ایمان ویقین کے تقاضے اور زندگی کی قدر وقیمت

ایمان ویقین کے تقاضے اور زندگی کی قدر وقیمت

مولانا محمدعاشق الہٰی صاحب بلند شہریؒ

عمل بلا علم کے صحیح نہیں ہوتا، اس لیے علم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ عقائد، عبادات ،معاملات، معاشرت، اخلاق وآداب سب کا علمِ صحیح کے موافق ہونا ضروری ہے، علمِ صحیح قرآن وحدیث کا نام ہے اور جو کچھ اِن سے مستفاد اور مستنبط ہو وہ بھی علم صحیح ہے، بہت سے لوگوں کو عبادت کا ذوق تو ہوتا ہے، لیکن علم نہ ہونے کی وجہ سے غلط طریقہ پر کام کرتے ہیں اور ثواب بھی سمجھتے ہیں۔ ایک صاحب کو مدینہ منورہ میں دیکھا ،انہوں نے سورج نکلنے سے پہلے ہی اشراق کی نماز پڑھ لی(اور ایسا بہت سے لوگ کرتے ہیں کہ سورج نکلنے سے پہلے یا سورج کی کرن ظاہر ہونے ہی کو اشراق کا وقت سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ نماز کاوقت جب ہوتا ہے جب سورج ایک نیز ہ بلند ہوجائے۔ بعض روایاتِ حدیث میں قید رمح اور بعض روایات میں حتی ترفع بازغة کے الفاظ وارد ہوئے ہیں)۔

علم کے ساتھ تربیت کی بھی ضرورت ہے، بہت سے لوگوں کو علم تو ہوتا ہے، لیکن اُن کا علم انہیں عمل پر نہیں اُبھارتا، علم بھی ہو، اہلِ عمل کی مصاحبت بھی ہو ،جو خود بھی باعمل ہوں اور عمل کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہوں اور عمل کرنے کے طریقے بتاتے رہتے ہوں اور ایسے طریقے سمجھاتے ہوں جس سے نفس کو اعمالِ صالحہ پر آمادہ کیا جا سکے اور گناہوں سے باز رکھا جا سکے۔

عمل پر اُبھارنے کا سب سے بڑا ذریعہ آخرت کا یقین ہے۔ آخرت کا پورا پکا یقین نہ ہونے کی وجہ سے فرائض بھی ترک ہوتے ہیں، واجبات بھی چھوٹتے ہیں، سنتوں پر بھی عمل نہیں ہوتا اور چھوٹے بڑے گناہوں کاارتکاب ہوتا رہتا ہے، اگر اعمالِ صالحہ پر آخرت میں بڑی بڑی نعمتیں ملنے کا یقین اور گناہ کرنے پر قبر ،حشر اور دوزخ کے عذاب میں مبتلا ہونے کا یقین ہو تو نفس کو اعمالِ صالحہ ادا کرنے،گناہوں سے روکنے پر آمادہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص کو قبر کے عذاب کا اور دوزخ کی آگ کا یقین ہو تو کیسے فرض نماز چھوڑسکتا ہے؟ نفس کو بار بار سمجھا یا جائے اور آخرت کے عذاب کا یقین دلایا جائے تو اِنشاء اللہ وہ راہ پر آہی جائے گا۔ یہ عذاب والی بات اس لیے کہی کہ انسان کے مزاج میں دفع مضرت جلبِ منفعت سے مقدم ہے ،ورنہ اعمالِ صالحہ پر جو آخرت میں ملنے والی نعمتوں کے سچے وعدے ہیں اعمالِ صالحہ، فرائض، واجبات اور نوافل ادا کرنے کے لیے ان کا یقین بھی کافی ہے، اگر یقین والوں میں اُٹھا بیٹھا کریں تو اُ ن کی صحبتوں سے یقین پختہ ہوگا اور یقین میں ترقی آئے گی اِن شاء اللہ تعالیٰ۔ لوگوں میں ایمان ویقین کے تقاضوں پر عمل کرنا باقی نہیں رہا، تجارتوں میں آزاد ہیں، غیر شرعی تجارتیں کرتے ہیں، حرام مال خریدتے ہیں اور حرام مال بیچتے ہیں،سود لیتے اور دیتے ہیں، رشوت کا لین دین چالو ہے، حقوق العباد کی ادائیگی کا دھیان نہیں، داڑھیاں منڈی ہوئی ہیں، ننگے پہناوے ہیں، کسی ہوئی پتلونیں ہیں، عورتیں بے پردہ بازاروں اور پارکوں میں گھوم رہی ہیں، بہت زیادہ مال کمانے کی طرف توجہ ہے، اپنا وطن(جہاں کچھ دینی فضاء ہے اور جہاں چاہیں تو اسلام پر رہ سکتے ہیں) چھوڑ کر مال کمانے کے جذبات آسٹریلیا، امریکہ اور یورپ کے شہروں میں کشاں کشاں لیے جارہے ہیں، جہاں حرام کھاتے بھی ہیں اور حرام بیچتے بھی ہیں اور اپنی اولاد کو دین سے بالکل بیگانہ کردیتے ہیں، وہاں کے ماحول میں بہت سے بہت انسان اپنی نماز پڑھ سکتا ہے، جماعت سے نمازوں کے مواقع کم ہیں، مسجدیں،بیس تیس میل دُور ہیں، جمعہ کی نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، لیکن پرانے دین داروں کی اولادیں وہاں جا جا کر اپنا دین تباہ کررہی ہیں اور اپنی اولاد کو بددینی کی آغوش میں پہنچارہی ہیں۔

