انگریزی زبان وثقافت سے مرعوبیت

انگریزی زبان وثقافت سے مرعوبیت

عابد محمود عزام

یہ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ انگریزی زبان وثقافت سے مرعوبیت اور اپنی زبان اور ثقافت کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ ہم لوگ فرنگی تمدن کی پرفریب دل کشی ودل ربائی سے اس قدر متاثر ہیں کہ مغرب سے پھوٹنے والے افکار وتصورات کو نہ صرف آنکھیں بند کر کے تسلیم کرلیتے ہیں، بلکہ ان کا پرچار کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں،کیوں کہ اب یہی تعلیم یافتہ ہونے کی علامت سمجھاجانے لگا ہے۔ اسلامی افکار وتصورات کے ببانگ دہل اظہار کرنے کو جمود پرستی اورتاریک خیالی کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے اور اپنی روایات پر عمل کرنے والے کو بنیاد پرست اورفرسودہ روایات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔مغربی تہذیب سے مرعوبیت کی وجہ سے ہی تو انگریزی زبان میں گفتگو کرنے کو ترقی اور کام یابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے اور انگریزی داں کو ہی مفکر ودانش ور قرار دیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں انگریزی زبان کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں۔ مختلف فنون اس زبان میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ رابطے کی ایک اہم زبان بھی ہے، ضرورت کی حد تک اسے سیکھنا چاہیے، لیکن اس زبان کو ہی ساری ترقیوں کا معیار قرار دینا اور اقبال وکامرانی کا راز اسی زبان سے واقفیت حاصل کرنے میں مضمر سمجھنا مرعوبیت اور احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بالکل بجا کہا ہے کہ انگریزی بولنا اور مغربی لباس پہننا سافٹ امیج نہیں ہے، بلکہ احساس کمتری ہے۔

انگریزی ایک عالمی زبان ہے، مگر ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد دوسروں پر رعب جمانے اور خود کو بہت تعلیم یافتہ باور کروانے کے لیے اسے سیکھتی ہے اورانگریزی زبان سے نابلد افراد کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے ایک کیفے کا واقعہ تو یاد ہوگا۔ ایک کیفے کی مالکان دو خواتین نے اپنے ہی کیفے منیجر کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی تھی، جو خوب وائرل ہوئی۔ اس ویڈیو میں انگریزی لب ولہجے میں رعونت ونخوت کا شکار دونوں خواتین اپنے کیفے کے منتظم شخص کو اپنے پاس بلاکر اس سے انگریزی زبان میں بات کرتی ہیں اور جو اب میں اس نوجوان منتظم کی انگلش بولتے ہوئے گرائمر میں اغلاط پر خوب ٹھٹھہ، مخول اور تمسخر اڑاتی ہیں۔ جس کا مقصد اپنی علمی دھاک بٹھانا اور انگلش بول چال اور لب ولہجے میں مہارت کو تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا ہونے سے تعبیر کرنا تھا۔ سوشل میڈیا پر کیفے مالکان دونوں خواتین پر بہت تنقید کی گئی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نوع کے بہت سے واقعات ہمارے معاشرے میں آئے روز پیش آتے رہتے ہیں، جن میں انگریزی بولنے کو ہی بہت کمال سمجھا جاتا ہے۔

ہم لوگ کسی انگریز کو ٹوٹی پھوٹی اردوبولتا دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ وہ انگریز ہوکر اردو بول رہا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ گرائمر کے لحاظ سے اردو کی ٹانگیں توڑ رہا ہو، لیکن اگر ہمارے معاشرے میں کوئی آدمی انگریزی زبان میں گرائمر کی غلطی کر بیٹھے تو اس کی ہر طرح کی قابلیت، صلاحیت، لیاقت واستعداد کے باوجود اس کی تعلیم پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ مرعوب ذہنیت ہی تو ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انگلش زبان سیکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اسے سیکھنا بھی ضروری ہے، لیکن اس کو جنون کی حد تک اپنی سماجی ونجی زندگیوں میں حد سے زیادہ اہمیت دینا اور اس سے مرعوبیت اور احساس کمتری کا شکارہو کر اسے اپنے سروں پر سوار کرلینا ذہنی وفکری غلامی ہے۔

