بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر صلی الله علیہ وسلم

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر صلی الله علیہ وسلم

حضرت مولانا سبحان محمودؒ

الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ… اما بعد…․

﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ﴾․(الانبیاء:107) یعنی ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

ویسے تو قرآن کریم تمام کا تمام سرور کائنات رسول کریم صلی الله علیہ و سلم کی بالواسطہ تعریف وتوصیف ہے، لیکن بہت سی آیتوں میں بلاواسطہ آپ کے بعض مخصوص اوصاف عالیہ کی الله تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے۔ اس آیت میں آپ کی وجود مبارک کو پیکر ِ رحمت فرمایا گیا ہے اور وہ بھی تما م جہانوں کے لیے، اگر الله تعالیٰ رب العالمین ،یعنی تمام جہانوں کے پالنے اور پرورش کرنے والے ہیں تو آپ کے مقدس ہستی رحمة للعالمین، یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے اور الله تعالیٰ کی ربوبیت سے کائنات کا ایک ذرہ بھی خارج نہیں تو کائنات کا کوئی ذرہ آپ کے سایہ رحمت سے باہر نہیں۔ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا اتنا بلند مقام ہے جو کسی بھی مخلوق کو حاصل نہیں، سچ کہا ہے شیخ سعدی نے #
        بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اسی لیے آپ کا ایک لقب نبی الرحمة بھی ہے، یعنی وہ نبی جو سراپا رحمت بن کر تشریف لائے۔

اس آیت میں آپ کو ”رحمةللعلمین“ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ عالم کی جمع ہے ، یعنی تمام عالم او رجہان۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف اس کرہٴ زمین اور یہاں کی مخلوق کے لیے ہی نبی رحمت نہیں بلکہ تمام کائنات خواہ زمین ہو، خلا وفضا ہو یا آسمان، سب کے لیے رحمت ہیں۔ اسی کو آپ نے ایک حدیث میں اس طرح فرمایا کہ ”انا رحمة مھداة“ ․(اخرجہ ابن عساکر عن ابی ھریرہ)… یعنی میری ذات الله تعالیٰ کی جانب سے بھیجی ہوئی رحمت ہے …۔ سرور کائنات کے رحمت ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کے طفیل ہی یہ تمام کائنات پیدا کی گئی، اگر آپ کی پیدائش نہ ہوتی تو الله تعالیٰ یہ عظیم کارخانہٴ عالم پیدا نہ فرماتا۔ پھر جس کو جو کچھ ملا آپ ہی کے صدقہ سے ملا۔ آپ کے طفیل علم ملا۔ آپ ہی کے صدقہ ایمان نصیب ہوا۔ آپ ہی کی وجہ سے رب کو پہچانا گیا اور آپ ہی کے باعث الله تعالیٰ کی محبت وعظمت بندوں کو حاصل ہوئی، گویا آپ نہ ہوتے تو کائنات نہ ہوتی، آپ نہ ہوتے تو دنیا میں ترقیاں اور آخرت میں نجات کے بلند مراتب حاصل نہ ہوتے۔

چوں کہ آپ پیکر رحمت ہیں ، اس لیے آپ کی ہرادا، ہر شان، ہرحرکت وسکون اور آپ کی تعلیمات، آپ کے احکام اور آپ کالایا ہوا دین، یعنی اسلام بھی رحمت ہی رحمت ہیں، آپ کی جملہ تعلیمات کی بنیاد رحمت ہے، ان میں سختی نام کو نہیں۔ یہ غلط فہمی یا ناواقفیت ہو گی کہ آپ کی تعلیمات میں سے کسی ایک حکم کو سخت یا ناقابل برداشت سمجھ لیا جائے، کیوں کہ رحمت کے معنی آزادی ، راحت طلبی او رمطلقاً نرمی کے نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ایسی چیزوں کی طرف راہ نمائی کی جائے جن سے زندگی ہر خطرہ سے محفوظ، دنیا ہر لحاظ سے شان دار اور آخرت مسرتوں سے لبریز ہو جائے۔ اگر کوئی ناسمجھ بچہ آگ سے کھیلنا چاہے تو اُسے اس کی آزادی دے دینا رحمت نہیں، بلکہ اس سے روکنا اور آئندہ کے لیے ایسا انتظام کر دینا کہ اس کا خطرہ نہ رہے، رحمت ہے۔

چوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم رحمة للعالمین ہیں، اس لیے آپ کی طبع مبارک رحم وکرم سے اس قدر لبریز تھی کہ سختی اور سنگ دلی کا نام ونشان بھی نہ تھا، آپ کی رحمتوں سے اپنے تو اپنے، جانی دشمن بھی فیض یاب ہوتے رہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے تمام عمر نہ تو کسی خادم کو مارا، نہ کسی عورت اور بچے کو اور نہ کسی دشمن کو ہاتھ لگایا، الایہ کہ میدان جہاد ہو تو آپ محض الله تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے کافر دشمن پر کبھی وار فرما دیتے،یہ آپ کی صفت رحمت ہی کا فیضان تھا کہ آپ نے اپنے اُن تمام جانی دشمنوں کو، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کو اور دیگر ایمان والوں کو دنیا میں زندہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ان پر قابو پانے کے بعد نہ صرف یہ کہ انتقام نہیں لیا، بلکہ ان کو اپنے رحم وکرم سے خوب خوب نوازا۔

فتح مکہ کے دن وہ اہل مکہ، یعنی کفار قریش جو چند لمحے پیشتر تک آپ کے دشمن جان اور برسرِ پیکار تھے اور اب بالکل مغلوب وشکست خوردہ ہو کر، مسجد حرام میں اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظر بیٹھے تھے او ران کو یقین تھا کہ آج ماضی کی تمام ایذا رسانیوں کا ہم سے انتقام لیا جائے گا کہ اچانک آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اے اہل مکہ ! آج تم سب کو معاف کیا جاتا ہے۔ انتقام تو کجا، تمہیں ملامت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا جائے گا۔ جاؤ! تم سب کے سب آزاد ہو، تم سے کوئی باز پُرس نہ ہو گی۔ اسی معافی پر ہی کفایت نہ فرمائی، بلکہ تاریخ نے دیکھا کہ چند یوم کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان مکہ والوں کو اس قدر مال وزر سے نوازا جوان کے وہم وگمان سے باہر تھا،حالاں کہ ان میں سے کچھ لوگ ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے۔