زیادہ مال کمانے کی ضرورت کیا ہے؟ انسان اولاد ہی کے لیے تو مال کماتا ہے، اگر اولاد کے لیے مال زیادہ چھوڑ کر مرگئے اور ساتھ ہی اولاد کو غیر اسلامی زندگی پر ڈال گئے تو یہ اُن کی بہت بڑی بدخواہی ہے۔ ہمارے ایک ملنے والے تھے، اُن کی بہن آسٹریلیا میں تھیں، اُس نے اپنے لڑکے کے لیے بچپن سے ان کی لڑکی کو مانگ رکھا تھا۔ جب بالغ ہو گئے تو اس نے بیاہ شادی کا تقاضا کیا، انہوں نے دریافت کیا کہ وہاں کی کچھ زندگی کا حال تو بتاؤ، اِس پر اُن کی بہن کہنے لگی کہ ہم تو بسم اللہ پڑھ کر سور کاگوشت بھی کھالیتے ہیں۔ العیاذ باللہ! یہ سن کر انہوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے اور لڑکی کو خاندان میں دوسری جگہ بیاہ دیا۔ آسٹریلیا میں تو مسلمان کا اسلامی نام بھی باقی نہیں رہتا، عیسائی نام رکھنا پڑتا ہے، لیکن دنیا کی ریل پیل کچھ نہیں سوچنے دیتی۔

اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں، پھر نمازیں بھی ترک ہورہی ہیں، چوریاں بھی کی جاتی ہیں، ڈاکے بھی ڈالے جاتے ہیں، بے حیائی کے کام بھی ہوتے ہیں، شرابیں بھی پی جاتی ہیں، مال بھی لوٹے جاتے ہیں!! یہ کیسا اسلام ہے؟ بات یہ ہے کہ نہ اسلامیات کا علم، نہ اسلامی تقاضوں سے باخبر ہیں، نہ آخرت کے عذاب کا یقین ہے، اس لیے معاصی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے اور بڑے بڑے گناہ سرزد ہورہے ہیں، امیر غریب، حاکم محکوم، چھوٹے بڑے، کسان اور مزدور… سب اِسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، جب تک دینی فضائیں نہ ہوں گی، دینی ماحول نہ بنایا جائے گا، عوام وخواص کے ذہنوں کی تربیت نہ کی جائے گی اُس وقت تک معاشرہ درست نہیں ہوسکتا۔

