ایمان کامل کا تقاضا

ایمان کامل کا تقاضا

مولانا اشہد رشیدی

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے خادم حضرت ابو حمزہ انس بن مالک رضی الله عنہ نقل کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جس کو وہ اپنے لیے پسند کر رہا ہے۔“ (رواہ الشیخان)

تشریح… آج کی خود غرض دنیا کے لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا درج بالا پیغام گٹھا ٹوپ اندھیرے میں، بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے، مینارہٴ نور کی حیثیت رکھتا ہے، عمدہ کردار، بہترین اخلاق اور وفاشعاری کی اعلیٰ ترین مثال اگر دنیا والوں کو کہیں مل سکتی ہے تو صرف اور صرف اسلامی تعلیمات اور ارشادات نبوی صلی الله علی صاحبہا وسلم ہی میں مل سکتی ہے۔

یہ اسلام ہی ہے جس نے عرب کے جنگ جو قبائل کو آپس میں شیر وشکرکردیا، انصار ومہاجرین میں بے مثال اخوت قائم کی، انسانی حقوق کے حوالے سے وہ زریں اصول مرتب فرمائے کہ آج تک دنیا کا کوئی مذہب ، کوئی ملک اور کوئی بھی قوم اس کی ادنیٰ سی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، گویا احترام انسانیت اوراخوت ومحبت سے بھر پور صالح معاشرہ کی تشکیل اسلام کے دامن سے وابستہ ہونے پر ہی ممکن ہے، لیکن افسوس! دوسروں سے کیا کہا جائے، خود اپنوں نے، اسلام کے نام لیواؤں نے اس دین حق کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے اور دوسروں کی دیکھا دیکھی دنیا طلبی میں مشغول ہو گئے ہیں۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مذکورہ روایت کے ذریعہ اہل ایمان کو اسلامی اخلاق سے متصف ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ : اگر ایمان کامل کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونا چاہتے ہو اور حقیقی اور سچے مومن بننا چاہتے ہو تو اپنے اندر ایک خوبی پیدا کر لو، جس کے اندر وہ خوبی پیدا ہو گی اس کا ایمان کامل ومکمل ہو جائے گا، وہ خوبی یہ ہے:”لایؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ․“

ترجمہ:…”انسان دوسرے کے لیے وہی پسند کرے، جس کو وہ اپنے لیے پسند کرے۔“

اگر غور کیا جائے تو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ معاشرہ کے بگاڑ اور خرابی کی بنیاد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہر آدمی اپنے آپ کو دوسرے سے اعلیٰ وبرتر بنانے اور دوسروں کو اپنے سے کم اور بے حیثیت کرنے میں لگا ہوا ہے، وہ جو مقام اپنے لیے پسند کرتا ہے، دوسرے کے لیے اس کو پسند کرنا تو دور کی بات، اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے، جب کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ایمان کا افضل ترین درجہ متعین کرتے ہوئے ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں کہ دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنے اندر یہ خوبی بھی پیدا کرو کہ جو اپنے لیے پسند کرو، وہی دوسروں کے لیے پسند کرو اور جس کو اپنے لیے ناپسند کرو، اس کو کسی اور کے لیے بھی پسند نہ کرو۔

