بابرکت نکاح

بابرکت نکاح

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد: فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا ،یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا﴾․ (سورة الاحزاب:71-70) صدق الله مولٰنا العظیم․

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: النکاح من سنتی․ (سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب ماجاء فضل النکاح، رقم الحدیث:1846) وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: فمن رغب عن سنتی فلیس منّی․( الجامع الصحیح للبخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح، رقم الحدیث:5063)، وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”إن أعظم النکاح برکة أیسرہ مؤونة“․( مسند احمد، مسند الصدیقة عائشة بنت الصدیق رضی الله عنہما، رقم الحدیث:24529)، وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: تزوجوا الودود الولود؛ فإنی مکاثر بکم الأمم․( سنن أبی داود، کتاب النکاح، باب النھی عن تزویج من لم یلد من النساء، رقم الحدیث:2052)

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! آج کل شادیاں بکثرت ہو رہی ہیں او رکئی دفعہ اس حوالے سے گفت گو بھی ہوئی ہے۔

ہمارے ہاں عام طور پر اس عمل کے لیے شادی کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جب کہ شریعت میں یہ عمل نکاح کہلاتا ہے اور الله رب العزت کا یہ نظام ہے کہ نکاح کے اس عمل سے وہ عورت ،جو حرام تھی، محارم میں سے تھی ، اس کو دیکھنا ،مس کرنا، اس کے ساتھ رہنا حرام تھا، نکاح کے عمل سے وہ حلال ہو جاتی ہے۔ اس کو دیکھنے کی بھی اجازت، اس کے پاس بیٹھنے کی بھی اجازت او راس کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کی بھی اجازت، اب یہ سب حلال ہے اور ایساحلال ہے کہ الله تعالیٰ کو بھی محبوب ہے اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو بھی محبوب ہے، نکاح انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور نکاح انسانی ضرورت ہے۔

اگر نکاح کو اسلام کے نہایت سنہری اور نہایت بہترین اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اختیار کیا جائے تو اس سے پورے عالم میں، چین، سکون پیدا ہوتا ہے انسانوں میں چین او رسکون پیدا ہوتا ہے، خاندانوں میں چین اور سکون پیدا ہوتا ہے، میاں بیوی میں چین اورسکون پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سی خیر اور برکت اس دنیا میں آتی ہے، چناں چہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام یہ عمل کرتے رہے ہیں او رامام الانبیاء سید الرسل محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی نہ صرف یہ کہ اسے اختیار فرمایا، بلکہ اپنی امت کو آپ نے اس کی ترغیب دی اور آپ نے فرمایا: النکاح من سنتی․ نکاح میری سنت ہے اور پھر آپ نے ارشاد فرمایا: فمن رغب عن سنتی، جو آدمی میری سنت سے روگردانی کرے، منھ موڑے، اعراض کرے، فلیس منی ، وہ مجھ سے نہیں ہے یعنی میرے طریقے پر نہیں ہے۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ علیہ وسلم نے جو نکاح فرمائے، ہر ہر نکاح کی تفصیلات موجود ہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”إن أعظم النکاح برکة“ برکت کے اعتبار سے بڑی عظمت والا نکاح، أیسرہ مؤونة ، وہ نکاح ہے جو مشقت کے اعتبار سے ہلکا اور آسان ہو، اس میں کوئی مشقت نہ ہو، اس میں کوئی مشکل اور پیچیدگی نہ ہو، آسان اور سہل ہو۔

آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام نکاح ایسے ہی تھے،سنن ترمذی میں ہے: ”قال عمر بن الخطاب رضی الله عنہ: ألا لا تغالوا صدقة النساء، فانھا لوکانت مکرمة فی الدنیا أتقی عندالله لکان أولکم بھا نبی الله صلی الله علیہ وسلم، ماعلمت رسول الله صلی ا لله علیہ وسلم نکح شیئاً من نسائہ، ولا أنکح شیئا من بناتہ علی اکثر من ثنتی عشرة أوقیة․

… والاوقیة عند أھل العلم اربعون درھما، وثنتا عشرة اوقیة ھو اربع مأة وثمانون درھما․“ (سنن الترمذی،أبواب النکاح، باب ماجاء فی مھور النساء ، رقم الحدیث:1114)

