اکثریت مدارحق نہیں ہے

اکثریت مدارحق نہیں ہے

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿ولقدصدقکم اللہ وعدہ﴾:اللہ تعالی نے نصرت کا جو وعدہ فرمایا اسے سچا کر کے ہی دکھایا، مسلمان ابتدا میں غالب ہی رہے ،کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنے لگا تھا، لیکن مسلمانوں کے باہمی اختلاف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے منظر نامہ تبدیل ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس افراد پر مشتمل تیراندازوں کی جماعت پہاڑی درے پر متعین کر دی تھی اور انہیں حکم دیا تھا کہ ہار ہو یا جیت …تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا، جب مشرکین میدان سے فرار ہونے لگے تو مسلمان مالِ غنیمت سمیٹنے لگے، درے پر متعین جماعت کے درمیان میدان جنگ میں فتح کا منظر دیکھنے کے بعد اختلاف ہو گیا، ایک گروہ نے کہا یہاں پر کھڑے رہنے کا مقصد پورا ہو گیا، جنگ ختم ہو چکی ہے، اب ہمیں نیچے اترکر اپنے بھائیوں کے ساتھ مالِ غنیمت کے جمع کرنے میں مدد کرنی چاہیے، صحابہ کرام کا یہ باہمی اختلاف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کے سمجھنے میں اجتہادی خطا اور اس کے نتیجے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم مبارک کی عدولی شکست کا سبب بن گئی۔

کیا صحابہ کرام دنیا کے طلب گار تھے؟
﴿منکم من یرید الدنیا﴾سے صحابہ کرام کی اس جماعت پر تنبیہ ہے جو مالِ غنیمت جمع کرنے کے شوق میں درے سے ہٹ کر آئی تھی، کیا وہ واقعی طلب گار دنیا تھے؟ روافض ایسی آیتوں سے یہی باور کراتے ہیں اور صحابہ کرام پرطنزو تعریض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، یادرکھیے!
1..صحابہ کرام سے خطا اجتہادی سرزد ہوئی تھی۔
2..اللہ تعالی نے معا ف فرما کر آخرت کے عدم مواخذہ کا پروانہ جاری کردیا ہے۔
3..لیبتلیکم سے معلوم ہوا منشا قدرت آزمانا تھا کہ کون اس نازک موقع پر جنگ سے فرار ہو کر الگ ہو جاتا ہے اور کون مجتمع ہو کر کفار کے خلاف سینہ سپر ہو جاتا ہے
4..جو مقدس شخصیات ان عنایات کی مستحق قرار پائیں، وہ طالب دنیا نہیں ہوسکتیں۔
5.حابہ کرام کا درے کو چھوڑ کر مالِ غنیمت جمع کرنے کے لیے نیچے آنا بھی حصول ثواب کے لیے تھا، حفاظت مورچہ کے ثواب کے بعد کفار کی تخریب و تخویف کا باعث بننا ،ان کے اموال غنیمت کو جمع کرنابھی نیکی ہے، دنیا مقصود نہیں تھی، قرینہ اس پر یہ ہے مالِ غنیمت میں ہر شریک کا حصہ ہوتا ہے، خواہ جمع کے عمل میں شریک ہو یا نہ ہو اور جمع کرنے سے حصہ بڑھ نہیں جاتا، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے کیوں فرمایا: ﴿منکم من یرید الدنیا﴾چوں کہ حصول غنیمت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی ظاہری طور پر خلاف ورزی لازم آرہی تھی،اس لیے یہ عمل محمود نہ ہوا اور نکیر فرمائی اور چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھنے میں خطاء اجتہادی ہوئی اس لیے مجرم بھی نہیں کہلائے جا سکتے۔ (تسہیل بیان القرآن، اٰل عمران ،ذیل آیت:152)