اسلام میں اس خوبی کی اہمیت
دنیا کے تمام امور، خواہ تجارت ہو یا زراعت، صنعت وحرفت ہو یا ملازمت، تعلیم وتعلم ہو یا تصنیف وتالیف ہر ایک میں بگاڑ اور فساد کی وجہ یہی غلط سوچ ہے، جس سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اپنی امت کو بچنے کی تلقین فرمارہے ہیں، اگر مقابلہ آرائی میں حد سے آگے بڑھ کر تجارت پیشہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکا دہی اور فریب کا معاملہ نہ کریں، گاہکوں کو توڑنے کے لیے ناجائز حرکتیں نہ کریں، اسی طرح کاشت کاری کرنے والے افراد زمینوں کی حد بندی اور سینچائی کے راستوں کے لیے جھوٹ وفریب سے کام نہ لیں، نیز درس وتدریس، تصنیف وتالیف میں مصروف افراد اپنی زبان وقلم اور قول وفعل سے کسی کی ناجائز تحقیر وتذلیل نہ کریں، دوسروں کو نیچا دکھا کر صرف اور صرف اپنی شان کو اونچا کرنے کی بیہودہ حرکت نہ کریں تو معاشرے کے ہر طبقہ سے اختلاف وانتشار ختم ہو جائے گا، فتنہ وفساد مٹ جائے گا، بلکہ اگر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہر انسان دوسرے کے لیے وہ پسند کرنے لگے جس کو وہ اپنے لیے پسند کرتا اور دوسرے شخص کے واسطے ہر اس چیز کو ناپسند کرنے لگے جس کو وہ اپنے لیے ناپسند کرتا ہے تو صرف جھگڑے اور دلوں کی دوریاں ہی ختم نہیں ہوں گی، بلکہ آپس میں بے مثال محبت اور اخوت کی فضا بھی قائم ہو جائے گی۔

دوسروں کو دھوکا دینے والے، ذلیل وخوار کرنے والے، دوسروں کے حق کو دبانے والے تھوڑی دیر کو یہ تصور کریں کہ اگر اس جگہ وہ ہوں اور کوئی ان کو دھوکا دے، ذلیل وبے عزت کرے یا ان کا حق دبائے تو ان کو کیسا لگے گا؟ کیا وہ ان چیزوں کو اپنے لیے پسند کریں گے، اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو پھر دوسروں کے لیے ایسا کیوں کر پسند کرتے ہیں؟ ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کی عزت نفس کا خیال کیا جائے، اس کا حق نہ دبایا جائے، اس کے ساتھ دھوکا اور نا انصافی نہ کی جائے اور عموما ان ہی حقوق کے حصول کے لیے جھگڑے اور اختلافات رونما ہوتے ہیں۔

ایک روایت میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس خوبی کی اہمیت کو ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ جو اس دار فانی سے رخصت ہونے کے بعد جنت کا خواہش مند ہو،اس کو اپنے اندر ضرور بالضرور یہ خوبی پیدا کرنی چاہیے، کیوں کہ جس کے اندر یہ خوبی پیدا ہو گی اس کا نام جنتیوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ ارشاد نبوی ہے:

”حضرت یزید بن اسد قشیری سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم جنت کو (جنت میں جانے کو) پسند کرتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اس کا طریقہ یہ ہے کہ ) تم اپنے بھائی کے لیے وہی تمام چیزیں پسند کرنے لگو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔“ (مسند احمد)

اس کی برکت سے الله تعالیٰ جنت میں داخلہ نصیب فرمائے گا، کیوں کہ جس کے اندر یہ خوبی ہوگی وہ سچائی کا عادی ہو گا، ظلم وناانصافی سے اس کو نفرت ہوگی، دوسروں کے حقوق ادا کرتا ہو گا، ہر ایک کو احترام وعزت کی نگاہ سے دیکھنا اس کی سرشت میں داخل ہو گا اور خلق خدا اس کے ضرر سے محفوظ ہوگی، یہ وہ اوصاف ہیں جو انسان کو الله کا منظور نظر بنا دیتے ہیں اور وہ آخرت کے عذاب سے محفوظ ہو جاتا ہے، گویا مندرجہ بالا خوبی جس طرح جنت میں دخول کا ایک اہم ذریعہ ہے، اسی طرح یہ خوبی گناہ گاروں اور نافرمانوں کو جہنم کی آگ سے بچانے میں بھی بھرپور مدد دے گی۔ چناں چہ ارشاد نبوی ہے:” حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے او رجنت میں داخل ہو جائے تو اس کودو چیزوں کا اہتمام کرنا چاہیے:

اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ الله رب العزت اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ اور لوگوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرتا ہو جس کو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔“ (رواہ مسلم)