حضرت عمر رضی الله عنہ نے آدھے اوقیہ کا ذکر عرب کی عادت کے مطابق نہیں فرمایا، اور آدھا اوقیہ 20 درہم کا ہوتا ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اپنے جتنے نکاح ہوئے او راپنی بنات کے جو نکاح فرمائے ان کا مہر پانچ سو درہم سے زیادہ نہیں تھا۔

اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا جو حضرت صفیہ رضی الله عنہا سے نکاح ہوا، اس کے ولیمے کے بارے میں حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں:

… فدعوت المسلمین إلی ولیمتہ وماکان فیھا من خبز ولا لحم، وما کان فیھا إلا أن أمربلا لا بالأنطاع فبسطت، فألقی علیھا التمر والأقط والسمن“․ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، رقم الحدیث:3976)

یعنی میں نے مسلمانوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ولیمے کے لیے بلایا اور اس ولیمے میں نہ روٹی تھی، نہ گوشت تھا، اس ولیمے میں صرف یہ ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی الله عنہ کو دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور وہ بچھا دیا گیا او راس دسترخوان پر کھجور، پنیر او رگھی رکھ دیا گیا۔

اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کی جب شادی حضرت علی رضی الله عنہ سے کی، تو ان کو جہیز میں ایک چارپائی، ایک تکیہ جس میں کھجور کے درخت کی چھال تھی، دو چکیاں اور دو گھڑے دیے۔ (الإصابة فی تمیز الصحابة) یہ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کے جہیز کا کل ساما ن تھا۔

اور آپ کے صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کے نکاح بھی سب ایسے ہی تھے او راس کے بعد کا جو دور ہے اس میں بھی نکاح ایسے ہی تھے، بہت سہل، بہت آسان، اس سہل ، آسان نکاح کی برکت سے ہر چیز مبارک ہوجاتی، ہر چیز میں برکت آجاتی او راگر اس نکاح کو مشکل بنا دیا جائے تو اس کا جو سب سے بڑا نقصان ہوتا ہے، وہ یہ کہ نکاح کی شرح کم ہوجاتی ہے، نکاح پھر زیادہ نہیں ہو پاتے، اس لیے کہ مشکل ہے، جیسا کہ آج مشکل ہے، لڑکا سوچتا ہے، لڑکے کے ماں باپ سوچتے ہیں، اتنے اخراجات ؟! لہٰذا جب تک اس کے لیے پیسہ جمع نہ کیا جائے، مال اکٹھا نہ کیا جائے شادی ممکن نہیں، اب ہر آدمی کی نوعیتیں الگ الگ ہیں۔

ایک آدمی کے پاس مال ہے، وہ اسے خرچ کر رہا ہے، ایک آدمی کے پاس مال نہیں ہے، تو اب وہ حرام راستوں سے، ناجائز راستوں سے مال جمع کرتاہے او راپنے بیٹے کی شادی کرتا ہے، اپنی بیٹی کی شادی کرتا ہے اور اس میں وہ سارے طریقے اختیار کرتا ہے، جو الله تعالیٰ کو بھی ناپسند ہیں اورالله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو بھی ناپسند ہیں ۔ آپ بتائیے کہ وہ عمل ،وہ کام جو الله تعالیٰ کو پسند نہیں ہے، وہ حرکتیں جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پسند نہیں تو اس میں خیر وبرکت کیسے ہوسکتی ہے؟ بھائی! نکاح تو ہم الله کے حکم اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کی بنا پر کر رہے ہیں نا؟!

جب ہم الله تعالیٰ کے حکم پر اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پر ایک عمل کر رہے ہیں، تو پھر اس میں الله تعالیٰ کے احکامات ہی اگر نہ ہوں اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقے ہی اس میں نہ ہوں، تو وہ عمل مبارک نہیں ہو گا، اس عمل میں خیر نہیں ہوگی، اس عمل میں عافیت نہیں ہوگی، اس عمل میں خود غرضی ہوتی ہے، اس عمل میں حرص اور لالچ ہوتی ہے ،اس عمل میں ریا اور دکھاوا ہوتا ہے کہ میں نے اتنا خرچ کیا، اپنے بیٹے کی شادی پر اتنا کیا، اپنی بیٹی کی شادی پہ اتنا کیا او راگر کوئی سمجھائے کہ بھائی! ایسا نہ کرو، تو فوراً کہتے ہیں کہ بھائی! ہماری تو بے عزتی ہوجائے گی، ہماری ناک کٹ جائے گی، ہم بد نام ہو جائیں گے۔

