بیماری آزمائش ہے اور تن درستی ہزار نعمت!

بیماری آزمائش ہے اور تن درستی ہزار نعمت!

محترم عبدالرشیدطلحہ نعمانی

ہر انسان اپنی زندگی میں مختلف حالات و سانحات سے دوچار ہوتا ہے ،بہت سارے نشیب وفراز سے گزرتا ہے اور لاتعداد مصائب و آلام، انگیز کرتا ہے ،صحت و بیماری، قوت و کمزوری،راحت و تلخی، مسرت و غمگینی،اسارت و آزادی، وسعت و تنگ معاشی وغیرہ جیسے متضاد مراحل کو طے کرتاہوا منزل آخر تک جا پہنچتاہے ،یہ سب در حقیقت رب العالمین کی جانب سے بندوں کے لیے ابتلا و آزمائش، ان کے معاصی کا کفارہ اور بلندیٴ درجات کا سبب ہیں۔

جب کبھی انسان پرخلاف منشا کچھ حالات آئیں تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے ،صبر وشکرکا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے، جزع فزع اور تقدیر پر شکوے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔یہی بندگی کا تقاضا ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے ۔بے صبری کا مظاہرہ کرنے اور تھک ہار کر مایوس ہوجانے سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مسلمان پر جب کوئی مصیبت،دکھ اور پریشانی آئے تو اس سے اس کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہیں، حتیٰ کہ اگر اسے ایک کانٹا چبھے تو یہ بھی خطاؤں کی معافی اور رفع درجات کا سبب بنتاہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”مومن کی مثال لہلہاتی ہوئی نرم ونازک کھیتی کی مانندہے ،کسی طرف سے بھی آنے والی ہوا اسے جھکا دیتی ہے ،جب وہ سیدھی ہوتی ہے تو اسے دوبارہ کسی مشکل اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس کے برعکس فاجر آدمی کی مثال صنوبر کے سیدھے اور مضبوط درخت کی مانند ہے (جو ہواکے جھونکوں سے سرنگوں نہیں ہوتا، بلکہ) اللہ جب چاہے اسے اکھاڑ پھینکتا ہے“۔ (صحیح بخاری)

اس وقت ڈینگی،ملیریا،ٹائیفیڈاور اس قبیل کی متعدد خطرناک بیماریاں، وبائی شکل میں انسانی معاشرہ پر حملہ آور ہیں،دنیا کو ان مہلک ترین بیماریوں نے اپنے شکنجے میں لے رکھاہے ،ہزاروں لوگ دواخانوں میں شریک اور علاج ومعالجے کے لیے پریشان ہیں۔بیماروں کی ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے جنہیں ہسپتالوں میں رات گزارنے کے لیے چھت تک میسر نہیں اور سیکڑوں افراد یسے بھی ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔خانگی ہسپتالوں کی بے حسی اور انسانیت بے زاری کایہ عالم ہے کہ معمولی جانچ اور ابتدائی دوا دارو کے لیے بھی ہزاروں روپیے کے نامعقول مطالبات ہیں؛جنہیں پورا کرنا عام انسان کے بس سے باہرہے۔اللھم احفظنا من کل بلاء الدنیا وعذاب الآخرة․

مومن کے لیے بیماری بھی رحمت ہے
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کوبہت سی نعمتوں سے سرفراز فرمایاان میں سے کچھ نعمتیں ایسی بھی ہیں جوانسان کوزحمت معلوم ہوتی ہیں حالاں کہ وہ بھی رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی بھلائی کے لیے اتاری گئی ہیں۔ تن درستی اور بیماری یہ دونوں انسان کے لیے بالکل قدرتی چیزیں ہیں ، انسان صحت مند بھی رہتا ہے ، بیمار بھی ہوتا ہے اور یہ اس کی زندگی کی علامت ہے ؛کیوں کہ غیر جاندار چیزیں بیمار نہیں ہوتیں ؛بل کہ جان داربیمار ہوتاہے ۔معلوم ہواکہ صحت اور بیماری جان دارکی خاصیت ہے ، یہ نہ مایوس ہونے کی چیز ہے اور نہ نفرت کرنے کی، صحت اللہ کی طرف سے بندے کے لیے ایک راحت ہے تو بیماری بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے ، جس طرح سے صحت میں انسان کواللہ کا شکراداکرناچاہیے اسی طرح بیماری میں بھی صبرسے کام لیناچاہیے ۔سرکاردوعالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن کا معاملہ تو تعجب خیز ہے کہ اس کا ہر کام خیر پر مبنی ہے اور یہ اعزاز صرف مومن ہی کو حاصل ہے ۔ اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ اس پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے ، اور یہ شکر بجا لانا اس کے لیے نہایت مفید ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت یا پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے ۔ اس صبر کرنے میں بھی اس کے لیے خیر و برکت ہے ۔(صحیح مسلم)

اس کے علاوہ مومن کو اس دنیا میں جسمانی طور پر مختلف عوارض میں مبتلا کیے جانے پربھی کئی ایک فضیلتیں احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں!

