امت مسلمہ کے مسائل اور لمحہ فکریہ

امت مسلمہ کے مسائل اور لمحہ فکریہ

عبید اللہ خالد

تقریباً اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کے دوران انگریزوں نے دنیا کے ایک بڑے خطے پر قبضہ کیا، جس میں اکثریت مسلم ممالک کی تھی۔ انہوں نے وہاں کے رہنے والوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے ،ان کے وسائل کو لوٹا اور جس حد تک ممکن تھا انہیں کم زورکرنے کی کوشش کی اور پھر حالات سے مجبور ہو کر جب انہوں نے ان ممالک کو آزاد کیا تو ان کو اپنا ماتحت اور محکوم بنانے کے لیے کئی کام کیے، ایک تو ان پر قیادت ایسی مسلط کر دی جو اگرچہ رنگ ونسل کے اعتبار سے مسلمان اور مقامی آباد ی میں سے تھی لیکن سوچ وفکر کے اعتبار سے انگریز کی کاسہ لیس اور اس کی تہذیب وتمدن کی دریو زہ گر تھی۔

دوسرے امت مسلمہ پر اسرائیل کی صورت میں سرخ بھیڑیا مسلط کرکے اس کی پرورش اور حفاظت کی ذمہ داری خود لے لی اور اسے امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کی کھلی چھوٹ دے دی، تیسرا کام یہ کیا کہ اقوام متحدہ کی صورت میں اقوام عالم کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم اور تنظیم قائم کر دی جب کہ ویٹو پاور کے نام سے اس کی قیادت وسیادت کفار کے حوالے کر دی او رامت مسلمہ کو نہتا ، بے آسراوربے سہارا چھوڑ دیا، اس پلیٹ فارم نے کفار کے مقاصد وعزائم کو پورا کرنے کے لیے پل کا کردار ادا کیا اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چناں چہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا میں اگر کہیں نقصان ہو رہا ہے تو وہ امت مسلمہ ہی کا ہو رہا ہے، مسلم ممالک پر یلغار کی جارہی ہے، مسلمانوں کو قتل بھی کیا جارہا ہے، ان کے بوڑھوں، بچوں ، مردوں اور عورتوں کو شہید اوردر بدر بھی کیا جارہا ہے، ان سے ان کا مال ومتاع چھینا جارہا ہے اور دہشت گردی کا الزام بھی انہیں پر عائد کیا جارہا ہے۔ اس وقت امت مسلمہ کا چپہ چپہ لہو لہو ہے اور ظلم وستم کا بازار گرم ہے، کشمیر، فلسطین، شام، عراق، یمن ، افغانستان، برما ، ہندوستان غرض دنیا کا ہر خطہ خون مسلم سے رنگین ہے، مسلمانوں سے زندہ اور پرامن رہنے کا حق چھینا جارہا ہے اور ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ کلمہ ”لا الہ الا الله“ پڑھنے والے او رمحمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے امتی ہیں۔

عالمی کفریہ طاقتوں نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ امت مسلمہ کو ڈسنے کی مختلف قسم کی خوف ناک سازشوں میں مسلسل مصروف عمل ہیں، جو مسلمان ممالک کسی حد تک امن کی حالت میں ہیں اولاً ان پر اپنے پروردہ حکم را نواں کو مسلط کردیا جاتا ہے، پھر ان کو مختلف حیلوں اوربہانوں سے بدامنی کی طرف دھکیلا جاتا ہے، جو کسی حد تک تحفظ میں ہیں ، ان سے تحفظ کا حق چھینا جاتاہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ امت کے ارباب حل وعقد اوراصحاب اختیار غفلت کی نیند سو رہے ہیں او رکفار کا راستہ روکنے کے بجائے ان کے معاون ومدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔

آج امت کی یہ بری صورت حال کیوں ہے اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کیوں کھا رہی ہے؟ اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اس نے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دروازے کو چھوڑ کر غیروں کے طور طریقوں کو اختیار کر لیا ہے او راسی میں کا م یابی وکام رانی ڈھونڈرہی ہے ۔

حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت خالد بن ولید، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابو عبید بن جراح، حضرت عثمان ذالنورین، حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت معاویہ رضی الله عنہم یا ان حضرات کے علاوہ امت کے دیگر علماء وصلحاء اور خلفاء وسلاطین کام یاب وکام ران ہوئے اس کی وجہ کیا تھی؟ کیا وہ غیروں کی نقالی کیا کرتے تھے یا دیگر اقوام عالم کے نقش قدم پر چلنے والے تھے؟ہر گز نہیں، بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ وہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی مکمل اتباع کرنے والے اور آپ کے نقش قدم پر صحیح طور پر چلنے والے تھے۔ جب کہ آج امت کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرمائے اور محمد رسول ا لله صلی الله علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وما توفیقي الاّ بالله علیہ توکلت وإلیہ أنیب․