میرے دوستو! یہ ساری کی ساری وہ باتیں ہیں جو نفس اور شیطان سمجھاتا ہے، آپ بتائیے کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ عزت والا کون ہے؟

صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین سے زیادہ عزت والا کون ہے؟ان حضرات نے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا، جو غیروں والا ہو، سادہ نکاح فرمائے۔

یہ بات یاد رکھیں کہ جب کوئی عمل الله تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہوتا ہے اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہوتا ہے تو یہ طے ہے چاہے ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے کہ اس میں برکت ہی برکت ہوتی ہے، اس میں خیر ہی خیر ہوتی ہے، اس میں عافیت ہی عافیت ہوتی ہے، چناں چہ اسلام کا ایک زرین دور ہے، طویل دور ہے، جس میں وہ خیر وبرکت پوری امت کے سامنے آئی ہے اور وہ تمام طریقے جوغیروں کے ہیں ان میں نحوست ہی نحوست ہے ۔مثلاً ہمارے ہاں دعوت نامے شادی کارڈ، ہزاروں لاکھوں روپے اسی پر پھونک دیئے جاتے ہیں، حالاں کہ آپ دعوت زبانی بھی دے سکتے ہیں کہ بھائی! میرے بیٹے کا نکاح ہے، تشریف لائیے، میری بیٹی کا نکاح ہے، تشریف لائیے ۔اور صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کے زمانے میں تو یہ سب کچھ تھا ہی نہیں، کچھ نہیں تھا۔ نکاح کے بارے میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ وہ مسجد میں کیا جائے، تو مسجد میں تو پہلے سے لوگ موجود ہیں، بھائی! میرے بیٹے یا بیٹی کا نکاح ہے، آپ سب لوگ تشریف رکھیں، سب لوگ بیٹھ گئے، نکاح ہو گیا، کسی دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہے، کسی کارڈ کی ضرورت نہیں ہے اورپھر اس میں بھی اسراف، حد سے تجاوز، جس کا کوئی مقصد نہیں، جس کا کوئی حاصل نہیں اور پھر عجیب بات ہے جس کے گھر دعوت ہو رہی ہے، جو داعی ہے، بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کو انگریزی نہیں آتی، لیکن دعوت نامہ انگریزی میں چھاپ رہے ہیں، عجیب بات ہے! جس کو دعوت دے رہے ہیں اس بے چارے کو بھی انگریزی نہیں آتی، وہ دیکھ کے ظاہر ہے کہ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی، یہ تو اور مشکل ہوگی، وہ پھر بعد میں کسی سے پڑھواتا ہے، کہ بھائی! کیا لکھا ہے اس میں؟ یہ سب وہ طور طریقے ہیں جو غیروں کے ہیں، اسلام کا اور مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں، میں عرض کر رہا تھا کہ صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کا زمانہ ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کا عہد مبارک ہے، آپ حیات ہیں، موجود ہیں۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ عشرہ مبشرہ میں ہیں، ( قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابوبکر فی الجنة… وعبدالرحمن بن عوف فی الجنة… إلخ․ (سنن الترمذي، کتاب المناقب، مناقب عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ، رقم الحدیث:3747)

جلیل القدر صحابی ہیں، ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ آئے اس زمانے میں آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم مؤاخاة قائم فرماتے تھے کہ بھائی! یہ صحابی ہیں، یہ ہجرت کرکے مکہ سے آئے ہیں اور انصار میں سے کسی کو بلاتے اور فرماتے کہ آج سے آپ دونوں بھائی بھائی ہیں، تو وہ جو انصاری صحابی تھے، جب وہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کے بھائی بن گئے، تو انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے کہا کہ عبدالرحمن !اب تم میرے بھائی ہو، میرے پاس دو باغ ہیں ، کھجوروں کے باغ، میری ضرورت کے لیے ایک باغ کافی ہے۔ دوسرا باغ میں تمہیں ہدیہ کر دیتا ہوں، تم لے لو۔

