افغان طالبان کی قربانیاں اور کام یابی

افغان طالبان کی قربانیاں اور کام یابی

مفتی حماد خالد آفریدی
استاد جامعہ فاروقیہ کراچی

قرآن کریم میں جہاد کے جو فضائل بیان کیے گئے ہیں اور پیارے آقا سرکار دو جہاں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے جو واقعات کتب حدیث میں ملتے ہیں، اس وقت اگر پوری دنیا پر نظر ڈالی جائے تو اُس طرح کی جہاد کی بہار شاید ہی کہیں نظر آئے، مگر افغانستان میں اس کی ایک جھلک افغان طالبان کی شکل میں نظر آتی ہے، جب روس نے افغانستان پر اپنے ناپاک قدم جمانے کی کوشش کی تو اس وقت جہاد کی یہ تحریک کچھ مٹھی بھر الله کے نیک بندوں نے تقوی اورپرہیز گاری کی بنیاد پر روس کے خلاف چلائی اور اس میں دنیا کے مختلف حصوں سے مسلمان جمع ہوئے او راپنا اپنا حصہ اس جہادی تحریک میں ڈالا، پھر روس کے نکلنے کے بعد افغانستان کے مقامی گروہوں میں اقتدار کے حصول ِ کے لیے لڑائی چھڑ گئی اور ملک کی صورت حال ابتر ہو گئی، لہٰذا طالبان کے نام سے مدارس اور مساجد کے علماء اور طلبا اٹھ کھڑے ہوئے، جو یہ چاہتے تھے کہ افغانستان میں جنگ وجدل اور بیرونی مداخلت ختم ہو، امن وسکون کا دور دورہ ہواور ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے، جس میں افغانستان کا نظام مکمل اسلامی ہو، جہاں پر مسلمان اسلامی طریقوں کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں، پانچ سال امارت اسلامیہ افغانستان کا قیام رہا اور اس کے امیر، امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ الله تھے، اسی دوران مریکا کی دو بلند وبالا عمارتوں کو جہازوں کے ذریعے تباہ کر دیا گیا اور اس کا الزام القاعدہ پر ڈال دیا گیا، جو آج تک امریکا ثابت نہ کرسکا، لیکن اپنی ہٹ دھرمی اور غروروتکبر کے نشے میں اس نے افغانستان پر اپنی پوری طاقت کے ساتھ کئی ممالک کی معیت میں حملہ کر دیا اور یہحملہ اس نے نیٹو کی شکل میں کیا، یعنی دنیا کے 48 ترقی یافتہ ممالک کی فوج کو اپنے ساتھ ملا کر، جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر کیا اور افغانستان کی سر زمین پر دنیا کا سب سے مہلک بارود تک برسایا، لیکن افسوس کسی ملک کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور زبان سے بھی افغان مسلمان بھائیوں کے لیے کچھ نہ نکل سکا اورطالبان پر دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کر دیا گیا، بلکہ پوری دنیا میں دین دار طبقہ کو بھی دہشت گرد کہا جاتا رہا، وہ مقامی گروہ جو افغانستان کے اقتدار کی ہوس میں لڑ رہے تھے، امریکاکے حکم پر ایک ہو گئے او رافغانستان میں ایک امریکی کٹھ پتلی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا، طالبان کے وہ لوگ جو اس وقت حکومت میں تھے یا پھر سفارت کاروں کی شکل میں دنیا کے کسی ملک میں موجود تھے، انہیں بہادر امریکا کے حکم پر پکڑا جانے لگا او ران کے لیے گوانتاناموبے میں ایک خاص جیل بنائی گئی، جس میں ان مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے رہے، جو بعد میں منظر عام پر بھی آئے اور وہ لوگ جو کتے بلی کے حقوق تک کی آواز پوری دنیا میں اٹھاتے ہیں، وہ اندھے ،گونگے ، بہرے اور بے حس ہو گئے۔

یہ جیل بھی مالٹا کی کالا پانی کی جیل کی طرح تھی، جس میں افغانستان، پاکستان یا عرب ممالک سے طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے یا ان سے ہم دردی رکھنے والے لوگوں کو گرفتار کرکے لایا جاتا تھا یا ان کا نام تھوپ کر مقید سلاسل کر دیا جاتا تھا اور ان پر طرح طرح کے مظالم کیے جاتے تھے او رپھر ایک خاص مشن اور پالیسی کے تحت دین دار یا کسی نہ کسی درجہ میں دین سے جڑے ہوئے لوگوں کو دہشت گرد کہا جانے لگا، افغانستان میں امریکی موجودگی پر پڑوسی مسلمان ممالک نے جان سے بڑھ کر خدمت کی او راس خدمت پر ان ممالک کو ڈالروں کی شکل میں خوب نوازا گیا، یہاں پر ایسے لوگوں کا ذکر بھی بہت ضروری ہے جو افغان طالبان تحریک سے جڑے ہوئے تھے، انہیں امریکا نے چن چن کر ختم کر دیا اور آج تک ان کو کوئی نہیں جانتا اور ان کے نام ونشان تک کا پتہ نہیں چل سکا، الله تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

