انسان کی قدر وقیمت ایمانی صفات، اعلیٰ اخلاق او راعمال ِ صالحہ کی بنا پر ہی ہوتی ہے اور جب تک کسی چیز میں اس کی اعلیٰ صفات باقی رہتی ہیں، اس کی قدروقیمت باقی رہتی ہے او رجب کوئی چیز اعلیٰ صفات سے محروم ہو جاتی ہے تو اس کی قدروقیمت بھی ختم ہو جاتی ہے۔

الله تبارک وتعالیٰ کی معیت ونصرت او رمدد تب آئے گی،جب ہمارے اندر ایمان، تقوی اور احسان جیسی صفات آجائیں گی، جو کہ الله تبارک وتعالیٰ کو محبوب وپسند ہیں،جیسا کہ ارشاد ہے : ﴿إِنَّ اللَّہَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوا وَّالَّذِینَ ہُم مُّحْسِنُونَ﴾(النحل:128)
ترجمہ:”الله تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو پرہیز گار ہوتے ہیں او رجو نیک دار ہوتے ہیں ۔“

اسی طرح جب ہم الله تعالیٰ کے احکامات کو بجالائیں گے او رہم الله تعالیٰ کی اطاعت کریں گے تو ا لله تعالیٰ کی معیت ، قرب او رمدد ونصرت ہمارے شامل حال ہوگی،جیسا کہ ارشاد ہے :
﴿وَقَالَ اللَّہُ إِنِّی مَعَکُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَیْتُمُ الزَّکَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِی وَعَزَّرْتُمُوہُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُکَفِّرَنَّ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَلَأُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ فَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِکَ مِنکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء َ السَّبِیلِ﴾․ (المائدة:12)
ترجمہ:”اور کہا الله نے میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم قائم رکھو گے نماز اور دیتے رہو گے زکوٰة اور یقین لاؤ گے میرے رسولوں پر اور مدد کرو گے ان کی اور قرض دو گے الله کو اچھی طرح کا قرض تو البتہ دور کروں گا میں تم سے گناہ تمہارے اور داخل کروں گا تم کو باغوں میں کہ جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، پھر جو کوئی کافر ہوا تم میں سے اس کے بعد تو وہ بے شک گم راہ ہوا سیدھے راستے سے۔“

جب ہم الله تعالیٰ کے دین کی دعوت، نشر واشاعت اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کریں گے، تو الله تعالیٰ کی معیت ہم ایمان والوں کے شامل ِ حال ہو گی، جیسا کہ فرمایا:﴿قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِی مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَیٰ﴾․ (طٰہٰ:46)
ترجمہ:” نہ ڈرو میں ساتھ ہوں تمہارے، سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔“

الله تبارک وتعالیٰ نے انسان کے لیے دو لباس نازل فرمائے ہیں، ایک ظاہری لباس جس سے انسان اپنے بدن کی صورت اور نگیچ کو چھپاتا ہے اور دوسرا تقویٰ کا لباس جس سے انسان اپنے باطن او رسیرت کو نکھارتا ہے، جس طرح ظاہری لباس سے انسان خوب صورت او رمزین نظر آتا ہے، اسی طرح تقویٰ کے لباس سے انسان کے اخلاق اور کردار خوب صورت ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:﴿یَا بَنِی آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُوَارِی سَوْآتِکُمْ وَرِیشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَیٰ ذَٰلِکَ خَیْرٌ ذَٰلِکَ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ﴾․(الاعراف:26)
ترجمہ:” اے اولاد آدم کی! ہم نے اُتاری تم پر پوشاک، جو ڈھانکے تمہاری شرم گاہیں اور اُتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیز گاری کا وہ سب سے بہتر ہے، یہ نشانیاں ہیں الله کی قدرت کی، تاکہ وہ لوگ غور کریں۔“