دل بڑے تھے، آج تو چوّنی دینے میں بھی دس دفعہ سوچتا ہے، دوں یا نہ دوں، باغ، کھجور کا باغ، پھل دار باغ، وہ صحابی کیا فرمارہے ہیں؟! میری ضرورت تو ایک سے پوری ہو جاتی ہے، دوسرا باغ تم لے لو اورانہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اے عبدالرحمن !میری دو بیویاں ہیں، میں ایک کو طلاق دے دیتا ہوں، جب اس کی عدت پوری ہوجائے تم اس سے شادی کر لینا۔

ہیں ایسے آج دل؟ وہاں ایمان بھرا ہوا ہے ، ا لله کی محبت بھری ہوئی ہے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت بھری ہوئی ہے، تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ، مکہ سے جب آئے ہیں تو ان کے پاس ٹکہ بھی نہیں ہے، کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا: الله آپ کو جزائے خیر عطافرمائے، نہ مجھے باغ کی ضرورت ہے اور نہ بیوی کی ضرورت ہے، تم تو مجھے بازار کا راستہ بتاؤ کہ یہاں کا بازار کہاں ہے؟ چناں چہ انہوں نے بازار کا راستہ دکھاد یا۔

اس زمانے کا مدینہ منورہ بہت چھوٹا سا تھا، بستی تھی ایک چھوٹی سی، چھوٹا سا گاؤں تھا اور لوگ بتاتے ہیں کہ اس وقت جو مسجد نبوی ہے، جس کی توسیع ہوچکی ہے، جس میں مسجد کی عمارت بھی اور مسجد کے اردگرد متصل صحن بھی شامل ہے۔ جو آخری دیواریں ہیں، جس پر گرل لگی ہوئیہے، گیٹ لگے ہوئے ہیں او راس کے اندر صحن ہے، پھر مسجد ہے ، تو بتانے والے بتاتے ہیں کہ آپ صلی ا لله تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات مبارک کا جو مدینہ منورہ تھا وہ پورا کا پورا اس کے اندر آگیا ہے، اتنا سا مدینہ تھا، آپ بتائیں کہ اس مدینہ کا بازار کتنا بڑا ہو گا؟ چھوٹا سا بازار، تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے اس بازار کا ایک جائزہ لیا، اس کو دیکھا، انہیں یہ نظر آیا کہ بازار کے ایک سرے پرجہاں سے بازار شروع ہوتا ہے وہاں ایک صاحب زمین پہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک تھال میں انہوں نے پنیر رکھا ہوا ہے، پنیربیچ رہے ہیں، حضرت عبدالرحمننے ان صاحب سے کہا کہ بھائی! یہ جو پنیر ہے کیا شام تک کے ادھار پر آپ مجھے بیچ دیں گے، انہوں نے کہا بالکل بیچ دیں گے، میں تو بیٹھا ہی بیچنے کے لیے ہوں، حضرت عبدالرحمن بن عوف کی سب سے پہلی تجارت سب سے پہلا ان کا بیع وشراء کا معاملہ یہ ہے ، شام تک کے ادھار پہ وہ پورا پنیر خرید لیا اور خرید کر بازار کا جو دوسرا سرا تھا، اس لیے کہ یہ تو اس کے بیچنے کی جگہ ہے، اس کو خراب نہیں کرنا، بازار کے دوسرے سرے پر جاکر بیٹھ گئے اور معمولی نفع سے اس کو بیچنا شروع کیا، یہ جو تجارت ہے یہ بھی الله پر ایمان کو سکھاتی ہے، گاہک الله بھیجتے ہیں، گاہک کے دل میں خریدنے کاجذبہ الله ڈالتے ہیں۔