صحابہ کرام پر عنایاتِ خداوندی اور اعلان معافی
﴿ولقد عفا عنکم﴾: اس جملے میں صحابہ کرام کے اشرف و افضل ہونے کا اظہار ہو رہا ہے، اللہ تعالی نے بحیثیت انسان ان سے صادر ہونے والی لغزشوں کی مغفرت کا اعلان اپنے ابدی کلام میں فرما دیا تھا، تاکہ کوئی بد بخت،بغض صحابہ کرام کا مریض، ان کی لغزشوں سے اپنے موقف کی سچائی پر استدلال نہ کر سکے، نہ ان کی ذاتِ مبارکہ پر زبان طعن دراز کر سکے، نیز ان کی لغزشیں امتِ مسلمہ کے لیے خیر کا ذریعہ بنیں، احکا م معلوم ہوئے، تکمیل ِشریعت کا عملی ِنمونہ سامنے آیا، ان حکمتوں پر علماء نے مفصل کلام کیا ہے۔اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کے درجات بلند فرمائے اوران کے وسیلے سے ہم گناہ گاروں کی مغفرت فرمائے۔

غم انسانی جذبات میں تحمل اور حوصلہ پیدا کرتا ہے
﴿اذ تصعدون…﴾مشرکین کے اچانک عقبی حملے نے مسلمانوں کو سنبھلنے کاموقع نہیں دیا، بھگدڑ مچنے کی صورت میں ہر شخص کا جدھر منھ تھا ادھر دوڑنے لگا، اس افراتفری کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف نو صحابہ کرام باقی رہ گئے، جن میں سے سات کا تعلق انصار سے تھا، جو یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے اور دو کا تعلق قریش سے تھااور وہ حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہما تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر صحابہ کرام متوجہ ہوئے اور آپ کے دفاع کے لیے لپکے، ان میں سب سے پہلے آنے والے شخص حضرت ابو بکر صدیق تھے، اس جانباز جماعت میں حضرت عمر بن الخطاب اور حضرت علی بھی شریک تھے،اللہ تعالی نے اہل ایمان کو غم پر غم سے دوچار کیا،ایک غم مالِ غنیمت کے ضائع ہونے کا تھا، دوسرا غم فتح کا شکست میں تبدیل ہونے کا تھا اور اس میں حکمت یہ تھی کہ اہل ایمان میں تحمل، برداشت، مصائب سے الجھنے اور ان کا مردانہ وار مقابلہ کا عزم پیدا ہو، عزیمت کے اس درجے تک پہنچنے کے بعد کسی چیز کے پانے میں مغلوب نہ ہوں اور کسی چیز کے کھو جانے پر دل برداشتہ نہ ہوں۔

پے درپے غموں کے بعد سکونت و اطمینان
مشرکین کے غیر متوقع حملے سے اہل ایمان میں جو طبعی خوف وہراس پھیلا تھا، اسے اللہ تعالی نے سکون و اطمینان، ثابت قدمی سے بدل دیا، اس روحانی سکون کا اثر مادی جسم پر بھی ہوا، جس سے مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں نیند اور اونگھ آنے لگی، چناں چہ حضرت ابو طلحہ فرماتے ہیں: میں ان لوگوں میں سے تھا جن پر اونگھ طاری ہو گئی اور تلوار بار بار ہاتھ سے گر جاتی تھی، مزید فرماتے ہیں میں نے سر اٹھا کر دیکھا ہر شخص اپنی ڈھال کے نیچے ہچکولے کھا رہا تھا۔(جامع البیان، اٰل عمران ،ذیل آیت:154)

حضرت عثمان پر طعن اور اس کا جواب
﴿انما استزلھم الشیطان ببعضِ ما کسبوا…﴾ اس کا مصداق کون لو گ ہیں جنہیں شیطان نے بہکا کر میدانِ قتال سے دور کر دیا تھا؟ اس میں مختلف اقوال ہیں، لیکن ان میں ایک قول یہ بھی ہے جو ابن اسحاق سے مروی ہے کہ اس سے حضرت عثمان بن عفان، حضرت عقبہ بن عثمان، حضرت سعد بن عثمان اور دو انصاری صحابہ مراد ہیں،جو غزوہ احد میں مشرکین کے دوسرے حملے میں ازراہ تحفظ مدینہ کی جانب ”جلعب“ نامی پہاڑوں کے پاس چلے، پھر تین دن کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے کمالِ شفقت اور حسنِ اخلاق کا اعلی مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: تم بہت دور چلے گئے تھے۔ ابن جریج فرماتے ہیں اللہ تعالی نے انہیں معاف فرما دیا، لہٰذا ان کی کوئی سزا نہیں۔(جامع البیان، اٰل عمران ،ذیل آیت:55)