جسے مرنے کے بعد کے حالات کا اور اُمورِ آخرت کا پختہ یقین ہو(جن کی قرآن وحدیث میں خبر دی گئی ہے) تو وہ معاصی سے ضرور بچے گا اور اپنے جسم اور جان کو گناہ کے کاموں سے ضرور محفوظ رکھے گا اور فرائض وواجبات کا ضرور اہتمام کرے گا۔ دیکھو! دنیا میں اگر کسی کو یقین ہوجائے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے یا بچھو ہے تو کبھی بھی اُس میں اپنی انگلی نہیں ڈال سکتے، اسی طرح کسی سے کہیں کہ تجھے ہزار روپے دیں گے، اپنی انگلی کو جلتی ہوئی آگ میں رکھ دے تو کبھی بھی اس بات کو منظور نہیں کرسکتا اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اُسے سانپ اور بچھو کے ڈسنے کی تکلیف اور آگ کے جلانے کی مصیبت معلوم ہے، یہ دنیا کی آگ ہے، دوزخ کی آگ حسبِ فرمان نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم دنیا کی اِس آگ سے اُنہتر (69) درجہ زیادہ گرم ہے:”فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّیْنَ جُزْءً، کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا․“ (مشکوہ شریف، کتاب احوال القیامة وبدء الخلق، رقم الحدیث:5665)اگر یہ یقین ہے کہ گناہوں کی وجہ سے آخرت میں عذاب ہے تو پھر گناہوں پر جرأت کیوں ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ یقین ہی ہے یا کہنے کے لیے یوں ہی جھوٹا سا یقین ہے! دیکھو! دنیا میں لوگ نوکریاں کرتے ہیں، ڈیوٹی پر جانے کے لیے دوگھنٹے پہلے اُٹھتے ہیں، نہ سردی مانع ہوتی ہے، نہ گرمی سے رُکاوٹ، نہ بارش کاخیال، گھڑی لگا کر سوئے، وقت سے پہلے اُٹھے ناشتہ کیا بس پکڑی، دس پندرہ میل کا، کھڑے ہو کر ،کھچا کھچ بھیڑ میں سفر کیا، اس کے بعد ڈیوٹی پر پہنچے،یہی شخص جو پیسہ کمانے کے لیے نیند کو چھوڑتا ہے اور اتنی تکلیف برداشت کرتا ہے، جب چھٹی کا دن ہوتا ہے، فجر کی نماز کے لیے نہیں جاگتا، حقیر ٹکوں نے جگا دیا اور نماز نے نہیں جگا یا! حالاں کہ ایک نماز کی حیثیت اور قیمت کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” مَنْ فاتتہ صلوة فَکَاَنَمّا وُتِرَاھلہ ومالہ“․(الترغیب والترتیب)”جس کی ایک نماز فوت ہوگئی گویا کہ اُس کے اہل، اولاد اور اموال سب برباد ہوگئے“۔

اور ایک حدیث میں فرمایا ہے:”رَکَعَتَا الْفَجْرِ خَیْرُ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا․“(مشکوة شریف ،کتاب الصلٰوة، رقم الحدیث:1164)”فجر کی دو رکعتیں دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اُس سب سے بہتر ہے“ ۔علماء نے فرمایا ہے کہ اس سے فجر کی دو سنتیں مراد ہیں، جب سنتوں کا یہ مرتبہ ہے تو فرضوں کا کیا مقام ہوگا؟

ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کا تھوڑا سا نقصان ہوجائے، ایک روپیہ گم ہوجائے، نہ سمجھ بچہ ایک روپیہ کا نوٹ پھاڑدے، دو دن کی تنخواہ کٹ جائے تو بڑا ملال ہوتا ہے، لیکن دینی نقصان ہوجائے تو کوئی ملال نہیں ہوتا، جماعت تو بہت دُور کی بات ہے، فرض نماز بالکل ہی وقت سے ٹال دی جاتی ہے! دُکان داری کے چکروں میں یا بیاہ شادی کے جھملیوں میں، ریا کاری کے دھندوں میں قصداً فوت کردی جاتی ہے!! اللہ کا منادی پکارتا ہے، اذان دیتا ہے، حی علی الصلاة کی نداء سنتے ہیں، مگر ٹس سے مس نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں! مسلمان تو اُسے کہتے ہیں جسے آخرت کا یقین ہو، اگر آخرت کا یقین ہے تو یہ فرائض وواجبات کیوں چھوڑدیے جاتے ہیں!!!