افغان طالبان نے اس دورانیہ میں اپنے بہت ہی قیمتی لوگوں کی قربانی بھی دی اور خوبرو نوجوانوں کو بھی کھویا ،جن کی جوانیاں دیکھ کر رشک آتا تھا، بہرحال وہ قربانیاں دینے والے لوگ اپنے رب اور رسول علیہ السلام کے وعدہ کو حق اور سچ جان کر قربانیاں دیتے رہے، ان میں امیر المؤمنین ملا عمر مجاہد رحمہ الله سر فہرست ہیں، اس دوران امریکا بہادر نے افغانستان میں بہت بڑی انویسمنٹ کی، یہ سمجھ کر کہ وہ اپنے حواریوں سے آئندہ مستقبل میں فائدہ اٹھاتا رہے گا اور امریکا پیچھے بیٹھ کر ان سے خدمات لیتا رہے گا۔

لیکن طالبان کے مستقل حملے اور کارروائیاں امریکا کی ہمت توڑتی رہیں اور افغان کٹھ پتلی حکومت امریکا سے مادی اور ذاتی فائدے اٹھاتی رہی، جس کا پتہ طالبان کے علاقوں پر کنٹرول کے بعد چلا… جنرل دوستم کا محل جس پر طالبان نے قبضہ کیا، دیکھ کر لگتا تھا کہ اس نے کبھی خواب وخیال میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ اسے یہ محل چھوڑنا پڑے گا، اسی طرح دوسرے علاقوں کے والیوں کا بھی یہی حال تھا، یہ وہ پیسہ تھا جو افغان عوام کے نام پر بٹورا گیا تھا، چناں چہ امریکیوں پر طالبان کے مستقل حملوں نے امریکا کی کمر توڑ دی تھی، امریکی صدر ٹرمپ کے دور اقتدارمیں یہ فیصلہ کیا گیا کہ امریکی فوج کو افغانستان سے نکالا جائے او راس پر افغانستان میں موجود طاقت ور جنگ جو گروپ سے بات کی جائے، اب تک امریکا طالبان کی طاقت کو مان نہیں رہا تھا، چناں چہ افغانستان میں کئی سروے کیے گئے اورامریکیوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ افغانستان میں اگر کوئی قوت طاقت ور ہے تو وہ طالبا ن ہیں، پھر مذاکرات کا عمل شروع کیا گیا … یہاں پر ایک بات بتانا بہت ضرور ی ہے کہ طالبان کی نمائندگی میں جہاں ان کا اپنا کردار اور قابلیت ہے، وہیں پر ان کی شخصیت کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے والا ملک قطر بھی ہے، اس سارے مذاکرات کے دورانیے میں قطر جو کہ بہت چھوٹا سا ملک ہے، لیکن اس کا کردار بہت مرکزی ہے، طالبان کی اب تک کی ساری میزبانی قطر نے کی ہے۔

اب افغانستان کے سارے شہر فتح ہوچکے ہیں اور جو سب سے زیادہ حیران کن بات ہے وہ یہ کہ ملک کے اکثر وبیشتر علاقے بغیر کسی مزاحمت کے فتح ہوئے، اس پر پوری دُنیا کے تجزیہ نگار تجزیے کر رہے ہیں، لیکن یہ خالصتاً جہاد کی برکت اور مجاہدین کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، اگر طالبان کی حکومت مستحکم ہوتی ہے، جو کہ ان شاء الله مستحکم ہوگی تو امارت اسلامیہ کے قیام کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہو گا اور مستقبل کے لیے پاکستان کو ایک ایسا مخلص اسلامی برادر مل جائے گا، جس کی بنیاد پر پاکستان بھی دُنیا کے سامنے بات کر سکے گا اور یہ پاکستانی قوم کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ الله تعالیٰ نے امارت اسلامی پاکستان کے پڑوس میں قائم فرمائی، اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

طالبان کی سابقہ قیادت او رموجودہ قیادت انتہا درجہ لائق فائق ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیاوی علوم سے آشنا نہیں ہیں، لیکن انہوں نے دنیاوی علوم سے آشناؤں کو ایسا سبق سکھایا ہے، جس پر اب دشمن بھی ان کی قابلیت کا معترف ہو گیا ہے۔ طالبان کی قربانیوں پر جتنا لکھا جائے کم ہے،ہر مجاہد کی ایک داستان ہے اور ہر داستان میں غم بھرے پڑے ہیں، عبدالجبار عمری صاحب دامت برکاتہم وہ عظیم انسان ہیں جن کے گھر میں کافی عرصہ تک امیر المؤمنین رحمہ الله رہائش پذیر تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب امیر المومنین کے بیٹے ملا یعقوب حفظہ الله نے دورہ حدیث کی تکمیل کر لی اور دستار بندی کی تصویر مجھے ملی، تو میں ملا صاحب کے پاس گیا اور بڑی خوشی کے ساتھ انہیں بتایا کہ جس بیٹے کو آپ نے چھوٹی سی عمر میں چھوڑا تھا وہ اب نہ صرف بڑا ہو گیاہے ،بلکہ عالم دین بن گیا ہے۔ اور پھر میں نے چاہا کہ ملا یعقوب حفظہ الله کی دستار بندی کی وہ تصویر بھی ملا صاحب مرحوم کو دکھا دوں… مگر انہوں نے یہ کہہ کر مجھے تصویر دکھانے سے منع کردیا کہ ایسا نہ ہو بیٹے کی محبت مجھے بے چین کر دے اور خدا نخواستہ جس مشن کے لیے ہم قربانی دے رہے ہیں اس میں خلل آجائے۔

یہ ہیں وہ لوگ جو حقیقی قربانیاں دینے والے ہیں۔ کیا انہیں اپنے بچوں سے محبت نہیں تھی؟ لیکن اس دین کی خاطر سب کچھ قربان کر دیا اور صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی یاد تازہ کر دی… الله تعالیٰ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان درویشوں کو خوب نوازے۔