انسانی زندگی کا نصب العین

انسانی زندگی کا نصب العین

حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ

الحمدلله نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ․ ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا․ من یھدہ الله فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ․ ونشھد ان لا الہ الا الله وحدہ لا شریک لہ․ ونشھد انّ سیّدنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ․ ارسلہ الله الی کافة الناس بشیراً ونذیراً․ وداعیاً الیہ باذنہ وسراجاً منیراً․
اما بعد:
عظیم ترین نعمت
بزرگان محترم!

حق تعالیٰ کے انعامات انسانوں کے اوپر بے شمار ہیں، جن کی کوئی گنتی نہیں کی جاسکتی، قدم قدم پر نعمتوں کی بارشیں ہیں اور لمحہ لمحہ انسانوں کو عجیب عجیب انعامات دیے جارہے ہیں۔ خود ہی ارشاد فرمایا:

﴿وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا ﴾اگر تم الله کی نعمتوں کو شمارکرنے بیٹھ جاؤ تو تم شمار نہیں کرسکتے۔ ان کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ غرض انسان کے اوپر بے شمار نعمتیں ہیں۔ لیکن ساری نعمتوں کی اصل اصول زندگی کی نعمت ہے، جو ہمیں عطا کی گئی۔ اگر زندگی نہ ہو تو کوئی بھی نعمت نہ ہمارے لیے نافع بن سکتی ہے نہ مفید ہوسکتی ہے۔ تو اصل میں سب سے بڑی نعمت زندگی ہے، ایک زندہ انسان ہی نعمت سے مستفید ہو سکتا ہے تو نعمتیں ساری ایک طرف اور زندگی ایک طرف۔

عظیم ترین یہ نعمت یا عمر، جس کی کوئی قیمت نہیں ہے، الله نے بے قیمت عطا کر دی ہے #
        مانبودیم وتقاضائے مانبود!
        لطفِ تو ناگفتہٴ ما می شنود

نہ ہم تھے، نہ ہماری طرف سے کوئی پکار تھی۔ نہ ہماری طرف سے کوئی تقاضا تھا۔ مگر تیرا لطف وکرم ہماری خاموش آواز کو سن رہا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمیں زندگی ملے۔ اس خاموش پکار پر اتنی بڑی نعمت دے دی کہ سارے جہاں مل کر بھی اس کی قیمت نہیں بن سکتے۔ ایک انسان چاہتا ہے کہ میرے ہاں اولاد ہو، اگر نہیں ہوتی تو دنیا کے خزانے خرچ کر دے نہیں ہوتی اور دینے پر آتے ہیں تو غریب انسان کے اتنی دے دیتے ہیں کہ بہ ظاہر وہ تنگ آجاتا ہے، تو نہ مانگنے سے ملتی ہے نہ قیمت سے ملتی ہے۔ محض فضل سے ملتی ہے۔

سب سے بڑی نعمت یہ عمر ہے۔ پھر یہ عمر بھی کوئی چھوٹی موٹی عمر نہیں ہے، آپ اسے عمر سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کسی کی زندگی پچاس برس ہو گی کسی کی ساٹھ ہو گی، بہت لمبی عمر ہوئی تو اسّی نوے برس کی ہو گی۔ یہ زندگی ہے یہ زندگی کا ایک معمولی حصہ اور زندگی کا ایک چھوٹا ساجز ہے۔

ابدی زندگی
انسان کے بارے میں امام غزالی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ:

انسان ازلی تو نہیں ہے ،مگر ابدی ہے۔

ہمیشہ سے نہیں تھا، لیکن پیدا ہونے کے بعد اب ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ اب انسان کے لیے مٹنا نہیں ہے۔ وطن کا انتقال ایک وطن سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کی طرف ہوتا رہتا ہے۔ نقل مکانی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن زندگی انسان سے چھنتی نہیں ہے۔