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نفْسَہ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَہ ھَوَاھَا، وَتَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ“․(مشکوة شریف، کتاب الرقاق، رقم الحدیث:5209) ہوشیار وہ ہے کہ جو اپنے نفس پر قابو کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور بے وقوف وہ ہے جو نفس کو ا‘س کی خواہشوں کے پیچھے چلاتارہے اور اللہ سے اُمید لگائے رکھے۔“

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جومَنْ دَانَ نَفْسَہ فرمایا ہے اس کی تشریح کرتے ہوئے شارح حدیث لکھتے ہیں:” ای حاسب نفسہ وقھرھا وغلبھا واستعلاھا“ مطلب یہ ہے کہ نفس کا حساب لیتا رہے، اُس کی نگرانی کرتا رہے، اُس کو گناہوں سے بچائے، اُس سے فرائض وواجبات کی پابندی کرائے، اعمالِ صالحہ پر لگائے رکھے۔ نفس پر قابو نہ پایا تووہ ڈنگ ماردے گا، خود بھی تباہ ہوگا نفس والے کو بھی تباہ کرے گا“۔

دنیا میں رہنا تو ہے، مگر آخرت کے لیے! یہاں رہنے کے لیے تو نہیں آئے اور آنا بھی اختیار میں نہیں ہے اور جانا بھی اختیار میں نہیں ہے، اپنے اختیار میں یہ ہے کہ نیکیاں کرتے رہیں، گناہوں سے بچتے رہیں ،اسی میں کام یابی ہے، ہوشیار بندے وہی ہیں جو دنیا کو مقصد نہیں بناتے، جنہوں نے اسے مقصد بنالیا اُنہوں نے کیا پایا؟ آخرت کے ثواب اور بلند درجات سے محروم ہوئے اور دنیا کو یوں ہی چھوڑ کر چلے گئے! یہ حلال دنیا کی بات ہے، اگر کسی نے حرام کھایا تو اس کی بدبختی بیان سے باہر ہے، جو کمایا وہ یہیں دھرا رہ گیا اور آخرت میں جو اِس کا عذاب ہے وہ اس کے علاوہ ہے! کسی بزرگ نے کیسی اچھی بات کہی:” حَلَالُھا حِسَابُ، وَحَرَامُھَا عَذَابُ“․

حدیث شریف میں ہے کہ ”بندہ کے قدم حساب کی جگہ سے نہیں ہٹ سکیں گے جب تک اُس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے:1..جوانی کہاں فنا کی؟2.. اپنی عمر کن کاموں میں کھپائی؟ 3..اپنے علم پر کیا عمل کیا؟4..مال کہاں سے کمایا اور 5..مال کہاں خرچ کیا؟۔(مشکوة شریف، کتاب الرقاق ،رقم الحدیث:5198)

معلوم ہوا کہ مال کے بارے میں دوہرا سوال ہوگا ،یعنی حلال کمانا ہی میدانِ حساب میں کام یاب ہونے کے لیے کافی نہیں ہے، یہ حساب بھی دینا ہے کہ خرچ کہاں کیا؟ گناہوں میں، بیوی بچوں کے نا جائز چونچلوں میں لوگ مال خرچ کر کے انہیں اور اپنے نفس کو تو خوش کرلیتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کو ناراض کردیتے ہیں ۔انسان پہلے اللہ کا بندہ ہے، بعد میں شوہر یا باپ یا کچھ اور ہے، اللہ تعالیٰ کی نا راضگی کے کام کر کے نفس کو یا دوسروں کو خوش کرنا ایمانی تقاضوں کے تو خلاف ہے ہی، عقل کے بھی خلاف ہے، دوسرے خوش ہوں اور ہم عذاب بھگتیں، یہ کہاں کی سمجھ داری ہے؟

