بچوں کے نام کیسے رکھیں؟

بچوں کے نام کیسے رکھیں؟

مولانا میر زاہد مکھیالوی

اسلام دین فطرت ہے، جو انسانی زندگی کے تمام افعال واعمال اوراقوال واحوال پر محیط ہے او رانسانی عظمت کا نقیب ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی صالحانہ راہ نمائی موجود ہے۔ نومولود بچوں کے اچھے معنی دار کرنے، مہمل اور بے معنی ناموں سے احتراز کرنے کے سلسلہ میں سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی متعدد احادیث شاہد عدل ہیں، چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں:

حضرت ابودرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے او راپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا اچھے نام رکھا کرو ۔ (رواہ احمد، ابوداؤد، مشکوٰة:408)

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: باپ پر بچہ کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کو حسن ادب سے آراستہ کرے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی سب سے پہلا تحفہ اپنے بچہ کو نام کا دیتا ہے، اس لیے چاہیے کہ اس کا نام اچھا رکھے۔ (رواہ ابوالشیخ)

حضرت ابو وہب جشمی کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کے ناموں پر اپنے نام رکھو اور الله تعالیٰ کے نزدیک بہترین نام عبدالله وعبدالرحمن ہیں اور سب ناموں سے سچے نام حارث وہمام ہیں اور سب سے برے نام حرب اور مرہ ہیں۔ ( ابوداؤد،ص:2/676، مشکوٰة:904)

حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اچھے نام سے محبت رکھتے تھے ۔ (زادالمعاد)

حضرت ابوسعید اور حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی کے یہاں بچہ پیدا ہو تو اس کا نام اچھا رکھے او رتعلیم وتربیت دے، بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے او ربالغ ہونے کے بعد شادی نہیں کی اور وہ لڑکا (یا لڑکی) کسی گناہ میں مبتلا ہو گیا تو اس کا گناہ باپ پر بھی ہے۔ (مشکوٰة:172)

رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی ان پاکیزہ تعلیمات وہدایت سے جس طرح بچوں کو حسن ادب سکھانے او راچھی تربیت دینے کا سبق ملتا ہے، اس کے ساتھ ہی بچوں کے اچھے کرنے کی اہمیت ونافعیت بھی بخوبی واضح ہو جاتی ہے،نام تجویز کرنے کا مقصد محض تعین اور پہچان نہیں، بلکہ مذہب کی شناخت اس سے وابستہ ہے، دین کے لیے علامت اور شعار ہے، فکر وعقیدہ کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے احادیث میں اس سلسلہ میں خصوصی ہدایات دی گئیں، اچھے، دل کش اور بامعنی ناموں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور ایسے ناموں سے منع کیا گیا ہے جو بھدے اور معنی ومفہوم کے اعتبار سے ناگوار ہوں، جن سے شرک کی بو آتی ہو۔

اس وقت مسلم معاشرہ کی صورت حال زبوں تر ہے، جدت پسندی کا دور ہے، لوگ ایسے نئے نئے کرتے ہیں جو بے معنی او رمہمل ہوتے ہیں، بلکہ ایسے نام نکلوانے کی فکر ہوتی ہے جو محلہ پڑوس اور آس پاس کے گاؤں دیہات او راہل قرابت میں کسی کا نہ ہو، بلکہ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ناموں کے معانی پوچھتے ہیں کہ لغةً جن کا نہ کوئی مادہ ہوتا ہے اور نہ ماخذ اشتقاق․ ظاہر ہے کہ ایسے مہمل الفاظ کے معانی لغت میں کیسے مل پائیں گے؟!