چناں چہ شام تک وہ پنیر، معمولی نفع سے سب فروخت ہو گیا، اب اگلے دن صبح حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے اس شخص کو جس سے پنیر ادھار لیا تھا، اس کا ادھار ادا کیا، ادھار ختم، جو معمولی نفع ہوا تھا اس معمولی نفع سے نقد خرید لیا اور پھر وہ جو نقد خریدا تھا اس کو پھر اپنی اسی جگہ پہ جہاں کل بیچا تھا، وہاں جاکے بیچنا شروع کیا، تو آج حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ پرقرضے کا بوجھ نہیں، اپنا مال ہے، تھوڑا ہے، لیکن اپنا ہے، یہاں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کی تجارت شروع ہوئی ، کچھ دنوں بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے، یہ بات بتانی ہے،جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حیات ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے چہیتے صحابی ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ یہ ان دس میں ہیں جن کو اسی دنیا میں میں جنت کی بشارت اور خوش خبری دی گئی، یہ معمولی صحابی نہیں ہیں، تو اس کا مطلب کیا ہوا کہ وہ آداب سے، احکام سے، آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے مزاج سے خوب اچھی طرح واقف ہیں، حضرت عبدالرحمن جب آپ کی خدمت میں آئے تو ان کے کپڑوں پر زرد رنگ لگا ہوا تھا، زرد رنگ ، زعفرانی خوش بو کا ہوتا ہے، یہاں یہ بھی سمجھ لیجیے کہ خوش بو ئیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک قسم اس خوش بو کی ہے جو جسم دار اور رنگ دار ہو، زعفران اور عود، عنبر فلاں فلاں، ان کو ملایاجاتا ہے اور ملانے کے بعد پھر اسے جسم پر ملا جاتا ہے تو یہ جو خوش بو تیار ہوتی ہے اس خوش بو کا جسم اور رنگ ہوتا ہے، اسے جسم پر ملتے ہیں ، لیکن اس کی خوش بو بہت زیادہ پھیلتی نہیں ہے، جسم کے ساتھ رہتی ہے، یہ خوش بو عورتوں کی خوش بو ہے ، اس لیے کہ عورت کو فتنے سے بچانا ہے، اسے ایسی خوش بو لگانے کی اجازت نہیں ہے جو پھیلے، پھیلنے والی خوش بو لگانے کی اجازت نہیں ہے۔(قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: طیب الرجال ما ظھر ریحہ وخفی لونہ وطیب النساء ما ظھر لونہ، وخفی ریحہ․“ (سنن الترمذی ،ابواب الأدب، باب ماجاء فی طیب الرجال والنساء، رقم الحدیث:2787)

اس لیے کہ اگر وہ ایسی خو شبو لگا کے راستے پر چلے گی تو اس خوش بو کے ذریعے لوگ اس عورت کی طرف متوجہ ہوں گے اس کی اجازت نہیں، عورت کو محفوظ رکھا گیا ہے۔

چناں چہ یہ جو رنگ دار زعفرانی خوش بو ہوتی تھی، اسے عورتیں استعمال کرتی تھیں ،مردوں کو اجازت نہیں تھی اور مردوں کے لیے جو خوش بو ہے وہ ایسی خو ش بو ہے جو رنگ دار نہ ہو، لیکن پھیلنے والی ہو، جمعے کی نماز پڑھنے مسجد میں آنا ہے، تو دائیں،بائیں آگے پیچھے سب کو وہ خوش بو پہنچے، فائدہ ہو، کسی مجلس میں بیٹھے ہیں ، کسی درس میں بیٹھے ہیں اوراعلیٰ درجے کی اچھی خوش بو لگی ہوئیہے، تو جس نے لگائی ہے اس کو تو فائدہ ہے ہی، لیکن اس مجلس کے اندر جتنے لوگ بیٹھے ہیں سب کو فائدہ ہے، اس میں کوئی فتنہ نہیں ہے، اس میں خیر ہے۔

تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ تشریف لائے، ان کے کپڑوں پر زرد رنگ لگا ہوا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا، ماھذا یا عبدالرحمن؟ عبدالرحمن یہ کیا ہے؟ اس کی تو مردوں کو اجازت نہیں ہے، یہ آپ نے زرد خوش بوکیوں لگائی؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے فرمایا: اے الله کے رسول! میں نے شادی کر لی ہے، ہو سکتا ہے میری بیوی کے جسم کی خوش بو میرے کپڑوں کو لگ گئی ہو، میں نے نہیں لگائی۔