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ سے کسی نے کہاکہ آپ بچوں کے لیے اپنے پیچھے کیا چھوڑرہے ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر یہ صالحین ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اِن کا انتظام کردے گا اور اگر صالحین نہ ہوئے تو مجھے ان کے لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے عرض کیا: ”مَالَکَ لَا تَطْلُبُ کَمَا یَطْلُبُ فُلَانٌ؟“کیا بات ہے آپ اس طرح مال طلب نہیں کرتے جس طرح فلاں شخص مال طلب کرتا ہے؟ فرمایا:”اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم اِنَّ اَمَامَکُمْ عَقَبَةً کَؤُوْدًا، لَا یَجُوْزُھَا الْمُثْقِلُوْنَ، فَاُحِبُّ اَنْ اَتَخَفَّفَ لِتِلْکَ الْعَقَبَةِ“․(مشکوة شریف ،کتاب الرقاق، رقم الحدیث:5204)

”میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ”بے شک تمہارے سامنے دُشوار گزار گھاٹی ہے(یعنی حساب کی گھاٹی) بوجھ والے اس سے نہ گزر سکیں گے، لہٰذا میں اس گھاٹی کے لیے ہلکا پھلکا رہنا چاہتا ہوں“۔

اولاد کے لیے مال چھوڑ کر جانا بھی اچھی بات ہے اور اس میں بھی بڑا ثواب ہے، مگر مال حلال ہو اور مال سے متعلق جو دینی تقاضے ہیں اُنہیں پورا کر کے گیا ہو۔ اگر بچوں کے لیے حرام مال چھوڑا تو وہ بچوں کے لیے بھی وبال ہے اور اپنے لیے بھی عذاب!

حدیث شریف میں ہے:” وَلَا یَتْرُکُہ خَلْفَ ظَھْرِہ اِلَّا کَانَ زَادُہ اِلَی النَّارِ“․(مشکوة شریف، کتاب البیوع، رقم الحدیث:2771)

”اپنے پیچھے جو شخص حرام مال چھوڑ کر جائے گا وہ اُس کے لیے دوزخ کا توشہ بنے گا“۔

مخلو ق کو راضی رکھنے کی فکر نہ کرو، بلکہ خالق ومالک کو راضی کر، جس نے وجود دیا ہے اور زندگی بخشی ہے، آج کل لوگ مخلوق کو راضی کرنے کے لیے خالق ومالک کی نافرمانی کرتے ہیں، صرف اس لیے ڈاڑھی منڈاتے اور پتلون پہنتے ہیں کہ کوئی برا نہ سمجھے، بیوی کو پردہ اس لیے نہیں کراتے کہ کوئی دقیانوسی نہ کہہ دے! بس اتنی سی بات کے لیے اللہ کی نافرمانی کرنے کو تیار ہیں۔ ارے مخلوق کی بھی کوئی حیثیت ہے؟ جسے اللہ کی نافرمانی کر کے راضی کیا جائے، صرف خالق ومالک کو راضی کرو، اس کو راضی رکھتے ہوئے جو راضی ہوجائے تو ہو جائے۔

یہی جذبہ ریاکاری کے تمام کاموں میں کار فرماہے کہ لوگ کیا کہیں گے!! شادیوں کی رسوم، تیجوں، چالیسوں میں دیگیں کھڑکنا، میراث تقسیم کیے بغیر، جس میں نابالغ بچوں کا بھی حق ہوتا ہے، عوام وخواص کی دعوت کرنا اور ولیموں کے لیے قرضے لے کر لوگوں کو ضیافتوں پر بلانا اور اسی طرح جتنے بھی ریاکاری کے کام ہیں اس لیے انجام دیے جاتے ہیں کہ اگر یہ سب نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے!!یہ جذبہ مخلوق ہی کو راضی کرنے کا ہے، سب کو معلوم ہے کہ ریاکاری کا وبال بہت بڑا ہے اور اللہ تعالیٰ اُسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو اُسی کی رضا کے لیے ہو۔ ریا کاری گناہ کبیرہ ہے، اس پر آخرت میں مواخذہ ہے اور عذاب ہے۔

