تا بمنزل صرف دیوانے گئے

تا بمنزل صرف دیوانے گئے

محترم عبدالرشیدطلحہ نعمانی

 

محبت ایک ایسا لطیف جذبہ ہے جو ہر انسان کو اپنی جانب کھینچتا ہے،بالخصوص اس وقت جب محبوب ‘محسن بھی ہو،معلم بھی۔مربی بھی ہو،مزکی بھی۔رحیم وخیرخواہ بھی ہو اور شفیع و سفارشی بھی۔محبت کا تقاضا ہے کہ محبوب کے رنگ میں رنگ جاوٴ! اس کی چاہت پر ہر چاہت کو مغلوب کردو! اس کے حکم پر کسی کے حکم کو غالب نہ آنے دو اور اپنے آپ کو محبت کی اس معراج تک پہنچادو کہ سویدائے قلب سے بار بار یہی صدائیں آتی رہیں: جو تیری خوشی وہ میر ی خوشی،جو تیرامشن وہ میرا مشن،جو تیری لگن وہ میری لگن۔ غرض، ہر لمحہ اسی کی یاد… اسی کا احساس…اسی کی تڑپ… اور اسی کی چاہ ہو۔

جب ہم صحابہ کرام اورتابعین عظام کی سیرت وسوانح کامطالعہ کرتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ یہ نفوس قدسیہ اور اصحابِ کاملین،رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اشارہٴ ابرو پر مرنے کٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ حضرت بلال حبشی نے حضور کی وفات کے بعد اذاں دینا چھوڑدیاتھا۔ حضرت اویس قرنی نے حضور کی محبت میں اپنے دانت اکھاڑ لیے تھے۔حضرت حسان بن ثابت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں کفار کے اشعار کا جواب دیا کرتے تھے اور حضور نے ان کو مسجد نبوی کے منبر پر جگہ دے دی تھی۔ حضرت علی ہجرت کے وقت اپنی جان کی پروا کیے بغیر حضورصلی الله علیہ وسلم کے بستر مبارک پر سوگئے تھے۔صحابہ کرام رضی الله عنہم بے سروسامانی کے باوجود حضور کے ایک حکم پر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے، یہاں تک کہ جب کفار نے اسلام کومٹانے کی خاطر جنگ کااعلان کیا تو تھوڑے سے صحابہ کرام محض آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں ہزاروں کے لشکر سے بھڑگئے۔ اس طرح ہر صحابی کی زندگی عشق رسول میں ڈوبی ہوئی تھی،نیز ان کے فیضان نظر اور صحبت کیمیا اثرسے تابعین و تبع تابعین بھی حب رسو ل عربی صلی الله علیہ وسلم سے سرشار اور آپ کی اک اک ادا پر نثار تھے۔اس حوالے سے چند واقعات بھی ملاحظہ فرماتے چلیں!

موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیکھاکہ وہ دورانِ سفر راستے میں بعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں رک کر اہتمام سے نماز پڑھتے تھے؛ کیوں کہ انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد حضرت عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور حضرت عمر وہاں اس لیے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضورصلی الله علیہ وسلم کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری)

حضرت عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کے حب رسول کا یہ عالم تھا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھا کرتے تو لوگوں کو چپ رہنے کا حکم فرماتے اور کہتے کہ اپنی آوازوں کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر بلند مت کرو اور بہ تاکید یہ فرماتے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے بیان کرتے وقت بھی اسی طرح چپ رہنا ضروری ہے جیساکہ خود آپ صلی الله علیہ وسلم سے بہ راہ راست سننے کے وقت سکوت لازم ہے۔(کتاب الشفاء)

امام دارالہجرة حضرت انس بن مالک رحمة اللہ علیہ کے ہاں معمول تھا کہ جب کبھی لوگ بہ غرض استفادہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو سب سے پہلے خادم آکر آمد کی وجہ معلوم کرتا کہ سماعت حدیث شریف کے لیے آئے ہو یا کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہے؟

