امتِ محمدیہ کے سب سے بڑے محدِّث سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

امتِ محمدیہ کے سب سے بڑے محدِّث سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

مولانا ندیم احمد انصاری

اسلام کی دیگر خصوصیات کے ساتھ ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس مذہب کے ماننے والوں نے پیغمبرِ خدا، رسول اللہ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو احادیث کی صورت میں نہ صرف بیان کیا، بلکہ چودہ سو سال کے بعد بھی من و عن محفوظ رکھا ہے۔ احادیث کی مختصر سی کتاب ’شمائلِ نبوی‘ المعروف بہ ’شمائلِ ترمذی‘ کا ہی آپ مطالعہ فرمائیں تو اندازہ ہوگا کہ کس حزم و احتیاط اور کس توجہ و اہتمام سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ امت کو پہنچائی ہیں۔ یہ حضرات آپ صلی الله علیہ وسلم سے اجمال کی تفصیل معلوم کر کر کے ایسے ایسے مسائل حل کر گئے کہ بدن کا رُواں رُواں ان کے احسان تلے دبا نظر آتا ہے۔

یہ خدمت بہت سے صحابہ کرام نے انجام دی، لیکن کثرتِ روایت کے باعث بعض حضرات ممتاز مقام پر فائز ہوئے۔ ان میں بھی سیدنا حضرت ابوہریرہ کو جو منفرد مقام حاصل ہے، وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا، اس لیے انھیں بجا طور پر امتِ محمدیہ کا سب سے بڑا محدِّث کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہکی مرویات کی مجموعی تعداد پانچ ہزار تین سو چوہتر (5374) ہے، ان میں تین سو پچیس (325) متفق علیہ ہیں، اُناسی (79) میں ’بخاری‘ اور ترانوے (93) میں مسلم، منفردہیں۔ احادیثِ نبوی کے عظیم الشان ذخیرے کی مناسبت سے آپ کے رُواة وتلامذہ کا دائرہ بھی وسیع تھا…صحابہ اور تابعین ملا کر ان کے رواة کی تعداد آٹھ سو (800) سے متجاوز ہو جاتی ہے۔ (سیر الصحابہ:3/59)

خود آپکا بیان
بخاری شریف کی روایت میں خود حضرت ابوہریرہکہتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص حدیث کی روایت نہیں کرتا، اُن میں اور مجھ میں فرق یہ ہے کہ وہ حضور کی حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے اور میں زبانی یاد کرتا تھا۔(بخاری)

علمِ حدیث کی حرص
حضرت ابوہریرہکو حصولِ علم کا کس قدر شوق تھا، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل روایات سے ہوتا ہے؛ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ حصہ آپ کی شفاعت سے کسے ملے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یقینی طور پر یہ خیال تھا کہ تم سے پہلے کوئی یہ بات مجھ سے نہ پوچھے گا، کیوں کہ مَیں نے حدیث پر تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ فیض یاب وہ شخص ہوگا، جو صدق دل سے اخلاص کے ساتھ لا الٰہ الا اللہ کہے۔(بخاری)

حصولِ علم میں آپ کی جفا کشی
آپکی زندگی ہی میں آپ کی کثرتِ روایت پر اعتراض کیا گیا تو آپنے فرمایا:لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت احادیث بیان کرتا ہے، حالاں کہ پیٹ بھر لینے کے علاوہ مَیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہر وقت لگا رہتا تھا۔مَیں خمیری روٹی نہ کھاتا اور نہ عمدہ لباس پہنتا تھا (یعنی میرا تمام وقت علم کے سوا کسی اور چیز کے حاصل کرنے میں صَرف نہیں ہوتا تھا) اور نہ میری خدمت کے لیے کوئی فلاں خادم یا فلانی خادمہ تھی، بلکہ مَیں بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔ بعض اوقات مَیں کسی کو کوئی آیت اس لیے پڑھ کر اس کا مطلب پوچھتا تھا کہ وہ اپنے گھر لے جا کر مجھے کھانا کھلا دے، حالاں کہ مجھے اس آیت کا مطلب معلوم ہوتا تھا۔ مسکینوں کے ساتھ سب سے بہتر سلوک کرنے والے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، وہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور جو کچھ بھی میسّر ہوتا، ہمیں کھلاتے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا کہ صرف شہد یا گھی کی کپی ہی نکال کر لاتے اور اسے پھاڑ کر اس میں جو کچھ ہوتا ہم اسے ہی چاٹ لیتے۔(بخاری)

ایک معجزہ یا نبوی دعا
حضرت ابوہریرہکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مَیں آپ سے بہت سے حدیثیں سنتا ہوں، مگر انھیں بھول جاتا ہوں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ! مَیں نے چادر پھیلائی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلّو بنایا (اور اس چادر میں ڈال دیا)، پھر فرمایا کہ اس چادر کو اپنے اوپر لپیٹ لو! چناں چہ مَیں نے اسے لپیٹ لیا۔ اس کے بعد مَیں کچھ نہیں بھولا۔(بخاری)