بعض ناخواندہ لوگوں میں یہ رجحان بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ نام قرآن سے تجویز کرنے کو خیروبرکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، قطع نظر اس کے کہ معنی کیسے ہیں، چناں چہ ایک صاحب نے اپنی بچی کا نام رکھا: ”لمن تشآء“ دوسرے صاحب کے بارے میں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو ”وریشا“ سے موسوم کیا۔ شہر مظفر نگر کے دیہات میں ایک عورت جو ذرا قرآن کریم پڑھنا جانتی تھی؟! اس کے یہاں یکے بعد دیگرے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں، اس نے اپنے کو خواندہ سمجھتے ہوئے بچیوں کے کرنے کے لیے قرآن کریم سے ”سورہ کوثر“ کا انتخاب کیا، چناں چہ بڑی بچی کا نام ”کوثر“ رکھا، دوسری کا نام “وانحر“ تجویز کیا اور تیسری کا نام ”ابتر“ مقرر کیا۔ کوثر اور وانحر کے معنی تو بحیثیت نام کسی حد تک درست بھی ہیں لیکن آخری لفظ ابتر کے معنی بہت بدتر کے ہیں، جو کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ ایسے لوگوں کو بطور اصلاح کچھ کہا جائے توسمجھتے ہیں کہ قرآن کریم سے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کرنا کون سے مسئلہ کی بات ہے ؟ حالاں کہ قرآن کریم سے کرنے کی بات علی الاطلاق درست نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ قرآن کریم میں ”حمار“، ”کلب“،” خنزیر“، ”بقرہ“،” فرعون“، ”ہامان“، ”قارون“ وغیرہ کے الفاظ بھی آئے ہیں تو ان کے طریق استدلال کے مطابق ان الفاظ کے ذریعہ بھی نام رکھنا صحیح ہونا چاہیے؟

مربی عصر حضرت اقدس مفتی مہربان علی شاہ بڑوتی قدس سرہ ناموں کی تجویز کے سلسلہ میں اپنا ایک منفرد مزاج ا اور انفرادی رائے رکھتے تھے، چناں چہ اپنی زندگی میں انہوں نے تحریراً وتقریراً عوام و خواص کے طبقہ میں اس نوعیت کی کوششیں بھی فرمائیں، ” ہمارے قیمتی نام“ کے عنوان سے ایک کتاب کی تالیف کے لیے بھی وہ پر عزم تھے، بلکہ اس کے لیے پیش لفظ اور سرورق لکھ کر کاتب الحروف کے حوالہ کر دیا تھا، افسوس کہ ان کی حیات میں ان کے اس تالیفی منصوبہ کی تکمیل نہ ہو سکی، البتہ ان کی وفات کے بعد ” مسلمانوں کے نام اور ان کے احکام“ کے عنوان سے اکابر کی تصدیقات کے ساتھ الحمدلله کئی سالوں سے وہ مجموعہ علمی مارکیٹ میں دست یاب ہے۔

حضرت رحمةالله علیہ کے پیش لفظ کا اقتباس ہم یہاں درج کرتے ہیں، جس میں مسلم معاشرہ کی ایک کم زوری کی نشان دہی اور ا س کی اصلاح کا طریقہ موجود ہے۔

سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے اچھا کرنے کی توغیب دی ہے، اسم کے اثرات مسمی میں منتقل ہونا بھی مسلم ہے، پھر عمدہ نام وہ ہے جس میں بندہ کے لیے بندہ ہونا ظاہر ہو، اس کے بعد وہ نام جو انبیاء اور پیغمبروں کے ناموں پر ہوں، اس کے بعد ان ناموں کی اجازت ہے جن کے معنی میں کوئی برائی اور شر نہ ہو۔ اس وقت جدت پسندی کا ایک مزاج اورایک رو ہے، جس کے اثر سے چیدہ چیدہ افراد ہی محفوظ ہیں ، قرآن کریم میں ”منھم من قصصنا علیک“ کے تحت بعض پیغمبروں کے اسماء ذکر کیے گئے ہیں، ان میں بھی بعض نام تو امت مسلمہ میں رائج ہیں اور بعض قلیل الاستعمال ہیں، مثلاً: آدم، ذوالکفل اور نوح او ربعض بالکل متروک ہیں، مثلاً: ہود، لوط، الیسع، حالاں کہ ان کے بابرکت ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں، زبان پر ثقیل بھی نہیں، بہت ہلکے پھلکے ہیں، بس التفات نہیں۔ ایک عرصہ تک سوچتا رہا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ خیال آیا، شاید میرے علم میں نہ ہوں اور فی الواقع تجویز کیے جاتے ہوں، اس لیے کہ عدم علم عدم وقوع کو مستلزم نہیں، اس لیے :”فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون“ کی تعمیل میں بعض بزرگوں سے زبانی اوربعض سے تحریری سوال کیا، لیکن خاطر خواہ تسلی کسی جگہ سے نہ ہو سکی۔

اس لیے میں نے سوچا کہ لوگ نئے نئے نام دریافت کرتے ہیں اور اس قسم کی باقاعدہ کتابیں بھی مرتب ہوتی رہتی ہیں، جو مبارک نام اتنے قدیم ہو گئے ہوں جن کی طرف سے التفات ہٹ چکا ہو تو انہیں دہرانا شروع کر دیا جائے وہی رائج ہو جائیں گے۔