اگر لوگ کہتے کہ مسئلہ دریافت کرنا ہے تو آپ فورا باہر نکل آتے اور مسئلہ بتاکر واپس کردیتے اور اگر لوگ کہتے کہ حدیث شریف سننے کے لیے آئے ہیں تو آپ پہلے غسل فرماتے،لباس تبدیل کرتے،خوش بو لگاتے،عمامہ باندھتے،پھر نہایت عاجزی کے ساتھ تشریف رکھتے اور حدیث پاک بیان فرماتے۔(ایضاً)

حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ کو اپنی بے باکانہ جرات اور اعلان حق کی وجہ سے سخت سزائیں جھیلنی پڑیں۔ خلافت بنو عباس کے زمانہ میں جعفر بن سلیمان نے آپ کو کوڑوں کی سزادی۔آپ کی پشت برہنہ کر کے اس پر ستر کوڑے لگائے گئے، جس سے پیٹھ لہولہان ہوگئی۔ دونوں ہاتھ مونڈھے سے اُتر گئے اور آپ بے ہوش ہوکر گرگئے،اسی حال میں آپ کو گھر لے جایا گیا اور جب ہوش آیا تو آپ نے وہاں موجود تمام لوگوں کو گواہ بناکر کہا کہ میں نے اپنے مارنے والے کو معاف کردیا۔

بعد میں خلیفہ وقت منصور نے جب جعفر سے بدلہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو امام مالک نے فرمایا کہ میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں!میں نے جعفر کو اسی وقت معاف کردیا تھا، محض اس وجہ سے کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت ہے۔
        ان نگاہوں کے سب کرشمے ہیں
        ورنہ یہ اضطرابِ پیہم کیا
        جز ترے کچھ نظر نہیں آتا
        آرزو بن گئی مجسم کیا

یہ تو متقدمین کی محبت و و ارفتگی کے کچھ نمونے تھے،اب متاخرین میں بعض اکابر واسلاف کی عقیدت و محبت کے بھی کچھ واقعات ملاحظہ فرماتے چلیں؛جن کی زندگی سلف صالحین کا زندگیوں کا نمونہ اور اسلامی مزاج ومذاق کا بے داغ آئینہ تھی۔ حضرت مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ کے بہ قول سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی خصوصیات کو لفظوں میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں، تقریباً ناممکن ہے، اس لیے کہ ان کی خصوصیات کا تعلق در حقیقت اس مزاج ومذاق سے ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرتوں اور ان کے طرز زندگی سے مستنیر تھا اور مزاج و مذاق وہ چیز ہے جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے؛لیکن الفاظ کے ذریعہ ٹھیک ٹھیک بیان نہیں کیا جا سکتا، جس طرح گلاب کی خوش بو کو سونگھا تو جاسکتا ہے؛ لیکن اس کی پوری کیفیت کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں، اسی طرح ان حضرات کے مزاج و مذاق کو ان کی صحبتوں اور ان کے واقعات سے سمجھا جا سکتا ہے، مگر اس کی منطقی تعبیر نا ممکن ہے۔(اکابر دیوبند کیا تھے:78)

یہ ہیں حجة الاسلام، قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمة، جو دارالعلوم دیوبند کے بانی مبانی، تحریک آزادی کے بہادر جرنیل،سیدالطائفہ حضرت حاجی امداداللہ کے خلیفہ و معتمد خاص۔ جب آپ فریضہٴ حج سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ روانہ ہوئے اوراس مقام پر پہنچے جہاں سے ”روضہٴ اطہر“ نظر آتا ہے، تو دیکھتے ہی وجد کا عالم طاری ہوگیا، آپ کے ساتھی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں:”جناب مولانا مرحوم نے اپنی نعلین اتار کر بغل میں دبالیں اور پا برہنہ، چلنا شروع کردیا… میں نے اُن کی دیکھا دیکھی اپنی جوتیاں اتارکر، ننگے پیر ہم راہ مولانا مرحوم چلنا شروع کیا؛ مگر اس قدر پتھریاں پاوٴں میں چبھنے لگیں کہ متحمل نہ ہوسکا،آخر جوتا پہن کر چلنے لگا؛ مگر مولانا مرحوم مدینہ منورہ تک کئی میل آخر شب تاریک میں اسی طرح برہنہ پا پہنچ گئے۔“