آج کا میڈیا، اس کے اینکر اور سیکولر ازم کے پرچار کرنے والے، جو جسم کو لباس سے اور نفس کو تقویٰ سے عاری کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح حیا کو اپنی زبانوں او رقلم کے ذریعہ ملیامیٹ کرنا چاہتے ہیں، وہ درحقیقت انسان سے اس کی فطری خصائص او راس کی ظاہری وباطنی زینت چھیننا چاہتے ہیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ ننگا ہونا حیوانی صفت ہے اور اس کی طرف مائل وہی ہو سکتا ہے جو انسانی مرتبہ سے گر گیا ہو، اب وہ ننگا پن کو اسی طرح اپنے لیے جمال اور زینت کا باعث سمجھتا ہے جس طرح کافر کفر میں اپنی فلاح سمجھتا ہے،حیا او رتقویٰ سے عاری ہونا جس کی آج کوششیں کی جارہی ہیں، یہ جہالت کی طرف ہی قوم کو دھکیلنا ہے۔

سفر کے لیے زاد راہ اپنے پاس رکھنا، یہ عقلاء کی شان ہے، جس سے آدمی مخلوق سے مستغنی ہوتا ہے، ان سے سوال کرنے سے بچتا ہے، توشہ اور زادِ راہ جتنا زیادہ ہو، اتنا ہی نفع زیادہ ہوتا ہے، دوسروں کی مدد کرسکتا ہے اور الله تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کئی اور نیکی کے کام بھی اس دنیا میں انجام دے سکتا ہے، حقیقی زادِ راہ تقویٰ ہی ہے جس سے انسان جنت او رجنت کی نعمتوں کو حاصل کرے گا،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ﴿وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَیٰ وَاتَّقُونِ یَا أُولِی الْأَلْبَابِ﴾(البقرة:197)
ترجمہ:” اور زادِ راہ لے لیا کرو کہ بے شک بہتر فائدہ زادِ راہ کا بچنا ہے، مجھ سے ڈرتے رہو اے عقل مندو!۔“

اہل ِ ایمان او راہل ِ تقویٰ ہی دنیا اور آخرت میں حقیقی کام یاب لوگ ہیں،جیسا کہ ارشاد ہے:﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاء َ اللَّہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ، الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ، لَہُمُ الْبُشْرَیٰ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ لَا تَبْدِیلَ لِکَلِمَاتِ اللَّہِ ذَٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ﴾․ (یونس:64-62)
ترجمہ:”یا درکھو! جو لوگ الله کے دوست ہیں نہ ڈر ہے اُن پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے، جو لوگ کہ ایمان لائے اور ڈرتے رہے، اُن کے لیے خوش خبری دنیا کی زندگانی میں اور آخرت میں، بدلتی نہیں الله کی باتیں، یہی ہے بڑی کام یابی۔“

اہل ِ تقویٰ کو دنیا میں جو نعمتیں نصیب ہوتی ہیں، قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں ہے:
﴿وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجًا، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ﴾․(الطلاق:3-2)
ترجمہ:” اور جوکوئی ڈرتا ہے الله سے وہ کر دے اس کا گزارہ اور روزی دے اس کو جہاں سے اس کو خیال بھی نہ ہو۔“

﴿وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَل لَّہُ مِنْ أَمْرِہِ یُسْرًا، ذَٰلِکَ أَمْرُ اللَّہِ أَنزَلَہُ إِلَیْکُمْ وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئَاتِہِ وَیُعْظِمْ لَہُ أَجْرًا﴾․ (الطلاق:5-4)
ترجمہ:” اور جو کوئی ڈرتا ہے الله سے کر دے گا وہ اس کے کام میں آسانی۔ یہ حکم ہے الله کا جو اُتارا تمہاری طرف او رجو کوئی ڈرتا رہے الله سے اُتار دے اس پر سے اس کی برائیاں او ربڑھا دے اس کو ثواب۔“

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا، یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا﴾․ الاحزاب:71-70)
ترجمہ:”اے ایمان والو! ڈرتے رہو الله سے او رکہو بات سیدھی کہ سنوار دے تمہارے واسطے تمہارے کام اور بخشش دے تم کو تمہارے گناہ اور جو کوئی کہنے پر چلا الله کے اور اس کے رسول کے، اس نے پائی بڑی مراد۔“

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ وَجَاہِدُوا فِی سَبِیلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․ (المائدة:35)
ترجمہ:” اے ایمان والو! ڈرتے رہو الله سے اور ڈھونڈو اس تک وسیلہ او رجہاد کرو اس کی راہ میں، تاکہ تمہارا بھلا ہو۔“