جب نصیحت کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ مولانا! دنیا کو بھی بھگتناپڑتا ہے! یہ بھگتنا خود اپنے سر لگالیا ہے، دنیا داروں کی باتوں کا خیال کرتے ہیں، جن سے کچھ بھی نہیں مل سکتا اور آخرت کی رسوائی کا کچھ خیال نہیں، جب قیامت کے دن پیشی ہوگی اور وہاں یہ اعلان ہوگا کہ یہ شخص ریا کار تھا تو اس وقت کیا ہوگا؟

قَالَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللّٰہُ بِہ، وَمَنْ یُرَائِی یرائِی اللّٰہُ بِہ․ (مشکوة شریف، کتاب الرقاق، رقم الحدیث:5312) ”جو شخص اپنی شہرت کرے اللہ تعالیٰ اُس کو تشہیر فرمادے گا، یعنی لوگوں کو یہ بتادے گا کہ یہ ریاکارتھا اور جو شخص ریاکاری کرے اللہ تعالیٰ اُس کی ریاکاری کو ظاہر فرمادے گا“۔اصل عزت آخرت کی ہے، وہاں کی رسوائی سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے، اسی لیے تو یہ دعا تلقین فرمائی ہے:﴿رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَاد﴾․ (سُورہ آل عمران:194)

اے ہمارے رب! ہمیں وہ نعمتیں عطا فرما جن کا آپ نے اپنے رسولوں کی زبانی وعدہ فرمایا اور قیامت کے دن ہمیں رُسوا نہ فرمانا۔“

دنیا میں شخص بغیر عمل کے نہیں، چھوٹا سا بچہ بھی پیدا ہونے کے چند دن بعد ہی ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے، بلکہ دودھ پینے کے لیے تو پیدا ہوتے ہی ہونٹ چلاتا ہے اور ماں کا پستان یا نپل دباتا ہے، ساری زندگی سراپا عمل ہے۔ اب انسان چاہے اچھے اعمال کرے، چاہے برے اعمال کرے،گناہ کرے یا نیکی کرے، لہو ولعب میں لگے، لا یعنی باتیں کرے یا فضول مشاغل میں وقت لگائے، کام میں تو سبھی مشغول رہتے ہیں، ہوش مند وہ ہے جو اپنی زندگی کو نیک کاموں میں خرچ کرے، تاکہ اس کی محنت اور مجاہدہ دوزخ جانے کا ذریعہ نہ بنے۔ آخرت کی عظیم اور کثیر نعمتوں کے نقصان، خسران اور حرمان کی راہ اختیار نہ کرے۔ رسول صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ فَبَائِعُ نَفْسَہ، فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا“․(مشکوٰة شریف، کتاب الطھارة، رقم الحدیث:281) ”صبح ہوتی ہے تو ہر شخص کام کاج کے لیے نکلتا ہے اور ہر شخص اپنی جان کو کام میں لگاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے نفس کو دوزخ سے آزاد کرالیتا ہے اور کوئی شخص اپنے نفس کو ہلاک کردیتا ہے“۔دوزخ میں بھی عمل کے ذریعہ جائیں گے اور جنت میں بھی اعمال ہی لے جائیں گے،جب دونوں اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہیں تو انسان ایسی بے وقوفی کیوں کرے کہ عمل بھی کرے اور دوزخ میں بھی جائے!!