تفسیر ثمر قندی میں ہے، غیلان ابن جریر بیان کرتے ہیں، حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کے درمیان بحث ہوئی، حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا آپ مجھے برا بھلا کہتے ہو حالاں کہ میں بدر میں حاضر ہوا اور آپ نہیں تھے، میں نے درخت کے نیچے بیعت کی (بیعت رضوان) اور آپ وہاں نہیں تھے اور آپ جنگ احد سے منھ موڑ گئے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں کسی غزوے میں پیچھے نہیں رہا، جہاں تک بدر میں شرکت کا معاملہ ہے تو اس کی حقیقت یہ تھی کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی بیمار تھیں، میں ان کی تیمارداری میں مصروف تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بدر کے مالِ غنیمت میں سے اتنا ہی حصہ دیا جتنا دوسروں کو دیا، رہا درخت کے نیچے بیعت کرنے کا معاملہ تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مکہ میں مشرکین سے مذاکرات کے لیے بھیجا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا تھا یہ عثمان کی بیعت ہے، جہاں تک جنگ احد میں بھاگ جانے کی حقیقت ہے اسے اللہ تعالی نے معاف کر دیا ہے، اور یہ آیت نازل فرمائی ہے: (إن الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعٰن …الی آخرہ)(تفسیر ثمر قندی، اٰل عمران، ذیل آیت:55)

یہی جوابات حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک معترض کو دیے تھے، جنہیں امام بخاری نے اپنی جامع میں ذکر فرمایا ہے۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث:3699)

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَقَالُواْ لإِخْوَانِہِمْ إِذَا ضَرَبُواْ فِیْ الأَرْضِ أَوْ کَانُواْ غُزًّی لَّوْ کَانُواْ عِندَنَا مَا مَاتُواْ وَمَا قُتِلُواْ لِیَجْعَلَ اللّہُ ذَلِکَ حَسْرَةً فِیْ قُلُوبِہِمْ وَاللّہُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ، وَلَئِن قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّہِ وَرَحْمَةٌ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ، وَلَئِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإِلَی اللہ تُحْشَرُونَ، فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ، إِن یَنصُرْکُمُ اللّہُ فَلاَ غَالِبَ لَکُمْ وَإِن یَخْذُلْکُمْ فَمَن ذَا الَّذِیْ یَنصُرُکُم مِّن بَعْدِہِ وَعَلَی اللّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾․(آل عمران:160-156)

اے ایمان والو! تم نہ ہو ان کی طرح جو کافر ہوئے اور کہتے ہیں اپنے بھائیوں کو جب وہ سفر پر نکلے، ملک میں ہوں یاجہاد میں، اگر رہتے ہمارے پاس تو نہ مارے جاتے، تاکہ اللہ ڈالے اس گمان سے افسوس ان کے دلوں میں اور اللہ ہی جلاتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے سب کام دیکھتا ہے، اور اگر تم مارے گئے اللہ کی راہ میں یا مر گئے تو بخشش اللہ کی اور مہربانی اس کی بہتر ہے، اس چیز سے جو جمع کرتے ہیں اور اگر تم مر گئے یا مارے گئے تو البتہ اللہ ہی کے آگے اکٹھے ہو گے تم سب۔ سو کچھ اللہ ہی کی رحمت ہے جو تو نرم دل مل گیا ان کو، اگر ہوتا تو تند خو، سخت دل تو متفرق ہو جاتے تیرے پاس سے، سو تو ان کو معاف کر اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور ان سے مشورہ لے کام میں ،پھر جب قصد کر چکا تو اس کام کا تو پھر بھروسہ کر اللہ پر ،اللہ کو محبت ہے توکل والوں سے، اگر اللہ تمہاری مد د کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہ ہو سکے گا اور اگر مدد نہ کرے تمہاری تو پھر ایسا کون ہے جو مدد کر سکے تمہاری اس کے بعد؟ اور اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے مسلمانوں کو۔“