ہر نبی کی امت کے اخلاق حسنہ ، اُس کے نبی کے اخلاق کا پر تو ہوتے ہیں، اس لیے آپ کی امت پر بھی طبعی اعتبار سے رحم وکرم کا غلبہ ہے، دنیا میں کوئی دوسری قوم من حیث القوم مسلمانوں کا اس وصف میں مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہ اُمت اپنے دشمنوں سے بھی رحم وکرم کا معاملہ کرتی ہے اور انتقاماً بھی وہ سنگ دلی اختیار نہیں کرتی جودشمن اس کے ساتھ کرچکے ہوں، بالخصوص اپنے مسلما ن بھائیو پر تو بڑی مہربان او رنرم دل ہوتی ہے کیوں کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے امت کو یہی تعلیم دی ہے کہ ہر حال میں رحم وکرم اورمہربانی کا معاملہ کرتے رہو، حتی کہ دشمنوں کے ساتھ اور جانوروں کے ساتھ بھی۔ارشاد فرمایا:”ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء“ ․(ترمذی، رقم الحدیث:1924)… یعنی تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔ اور مسلمانوں کے ساتھ نرمی ومہربانی کے سلسلہ میں فرمایا کہ ”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ“․ (بخاری، رقم الحدیث:10)یعنی سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ او رزبان سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف نہ پہنچے، زبان سے تکلیف نہ پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی بات زبان سے نہ نکالے جس سے کسی دوسرے کی دل آزاری ہو اور ہاتھ سے ایذا نہ پہنچانے کا مطلب ناحق کسی مسلمان کو نہ تو مارے اور نہ اس کا مال ناحق اپنے قبضہ میں لے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہایت واضح الفاظ میں اسی رحمت کی تعلیم دیتے ہوئے حجة الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ اے الله او راس کے رسول اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والو! غور سے سنو! تمہاری جان، تمہارے مال او رتمہاری عزت وآبرو کی حرمت ایک دوسرے پر ایسی ہی ہے جیسے مکہ معظمہ جیسے شہر، ماہ ذوالحجہ جیسے مقدس مہینہ اور عید الاضحی جیسے مبارک اور باعظمت دنوں کی حرمت۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو خاموش کراکے توجہ کامل سے سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دیکھو! میرے بعد ایک دوسرے کی گردن نہ مارنا کہ یہ کافروں کا شیوہ اور ان کا کام ہے۔ اور ارشاد فرمایا کہ:”سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر“․ (بخاری، رقم الحدیث:48)… یعنی کسی مسلمان کو گالی دینا بہت بڑا گناہ ہے او راس سے قتل وقتال کرنا تو کفر جیسا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نبیٴ رحمت ایسی سنگ دلی، سفاکی او رخون ریزی کو پسند فرمائیں جس کی بنیاد سراسر ظلم وتشدد پر ہو؟! آپ صلی الله علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا:”القاتل والمقتول فی النار“ (بخاری، رقم الحدیث:31)… یعنی ناحق قتل کرنے والا اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے، صحابہ نے عرض کیا کہ قاتل کا تو جہنم میں جانا سمجھ میں آتا ہے، لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی اپنے اس قاتل کو قتل کرنا چاہتا تھا، یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس میں کام یاب نہ ہوا۔ امت مسلمہ میں آپس میں یہ سنگ دلی، یہ سفاکی اور یہ ظلم وتشدد جس کو سن کر ہی ندامت سے سرجھک جاتا ہے، نبی رحمت کی تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب شیطانی او رکافرانہ طور طریق ہے، جو ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے ہم میں آگیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہر پیر اور جمعرات کو آپ کی امت کا اعمال نامہ پیش کیا جاتا ہے۔ اگر امت کے اعمال اچھے ہوں تو آپ خوش ہوتے ہیں۔ اور اگر ناپسندیدہ ہوں تو آپ کو بڑا دکھ اور غم ہوتا ہے۔ ( عن ابن مسعود مسند بزار:5/308) آپس میں خون ریزی کرنے والی امت غور کرے کہ وہ اپنے اس فعل سے رب رحیم کو خوش کر رہی ہے یا رحمة للعالمین اور نبی رحمت کو؟ یقینی بات ہے کہ سفاکی سے الله تعالیٰ بھی سخت ناراض اور نبی الرحمت بھی بڑے دکھی اور مغموم ہیں۔ خدا را! آنکھیں کھولیے، عقل سے کام لیجیے، دشمنوں کے آلہٴ کار نہ بنیے، ان دونوں ہستیوں کو ناراض کرکے نہ ہماری دنیا درست ہوسکتی ہے نہ آخرت۔ رحمة للعالمین کے صدقہ میں ہمیں جو رحم وکرم کاوافر حصہ الله تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اتنا بڑا حصہ جو دنیا کی کسی قوم کے پاس نہیں، اس سے کام لیجیے اور اسے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے وقف کر دیجیے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اسی حصہ داروں میں رکھے۔ آمین۔

﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ﴾․یہ سورہٴ فتح کی آخری آیت کا ابتدائی حصہ ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ ” محمد(صلی الله علیہ وسلم) الله تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کی صحبت پائے ہوئے ہیں ( یعنی صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین) وہ کافروں کے مقابلہ میں بڑے سخت ہیں اور آپس میں بڑے مہربان۔ اس آیت میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے کمالات واوصاف کی الله تعالیٰ نے ایسی عظیم تعریف وتوصیف فرمائی ہے کہ اُس کا عُشر عشیر سمجھ لینا بھی ناممکن ہے۔ محمد رسول الله، اس کلمہٴ طیبہ کا دوسرا جزو ہے جس پر ایمان موقوف ہے، الله تعالیٰ نے جب عرش کو پیدا فرمایا تو اس پر نورانی حروف سے ” لا الہ الا الله محمد رسول“ لکھ دیا۔ روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مبارک نام کا وسیلہ لے کر الله تعالیٰ سے اپنی لغزش کی معافی طلب کی تو الله تعالیٰ نے معاف فرماکر دریافت کیا ( حالاں کہ وہ خوب جانتا تھا) کہ اے آدم! تمہیں یہ نام پاک کہاں سے معلوم ہوا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے عرش بریں پر جب آپ کے نام کے ساتھ یہ نام دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ یہ مقدس ہستی یقینا آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اس لیے اس نام کے وسیلہ سے میں نے مغفرت طلب کی۔ (مستدرک الحاکم، رقم الحدیث:4194)