رات دن کے چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں، ان میں سے عام طور سے تجارت یا سروس اور محنت مزدوری میں آٹھ گھنٹے خرچ ہوتے ہیں، باقی سولہ کہاں جاتے ہیں؟ ان میں سے مجموعی حیثیت دو تین گھنٹے نماز اور کھانے کے باقی وقت ضائع ہوجاتا ہے اور یہ ضائع بھی ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے جو گناہوں میں مشغول نہ ہوں، کیوں کہ جو وقت گناہوں میں لگا وہ تو وبال ہے اور باعثِ عذاب ہے۔ مسلمان آدمی کو آخرت کی نجات کے لیے اور وہاں کے رفع درجات کے لیے فکر مند رہنا لازم ہے،لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ملازمتوں سے ریٹائرڈ ہوگئے، کاروبار لڑکوں کے سپرد کردیے، دنیا کمانے کی ضرورت بھی نہیں رہی، بہت کرتے ہیں فرض نماز پڑھ لیتے ہیں یا پوتی پوتا کو گود میں لے لیتے ہیں، اس کے علاوہ سارا وقت یوں ہی گزر جا تا ہے، کہیں بیٹھ کر باتیں کر لیں، اخبار پڑھ لیا، دنیا کی خبروں پر تبصرہ کرلیا…، بس یہی مشغلہ رہ جاتا ہے اور گناہوں میں جو وقت خرچ ہوتا ہے وہ اس کے علاوہ ہے، حالاں کہ یہ وقت بڑے اجر وثواب کے کاموں میں لگ سکتا ہے، ذکر میں، تلاوت میں، درورد شریف پڑھنے میں، اہلِ خانہ کو نماز سکھانے ، دینی اعمال پر ڈالنے اور تعلیم وتبلیغ میں سارا وقت خرچ کریں تو آخرت کے عظیم درجات حاصل ہونے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

پچاس پچپن سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہوئے، کاروبار سے فارغ ہوئے ،اس کے بعد برسہا برس تک زندہ رہتے ہیں، بہت سے لوگ اَسی بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر پاتے ہیں، ریٹائرڈ ہونے کے بعد یہ پچیس پینتیس سال کی زندگی یونہی لا یعنی فضول باتوں، بلکہ غیبتوں میں، تاش کھیلنے میں، ٹی وی دیکھنے میں اور وی سی آر سے لطف اندوز ہونے میں گزار دیتے ہیں، نہ گناہ سے بچتے ہیں، نہ لا یعنی باتوں اور کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، یہ بڑی محرومی کی زندگی ہے اور گناہ تو باعثِ عذاب اور وبال ہیں ہی۔

حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ”جس شخص کو اللہ نے ساٹھ سال کی عمر دے دی اُس کے لیے عذرکا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔“(مشکوة شریف، کتاب الرقاق، رقم الحدیث:5272)

ساٹھ سال کی زندگی بہت ہوتی ہے، اس میں انسان دادا اور پڑدادا بن جاتا ہے، دنیا کماتا ہے، ہزاروں کی ریل پیل میں مشغول ہوتا ہے، دنیا کے لیے چاق وچوبند، بیدار مغز،فکرمند اور آخرت سے غفلت یہ بڑی بے وقوفی ہے۔سورہ فاطر میں فرمایا:﴿وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیْہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحاً غَیْْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ﴾․”اور وہ لوگ دوزخ میں چیخ وپکار کرتے ہوئے یوں کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں نکال دیجیے، جو ہم اعمال کیا کرتے تھے اب ان کے علاوہ عمل کریں گے جو نیک عمل ہوں گے“

اس کے جواب میں ارشاد ہوگا:﴿اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَاءَ کُمُ النَّذِیْرُ﴾(سورہ الفاطر:37)
ترجمہ:”کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرلیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا؟“

بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ”نذیر“ (ڈرانے والے) سے سفید بال مراد ہیں، جب سفید بال آگئے تو آخرت کی فکر بہت زیاددہ کرنی چاہیے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ”نذیر“ سے اولاد کی اولاد مراد ہے، جب اولاد کی اولاد آگئی تو سمجھ لو کہ چل چلاؤ ہے، اگلی زندگی کی فکر زیادہ سے زیادہ کریں!!