منافقوں کے طور طریقوں سے بچنے کا حکم
غزوہ احد میں ستر صحابہ کرام کی شہادت اور عارضی شکست کی وجہ سے صحابہ کرام شکستہ دل تھے، اس موقع پر منافقوں کو اپنی دانش وری جھاڑنے کا موقع مل گیا، اگر یہ دینی سفر میں نہ جاتے اور جہاد کے لیے سفر بستہ نہ ہوتے، ہماری مان کر ہمارے پاس ہی ٹھہر ے رہتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ،موت و قتل سے بچے رہتے۔ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو ہمیشہ کے لیے متنبہ فرمایا دیا ہے کہ اس طرح کی باتیں کافروں کی ہوتی ہیں، مؤمن راضی برتقدیر رہتا ہے اور حکم الہی کی تعمیل میں آنے والے مصائب پر صبر کرتا ہے۔

﴿لاخوانہم…﴾ سے اخوت نسبی مراد ہے، مومن اور منافق کے مابین ایمانی اخوت نہیں ہوتی اور ﴿ضربوا فی الارض﴾ سے مطلق سفر مراد نہیں بلکہ دینی سفر مراد ہے، کیوں کہ تجارت اور دنیاوی منافع کی غرض سے سفر تو خود منافقین بھی کیا کرتے تھے، لیکن دینی غرض کے سفر سے انہیں چڑ تھی، سفر میں موت آنے کی صورت میں مغفرت اور رحمت کی خاص بشارت اس کے دینی ہونے پر قرینہ ہے،اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لیجعل اللہ علیٰ ذلک حسرة فی قلوبہم﴾․

اگر لیجعل کا ترکیبی تعلق”قالوا“ سے قر ار دیا جائے، تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ راہ ِ الہی میں شہید ہونے والوں کے منافق رشتہ دار جب یہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری وجہ سے مارا گیا، اگر ہم اے زبردستی روک لیتے تو یہ جان سے نہ جاتا، اللہ تعالی ان کی ایسی باتوں کو ان کے دردوغم اور حسرت میں اضافے کا ذریعہ بنا دیتا ہے کہ ہائے ہم نے ان کو کیوں نہ روکا۔

اور اگر ”لیجعل“ کا متعلق ”لا تکونوا“ قرار دیاجائے تو پھر اس کا مفہوم ہے اے ایمان والو! تم ان منافقوں اور کافروں کی طرح مت بننا، جب تم ان کی طرح باتیں نہیں کرو گے تو ان کے دلوں میں حسرت و افسوس کا درد اٹھتا رہے گا کہ ہماری دانش وری کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ (التفسیر الکبیر، اٰل عمران، ذیل آیت رقم:156)۔

اگر میں یوں کر لیتا تو یوں نہ ہوتا….کہنے کی شرعی حیثیت
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلا تقل لو أنی فعلت لکان کذا وکذا، ولکن قل قدراللہ وما شاء اللہ فعل، فإن ”لو“ تفتح عمل الشیطان․(صحیح مسلم، رقم الحدیث:2664) یوں نہ کہو اگر میں فلاں کام کر لیتا تو ایسے ایسے ہوجاتا، بلکہ یوں کہا کرو الله تعالی نے یہی مقدر کیا ہے اور اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا ہے ، کیوں کہ” اگر“ (کا لفظ)شیطان کے عمل کو کھول دیتا ہے۔منافقین نے اسی تیقن کے ساتھ کہا کہ اگر یہ ہمارے پاس ہی رہ جا تے تو موت و قتل کا شکار نہ ہوتے۔ یہ منافقین کے عقیدہ تقدیر کی نفی پر دلالت کرتا ہے، مومن تقدیر پر عقیدہ رکھتا ہے، اس کے لیے یقین و اعتماد اور اعتقاد کے ساتھ یہ کہنا کہ ”اگر میں یوں کرلیتا تو یوں ہو جاتا، جائز نہیں ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لفظ ”اگر“ شیطان کے عمل کو کھول دیتا ہے۔ شیطان مختلف وساوس کے ذریعے اسے اللہ تعالی سے بدگمان اور تقدیر پر سے اس کا ایمان و اعتماد ہٹا دیتا ہے، البتہ بطور تقدیر کے اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہوئے امکانی مطلوبہ نتیجہ پالینے کے احساس کے طور پر اس طرح کا جملہ کہے تو کوئی حرج نہیں۔(دیکھیے، المفحم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم:6/283، دار ابن کثیر مشق،إکمال المعلم بفوائد مسلم: 8/159، دارالکتب العلمیہ، بیروت(․