الله تبارک وتعالیٰ نے اہل ِ تقویٰ کے لیے آخرت میں کیا تیار کر رکھا ہے او رکیا نعمتیں عطا فرمائیں گے، اس کا جواب قرآن کریم میں ہے :
﴿مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ أُکُلُہَا دَائِمٌ وَظِلُّہَا تِلْکَ عُقْبَی الَّذِینَ اتَّقَوا وَّعُقْبَی الْکَافِرِینَ النَّارُ ﴾․ (الرعد:35)
ترجمہ:”حال جنت کا جس کا وعدہ ہے پرہیز گاروں سے، بہتی ہیں اس کے نیچے نہریں، میوہ اس کا ہمیشہ ہے اور سایہ بھی ، یہ بدلہ ہے ان کا جو ڈرتے رہے اور بدلہ منکروں کا آگ ہے۔“

﴿قُلْ أَؤُنَبِّئُکُم بِخَیْرٍ مِّن ذَٰلِکُمْ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّہِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّہِ وَاللَّہُ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ﴾․ (آل عمران:15)
ترجمہ:”کہہ دے: کیا بتاؤں میں تم کو اس سے بہتر؟ پرہیز گاروں کے لیے اپنے رب کے ہاں باغ ہیں، جن کے نیچے جاری ہیں نہریں، ہمیشہ رہیں گے ان میں اور عورتیں ہیں ستھری اور رضا مندی الله کی اور الله کی نگاہ میں ہیں بندے۔“

﴿لَٰکِنِ الَّذِینَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّن فَوْقِہَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّةٌ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَعْدَ اللَّہِ لَا یُخْلِفُ اللَّہُ الْمِیعَادَ﴾․( الزمر:20)
ترجمہ:”لیکن جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے ان کے واسطے ہیں جھروکے، ان کے اوپر اور جھروکے چنے ہوئے، ان کے نیچے بہتی ہیں ندیاں ، وعدہ ہو چکا الله کا، الله نہیں خلاف کرتا اپنا وعدہ۔“

﴿وَسِیقَ الَّذِینَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ إِلَی الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّیٰ إِذَا جَاء ُوہَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوہَا خَالِدِینَ﴾․(الزمر:73)
ترجمہ:” اور ہانکے جائیں وہ لوگ جو ڈرتے رہے تھے اپنے رب سے جنت کو گروہ گروہ، یہاں تک کہ جب پہنچ جائیں اس پر اور کھولے جائیں اس کے دروازے او رکہنے لگیں ان کو داروغہ، اس کا سلام پہنچے تم پر، تم لوگ پاکیزہ ہو، سوداخل ہو جاؤ اس میں سدارہنے کو۔“

الله تبارک وتعالیٰ حکیم او رعلیم ہیں، ہر چیز کو الله تعالیٰ نے کسی حکمت او رمقصد کے لیے پیدا کیا ہے، آگ کو الله تعالیٰ نے روشنی کے لیے بنایا ہے، پانی کو پینے او رپیاس بجھانے کے لیے پیدا کیا ہے،نباتات اورحیوانات کو انسانی خدمت کے لیے بنایا، جنات او رانسانوں کو الله تعالیٰ نے محض اپنی عبادت کے لیے بنایا، ہر چیز جب تک اپنا مقصد اور وظیفہ ادا کرتی رہتی ہے ، تب تک تو وہ محترم، مکرم او رمحبوب ہوتی ہے، مالک کے ہاں اس کی قدر وقیمت اور عزت ہوتی ہے، جب وہ اپنا مقصد چھوڑ دے یا اپنے عمل کو معطل کر دے تو اس کی قدر وقیمت کم ہو جاتی ہے او رمالک اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح انسان ہے، الله تعالیٰ نے اس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اور اسے ایمان اور تقوی کا حکم دیا ، جب انسان نے اپنا مقصد بھلا دیا تو دنیا وآخرت میں اس کی کوئی قیمت نہیں رہی، بلکہ اس سے بڑھ کر قیامت کے دن اس سے محاسبہ بھی ہو گا۔