بے معنی اور غیر اسلامی ناموں کو بدلنے، انبیائے کرام اور صحابہ عظام کے ناموں پر کرنے میں کاتب الحروف نے کئی سالوں تک حضرت بڑوتی رحمة الله علیہ کے یہاں عملی نمونہ دیکھا کہ انہوں نے اپنے بہت سے اہل تعلق کے ناموں میں ترمیم فرمائی، بعض لوگوں کے نام کو تبدیل کیا، ”ہرسولی“ اور اس کے اطراف میں خاص طو رپر بہت سے نومولود بچوں کے نام ”ہود“،”لوط“ ”ذوالکفل“، ”نوح“ اور ”آدم“ تجویز فرمائے۔

بہرحال حضرات اہل علم اور خدام دین پر یہ ذمہ دار ی بھی عائد ہوتی ہے کہ مسلم معاشرہ میں جو غیر اسلامی ناموں کا رواج ہوتا جارہا ہے اور دینی وعلمی مزاج ومذاق کے رسالہ سے نام رکھنے کے بجائے ناول اور افسانوں کی کتابوں سے نام رکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے… اس پر ہر صاحب علم اپنی حیثیت وصلاحیت کے موافق توجہ دے او راسی پر زور دیا جائے کہ مسلمانوں میں انبیائے کرام، صحابہ عظام اور حضرات تابعین اہل علم وفضل کے ناموں کا سلسلہ بڑھے اورایک متروک سنت کا احیاء ہو او راحادیث میں جو اچھے، دل کش او ربامعنی نام کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اس کے متعلق جو خصوصی ہدایات دی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کا جذبہ عوام الناس میں بیدار ہو، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے کہ ”تم قیامت میں اپنے نام او راپنے آباء(واجداد) کے نام سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا تم بہتر نام رکھا کرو۔“ (ابوداؤد) ظاہر ہے کہ میدن آخرت میں کوئی برے نام سے پکارا گیا تو اس بھرے مجمع میں بڑی رسوائی اور خفت ہو گی، اس لیے وہ دن آنے سے پہلے ہی توجہ دی جائے اور نام کے انتخاب میں معنی ومفہوم کی ضرور رعایت رکھی جائے۔

سر کار دو عالم صلی الله علیہ وسلم اچھا نام سن کر بہت خوش ہوتے اور خوشی سے چہرہ انور دمکنے لگتا تھا او رناپسند نام سے چہرہ مبارک پر ناگواری کے آثار ظاہر ہو جاتے، اگرچہ وہ کسی قبیلے، بستی یا شہر کا نام ہی کیوں نہ ہو، اسی لیے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں رونق افروز ہونے کے بعد اس کا قدیم نام ”یثرب“ تبدیل کر دیا اور ”مدینہ“ تجویز فرمایا۔ حضرت بریدہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم جب کسی صحابی کو گورنر بنا کر کسی جگہ بھیجتے تو اس کا نام پوچھتے ، اگر پسندیدہ نام ہوتا تو خوش ہوتے اور ناپسندیدہ نام ہوتا تو ناگواری فرماتے اور اس کا اثر بھی چہرہ سے ظاہر ہو جاتا، ایسے ہی کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس بستی کا نام پوچھتے، اگر بہتر ہوتا تو خوش ہوتے اور خوشی کی کیفیت چہرہٴ انور پر نمایاں ہو جاتی اوراگر اچھا نہ ہوتا تو ناپسندیدہ گی کا اثر بھی چہرہ سے ہویدا ہو جاتا۔حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کی ایک صاحب زادی کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو بدل کر جمیلہ (خوب صورت) رکھ دیا۔ (مسلم، مشکوٰة،ص:704)

اور بھی اس قسم کی بہت سی مثالیں اور واقعات احادیث میں آئے ہیں، جن کی تفصیلات سے اہل علم واقف ہیں او رکتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ اس عاجز کا مقصد دین دار اور علماء کے طبقہ کو خصوصاً اور عوام المسلمین کو عموماً اس جانب توجہ دلانا ہے کہ وہ اچھے اور صالح ناموں کا انتخاب کریں اور وابستہ حضرات کو بھی اس کی تلقین وہدایت فرماتے رہیں۔

الله تعالیٰ ہم سب ہی کو اپنی مرضیات کی توفیق بخشے۔ آمین!