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ اخلاق کا نمونہ
صحابہ کرام کے خطاء اجتہادی سے جو جانی و مالی نقصان ہوا ،بلکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر غبار آیا ہو گا اور یہ خیال آیا ہو گا کہ آئندہ ان لوگوں سے مشورہ نہ کیا جائے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی، نہایت خوب صورت پیرائے میں آپ کے عمدہ اخلاق کو رحمت الہی کا فیض قرار دے کر بتایا گیا کہ اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو آپ کے جانثار آپ سے دور ہوجاتے، پھر ان جانثاروں کی سفارش کی گئی کہ ان سے درگزرکیجیے، ان سے مشورہ لے کر ان کی دل جوئی کیجیے۔

صحابہ کرام سے مشورہ کرنے کے حکم کی حکمت
غزوہ احد میں کبار صحابہ کرام اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مدینہ منورہ میں رہ کر لڑائی کرنے کی تھی، مگر نوجوانوں کی اکثریت مدینہ سے باہر لڑنے کی حامی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی چاہت پر فیصلہ کرتے ہوئے احد کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور قتال فرمایا، لیکن نتیجہ سترشہید اور عارضی شکست کی صورت میں ظاہر ہوا ،اس لیے آپ نے آئندہ صحابہ کرام سے مشورہ نہ کرنے کا خیال فرمایا۔ اس آیت میں حکم دیا گیا کہ آپ صحابہ کرام سے مشورہ کریں، مشورے کے بعد آپ جو طے کریں اس پر توکل کرتے ہوئے عمل کر گزریں۔

بعض اہل علم نے فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب وحی تھے، سب سے زیادہ کامل العقل اور صاحب الرائے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی کے مشورے کی حاجت نہ تھی، نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امور صحابہ سے مشورے پر موقوف تھے، یہاں مشورے کا حکم صحابہ کرام کی دل جوئی اور امت کی تعلیم کی غرض سے دیا گیا ہے۔

لیکن علامہ جصاص رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے کہ اگر صحابہ کرام کو معلوم ہوتا ہمارے مشورے کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس کا اثر ہوگا، ایسے مشورے سے ان کی دل جوئی نہیں ہو سکتی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کاموں پر حقیقی معنوں میں مشورے کا حکم دیا گیا، جن میں کوئی نص، یعنی وحی نازل نہ ہوتی ہو، چناں چہ آپ کا مشورہ حقیقی ہوتا تھا، نہ کہ نمائشی، اس پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کئی امور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے کے خلاف صحابہ کرام کی رائے کی موافقت کی ہے، خود غزوہ احد اس کی ایک مثال ہے، نیز اس حکم کے ذریعے امت کو تعلیم دی گئی ہے کہ ایک صاحب وحی اپنے ساتھیوں کے مشورے سے مستغنی نہیں ہو سکتا، تو اس کے بعد کون ایسا شخص ہے جسے مشوروں کی حاجت نہ ہو۔ (ملحض از احکام القرآن للجصاص،اٰل عمران، ذیل آیت:159)

مشورے کی اصطلاحی تعریف اور اس کی اہمیت
اصطلاح میں مشورہ کہتے ہیں اہل رائے کا کسی ایسے موقع پر رائے دینا جس کے متعلق وحی نازل نہ ہوئی ہو۔ مشورے کے ذریعے دنیاوی امور میں فائدہ اٹھایا جاتا ہے، مفید معلومات ملتی ہیں اورمعاملات کی بہتری کے لیے اس کے ذریعے عقل و کوشش سے کام لیا جاتا ہے۔(البحر المحیط، ابو حیان الاندلسی، اٰل عمران، ذیل آیت 109، مزید دیکھیے تفسیر مظہری:اٰل عمران ،ذیل آیت:109)

یعنی تجربہ کار، خیر خواہ، انصاف پسند لوگوں کی آراء سے درست نتیجہ تک پہنچنا اور اس کے ذریعے معاملات کو درست نہج میں لے جانے کا نام مشورہ ہے۔

مشورے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ قرآن کریم میں ایک سورت کا نام ہی ”الشوری“ ہے۔ نیز قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورے کا حکم دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورے کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا: جس نے استخارہ کیا وہ ناکام نہیں ہوگا اور جس نے مشورہ کیا وہ پشیمان نہیں ہوگا۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط،ج:5/76رقم الحدیث:6627) حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں ”میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی شخص کو مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (جامع الترمذی، رقم الحدیث:1714)

ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے حاکم تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہوں اور تمہارے مال دار سخی ہوں اور تمہارے معاملات مشورے سے انجام پاتے ہوں تو اس وقت تمہارے لیے زمین کی پیٹھ،زمین کے پیٹ سے بہتر ہے۔(جامع الترمذی، رقم الحدیث:2266) (یعنی تمہارا زندہ رہنا تمہارے مر جانے سے بہتر ہے)۔

عہد نبوت کے بعد صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اہم معاملات میں مشورے کا اہتمام کرتے تھے، چناں چہ امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کانت الائمة بعد النبی یستشیرون الامناء من اھل العلم فی الامور المباحة لیأخذوابأسھلھا، فإذا وضح الکتاب او السنة لم یعتدوہ إلی غیرہ اقتداءً بالنبی( صلی الله علیہ وسلم)․

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے امام امورمباحہ میں، جن میں کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو، قابلِ اعتماد اور دیانت دار علماء سے مشورہ کرتے تھے،تاکہ سہولت پر عمل پیرا ہوں، البتہ جب انہیں کتاب اللہ اور سنت رسو ل اللہ سے کوئی حکم واضح مل جاتا تو اس سے تجاوز نہیں فرماتے تھے، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے تھے۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام، باب(28) قولہ:”وامرھم شوریٰ بینھم“)

مشورہ کرنے کی شرعی حیثیت
مشورہ اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد ہے، اسلام کے تمام انتظامی امور مشورے سے طے پا تے ہیں ۔حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت شوری ہی سے منعقد ہوئی تھی، اس لیے خلیفة المسلمین اور حکم ران، صاحب اقتدار اور ہر ذمہ دار فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کی مصالح کے متعلق اہل رائے سے مشورہ کرے، اور یہ مشورہ کرنا ان پر واجب ہے۔(احکام القرآن للقرطبی۔اٰل عمران، ذیل آیت:159) خلفائے راشدین اس پر عمل پیرا رہے۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ ابن عطیہ مالکی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
”الشوریٰ من قواعد الشریعة وعزائم الاحکام، من لایستشیر اھل العلم والدین فعزلہ واجب، ھذا ما لا خلاف فیہ.“(احکام القرآن للقرطبی، اٰل عمران، ذیل آیت:159)

”مشورہ شریعت کا بنیادی قاعدہ اور لازمی قانون کی حیثیت رکھتا ہے ،جو فرمان روا اہل علم اور اہل دیانت سے مشورہ نہیں کرتا اسے معزول کرنا واجب ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔“

اسی طرح علامہ قرطبی نے ابن خویز سے نقل فرمایاہے:
”دینی امور میں حاکم پر لازم اور واجب ہے کہ وہ علماء سے ،جنگی امور میں جنگی ماہرین سے، تعمیروترقی میں وزیر وں اور سیکرٹریوں اور عوام کے عمومی مصالح کے بارے میں عوامی لوگوں سے مشورہ لے۔ (احکام القرآن للقرطبی،اٰل عمران ذیل آیت:159)

مشورہ کن لوگوں سے کرنا چاہیے؟
جن لوگوں سے مشورہ کیا جائے وہ مسلمان ہوں، مرد ہوں، (ذمیوں اور عورتوں سے متعلقہ امور میں کافرہ عورت سے مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن! انہیں مستقل امت کے معاملات میں کا مشیر بنالینا محل نظر ہے)اہل علم ہوں، امانت دار ہوں، سچے ہوں، باہمی بغض و حسد سے پاک ہوں، خواہش نفس سے مغلوب نہ ہوں،تجربہ کار ہوں۔

مشورے میں کثرتِ رائے مدار عمل نہیں ہے
امام المسلمین اور ہر صاحب اقتدارپر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے دینی ودنیاوی او رانتظامی امور میں اہل رائے سے مشور ہ لے۔

ذمہ دار پر اہل رائے سے مشورہ لینا واجب ہے، لیکن وہ اکثریت یا اقلیت کی رائے پر عمل کا پابند نہیں ہوتا ہے، مباحات میں ایسی پابندی تقلید واجب کی طرح بن جاتی ہے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے حق میں جائز نہیں۔