آپ کا اسم گرامی”محمد“ اپنے معنی کے اعتبار سے ان تمام کمالات واوصاف پر دلالت کرتا ہے جو مسلسل مدح سرائی، ثنا خوانی اور تعریف توصیف کا سبب ہیں، رب ذوالجلال کی جانب سے بھی ، فرشتوں اور انسانوں کی جانب سے بھی بلکہ تمام کائنات کی جانب سے بھی ، ایسی تعریف جو مسلسل ہو، خوب خوب ہو او رکبھی ختم ہونے والی نہ ہو۔

یوں تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بہت سے مبارک نام قرآن وحدیث میں آئے ہیں، لیکن آپ کے دو پاک نام مشہور ہیں: ایک” محمد“ اور یہ سب سے زیادہ مشہور ہے، دوسرا”احمد“ الله تعالیٰ نے آپ کے یہ دونوں کراکے اپنی ذات او راپنی مخلوق کی جانب سے آپ کی مدح سرائی فرمائی ہے۔

آپ کا نام نامی ”محمد“ آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے بالہام خدا وندی تجویز فرمایا تھا اور یہ نام قبیلہ قریش بلکہ ملک عرب میں معروف نہ تھا، چناں چہ جب آپ کا یہ نام رکھا گیا تو قریش، کے لوگ عبدالمطلب کی خدمت میں آئے اور عر ض کیا کہ اے ہمارے سردار! آپ نے اپنے پوتے کا ایسا نام کیوں رکھا جو نہ تو خاندان قریش میں کسی کا ہوا، نہ ملک عرب میں یہ نام کسی نے رکھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ نام میں نے اس لیے رکھا ہے کہ اس بچہ کی تعریف اہل زمین بھی کرتے ہیں اور اہل آسمان بھی۔ ( سیرت المصطفی، ج:1/61) قریش یہ جواب سن کر خاموش ہو گئے۔

درحقیقت لفظ”محمد“ کے یہی معنی ہیں جو آپ کے دادا صاحب نے بتائے، کیوں کہ یہ لفظ ”حمد“ سے بنا ہے ،جس کے معنی تعریف کرنے کے آتے ہیں او رعربی گرامر کے مطابق ”محمد“ میں کثرت او رمبالغہ کے معنی ہوں گے، یعنی وہ ہستی جس کی سبھی تعریف کریں، خوب خوب کریں اور کرتے رہیں۔ چناں چہ آپ کی تعریف کرنے سے کوئی مستثنیٰ نہیں رہا، حتی کہ آپ کے منکر اور سخت ترین دشمن بھی جب آپ کا یہ مبارک نام زبان سے لیں گے تو معنی کی وجہ سے وہ بھی مجبوراً آپ کی تعریف کرنے والے بن جائیں گے۔ ورنہ جس پاک ذات کی ثنا خوانی خالق کائنات فرمائے تو مخلوق کی ثنا خوانی کی اس کو ضرورت نہیں رہتی۔

الله رب العزت کی جانب سے آپ کی مدح سرائی بالکل ظاہر ہے، قرآن کریم میں جا بجا آپ کے خصوصی کمالات اور اوصاف کو رب العزت نے ذکر فرمایا ہے، چناں چہ اس تعریف میں سب سے زیادہ واضح آیت یہ ہے کہ :﴿إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ﴾․ (الاحزاب:56)۔ امام بخاری نے حضرت ابو العالیہ سے نقل کیا ہے کہ الله تعالیٰ کی صلوٰة کا مطلب ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعریف کرتے رہنا۔ اس کو مشہور شارح بخاری امام ابن حجر نے پسند فرمایا ہے۔ اب اس آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ بے شک الله تعالیٰ آپ کی تعریف فرماتے رہتے ہیں اور فرشتے بھی۔