یہ پہلے عالم الست میں تھا، جب کہ الله نے آدم علیہ السلام کی پشت سے سب بنی آدم کو نکالا، حدیث میں ہے کہ الله نے آدم علیہ السلام کی پشت پر داہنا ہاتھ مارا تو ساری نیک اولاد نکل پڑی۔ اور بایاں ہاتھ مارا تو ساری بد اولاد نکل پڑی۔ یہ بنی آدم کا پہلا ظہور ہے۔ تو عہد الست میں ابتدائی ظہور ہے۔ وہاں سے انسان کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے بعد منتقل ہو کر ماں کے پیٹ میں آگیا پھر ماں کے پیٹ کی عمر نو مہینے کی ہے۔ پہلے بھی فنا نہیں ہوا تھا۔ ماں کے پیٹ میں بھی آکر فنا نہیں ہوا۔ عہد الست سے انتقال ہوارحم مادر میں آیا۔ رحم مادر سے انتقال ہوا تو دنیا میں آگیا۔ ہر ایک عالم سے گزرتے ہوئے انتقال ہوتا ہے اور دوسرے عالم میں پہنچ جاتا ہے۔ دنیا میں انتقال ہو گا تو برزخ کے اندر پہنچ جائے گا، برزخ سے انتقال ہو گا تو عالم ِ حشر کے اندر پہنچ جائے گا۔ وہاں پچاس ہزار برس کا ایک دن ہو گا۔ عالم حشر سے انتقال ہو گا تو عالم ِ جنت میں پہنچ جائے گا۔ پھر جنت میں ابد الآباد تک روزانہ انتقالات ہیں۔ بڑے بڑے جہاں اور روز نئی نئی نعمتوں کی تجدید ہو گی ۔ وہاں بھی درجہ بدرجہ عروج حاصل کرتا رہے گا۔ تو جب سے انسان کا ظہور ہوا اب تک برابر سفر میں ہے۔ اور سفر کرتا رہے گا، اس لیے انسان ازلی نہیں ہے، مگر ابدی ہے کہ مٹنے والا نہیں ہے۔ تو آپ کی عمر تھوڑی نہیں ہے، جس کو بیس پچاس اور سو برس سمجھ لیں۔ یہ انسان کی عمر کا ایک معمولی حصہ ہے۔ انسان ابدی طور پر زندہ ہے ۔ اس ابدی اور لامحدود عمر کا ایک معمولی حصہ ہے، جس کو ہم زندگی کہتے ہیں، یہ زندگی کا کروڑواں حصہ بھی نہیں ہے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ انسان کی زندگی بڑی طویل او رلمبی ہے۔

اختیاری نصب العین کی ضرورت
اس دنیوی زندگی کو گزارنا، اس کے لیے الله نے ایک تو غیر اختیاری حصہ رکھا ہے۔ وہ ،آپ چاہیں نہ چاہیں، گزر جائے گا او رجب انسان پیدا ہو گیا تواب مٹنے والا نہیں ہے۔ لیکن کچھ چیزیں اختیار میں دی ہیں کہ اپنے ارادے او راختیار سے زندگی کا نصب العین بناؤ۔ اس کے تحت زندگی کو گزارو۔ اس لیے کہ جو وقت یا جو زندگی بلا نصب العین کے گزرتی ہے، وہی مجنونانہ حرکت کہلاتی ہے، اک دیوانے کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ زندگی کا کوئی نصب العین بنانا پڑے گا، جس کے تحت زندگی گزاری جائے کہ ہم کیوں زندہ ہیں؟ کیا مجھے کرنا ہے؟ میں یہاں کیوں آیا ہوں؟ اور یہ جو روز میرے انتقال ہوتے رہتے ہیں اس جہاں سے اس جہاں کی طرف اور وہاں سے وہاں کی طرف، آخر یہ کیا کوئی افسانہ ہے؟ یا کوئی قصہ ہے کہ خواہ مخواہ انسان چل رہا ہے؟!

وقتی دولت اور روٹی مقصد نہیں
مقاصد دنیا میں بہت ہیں، مثلاً عمر کا ایک مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی لمبی چوڑی عمر کا مقصد روٹی فرض کر لیں کہ ہمیں کھانے کو ملے۔ یہ مقصد اورنصب العین تو ہے۔ لیکن یہ کیا نصب العین ہے جس کے لیے نہ فضیلت کی ضرورت نہ کمال کی ضرورت، نہ علم کی ضرورت؟! یہ مقصد بے پڑھے لکھے کوبھی حاصل ہے، روٹی ہی تو ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے تعلیم کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، بلکہ تعلیم کی انتہائی توہین ہے، اگر اس کا مقصد روٹی بنایا جائے۔ اس لیے کہ روٹی جانور کا بھی مقصد ہے۔ ہر جان دار اپنے اپنے مناسب روٹی کھاتا ہے، شیر اور بھڑیا جو کھاتے ہیں، کیا انہیں کوئی ڈگریاں حاصل ہوتی ہیں، جن سے یہ کماتے ہیں؟ تو روٹی او رکھانا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے کسی تعلیم کیضرورت نہیں، عالم کو بھی ملتا ہے، جاہل کو بھی۔ انسان کو بھی ملتی ہے، جانور کو بھی۔ غرض ایسی چیز کو مقصد ِ زندگی قرار دینا جس کے لیے قطعاً علم وشعور کی ضرورت نہیں۔ یہ زندگی کی توہین ہو گی۔