ابوہریرہدوسروں سے آگے نکل گئے
حضرت قیس مدنی کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت زید بن ثابتکی خدمت میں حاضر ہو کر کسی چیز کے بارے میں پوچھاتو انھوں نے فرمایا: تم جاکر یہ بات حضرت ابوہریرہسے پوچھو، کیوں کہ ایک مرتبہ مَیں حضرت ابوہریرہ اور فلاں آدمی تینوں مسجد میں دعا کررہے تھے اور اپنے ربّ کا ذکرکررہے تھے کہ اتنے میں حضور صلی الله علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ ہم خاموش ہوگئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم جو کررہے تھے اسے کرتے رہو! چناں چہ مَیں نے اور میرے ساتھی نے حضرت ابوہریرہسے پہلے دعاکی اور حضور صلی الله علیہ وسلم ہماری دعا پر آمین کہتے رہے۔ پھر حضرت ابوہریرہنے اس طرح دعا کی: اے اللہ! میرے ان دوساتھیوں نے جو کچھ تجھ سے مانگا، مَیں وہ بھی تجھ سے مانگتاہوں اور ایسا علم بھی مانگتاہوں جو کبھی نہ بھولے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: آمین۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم بھی اللہ سے وہ علم مانگتے ہیں جو کبھی نہ بھولے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دَوسی نوجوان (یعنی حضرت ابوہریرہ) تم دونوں سے آگے نکل گئے۔(طبرانی اوسط)

احادیث بیان کرنے کی وجہ
حضرت ابوہریرہکہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہنے بہت حدیثیں بیان کی ہیں، لیکن اگر کتاب اللہ میں یہ دو آیتیں نہ ہو تیں تو مَیں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا۔ پھر انھوں نے یہ آیات پڑھیں:(جن کا ترجمہ یہ ہے)بے شک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں- باوجود یہ کہ ہم انھیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کرچکے ہیں- تو ایسے لوگوں پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں۔ ہاں! وہ لوگ؛ جنھوں نے توبہ کرلی ہو اور اپنی اصلاح کرلی ہو (اور چھپائی ہوئی باتوں کو) کھول کھول کر بیان کردیا ہو، تو مَیں ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا، بڑا رحمت والا ہوں۔(سورہٴبقرة) سچ تو یہ ہے کہ ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بازاروں میں خریدو فروخت کرنے کا شغل رہتا تھا اور ہمارے انصار باغوں میں لگے رہتے تھے اور ابوہریرہ کھانے کے علاوہ ہر وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا اور ایسے اوقات میں بھی حاضر رہتا تھا جب لوگ حاضر نہ ہوتے تھے اور وہ باتیں یاد کرلیتا جو وہ لوگ یاد نہ کرتے تھے۔(بخاری)

کتمانِ علم کا الزام اور اس کا جواب
”بخاری شریف“کی ایک روایت میں ہے،حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے (علم کے) دو ظرف یاد کرلیے ہیں، ایک کو مَیں نے پھیلا دیا اور دوسرا اگر مَیں پھیلاؤں تو میرا نرخرا کاٹ دیا جائے۔(بخاری)اس پر بعضوں نے نعوذ باللہ یہ الزام لگا دیا کہ حضرت ابوہریرہنے جان کے خوف سے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے گریز کیا، لیکن یہ بات ہرگز ہرگز درست نہیں۔علما نے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ وہ حدیثیں جو حضرت ابو ہریرہنے بیان نہیں کیں، وہ فتنوں کی حدیثیں تھیں۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے کچھ فتنے نام بہ نام بیان کیے تھے، جیسے مدینہ منورہ میں جو منافقین تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ کو ان کے نام بتا دیے تھے، مگر حضرت حذیفہ کو بیان کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ کا معاملہ بھی سمجھنا چاہیے۔ اور دونوں تھیلوں (ظروف) کا برابر ہونا ضروری نہیں، ممکن ہے ایک تھیلا اتنا بڑا ہو کہ اس میں پانچ ہزار حدیثیں آئیں اور دوسرے تھیلے میں صرف پانچ۔ بہرحال! ایک تھیلا حضرت ابو ہریرہ نے کھول دیا، اس کی حدیثیں امت تک پہنچا دیں اور دوسرا تھیلا محفوظ رکھا، اسے کھولنے میں فتنے کا اندیشہ تھا۔ اس حدیث میں تو اس طرف اشارہ ہے کہ جن باتوں کے بیان کرنے میں فتنے کا اندیشہ ہو، وہ باتیں لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرنی چاہییں۔ (دیکھیے تحفة القاری) نیز حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:طلبِ علم ہر مسلمان پر فرض ہے اور نااہل کو علم دینے والا سوروں کی گردن میں جواہر، موتی اور سونا پہنانے والے کی طرح ہے۔(ابن ماجہ)

معلوم ہوا؛ ایک ظرف کا بیان نہ کرنا کتمانِ علم نہیں، بلکہ احتیاط پر مبنی تھا، جیسے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے رازِ نبوی کو فاش نہیں کیا، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان باتوں کو سینے میں محفوظ رکھا۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہی تھا۔