اسلام میں اکثریت کی رائے کو یقینی حق کا درجہ نہیں دیا گیا اور نہ اس پر عمل کو لازم قرار دیا گیا ہے، بلکہ امام المسلمین کو اہل شوری کی مختلف آراء سننے اور کسی معاملے کے تمام گوشے واضح ہونے کے بعد، مکمل اختیار ہے، چاہے تو اکثریت کی رائے قبول کرے یا اقلیت کی رائے پر عمل کرے یا ہر دو آراء کو مسترد کرکے اپنی رائے کو درست سمجھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہو۔

حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا بیان نقل فرمایا”فإذا عزمت “کو اللہ تعالی نے مطلق ذکر فرمایا، بغیر قید کے، یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شریعت میں رائے کی عددی کثرت کا کوئی اعتبار نہیں، کیوں کہ اگر کثرت عدد کا اعتبار ہوتا تو یوں فرمایا جاتا کہ ”فإذا عزمت بشرط أن لا یکون عزمک علی خلاف ما علیہ الاکثرون من اھل المشورة“ یعنی جب آپ کسی ایک جانب کا عزم فرما لیں بشرط یہ کہ وہ عزم اس رائے کے خلاف پر نہ ہو، جس پر اکثر اہل مشورہ متفق ہیں۔

بعض علمائے عصر پر تعجب ہے ،جنہوں نے اکثری آراء کے قبول کو واجب قرار دیا ہے، انہوں نے اللہ تعالی کے ارشاد:﴿وشارھم فی الامر﴾ پر تو نظر کی، لیکن فإذا عزمت کے اطلاق سے صرف نظر فرما گئے۔(احکام القرآن للتھانوی۔ اٰل عمران، ذیل آیت:159) حالاں کہ قرآن کریم اپنے قارئین کو ’اکثریت“ کے متعلق چہ جائے کہ اسے مدارحق قرار دیا جائے، منفی تاثر دیتا ہے، مثلاً:

﴿إن تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ﴾․ (الانعام:116)(اور اگر تو کہنا مانے اکثر ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو تجھ کو بہکا دیں گے الله کی راہ سے۔)

﴿وما یتبع اکثرھم إلا ظناً﴾(یونس:36) (اور وہ اکثر چلتے ہیں محض اٹکل پر)

﴿وقلیل من عبادی الشکور﴾(سبا:13) اور تھوڑے ہیں میرے بندوں میں احسان ماننے والے۔

﴿ولکن اکثر الناس لا یؤمنون﴾․(مومن:59) ولیکن بہت لوگ نہیں مانتے۔

﴿ولکن اکثر الناس لا یعلمون﴾․ (مومن:57)لیکن بہت لوگ نہیں سمجھتے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اسوہ سے دونوں باتیں ملتی ہیں، بعض معاملات میں آپ نے اکثریت کی رائے قبول فرمائی اور بعض معاملاتمیں اقلیت کی اور بعض معاملات میں اپنی رائے پر عمل کیا، لہذا ان میں سے کسی عدد کو وجہ ترجیح حاصل نہیں، غزوہ احد میں اکثریت کی رائے مدینہ سے باہر نکل کر قتال کرنے کی تھی ، کبار صحابہ کرام اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مدینہ میں رہ کر قتال کرنے کی تھی،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کے احترام میں باہر نکل کر لڑنے کا فیصلہ کیا اور نتیجہ خلاف توقع نقصان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ غزوہ احد میں پشت کے درے پر متعین پچاس صحابہ کرام کی جماعت کی اکثریت کی رائے درّہ چھوڑ کر نیچے اتر کر مالِ غنیمت جمع کرنے کی تھی اور اقلیت یعنی دس افراد کی رائے درے پر ہی کھڑے رہنے کی تھی،اکثریت نے فیصلہ کیا اور نیچے اتر آئے، لیکن نتیجہ ستر صحابہ کرام کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوا، بلکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخموں سے لہو لہان ہو گئے، جیتی ہوئی جنگ عارضی طور پر ہار گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصا ل کے موقع پراکثریت کی رائے یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا، فردِ واحد حضرت ابو بکر نے اپنی رائے سے انہیں مطمئن کیا اور حقیقت حال سے آگاہ کیا، حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت اہل رائے کی اکثریت سے ہوئی اور امت کے لیے خیر کا ذریعہ بنی۔ لشکرِ اسامہ کی روانگی کے متعلق اکثر صحابہ کی رائے اسے موقوف کرانے کی تھی، مگر حضرت ابو بکر نے ان کی رائے کو مسترد کر کے اسے روانہ فرمایا۔ مانعین زکوة کے خلاف قتال نہ کرنے کی رائے تمام صحابہ کرام کی تھی، مگر حضرت ابو بکر سب کی رائے مسترد کر کے ان کے خلاف قتال کے موقف پر ڈٹے رہے اور کام یابی حاصل کی۔