پھر یہ کہ زندگی ابدالآباد کو مل رہی ہے اور مقصد وہ ٹھہرایا ہے جو دس بیس برس میں ختم ہو جائے، جب آدمی کا سانس ختم ہوا تو روٹی بھی ختم، روٹی اسے چھوڑ گئی، یہ روٹی کو چھوڑ گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ پھر بلا نصب العین کے زندگی رہ گئی۔اس لیے لمبی زندگی کا نصب العین لمبا ہونا چاہیے۔ اس لیے روٹی مقصد نہیں بن سکتی۔

دولت بھی اسی میں شامل ہے۔ آپ دولت کمانے کو نصب العین رکھیں گے تو یہ کوئی اونچا مقصد نہیں، یہ ایک وسیلہ ہے اور ضرورت کی چیز ہے ۔ انسان جب تک دنیا میں زندہ رہے گا، کمائے گا بھی اور اسے حکم بھی ہے کہ کمائے، یہ بھی نہیں کہ معطل ہو کے بیٹھ جائے، لیکن مقصد زندگی نہیں۔ کمانا خود کسی مقصد کے لیے ہوتا ہے، کمانا خود مقصد نہیں ،اگر وہ مقصد جو کمانے سے پورا ہوتا ہے کسی اور طریق سے پورا ہو جائے تو اس کمانے کو یقینا چھوڑ دیا جائے گا، مثلاً پیٹ بھرنا ہے، کپڑے پہننا یا رہنا سہنا، یعنی مکان بنانا یہ بڑا مقصد ہے۔ اگر الله میاں کسی ایسے جہان میں بھیج دیں جہاں ہمیں اس طرح کے مکان کی ضرورت پڑے نہ پیٹ بھرنے کی ضرورت پڑے، تو کمانے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، غرض یہ زندگی کا نصب العین نہیں بن سکتا ،ایک وقتی چیز ہے۔

پھر یہ کہ اس جہان کی کوئی کتنی بھی بڑی چیز ہے، یہ بھی اس میں داخل ہے کہ جب آدمی اس جہان کو چھوڑے گا وہ چیز اسے چھوڑ دے گی، یہ اس کو چھوڑ دے گا، پھر وہ نصب العین ہی کیا ہوا؟ ہمیں ایسا نصب العین چاہیے جو ہماری عمر کے ساتھ ساتھ چلے، کروڑوں برس کی عمر ہو جب بھی وہ چلتا رہے، جبھی عمر کی توقیر ہو گی اور الله کے انعام کی قدر ہو گی ، ورنہ انتہائی بے قدری ہو گی کہ اتنی بڑی نعمت اور اس کے لیے کوئی مقصد ہی نہ ہو اور اگر ہو تو دس پانچ برس کا ہو۔

عزت وجاہ بھی مقصد نہیں
یا مثلاً ایک مقصد یہ ہے کہ روٹی بھی نہیں، دولت بھی نہیں، کرسی مقصد ہے۔ یعنی عزت اور جاہ ہمارا مقصد ہے کہ آدمی عزت کے ساتھ زندگی گزارے۔

یہ مقصد بُرا نہیں ہے۔ مگر انتہائی بے بنیاد مقصد ہے۔ اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ اس واسطے کہ جس کو ہم عزت سمجھتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ ہمیں بڑا سمجھیں۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ لوگوں کا خیال ہماری طرف سے صحیح ہو تو عزت ہماری ہے او رہاتھ میں لوگوں کے ہے؟ اور وہ بھی خیالی۔ ذرا وہ خیال بدل دیں، بس ہماری عزت ختم ہو گئی۔ آج اگر لوگوں نے ہمارے گلے میں ہارڈال دیا، ہم عزت والے اور کل کو پبلک خفا ہو کر جوتیوں کا ہار ڈال دے، بس ذلیل ہو گئے۔ یہ کیا مقصد ہوا؟ اول تو خیالی اور خیال بھی دوسرے کا؟