ہمیں اس حقیقت کو دل سے ماننا ہوگا کہ اگر ہم دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو دوسری اقوام کی زبان چھوڑ کر اپنی زبان کو مکمل ذریعہ تعلیم بنانا ہوگا۔ دنیاوی ترقی کے ماہرین علوم وفنون بھی اس حقیقت کو مان چکے ہیں کہ جس کی جو مادری زبان ہے، اسی زبان میں اس کی سب سے اچھی تعلیم وتربیت ہوسکتی ہے اور اسی کے ذریعے اس کے ذہن اور دماغ میں علم وشعور کی روشنی سب سے موٴثر طریقے سے پھیلائی جاسکتی ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے بھی اپنی زبان چھوڑ کر کسی دوسری زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی حاصل نہیں کی۔ کوریا، جاپان اور چین نے انگریزی ذریعہ تعلیم کے بغیر ہی ترقی کی ہے۔ سویڈن نے اپنی زبان کو دفتری اور ذریعہ تعلیم بنایا ہوا ہے اور سائنس،ٹیکنالوجی اور معاشی میدان میں عالمی سطح پر صف اول میں کھڑا ہے۔ ناروے، ڈنمارک،فن لینڈ،آئس لینڈ، ہالینڈ اور بیلجیئم نے بھی اپنی زبان کو ہی اپنایا ہوا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں۔ ہر قوم نے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر کے ترقی حاصل کی ہے۔ انگریزوں نے انگریزی کے ذریعے ترقی کی۔ فرانسیسیوں نے فرانسیسی زبان میں ترقی کی۔ جاپانیوں نے جاپانی زبان میں ترقی کی۔ روس نے روسی زبان میں ترقی کی۔ چین نے چینی زبان میں ترقی کی۔ ہم بھی اگر دنیا کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اپنی اردو زبان کے ذریعے ہی ترقی کرسکتے ہیں۔

اردو ہماری قومی زبان ہے، جس کی ترویج ونفاذ کا دستور پاکستان میں وعدہ کیا گیا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالتیں اسی دستوری فیصلے پر عمل درآمد کے لیے مختلف حوالوں سے احکامات جاری کررہی ہیں۔ اردو صرف ہماری قومی زبان نہیں ،بلکہ بین الاقوامی زبان شمار ہوتی ہے۔ اردو زبان کا یہ جائز حق ہے کہ اسے دفتری ،عدالتی اور تدریسی زبان کے طور پر ملک بھر میں ہر سطح پر رائج و نافذ کیا جائے او رحکومتی ادارے اس سلسلہ میں موٴثر کردار ادا کریں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ان کی تمام تقریبات اورپروگراموں میں قومی زبان اردو کا استعمال کرتے ہوئے مرتب کیے جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس سے قبل سرکاری اداروں سمیت دیگر اہم امور کی انجام دہی کے لیے اردو کو بطور سرکاری زبان استعمال دینے پر زور دیتے رہے ہیں۔ اردو کے فروغ کے لیے ان کے یہ اقدامات قابل تحسین ہیں۔ 2015 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر فوری نافذ کرنے کا حکم دیا تھا او روفاقی کابینہ نے پاکستان کی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنانے کے احکامات مئی 2014 میں جاری کیے تھے۔ اس کے باوجود ابھی تک اردو مکمل طور پر ہمارے اداروں میں نافذ نہیں ہوئی۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور قومی زبان کا یہ حق ہے کہ پوری قوم اسے ذریعہ اظہار بنائے اور سرکاری سطح سے اسے ہر شعبے میں مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ قومی زبان ہی ملک وقوم کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