بزرگان دین کی صحبت

بزرگان دین کی صحبت

مولانا محمدیوسف

حق تعالیٰ شانہ نے انسان کے اندر یہ خاصیت رکھی ہے کہ دوسرے انسان کا اثر جلد قبول کر لیتا ہے، جب آپ کسی بھی شخص کے پاس آنا جانا اور اٹھنا بیٹھنا شروع کریں گے تو اس کے خیالات، نظریات، سیرت وکردار ، اخلاق واطور، طریقہ گفتار سے متاثر ہوتے چلے جائیں گے او رکچھ ہی عرصہ میں آپ کی شخصیت اس کی شخصیت میں بہت حد تک ڈھل جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ سامنے والے کی باتوں اور اس کے طور طریقوں کا آپ پر اچھا یا بُرا اثر ضرورپڑے گا، قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں انسان کی اس نفسیاتی کیفیت کو مدِ نظر رکھ کر جابجا نیک لوگوں کی صحبت اور ان کی ہم نشینی پر زور دیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ کے نیک بندوں سے میل جول اور ان سے تعلق اختیار کرنا انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلی میں بڑا گہرا اثر رکھتا ہے۔

تقویٰ اور اہل الله کی صحبت
ارشاد باری تعالی ہے : ” اے ایمان والو! الله (جل شانہ) کا تقویٰ اختیار کرو اور جو لوگ دین میں سچے او رپکے ہیں ان کے ساتھ رہو۔“

اس سے معلوم ہوا کہ تقوی یعنی شریعت کی مکمل پابندی (فرائض وواجبات کی ادائیگی او رتمام گناہوں سے بچنا ) الله والوں کی صحبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، گویا الله جل شانہ نے تقوی کا حکم فرما کر ساتھ ہی اس کے حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا کہ بزرگان دین کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کے ساتھ طویل عرصے کی رفاقت کے بعد یہ نعمت حاصل ہوسکتی ہے۔

نیک لوگوں کی رفاقت فائدے سے خالی نہیں
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نیک ہم نشین کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص مشک لیے ہوئے ہو ( اور بُرے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے ) ایک شخص بٹھی دھونک رہا ہو، وہ عطر فروش یا تو تم کو کچھ عطر دے دے گا اوراگر کچھ نہ بھی دے تو تمہیں اس سے خوش بو پہنچ جائے گی اور بٹھی دھونکنے والا (آگ جلانے والا) یا تو تمہارے کپڑوں کو جلا دے گا او راگر اس سے بچ بھی گئے تو اس کی گندی بو کم از کم تمہیں ضرور پہنچے گی۔ ( بخاری ومسلم)

اس سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کی صحبت میں فائدہ یقینی ہے اور بُرے لوگوں کی رفاقت نقصان سے خالی نہیں۔

صحبت کی تاثیر
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة الله علیہ ارشاد فرماتے ہیں: کسی کے پاس رہنا عجیب چیز ہے، کیسا ہی کم ہمت آدمی ہو، لیکن جس فن کے آدمی کے پاس بیٹھے گا، اسے اس فن کی باتوں سے رغبت ، مناسبت اور ہمت وعادت پیدا ہو جاتی ہے، اگر آدمی عقل مندوں میں رہے تو عقل مندی آجاتی ہے، بے وقوفوں میں رہے تو انسان بے وقوف ہو جاتا ہے، عورتوں میں رہے تو زنانہ پن آجاتا ہے، سپاہیوں میں رہے تو مردانگی اورجرات پیدا ہو جاتی ہے، اپاہجوں میں رہے تو کاہل پن آجاتا ہے،غرض صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔(فوائد الصحبت)

نیک لوگوں کی پہچان
اکابرین اہل الله اور حضرات صوفیائے کرام زمانہ قدیم سے اہل الله ہونے کی بہت سی علامات بیان کرتے چلے آئے ہیں، چوں کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ جو علمی او رعملی انحطاط ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، اس لیے موجودہ زمانے میں زمانہ قدیم کے بزرگان دین کے معیار پر اہل حق کو تلاش کرنا غلطی ہو گی، اگر مذکورہ چند باتیں بھی کسی شخص میں پائی جاتی ہوں تو اس کی صحبت وہم نشینی کو غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