اگر ہمارے ہی خیال سے عزت قائم ہوتی، تو ہم تخیل باندھے بیٹھے رہتے کہ ہم بڑے باعزت ہیں اور عمر بھر اس تخیل کو نہ چھوڑتے، تو عمر بھر عزت والے تو رہتے۔ عزت ہماری ، قبضے میں دوسرے کے وہ بھی خیالی۔ اور وہ خیال اس کے بھی ہاتھ میں نہیں۔ آج خیال بدل گیا تو کل کو ہماری بے عزتی ہو گئی تو لمبی چوڑی عمر اتنی بڑی نعمت کا نصب العین ایک بے بنیاد اور خیالی چیز؟

حقیقی عزت
حقیقی عزت یہ ہے کہ الله کے ہاں کوئی مقبول ہو، اسے عزت کہتے ہیں کہ حق تعالٰ کسی کو مقبولیت دے۔ او راپنی مخلوق کے دلوں میں اس کی عزت ڈال دے۔ وہ عزت ہے ،وہ خیال کی نہیں، واقعی عزت ہوتی ہے۔

حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حق تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو فرماتے ہیں۔ میں نے فلاں بندے سے محبت کی، تو بھی اس سے محبت کر۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے دل میں محبت آجاتی ہے، جبرئیل علیہ السلام آسمان ِ اول کے ملائکہ میں اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے اس سے محبت کی، تم بھی محبت کرو۔ اسی طرح پھر آسمان ِ دوم میں اس کی محبت ہوتی ہے۔ وہ تیسرے کو، وہ چوتھے کو، یہاں تک کہ اس آسمان ِ دنیا تک محبت آجاتی ہے۔ تمام ملائکہ میں وہ محبوب بن جاتا ہے۔ اس کے بعدیہ ملائکہ علوی ملائکہ سفلی کو الہام کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں سے محبت کی، تم بھی محبت کرو۔ ان کے دلوں میں محبت آجاتی ہے۔ وہ ملائکہ سفلی، اولیائے کرام جو دنیا میں محبانِ الہٰی ہیں، کے قلوب میں الہام کرتے ہیں کہ ہم سب محبت کرتے ہیں ،تم بھی محبت کرو۔ تو خواص اہل الله کے قلب میں محبت آجاتی ہے۔ پھر ان کے آس پاس کے حلقوں کے اندر محبت پہنچتی ہے ”فیوضع لہ قبول فی الارض“ اس کی مقبولیت پوری زمین میں پھیل جاتی ہے۔ اسے کچھ کرنا، دھرنا نہیں پڑا او رمحبت آسمان دنیا کے اندر پھیل جاتی ہے۔ تو حقیقی عزت وعظمت یہ ہے کہ من جانب الله کسی کی مقبولیت دنیا میں پھیل جائے۔ یہ اصل عزت ہے۔ اسی لیے نہ اپنے تخیل سے اپنے کو عزت دار سمجھے، نہ چند افراد کے دماغ پر روغن قازمل کر کوشش کرے کہ تم تخیل میں مجھے بڑا سمجھو، یہ خیالی چیز ہو گی،جب خیال بدل جائے گا، عزت ختم ہو جائے گی، لیکن جس کی عزت ملاء اعلیٰ میں قائم ہو گی ، ملائکہ علوی وسفلی میں جس کی محبت قائم ہو گی ، وہ محبت بنیادوں پر قائم ہے، تخیلات پر نہیں ہے۔ حق تعالیٰ کے باطن میں اگر کسی کی محبت قائم ہے وہ اٹل ہے او راتنی قوی بنیاد پر ہے کہ اسے کوئی مٹانے والا نہیں ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی محبت یہی ہوتی ہے کہ الله کی بارگاہ میں ان کی محبت ہوتی ہے، پھر عالم میں ان کی محبوبیت پھیلا دی جاتی ہے۔ اولیائے کرام، صوفیائے عظام او رائمہ مجتہدین کی محبت اٹل بنیادوں پر ہوتی ہے، وہ دنیا سے گزر جائیں، مگر ان کی محبت نہیں گزرتی۔ انبیاء علیہم السلام میں سے آج اگر کسی پیغمبر کا نام نامی آئے گا، گردنیں عظمت سے جھک جائیں گی، ہم درود شریف پڑھنا شروع کردیں گے۔