کیا ہی مبارک ہیں وہ لوگ جو قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس میں مشغول ہیں یا کسی بھی اعتبار سے دینی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ انسان جب دنیا میں آیا تو اُسے کچھ تو کرنا ہی ہے اور کسی نہ کسی کی خدمت میں لگنا ہی ہے۔ کوئی اپنی خدمت میں مشغول ہے، بناؤ سنگھار، کپڑوں کی استری، گھر کی آرائش اور زیبائش میں لگا ہوا ہے، کوئی زمین کی خدمت کرتا ہے، بوتا ہے اور جوتتا ہے، کوئی بکریاں چراتا ہے، کوئی اُونٹوں میں مشغول ہے، کوئی دفتر میں چپڑاسی ہے، کوئی جوتوں کی پالش کا کام لیے بیٹھا ہے، کوئی کپڑے سی رہا ہے، کوئی گورنر ہے، مگر وہ بھی نوکر ہے، کوئی وزیر ہے، وہ بھی عوام کی خدمت کا لیبل لگائے ہوئے ہے۔ کچھ لوگ گاڑیاں دھورہے ہیں، مکینک ہیں، گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر مرمت کررہے ہیں، حد یہ ہے کہ دنیا میں فضلہ اُٹھانے والے بھی ہیں، بلدیہ کے ملازم سڑکوں پر جھاڑو دے رہے ہیں اور بہت سے لوگ اِسی دنیا میں کتوں کو نہلانے پر اور بہت سے لوگ خنزیر کے چرانے پر مامور ہیں اویہ سب کچھ دنیاوی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔

بہت سے بندے وہ ہیں جو اللہ کی کتاب پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہیں، نماز سکھاتے ہیں، لوگوں کواللہ کی یاد میں مشغول کرتے ہیں، بہت سے لوگ حدیث وفقہ کا درس دیتے ہیں، اللہ کی مخلوق کو اسلام کے احکام ومسائل بتاتے ہیں اور بہت سے حضرات خانقاہوں میں فروکش ہیں، یہ تزکیہ نفوس کا کام کرتے ہیں اور کثرت سے ذکر کی تلقین کرتے ہیں، بہت سے حضرات مسجد کی امامت وخطابت اور بہت سے حضرات اذان دینے کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں،یہ حضرات اللہ کے دین کے خادم ہیں اور دین کی دعوت اور اشاعت میں مشغول ہیں۔ میں اپنی لڑکوں سے کہتا ہوں کہ اللہ کے دین کی خدمت میں لگے رہو،خدمت تو کرنی ہی ہے، پھر اعلیٰ خدمت کیوں نہ اختیار کی جائے جس میں دنیا اور آخرت کی خیر ہے؟! اور یہی مومن کا مقصودِ حیات ہے، میں علم دین حاصل کرنے والے طلبہ سے کہتا ہوں کہ تم نہایت مشغولیت میں ہو، اگر قرآن وحدیث کی خدمت میں مشغول نہ ہوگے تو کسی نہ کسی کی خدمت کرنا ہی ہوگی، بعض طالب علموں نے درمیان میں چھوڑدیا، پھردنیا اور اہلِ دنیا کی خدمت میں لگنا پڑا، ایسی سینکڑوں نظیریں نظروں کے سامنے ہیں۔

اسی ذیل میں ایک بات اور یاد آگئی، لوگ اپنے بچوں کو قرآن وحدیث نہیں پڑھاتے اور کہتے ہیں کہ کیا اپنے بچوں کو ملا بنانا ہے اور مسجد کی روٹیاں کھلانا ہے؟ یہ لوگ حضرت بلال کے نام پر نام رکھنے پر فخر کرتے ہیں، لیکن حضرت بلال کا جو کام تھا، یعنی اذان دینا اُس کام میں اپنی اولاد کو لگانا عار سمجھتے ہیں، امامت وخطابت حضرت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین ابو بکر، عمر وعثمان اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کاکام تھا ،اس کام سے اپنی اولاد کو بچاتے ہیں اور مساجد سے متعلقین کو مسجد کی روٹیاں کھانے کا طعنہ دیتے ہیں، مسجد کی روٹیاں کھانا رشوت، سود اور حرام کاروبار کے پیسہ سے روٹیاں کھانے سے کہیں بہتر ہے، جب اپنی اولاد کو مسجد سے دُور رکھتے ہیں تو زندگی بھر دُور ہی رہتی ہے، ایم اے، بی اے ہوجاتے ہیں ،لیکن نماز اور اُس کے مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں ،یہ کیا اولاد سے محبت ہے کہ ان کی دینی حالت خراب ہو، دین سے اور دینی احکام سے دُور ہوں، مسائل سے نا واقف ہوں؟!