امت کی اخلاقی و روحانی تربیت

امت کی اخلاقی و روحانی تربیت

عبید اللہ خالد

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم خاتم الانبیاء والرسل ہیں، آپ کی شریعت کا مل واکمل ہے اور اس میں زندگی کے ہر پہلو کی راہ نمائی موجود ہے، اس میں جس طرح عبادات، عقوبات اور حدود وکفارات کا نظام موجود ہے، اسی طرح انسانوں کی اخلاقی تعلیم وتربیت کے لیے بھی بڑی جامع ہدایات موجو دہیں، جس سے انسانی معاشرہ فساد وبگاڑ سے محفوظ رہتا ہے اور خالق حقیقی کے ساتھ اس کا تعلق بھی مضبوط ومستحکم ہو جاتا ہے، پھر وہ انسان واقعی انسان اور اشرف المخلوقات کہلوانے کا حق رکھتا ہے، اگر کوئی انسان اخلاقی وروحانی حوالے سے بگڑ ہوا ہو تو اگرچہ صورت میں وہ انسان اور اشرف المخلوقات ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ موذی بن جاتا ہے۔ امت کی اخلاقی وروحانی تعلیم وتربیت کے لیے احادیث مبارکہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے بہت زیادہ کلمات حکمت موجود ہیں۔ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کر لو، کیوں کہ (ہمیشہ اور پابندی کے ساتھ) سچ بولنا نیکو کاری کی طرف لے جاتا ہے ( یعنی سچ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ نیکی کرنے کی توفیق ہوتی ہے ) اور نیکو کاری (نیکوکار کو) جنت کے (اعلیٰ درجات) تک پہنچاتی ہے اور ( یاد رکھو) جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور ہمیشہ سچ بولنے کی سعی کرتا ہے تو وہ الله تعالیٰ کے ہاں ”صدیق“ لکھا جاتا ہے، نیز تم اپنے آپ کو جھوٹ بولنے سے باز رکھو، کیوں کہ جھوٹ بولنا فسق وفجور کی طرف لے جاتا ہے ( یعنی جھوٹ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ برائیوں اور بد عملیوں کے ارتکاب کی طرف رغبت ہوتی ہے ) اور فسق وفجور(فاسق وفاجر کو) دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے اور (یاد رکھو) جو شخص بہت جھوٹ بولتا ہے اور (زیادہ سے زیادہ)جھوٹ بولنے کی سعی کرتا ہے تو وہ الله تعالیٰ کے ہاں کذاب یعنی بڑا جھوٹا لکھا جاتا ہے۔“ (متفق علیہ)

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”(کامل) مؤمن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے نہ لعن کرنے والا، نہ فحش گوئی کرنے والا ہوتا ہے اور نہ زبان درازی کرنے والا۔“ (ترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جس چیز میں بدگوئی اور سخت کلامی ہو وہ اس کو عیب دار بنا دیتی ہے او رجس چیز میں حیا ونرمی ہو وہ اس کو زیب وزینت بخشتی ہے۔“

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا”(لوگو!) چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ تم میں پائی جائیں تو دنیا کے فوت ہونے نہ ہونے کا تمہیں کوئی غم نہیں ہونا چاہیے، ایک تو امانت کی حفاظت کرنا ( یعنی حقوق کی حفاظت وادائیگی کرنا، خواہ ان حقوق کا تعلق پرورگار سے ہو یا بندوں سے ہو یا اپنے نفس سے) دوسرا سچی بات کہنا، تیسرا اخلاق کا اچھا ہونا اور چوتھا کھانے میں احتیاط وپرہیز گاری اختیار کرنا ( یعنی حرام وناجائز کھانے سے پرہیز کرنا اور زیادہ کھانے سے اجتناب کرکے بقدر حاجت وضرورت پر اکتفا کرنا) (مسند احمد، شعب الایمان للبیہقی)

لقمان حکیم رحمة الله علیہ سے پوچھا گیا کہ جس مرتبہ ( یعنی فضیلت کے جس مقام) پر ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں اس تک آپ کو کس چیز نے پہنچایا؟ انہوں نے فرمایا کہ :”سچ بولنے نے ( کہ میں نے سچائی کا دامن ، کبھی نہیں چھوڑا، خواہ میں نے خود کوئی بات کہی ہو یا کسی اور کی کوئی بات نقل کی ہو، ہمیشہ سچ بولنے پر عامل رہا) ادائیگیٴ امانت نے ( یعنی خواہ کوئی مالی معاملہ رہا ہو یا فعلی میں نے ہمیشہ دیانت داری کو ملحوظ رکھا) اور جو چیزیں میرے لیے بے فائدہ اور غیر ضروری ہیں ان کو ترک کر دینے سے ۔“ (مؤطا امام مالک)

قرآن وحدیث میں اخلاق حمیدہ اور اوصاف طیبہ کو اختیار کرنے کی ضرورت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، متعدد آیات واحادیث میں اس کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے۔ ان اوصاف کو اختیار کرنے سے انسان دنیا وآخرت دونوں میں کام یاب وکام ران بن سکتا ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں اخلاق حمیدہ اختیار کرنے اور اوصاف رذیلہ سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔ وما توفیقي إلا بالله، علیہ توکلت وإلیہ أنیب․