یہ کیا چیز ہے؟ آج یہ ہستیاں اس عالم میں نہیں ہیں، مگر دلوں کے اندر محبت موجود ہے، نسلاً بعد نسل چلی جارہی ہے۔ صدیاں گزر گئیں، مگر محبت اٹل ہے۔ اس لیے کہ اس محبت کی بنیاد میں حق تعالیٰ کے باطن سے چلنے والی محبت ہے، جو مٹنے والی نہیں ہے۔ آج دنیا میں حضرت خواجہ اجمیری رحمة الله علیہ موجود نہیں ہیں۔ آج حضرت صابر کلیری علیہ الرحمہ موجود نہیں ہیں، شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ موجود نہیں ہیں، لیکن قلوب میں محبت قائم ہے۔ ان لوگوں کے نام آتے ہیں تو ہماری زبانوں سے رحمة الله علیہم اجمعین نکلتا ہے۔ عظمت سے ہم گردنیں جھکا دیتے ہیں۔ وہ ہستیاں موجود نہیں، مگر محبوبیت موجود ہے۔ اس لیے کہ یہ محبوبیت، الله سے چلی اور بندوں تک پہنچی۔ خواص سے شروع ہوئی، عوام تک پہنچی۔

عزت کے بارے میں سنہری اصول
اس سے ایک اصول معلوم ہوتا ہے کہ جو مقبولیت عوام سے اوپر کی طرف چلتی ہے وہ بے بنیاد ہوتی ہے۔ عوام میں پھیل گئی آگے خواص میں اس کا کوئی وجود نہیں، وہ عزت فرضی ہوتی ہے چند دن کے بعد زائل ہو جاتی ہے اورجو خواص سے چلے، عوام کی طرف آئے وہ حقیقی عزت ہوتی ہے۔ تو میں نے عرض کیا انبیاء علیہم السلام، اولیائے کرام، علمائے ربانی اور صالح بندوں کی محبت، کوئی کارنامہ کر جانے والوں کی محبت، جو رہتی دنیا تک قلوب میں باقی رہتی ہے وہ حقیقی عزت ہے۔ اس کی بنیاد فرضی نہیں ہوتی، آدمی کا خیال نہیں ہوتا، قلب کی گہرائی ہوتی ہے۔ اگر آدمی یہ بھی چاہے کہ میں اپنے خیال سے یہ محبت نکال دوں اسے قدرت نہیں ہوتی۔ اس کا دل ملامت کرے گا کہ نہیں، تجھے محبت رکھنی پڑے گی، اس لیے کہ وہ بنیادوں پر قائم ہے۔

حاصل یہ ہے کہ عزت وہ ہے جو الله کی طرف سے چلے۔ مقبولیت عندالله ہو۔ وہ عزت نہیں ہے کہ لوگوں کے تخیلات کے اوپر اس کی بنا ہو۔ کیوں کہ خیال رات دن بدلنے والی چیز ہے۔ تو ایسی محبت وعزت ،جو کہ خیالی ہو، اس کو ہم اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں، یہ زندگی کی توہین ہے۔ زندگی امر واقعی اور نصب العین فرضی اور خیالی بنا رہے ہیں۔ زندگی کی بنیادیں اٹل کہ انسان ابدی ہے اور عزت جو نصب العین ٹھہرا اس کی کوئی بنیاد نہیں کہ کل کو ہے، پرسوں کو نہیں، یہ زندگی کی توہین کرنا ہے۔ اس لیے یہ بھی نصب العین نہیں بن سکتی۔ تو نہ دولت اور رسمی عزت مقصد زندگی بن سکتی ہے، نہ روٹی بن سکتی ہے۔اگر دنیا ہی تک زندگی محدود ہوتی تو چلو ہم یہی نصب العین قرار دے لیتے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ زندگی آگے جانے والی ہے۔ یہ زندگی کا کروڑواں معمولی حصہ ہے، دائمی اورابدی زندگی تو آگے ہے، اس واسطے کوئی اور نصب العین ہونا چاہیے۔