شریعت کا ضروری علم ہو، خود بھی شریعت پر عمل پیرا ہو ، سنت کا پابند ہو، شرک وبدعت او ردنیا کی رسموں سے بچتا ہو، کسی بڑے متبع سنت بزرگ کی تربیت میں رہا ہو اور اس سے تربیت کی اجازت بھی حاصل ہو، اچھے اخلاق کا حامل ہو، طبیعت میں عاجزی اورتواضع ہو اور جو شخص ان ساری باتوں کی نہ تحقیق کرسکتاہو اور نہ سمجھ سکتا ہو تو اس کے لیے آسان معیار یہ ہے کہ جس شخص کو اس زمانے کے اکثر نیک لوگ دین دار او راچھا سمجھتے ہوں اور اس کے پاس بیٹھنے سے دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف لگاؤ ہو، گناہوں سے طبیعت ہٹنے لگے اور اچھے اعمال کی طرف جی لگے، بس ایسے آدمی کے پاس اٹھنا بیٹھنا شروع کردے۔

صحبت اہل الله کے فوائد وبرکات
گناہوں کو چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے، اچھی صحبت کو دل کی مضبوطی اور قوت میں بڑا دخل ہے، دین کی صحیح حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے، دل میں اطمینان وسکون کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، زندگی میں برکت وعافیت حاصل ہوتی ہے، ناموافق حالات اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے، الله تعالیٰ کا تعلق اور شریعت پر استقامت نصیب ہو جاتی ہے، جو آخرت کی کام یابی کی بنیاد ہے۔

اہل الله کی صحبت فرض عین ہے
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة الله علیہ ارشاد فرماتے ہیں: میں تو اس زمانے میں صحبت اہل الله کو فرض عین کہتا ہوں اور فتوی دیتا ہوں کہ اس زمانے میں اہل الله اور خاصان حق کی صحبت اور ان سے تعلق رکھنے کے فرض عین ہونے میں کسی کو کیا شبہ ہوسکتا ہے اور تجربہ سے معلوم ہوا کہ ایمان کی سلامتی کا ذریعہ صرف اہل الله کی صحبت ہے ۔ (الافاضات الیومیہ)

ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں: دین پر عمل کرنے کا مدار صحبت صالحین پر ہے #
        نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
        دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

فقیہ ملت حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ الله اپنے سلسلے کے ایک استاد کا ملفوظ نقل فرماتے تھے کہ جس کو دنیا کابننا ہو اور دین سے کھونا ہو، اس کو طبیبوں کے سپرد کر دے اور جس کو دنیا سے کھونا ہو اور دین کا بننا ہو، اس کو صوفیاء کے سپرد کر دے اور جس کو دونوں (دین ودنیا) سے کھونا ہو اسے شاعروں کے سپرد کر دے ۔

موجودہ حالات اور صحبت اہل الله کی اہمیت
دورہ حاضر میں، جب کہ ہر طرف فسق وفجور کی زندگی پھیلی ہوئی ہے، گناہ کھلے عام اور اس قدر کثرت سے ہو رہے ہیں کہ ان کے بُرے ہونے کا احسا س بھی مٹتا چلا جارہا ہے، قومی اور ملکی سطح پر بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے، اسلامی حمیت اور غیرت کا جنازہ نکل چکا ہے، نت نئے وسائل اور آلات کے ذریعے وہ کچھ دیکھا اور سنا جارہا ہے کہ الامان والحفیظ…ایسے زمانے اور ماحول میں، جب کہ تقوی کی زندگی، بلکہ دین وایمان کی سلامتی بھی خطرے میں ہے، الله والوں کی خدمت میں حاضری دینا، ان سے تعلقات استوار کرنا، ان کی دعائیں لینا، ان سے دینی ہدایات حاصل کرتے رہنا، ان کی مجلس میں شرکت کرنا او ران سے روحانی فیوض وبرکات حاصل کرنا، بڑی نیک بختی اور سعادت کی علامت ہے اور درحقیقت جس کو یہ نعمت عظمی میسر ہو گئی ، اس پر الله جل شانہ کا خاص فضل متوجہ ہے کہ ان دینی مجالس اور بزرگوں کی صحبت کی مثال موجود ہ زمانے میں اس جزیرے کی سی ہے جس کے اردگرد تاحد نظر ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہو، ان دینی مجالس اور مبارک ماحول میں ہمارے لیے بُری مجلسوں اور گناہوں کی محفلوں سے حفاظت بھی ہے او ربُرے لوگوں کی بیٹھک اور گناہوں کے اثرات کا تریاق بھی ہے۔ ہمارے دین وایمان کی سلامتی بھی اور دنیا وآخرت کی کام یابی اور ترقی بھی۔ حق تعالیٰ شانہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