یہ ہیں فقیہ النفس، محدث وقت، مجاہد حریت،قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ،جو علمائے اہل سنت کے سرخیل اور تصوف وسلوک کے امام تھے۔آپ سے کسی نے پوچھا: حضرت! اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ آپ کی ایک دعا قبول ہو گی تو آپ کیا دعا کریں گے؟ فرمانے لگے میں دعا کروں گا،اے اللہ! حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوعشق و محبت تھا مجھے بھی اس میں سے کچھ حصہ مل جائے۔

عشق رسول میں فنائیت کا یہ عالم تھا کہ مدینہ کے کھجورکی گٹھلیاں پیس کر صبح وشام کھایا کرتے تھے،کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم گٹھلیوں کی بات کرتے ہو،مجھے تو یقین ہے کہ مدینہ کی مٹی میں بھی شفا ہے #
        مدینہ کی مٹی بھی خاک شفا ہے
        یہاں تک ہے دل میں وقار مدینہ
        لگائیں گے آنکھوں میں سرمہ سمجھ کر
        ملے گر ہمیں کچھ غبار مدینہ

یہ ہیں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ، دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس،جن کی ساری عمر تدریس حدیث میں گزری، میدان سیاست میں اترے تو جرات مندی و جفا کشی کے جوہر دکھلائے، ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے متعدد بار گرفتار ہوئے،کئی برس مالٹا کی جیل میں رہے،سخت سے سخت سزائیں دی گئیں؛مگر دشمن کے آگے ڈٹ گئے،بالآخر رہا کرنا پڑا۔ آپ کا واقعہ ہے کہ جب مرض الموت میں مبتلا تھے تو علاج معالجہ ہو رہا تھا۔ جب دوائی پینے کا وقت آتا تھا آپ خدام سے فرماتے کہ مجھے پلنگ سے نیچے اتار دو۔ اس طرح خدام کو تو کیا تکلیف ہوتی کہ ایک مشت استخواں کو اٹھا کے نیچے رکھ دینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ لیکن انہیں حضرت والاکا احساس ہوتا، آخر کار حضرت کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ جناب کو دوائی لینے کے لیے نیچے اترنے سے تکلیف ہوتی ہے، چارپائی پر بیٹھ کر پی لیا کریں۔ ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق چار پائی پر بیٹھ کر کھانا پینا کہیں منقول نہیں ہے۔ اس وجہ سے میں نیچے اتر کے دوائی لیتاہوں۔

خلاصہ ٴ تحریر
اختصار کے پیش نظربہ طور مشتے نمونہ از خروارے چند ہی اکابرکے واقعات نقل کیے جاسکے،ورنہ یہاں کا ہرفرد جامِ حب نبوی سے سرشار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی ایک ایک ادا پر مرمٹنے کے لیے تیارتھا۔ ایک طرف ذات نبوت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ اسلاف کی یہ گہری وابستگی ہے اوردوسری طرف ہماری اجتماعی بے حسی و بے فکری۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارا رویہ اسلامی تعلیمات اور اسوہ ٴنبوی (صلی اللہ علی صاحبہاوسلم) سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا، ہماری اکثریت اخلاق وکردار سے عاری ہے، معاملے کی صفائی اور شفافیت، دوسروں کے ساتھ اچھا برتاوٴ، اعلیٰ اخلاق وکردار کا مظاہرہ اور دیگر اخلاق فاضلہ جو کبھی ہماری پہچان ہوا کرتے تھے اب عنقا ہوچکے ہیں اور تمام اخلاقی برائیاں جو دیگر اقوام میں پائی جاتی ہیں وہ ہم میں درآئی ہیں۔ جب تک ہم اپنے سینوں کو حقیقی عشق نبی صلی الله علیہ وسلم سے معمور نہیں کریں گے،اخلاق و اعمال کو نہیں سنواریں گے اور کردار کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش نہیں کریں گے اس وقت تک اشاعت اسلام کی راہ کی رکاوٹ دور نہیں ہوگی؛ لہٰذاہر محبِ رسول صلی الله علیہ وسلم پرلازم ہے کہ وہ حقیقتاً آپ صلی الله علیہ وسلم کا پیغام بر بنے، گفتار کے بجائے کردار کا غازی بنے اور پوری امانت داری کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو حقیقت کے متلاشیوں تک پہنچائے اور دنیا کے طول وعرض میں پھیلائے۔