انسان کا علم؟
وہ نصب العین کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ انسان تجویز نہیں کرسکتا، انسان بے چارہ محدود ہے، وہ اپنے حال کی بات دیکھے گا۔ اس کا ماحول ایک محدود ماحول ہے۔ اس کے اندر وہ گھرا ہوا ہے، وہیں کو سوچے گا۔ تو انسان بے چارے کا تخیل ہی کیا؟ اس کی عقل ہی کیا؟ کہ وہ ایک لامحدو دنصب العین سوچ لے۔ اپنے تخیل کے دائرے میں سوچے گا، وہ محدود چیز ہو گی، کار آمد نہیں ہو گی ، اس لیے انسانی زندگی کا نصب العین وہ بتلا سکتاہے جو خود بھی لامحدود ہو، اس کا علم بھی ازلی ابدی ہو ازل سے ہے اور ابد تک جانے والا ہے۔ جو خود انسان کا خالق ہے، اس کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کو جانتا ہے۔ اس کی داؤبھات سے واقف ہے۔ فرمایا:

﴿أَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ﴾

جس نے پیدا کیا ۔ کیا وہ نہیں جانے گا مخلوق کو؟ وہی ہے اصل میں جاننے والا۔ ہم تم اپنے سے اتنے واقف نہیں ہیں جتنا ہمارا خالق ہم سے واقف ہے۔ ہمیں آج یہ پتہ ہے ہی نہیں کہ ہمارے پیٹ میں کیا ہو رہا ہے۔ یعنی پیٹ ہمارا، نفس ہمارا، خود ہمیں ہی پتہ نہیں اندر کیا ہو رہا ہے،حالاں کہ عظیم الشان مشین ہے، جو چل رہی ہے۔ غذا پہنچ رہی ہے۔ معدہ اپنا کام کر رہا ہے، جگر، دل اور دماغ اپنا کام کررہا ہے۔ جب آپ لقمہ کھاتے ہیں ،وہ معدے میں پہنچتا ہے۔ معدہ اسے لے کر سفید حریرہ بنا دیتا ہے او رکچھ فضلات ہیں، جن کو انتڑیوں کی طرف پھینک دیتا ہے اور اس کا جو ہر جگر کی طر ف پھینک دیتا ہے۔ جگر کو کہتے ہیں کہ یہ طباخ بدن ہے ( بدن کا باورچی ہے) جگر اس حریرے کو پکاتا ہے، جب ہنڈیا پکتی ہے تو ایک حصہ اوپر جھاگ کی طرح ہوتا ہے۔ ایک حصہ تلچھٹ کی طرح ہوتا ہے، ایک حصہ بیچ بیچ میں ہوتا ہے او رایک حصہ وہ ہے جو جو ہر بنتا ہے۔ وہ جواو پر کا جھاگ کا حصہ ہے وہ بلغم ہے۔ جو نیچے تلچھٹ کا حصہ ہے وہ سودا ہے، جو بین بین ہے وہ صفرا ہے او ران تینوں چیزوں سے مل کر جو جوہر بنتا ہے۔ اسے خون کہتے ہیں۔ یہ چار خلطیں تیار ہوئیں۔ جگر باریک رگوں کے ذریعہ سے خون کوقلب کو اندر بھیجتا ہے۔ قلب کے بارے میں اطباء لکھتے ہیں کہ یہ ایسا ہے جیسے چوگڑی ہوتی ہے کہ بیچ میں سے دبا ہوا دونوں کنارے پھیلے ہوئے جیسے اگال دان ہوتا ہے تو بیچ میں سے پتلا اور دونوں کنارے چوڑے۔ یہ قلب کی صورت ہے۔ اس کا ایک حصہ بطن عالی اورایک بطن سافل کہلاتا ہے۔ یہ خون بطنِ سافل کے اندر پہنچتا ہے۔ قلب اس کو پھر اپنی حرارت سے پکاتا ہے۔ اس کو پکانے سے ایک لطیف بھاپ پیدا ہوتی ہے ۔ وہ روح حیوانی کہلاتی ہے، اس روح کے اوپر پھر اوپر سے روح آتی ہے، جس کو روح ربانی کہتے ہیں۔ ا اس سے انسان کے علم اور ادراک کا تعلق ہے۔ تو بدن کا حصہ نیچے ایک سواری ہے، اس پر روح حیوانی سوار ہے۔ پھرروح حیوانی ایک سواری ہے، اس پر روح ربانی سوار ہے، اس طرح سے یہ تین چیزیں ہیں، جو مل کر سفر طے کر رہی ہیں۔ تو آپ نے اندازہ کیا کہ کس طرح غذائیں پہنچ رہی ہیں اور ہضم ہو رہی ہیں او راس سے طرح طرح کی چیزیں بن رہی ہیں، لیکن انسان کوخود کو اس وقت پتہ نہیں کہ معدہ کیا کر رہا ہے۔ جگر کیا کر رہا ہے اور قلب کیا کر رہا ہے۔ جب ہمار ے اندر سب کچھ ہو رہا ہے اور ہمیں کچھ پتہ نہیں تو اس کا محدود علم ہے، تو لا محدود زندگی کا نصب العین کیسے تجویز کرے گا؟ یہ اگر تجویز کرے گا تو چند روزہ ہو گا، جیسے خود اس بے چارے کا علم چند روزہ ہے۔ اس واسطے ضروری ہے کہ زندگی کا نصب العین تجویز کرنے والا وہ ہو جو زندگی کا خالق ہے۔ وہی اس کے اول وآخر سے واقف ہے۔ وہی نصب العین متعین بھی فرماسکتا ہے۔

