بیمار معاشرہ اور اسلامی تعلیمات

بیمار معاشرہ اور اسلامی تعلیمات

مولانا محب الله قاسمی

مریض کو دوا کا خوف دلا کر اسے بغیر علاج مارنا، اس کے ساتھ ہم دردی نہیں، بلکہ دشمنی ہے۔ جس طرح مرض کی شناخت ہوجانے کے بعد اس سے بچنے کے لیے لوگوں کو آگاہ کرنا اوراس سے پوری طرح دوررہنے کی تاکید کرنا معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح انسانیت کے ضامن حیات نظام۔اسلام۔ سے انسانوں کو ڈراکراس سے دور رکھنے کی کوشش سے انسانیت کی حفاظت نہیں، بلکہ اس کی بربادی ہوگی۔

موجودہ دورکے ماحول اورحالات نے آج پوری انسانیت کوایسا مریض بنا دیا ہے جس کے مرض کی شناخت کرنے اوراس کا علاج بتانے سے گریز کیا جارہا ہے،اس کواسلام اوراسلامی تعلیمات سے دوررکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب کہ معاشرے کے موجودہ مسائل اورانسان کے تمام فکری وعملی اوراخلاقی بیماریوں کا علاج صرف اورصرف اسلام کے پاس ہے۔

ہم اپنے ملک عزیز ہندوستان کا جائزہ لیں تویہاں بھی بہت سی بیماریاں عام ہوگئی ہیں جن سے بچنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں، مگران کا مکمل علاج نہ ہونے کے سبب وہ بیماریاں دن پر دن بڑھتی جارہی ہیں۔ مثلاً آج دنیا بھرمیں ایڈزجیسی خطرناک بیماری نے اپنی جگہ بنالی ہے اور ہماراملک بھی اس کی زد میں ہے۔اس بیماری کے اسباب ومحرکات تلاش کرلیے گئے ہیں اور بیماری سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے بھی اختیارکیے جارہے ہیں، مگر کوئی یہ کہنے کوتیارنہیں ہے کہ ناجائزتعلقات ہی اس خوف ناک بیماری کی اصل وجہ ہے اور اس خرابی کی ایک بڑی وجہ عریانیت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین برانگیختہ کرنے والے نیم برہنہ لباس میں مردوں کے دوش بدوش مخلوط پارٹیوں میں نظرآتی ہیں۔ یہ صورت حال نفسیاتی طورپر بہت سی بُرائیوں کو دعوت دیتی ہے، جس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ ناگہانی کیفیت اور بدسلوکی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی بات اس سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ پھر ہم واویلامچاتے پھرتے ہیں، جب کہ خودکرد را علاج نیست۔

انسداد جرائم کی تدابیر
آج حکومت کے ذمہ داروں کوبھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ وہ ایسے جرائم کے انسدادکے لیے کیا کریں۔ تمام دانش وراورارباب حل وعقد ان جرائم کاحل اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر تلاش کرتے ہیں۔ جرائم زدہ علاقوں کا تعین ،ان کی چوکسی، بسوں میں سی سی ٹی وی کیمرے اورلائٹ جلائے رکھنے کی تاکیداور اس فعل بدمیں ملوث افراد کواذیت ناک سزاکی بات کہی جارہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایسے وحشیانہ اور شرم ناک فعل کو انجام دینے والے مجرمین کو سخت ترین سزادی جانی چاہیے۔ مگرحل کے طورپرصرف یہی باتیں کافی نہیں ہیں۔ شراب نہ پینے کی ہدایت کردینا یا بورڈ لگاد ینا کافی نہیں ہے۔ کیا بسوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگادینے سے انسان کا ضمیراوراس کا کردار درست ہوسکتا ہے؟ ہرگزنہیں؟ اس لیے تمام دانش وران کوچاہیے کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے عائلی نظام، اخلاقی تعلیمات اور تعزیراتی قوانین کابھی مطالعہ کریں، پھرانھیں عملی جامہ پہنائیں۔ کیوں کہ یہ محض نظریاتی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ آزمودہ ہیں۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
اسلام انسانوں کومعاشرتی زندگی تباہ وبربادکرنے والی چیزوں، مثلاً ظلم وزیادتی ،قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی،چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیداکرنے والے کا خوف دلاکر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں،صرف اسلامی تعلیمات ہی میں ان تمام مسائل کا حل موجودہے۔
جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے، اسی طرح دوسروں کی عزت وناموس کاخیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی ماننداستعمال کی جارہی ہیں، گھراورحجاب کو قید سمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوں اورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربدکا شکار ہوجائیں ۔

خواتین کے لیے اسلامی ہدایات
اسلام نے خواتین کو علیحدہ طور پربہت سی باتوں کا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوں سے روکاہے۔ مثلاً انھیں اپنے بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :

اور اے نبی (صلی الله علیہ وسلم)! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں، بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے اوراپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں، وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں –

دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔
اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروں میں پھرنے کے بجائے گھروں میں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا۔

”اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوة دو، اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی صلی الله علیہ وسلم سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔“

اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوں کو ان کی طرف مائل کرے یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے ،اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ا نے ارشادفرمایا:ہر وہ خاتون جو خوش بو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوش بوسونگھ لے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا:دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا،ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوں کی کوہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی اورنہ ہی اس کی خوشبوپاسکیں گی۔

علامہ شیخ عبدالعزیز بن باز اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوں کے لیے سخت قسم کی وعیدہے، باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاک دامنی سے منھ موڑنے والی اور لوگوں کو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوں کے لیے ۔

مردوں کوتنبیہ
اسی طرح مردوں کوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے) عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں،اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اورزنا کے محرکات سے بچیں،چہ جائے کہ زناجیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”زنا کے قریب مت پھٹکو، وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی )ہے۔اور بڑاہی برا راستہ ہے۔“

موجودہ دورمیں بوائے فرینڈاور گرل فرینڈکا رجحان عام ہوگیا ہے ،اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے، بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفت گو اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے،کیوں کہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے:عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے ،قرآن کہتاہے:”اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ “

اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیور اخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذکرنے کے لیے کوشاں ہوتے ۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