آپ بات سمجھ رہے ہیں؟ وہ خو ش بو حضرت عبدالرحمن کی نہیں تھی، وہ ان کی بیوی کی تھی، عورت کو ہی اس کی اجازت تھی، وہ کپڑے حضرت عبدالرحمن کے تھے، ان کو لگ گئی، انہیں خیال نہیں رہا، حضرت عبدالرحمن سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے عبدالرحمن تم نے نکاح کر لیا ہے؟ کہا جی، آپ نے کوئی ناراضگی ظاہر نہیں فرمائی کہ میں موجود ہوں، میں الله کانبی ہوں، میں امام االانبیاء ہوں، میں سید الرسل ہوں، میری موجودگی میں اے عبدالرحمن تم عشرہ مبشرہ میں ہو، مجھے تم نے شادی کارڈ بھی نہیں دیا؟ مجھے دعوت بھی نہیں دی؟ مجھے بلایا بھی نہیں، آپ نے کیا فرمایا؟ آپ نے فرمایا: أولم ولو بشاة، خوشی کا اظہار فرمایا، آپ نے فرمایا:اے عبدالرحمن !ولیمہ کر لو، چاہے ایک بکری ہی کاکیوں نہ ہو۔

قال عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ: لما قدمنا المدینة أخی رسول الله صلی الله علیہ وسلم بینی وبین سعد بن الربیع، فقال سعد بن الربیع: انی اکثر الانصار مالاً، فأقسم لک نصف مالی، وانظر أیّ زوجتی ھویت نزلت لک عنھا، فإذا حلّت تزوجتھا، قال: فقال لہ عبدالرحمن: لا حاجة لی فی ذلک، ھل من سوق فیہ تجارة؟ قال: سوق قینقاع، قال: فغدا الیہ عبدالرحمن فأتی بأقط وسمن، قال ثم تابع الغد فمالبث أن جاء عبدالرحمن علیہ أثر صفرة، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: تزوجت؟ قال: نعم قال ومن ؟ قال: امراة من الانصار، قال: کم سقت؟ قال: زنة نواة من ذھب أونواة من ذھب، فقال لہ النبی صلی الله علیہ وسلم: أولم ولو بشاة“․ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب البیوع، رقم الحدیث: 2048،وفی مسند عبد بن حمید: أن عبدالرحمن بن عوف لما ھاجر آخی رسول الله صلی الله علیہ وسلم بینہ وبین سعد بن الربیع، فقال لہ: إن لی حائطین، فاختر أی حائطی شئت، قال: بارک الله فی حائطیک، ما لھذا اسلمت، دلنی علی السوق… إلخ․ (مسند عبد بن حمید، مسند انس بن مالک، رقم الحدیث:1373، وسیرأعلام النبلاء، عبدالرحمن بن عوف، رقم الترجمہ:4،1/76)

میرے دوستو! حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تعالیٰ عنہ شادی کر رہے ہیں، مدینہ منورہ میں کر رہے ہیں، سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں کر رہے ہیں، لیکن آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو شادی میں شرکت کی دعوت نہیں دی، آپ کے علم میں نہیں، کیوں؟ اس لیے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔

ہمارے ہاں تو مقابلے ہیں صاحب کہ جی میں نے پانچ سو آدمیوں کو دعوت دی ہے، آٹھ سو آدمیوں کو دعوت دی ہے، ہزار آدمیوں کو دعوت دی ہے اور چلیے آپ نے دعوت دے دی لیکن اب اس دعوت میں بھی پھر مسائل ہیں کہ مجھے کارڈ نہیں دیا، مجھے خود آکر دعوت نہیں دی، مجھے اتنا حقیر سمجھا کہ فون پر مجھے دعوت دی، کیاہم اس قابل ہیں کہ ہمیں فون پرکہا جائے؟!