خالق ِ انسان کا تجویزکردہ نصب العین
اس خالق نے ایک نصب العین تجویز فرمایا او راپنے فرمان کے ذریعے ہم تک بھیج دیا، جس کو قرآن کریم کہتے ہیں، فرمایا:﴿وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون﴾

میں نے جنوں او رانسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری اطاعت کریں۔

تو مقصد ِ زندگی در حقیقت اپنے خالق ومالک کی اطاعت وعبادت نکلی۔ عبادت کا لفظ سن کر ممکن ہے کہ آپ کو یہ تخیل پیدا ہوا ہو کہ بس اب کہا جائے گا کہ جاکے مسجد میں بیٹھو۔ کوٹھی بھی چھوڑ دو او ربنگلہ بھی اور مسجد کا راستہ لو۔ عبادت تو وہاں ہو گی او رممکن ہے یہ کہا جائے کہ بھائی! یہ دولت جو ہے اسے خیر باد کہو۔ یہ سب کچھ صدقہ کرکے جاؤ الله کے راستہ میں اور اپنا گھر بار چھوڑو۔

دولت سے بھی خداملتا ہے
تو میں عرض کیے دیتا ہوں کہ یہ غلط تخیل ہے۔ اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ انسان جس دائرے میں رہے اسے مایوس نہیں کرتا۔ خدا تک پہنچنے کا لازمی راستہ بتلاتا ہے، یہ نہیں کہا کہ انسان آج جس دائرے میں ہے۔ اس دائرے کو چھوڑ کر فلاں دائرے میں جائے جب تو مجھ تک آئے گا او راگر نہیں چھوڑے گا تو مجھ تک نہیں آئے گا۔ ایسا نہیں ہے۔

اگر ایک آدمی دولت مند ہے۔اسے اسلام یہ کبھی نہیں کہے گا کہ تو اپنی ساری دولت کو ختم کردے، بلکہ اسی دولت کو خدا تک پہنچنے کا ذریعہ بنائے گا۔ اس کے خرچ اور آمد کا طریقہ بتلائے گا، اس کے قوانین بتلائے گا کہ میری اطاعت کے تحت اس کو حاصل کر اور میری اطاعت کے تحت اس کو صرف کر۔ یہ سب تیرے لیے عبادت ہے، تو ایسا کرنے سے مجھ تک پہنچ جائے گا۔ تو دولت مند کو کہے گا کہ تو دولت کے راستے سے مجھ تک پہنچ۔اس واسطے کہ ہزاروں عبادتیں ہیں جن کا تعلق ہی مال سے ہے۔ اگر دولت نہیں ہوگی تو آدمی زکوٰة کیسے دے گا؟ صدقہٴ فطر کیسے دے گا؟ خیرات کیسے کرے گا؟ صلہ رحمی کیسے کرے گا؟ حج کیسے کرے گا؟ اجتماعی امور کیسے انجام دے گا؟ غرض خیرات وصدقات اور چندے، یہ سارے اعمال انجام نہیں دے سکتا جب تک دولت نہ ہو اور یہ سارے کام اسلام کے ہیں۔ تو اسلام کیسے کہہ دے گا کہ دولت کو ضائع کر دو یا حاصل نہ کرو یاآگئی ہے تو اسے کھو دو؟! بلکہ اسی کو رکھ کر، اسی دائرے میں سے راستہ نکال دے گا کہ اس کے اوپر چلو۔