خالق کائنات کی تعریف اس کے شایان شان ہو گی، کسی مخلوق کو اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوسکتی، البتہ ظاہر ہے تمام مخلوقات کی تعریف سے بلند وبالا ہو گی اور دائمی وابدی ہو گی۔ پھر فرشتے بھی آپ کی تعریف میں مشغول ہیں، بے شمار فرشتے جن کی تعداد صرف الله تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہ فرشتے ہر اُس انداز سے جو الله تعالیٰ نے ان کے لیے تجویز فرما دیا ہو، ہر وقت آپ کی تعریف میں اس طرح مشغول ہیں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں ہوتے، چناں چہ بہت سے فرشتے وہ ہیں جو درود شریف کے ذریعہ آپ کی مدح سرائی میں مشغول ہیں، لاتعداد فرشتے وہ ہیں جو آپ کی امت کی جانب سے درود شریف کا تحفہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچانے کے لیے ہر وقت مشغول خدمت ہیں اور ان گنت فرشتے وہ ہیں جو کسی مومن کے ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر الله تعالیٰ کی جانب سے دس رحمتیں اُس مومن تک پہنچانے کی خدمت میں شب وروز مشغول ہیں ، ایک لمحہ کے لیے نہ غافل ہوتے ہیں، نہ تھکتے ہیں اور چوں کہ الله تعالیٰ کے نام پاک کے ساتھ آپ کا مبارک نام بھی لازم ہے، اس لیے تمام فرشتے جو تسبیح وذکر وغیرہ میں مشغول ہیں لامحالہ آپ کی تعریف کرنے والے ہیں۔ رہے انسان وغیرہ… تو ان میں سے نیک اور مومن بندے تو آپ کی تعریف دل وجان سے کرتے ہیں، لیکن پھر بھی حق ادا نہیں کرسکتے اور نافرمان وکافر لوگ اگرچہ تعریف کرنا نہیں چاہتے، لیکن ان میں سے جو انصاف پسند ہیں وہ آپ کی تعریف برملا کرتے ہیں اور دوسرے بھی مجبوراً آپ کے اسم گرامی کو لیتے ہی آپ کی تعریف کرنے والے بن جاتے ہیں۔

آپ کا اسم پاک ” محمد“ ایسا پیارا نام ہے کہ خود رب العالمین نے ہر اس موقعہ پر جہاں آپ کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے بڑے پیار او رمحبت سے اسی نام کا ذکر فرمایا ہے،حدیث شریف میں آتا ہے کہ بروز محشر جب تمام مخلوق پریشان ہو کر حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے پاس درخواست شفاعت لے کر جائے گی اور وہ حضرات ان کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیں گے، تو آپ اس درخواست کو قبول فرماکر، رب العالمین کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ اس پر رحمت خداوندی جوش میں آجائے گی اور ارشاد ہو گا:” یا محمد، ارفع راسک، سل تعط واشفع تشفع“ یعنی: اے محمد ( صلی الله علیہ وسلم )! اپنا سرسجدہ سے اٹھائیے او رمانگیے جو مانگنا ہے، آپ کو سب کچھ دیا جائے گا اور شفاعت کیجیے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

آپ کا دوسرا نام مبارک ”احمد“ ہے، یہ بھی قرآن کریم میں آیا ہے روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا یہ نام پاک پہلی آسمانی کتابوں میں آیا ہے، چناں چہ سورہٴ صف میں فرمایا گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا تھا کہ میں اپنے بعد ایک رسول ( عظیم) کی خوش خبری دینے والا ہوں، جن کا نام نامی ”احمد“ ہو گا۔ یہ بھی ”حمد“ سے بنا ہے، جس کے معنی تعریف کرنے کے آتے ہیں، لہٰذا”احمد“ کے معنی ہوں گے: وہ ذات جو خوب قابل تعریف ہے۔ اس کا حاصل بھی وہی ہے جو آپ کے پہلے نام کا ہے۔

سورہٴ فتح کی آیت میں پھر آپ کی تعریف دوسرے پہلو سے الله تعالیٰ نے فرمائی ہے کہ ﴿ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ﴾۔ یعنی جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت اور آپس میں بڑے مہربان ہیں، رکوع وسجود میں وقت گزارتے ہیں او رالله تعالیٰ کے فضل وکرم اور خوش نودی کے طلب گار رہتے ہیں۔ یہ حضرات صحابہٴ کرام ہیں جو انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔ یہ حضرات آپ کے فیض صحبت سے اس بلند مقام تک پہنچے جب کہ اس سے پہلے دنیا میں جاہل، وحشی اور غیر مہذب سمجھے جاتے تھے۔ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا کتنا بڑا، قابل صد تعریف کمال ہے کہ ایسے لوگوں کو تمام عالم کے لیے آفتاب وماہتاب اور رشد وہدایت اور علوم وحکمت کا سرچشمہ بنا دیا اور آپ ہی کے فیض صحبت سے اس قدر بلند اخلاق، اقدار کے وہ مالک ہو گئے کہ نہ ماضی میں کوئی اس مقام تک پہنچا، نہ مستقبل میں پہنچ سکے گا۔