میرے دوستو! یہ ایک جز ہے، یہ کل نہیں ہے او رکتنی رسومات ہیں، کتنے معاملات او رمسائل ہیں۔

اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے ؟ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ” گھر پھونک تماشا“ ہے،جس سے ہمارا معاشرہ اورمعیشت برباد ہو رہی ہے،حاصل کچھ بھی نہیں، نہ لڑکی والے خوش ، نہ لڑکے والے خوش، آپ کا تو سب کچھ لگ گیا، اب جب لوگ کھانے کے لیے آئے تو ہر آدمی مِین میخ نکال رہا ہے۔

میں ایک دعوت میں شریک ہوا،کافی پرانی بات ہے، گوجرانوالہ میں وہاں دن میں دعوت کا رواج تھا، جمعے کی نماز کے بعد ولیمہ تھا ،ایک کالج کے میدان میں ہمارے دور کے عزیز تھے، میں اچانک پہنچا تھا انہوں نے کہا کہ کل ولیمہ ہے، آپ بھی تشریف لائیں، میں نے کہا ٹھیک ہے، چلیں گے، میں،نے اپنی زندگی میں بہت بڑی بڑی دعوتوں میں شرکت کی ہے، لیکن ایسی دعوت میں نے نہیں دیکھی، حیران کن، اس میں گوشت کی جتنی قسمیں ہو سکتی ہیں،گائے کا، بکرے کا، مرغی کا، پرندوں کا، مچھلی کا، طرح طرح کی چیزیں اور بتا رہے ہیں باقاعدہ یہ فلاں کا ہے، یہ فلاں کا ہے اور اسی طرح سے چاول کی جتنی قسمیں بن سکتی ہیں سب موجود۔ اچار، مربے، چٹنیاں، شربت، فلاں فلاں، بہت حیرت بھی ہوئی، افسوس بھی ہواکہ یہ سب پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے ؟ وہیں پر میں نے مسلسل اگرمیں ایک گھنٹہ وہاں رہا تواس ایک گھنٹے میں، میں مسلسل لوگوں سے سنتا رہاکہ بھائی! رات لڑکی والوں کے ہاں جو چیزیں تھیں وہ تو یہاں کچھ ہیں ہی نہیں؟! یہ کیا دعوت ہے؟ یہ کوئی دعوت ہے؟ مذاق اڑ ا رہے ہیں او رمجھے خوف کی وجہ سے ایسا لگ تھاکہ ابھی شاید زمین پھٹے گی اور ہم سب اس میں غرق اورتباہ ہو جائیں گے، کتنا خوف ناک معاملہ ہے؟

میرے دوستو! خوب یاد رکھیں کہ الله تعالیٰ کے حکم، نماز کو آپ نماز کے طریقے پر نہیں پڑھیں گے تو منھ پہ مار دی جائے گی، ایسا ہے یا نہیں؟ اگر شکل ہے نماز کی، آپ مسجد میں بھی آئے ہیں، لیکن اگر آپ نماز، نماز کے طریقے پر نہیں پڑھ رہے، منھ پر ماری جائے گی، نکاح، نکاح کے طریقے پہ نہیں ہوگاتو تباہی او ربربادی آئے گی، خاندانوں کے خاندان بجائے بننے کے تباہ وبرباد ہو جائیں گے جب کہ نکاح تو بنانے کے لیے ہے، نکاح کا معنی ہی جوڑ کا ہے، نکاح تو جوڑنے کے لیے ہے۔

دو خاندانوں کا جوڑ۔ لیکن جب الله تعالیٰ کے احکامات کو سر عام رسوا کرنے کی کوشش کی جائے گی اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں کی خلاف ورزی ہو گی تو اس سے خیر نہیں آئے گی ، اس سے برکت نہیں آئے گی، اس سے میاں بیوی میں جوڑ پیدا نہیں ہو گا، اس میں دو خاندانوں کے اندر جوڑ پیدا نہیں ہو گا، اس میں باہمی اعتماد پیدا نہیں ہو گا، اس میں برکت نہیں آئے گی۔

تو درخواست ہے کہ آج کل شادیاں ہو رہی ہیں،اس میں مسنون نکاح کااہتمام کیا جائے ۔ ہم بھنگی کو بھی شادی کے موقع پر خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، گھر کی ماسیوں کو بھی شادی کے موقع پر خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میرے دوستو! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کہ کیا ہم الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو بھی اس شادی کے موقع پر خو ش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا آپ صلی الله علیہ وسلم کو ہم ایذا او رتکلیف پہنچاتے ہیں؟ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو آپ ایذا اور تکلیف پہنچائیں اور یہ چاہیں او ر امید رکھیں کہ خیر وبرکت آئے گی! ایسا نہیں ہو سکتا۔

الله تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