حضرت ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں،نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کو کوئی بھی بیماری، تکلیف، تھکاوٹ،غم،پریشانی یا ایذا وغیرہ لاحق ہو،حتیٰ کہ اگر اسے کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اس تکلیف کے عوض اس مومن کے گناہ معاف کردیتا ہے۔“(مسلم)

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ” کسی مسلمان کو کوئی مرض یا دیگر کوئی تکلیف لاحق ہو تو اس کے سبب اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کے گناہ یوں گرادیتا ہے جیسے درخت کے پتے گرتے ہیں۔“(بخاری)

”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ” اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بندے کے لیے ایک بلند مرتبہ مقدر ہوتا ہے ؛مگر وہ بندہ کوئی عمل کرکے اس مرتبہ کوحاصل نہیں کرپاتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مرضی وپسند کے خلاف اس حد تک آزماتارہتاہے کہ اس کے بدلے وہ بندہ اس مرتبہ کا مستحق ہوجاتا ہے۔“

حضرت ابودرداء سے روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ” مومن سردرد وغیرہ میں مبتلا رہے اور اس کے گناہ کثرت میں اُحد پہاڑ جتنے بھی ہوں۔تو بیماری کے سبب اس کے ذمہ کوئی معمولی گناہ بھی باقی نہیں رہتا اور مومن کو ان بیماریوں اور تکالیف کی قدرومنزلت اور فضیلت کااندازہ قیامت کے دن ہوگاجب پردے ہٹ جائیں گے۔“( صحیح ابن حبان)

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:” دنیا میں آزمائشوں،تکالیف ومصائب میں مبتلا رہنے والوں کو جب قیامت کے دن بے حد وحساب اجر وثواب سے نوازا جائے گا تودنیا میں خوش حالی اور صحت وتن درستی کی زندگی گزارنے والے لوگ خواہش کریں گے کہ اے کاش! دنیا میں ہماری جلد اور جسم کو قینچیوں سے کاٹا جاتا اور ہم بھی آج یہ عظیم القدر ثواب حاصل کرسکتے۔“(جامع ترمذی)

نعمت ِصحت کی قدر کریں!
یوں توبیماری اور شفا اللہ رب العزت کے قبضہٴ قدرت میں ہے ، وہ جسے چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرماتاہے ، اللہ تعالی نے ہر بیماری کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی نازل فرمایا ہے، جیسے کہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے:” اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دوا نازل کی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ کسی نے معلوم کر لی اور کسی نے نہ کی ۔“(مستدرک حاکم)لیکن اس کے باوجودمتعدد احادیث میں حفظانِ صحت پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن انسان سے سب سے پہلے جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا ،ان میں سرِ فہرست صحت ہے ۔(جامع ترمذی) لیکن بد قسمتی سے اس بیش بہا نعمت کی کما حقہ قدر نہیں کی جاتی اور اس کے سلسلے میں غفلت برتی جاتی ہے ۔ مال و دولت اورجائداد کی اہمیت سے تو ہر ایک واقف ہوتا ہے؛ لیکن جس چیز کے ذریعہ یہ تمام چیزیں میسر آتی ہیں یا جس کے ذریعہ ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اس کو برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کے لیے کسی قسم کی احتیاط ملحوظ نہیں رکھی جاتی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”دو نعمتیں ایسی ہیں جن سے اکثر لوگ غفلت میں رہتے ہیں :صحت اور فرصت“۔(بخاری) علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ہر مکلف انسان کو ایسے تاجر کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس کے پاس بنیادی سرمایہ ہوتا ہے اور وہ اُس کو سلامت رکھنے کے ساتھ اُس پر نفع بھی کماتا ہے ۔ ایسے تاجر کا طریقہٴ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ جس سے معاملہ کرتا ہے پورے غورو فکر سے کام لیتا ہے اور اپنے معاملات میں سچائی اور مہارت کو لازم پکڑتا ہے، تاکہ اُس کو نقصان نہ اٹھانا پڑے ۔ پس صحت اور فراغت تو انسان کا اصل سرمایہ ہیں اور اس کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان نفس کے خلاف کو شش اور دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے ذریعے معاملہ کرے ۔ تاکہ وہ دنیا و آخرت کی خیر نفع میں حاصل کرلے ۔