کبھی اس کے برعکس ہوا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کی رائے کو مسترد کیا اور اقلیت کی رائے پر عمل کیا، لیکن نتیجہ ناپسندیدگی کی صورت میں ظاہر ہوا، مثلاً غزوہ بدر کے مشرک قیدیوں کے متعلق اکثریت کی رائے انہیں قتل کرنے کی تھی، مگر بعض صحابہ کرام اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے ان سے فدیہ لے کر چھوڑنے کی تھی اور اسی پر عمل کیا، اللہ تعالی نے اس پر تنبیہ فرمائی۔

حضرت ابو بکرصدیق نے اپنی رائے سے حضرت عمر کوخلافت کے لیے منتخب فرمایا۔ حضرت عمر نے اپنے بعد کی خلافت کے لیے مخصوص افراد کی کمیٹی بنا کر خلافت کی تعیین انہیں پر منحصر کر کے، انہیں میں سے کسی ایک کو کمیٹی کی اکثریت رائے سے خلیفہ متعین کرنے کا حکم دیا،یعنی اپنی انفرادی رائے کو ان کی اکثریت کی رائے کے تابع کر دیا،لیکن استحقاق کے لیے ان چھے افراد کو اپنی رائے ہی سے منتخب کیا۔

اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہی ہے کہ کثرت رائے کو اسوہ رسول یا عمل صحابہ سے ترجیحی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ ان سے تینوں طرح کے فیصلے ثابت ہیں، اکثریت رائے سے بھی، اقلیت کی رائے سے بھی، فردِ واحد کی اپنی انفرادی رائے سے بھی۔

آج اکثریت اور کثرتِ رائے کو مسلمہ تقدس حاصل ہو چکا ہے، اس لیے اس فکر کی بیخ کنی ضروری ہے۔ اس مغربی فکر سے مرعوب ہونا یا اس فکر کو تحفظ دینے کے لیے دور دراز کی کوڑیاں لانا غیر سنجیدہ اور غیر علمی رویّہ ہے۔ اس لیے بعض اہل فکر کی کوشش ہوتی ہے کہ ”اکثریت“ کو کسی نہ کسی درجے میں ترجیح اور فوقیت دی جائے، چناں چہ وہ اس موضوع پر سیر حاصل بحث کرنے کے بعد آخر میں لکھ دیتے ہیں کہ دو طرح کے امور ایسے ہیں جن میں اکثریت کی رائے کو بربنائے اکثریت ترجیح دی جاسکتی ہے۔ مباحات،امورِ مجتہدفیھا۔تعجب ہے اس بات پر کہ مشورے کے متعلق ساری ابحاث ابتداء تا انتہا ہوتی ہی ا نہیں دو امور کے متعلق ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے مشوروں کی چند مثالیں گزر چکی ہیں، ان میں مدینہ میں رہ کر قتال کرنے یا باہر نکل کر قتال کرنے کا عمل مباح عمل تھا،دوسری طرف بدرکے قیدیوں سے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا عمل اجتہادی تھا، ایک میں آپ نے کثریت رائے پر عمل فرمایا تو دوسرے میں اپنی انفرادی رائے پر، ان مثالوں میں کثرت رائے کو مدارِ عمل یا معیار حق بنانے، بالخصوص اسے ایک قانونی حیثیت سے متعارف کرانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، علامہ ظفر احمد عثمانی نے احکام القرآن میں مجتہد فیہ امور میں اکثریت کی رائے کو فوقیت دینے کے موقف کی تفصیلی تردید کی ہے۔(جاری)