الغرض :ہمیں صحت وتن درستی جیسی اہم ترین نعمت کی قدر کرنی چاہیے ؛کیوں کہ جب تک صحت سلامت ہے ہم دنیوی ذمہ داریوں کو بھی بہ حسن و خوبی پورا کرسکتے ہیں اور آخرت کے لیے بھی ذخیرہ اندوزی کی کام یاب کوشش کرسکتے ہیں ۔

دعاؤں کا اہتمام کریں !
امراض سے حفاظت کے لیے جہاں فرائض کا اہتمام نہایت ضروری ہے وہیں مختلف منقول دعاؤں کا معمول بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جیسے معوذتین کے سلسلہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین (سورة الفلق اور سورة الناس) پڑھ کر دم کر لیا کرتے تھے اور اپنے جسم پر اپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معوذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرا کرتی تھی۔“(بخاری شریف)اسی طرح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص تین بار ”بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم“․”اللہ کے نام کے ساتھ، جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے ۔“ کہے تو اسے صبح تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی اور جو شخص تین مرتبہ صبح کے وقت اسے کہے تو اسے شام تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی۔“ راوی حدیث ابومودود کہتے ہیں: پھر راوی حدیث ابان بن عثمان پر فالج کا حملہ ہوا تو وہ شخص جس نے ان سے یہ حدیث سنی تھی انہیں دیکھنے لگا، تو ابان نے اس سے کہا: مجھے کیا دیکھتے ہو، قسم اللہ کی! نہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کی ہے اور نہ ہی عثمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف؛ لیکن بات یہ ہے کہ جس دن مجھے یہ بیماری لاحق ہوئی اس دن مجھ پر غصہ سوار تھا اور غصے میں اس دعا کو پڑھنا بھول گیا تھا۔

بیماروں کی مزاج پرسی کریں!
حالات کی مناسبت سے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم عیادت کی سنت کو زندہ کریں !بلاتفریق مذہب وملت انسانوں کی مزاج پرسی کریں، رشتہ داروں ،پڑوسیوں اور دوست احباب میں جو بیمار ہیں ان کی خبر گیری کرتے رہیں ،ساتھ ہی حتی الوسع ان کا تعاون کریں اور یاد رکھیں کہ کسی بھی بیمار کی عیادت کوخود اللہ تعالیٰ کی عیادت کے مترادف بتلایاگیا ہے،اللہ تعالیٰ کی ذات اگرچہ ہر بیماری سے پاک ہے ،اُسے کوئی بیماری و تکلیف ہر گز ہرگز لاحق نہیں ہوسکتی؛لیکن عیادت کی فضیلت اجاگرکرنے کے لیے اس طرح مثال بیان کی گئی ،چناں چہ حدیث ِقدسی میں ہے ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا:اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔وہ کہے گا:اے پروردگار! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا، حالاں کہآپ تو رب العالمین ہے؟ اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا؟اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا؛لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا،وہ کہے گا: اے پروردگار: میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا، حالاں کہ آپ تو رب العالمین ہیں؟ تو اللہ تعالی فرمائیں گے:کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا؛لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا،کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا،اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا ؛لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا؟وہ کہے گا:اے پروردگار!میں آپ کو کیسے پانی پلاتا، حالاں کہ آپ تو رب العالمین ہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا؛لیکن تونے اس کو پانی نہیں پلایا، اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا۔(مسلم شریف)

ایک اور روایت میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ، جونبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں ،فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: بے شک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ مستقل جنّت کی میوہ خوری میں مصروف رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ عیادت سے واپس آجائے ۔(مسلم شریف)ان کے علاوہ عیادت کے اور بھی متعدد فضائل بیان کیے گئے ہیں ۔اگر ہم اس کا اہتمام کریں گے تواس کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہماری بھی حفاظت فرمائیں گے اور زندگی میں چین وسکون کی دولت عطا ہوگی۔
        کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
        خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر