اعمال کی روح

اعمال کی روح

عبید اللہ خالد

اسلام دین فطرت ہے اور اس کی بنیاد کلمہ لا إلہ الا الله محمد رسول الله پر ہے، جو آدمی اخلاص کے ساتھ اس کلمے کو پڑھ لیتا ہے تو وہ مسلمان شمار ہوتا ہے او راس پر اسلام کے تمام احکام لاگو ہوجاتے ہیں، جس میں اہم اور بنیادی احکام نماز، روزہ، حج اور زکوٰة ہیں، ویسے ایک مسلمان کے چوبیس گھنٹے کی زندگی اگر شریعت مطہرہ اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کے مطابق ہو تو وہ عبادت شمار ہوتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ تمام اعمال حسنہ میں اخلاص ہو اور نیت صرف اور صرف الله تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی ہو تب وہ عندالله قبول ہوں گے اور ان پر اچھا نتیجہ مرتب ہو گا، اور اگر کسی آدمی کے اعمال ظاہراً اچھے ہوں لیکن ان میں اخلاص وللہیت نہ ہو بلکہ نام ونمود اور شہرت وریا کاری کے جذبات کے تحت وہ انجام دیے گئے ہوں توایسے اعمال روح سے خالی ہوں گے اور آخرت میں ان پر کوئی فائدہ اور ثواب مرتب نہیں ہو گا، بلکہ وہ آدمی کے لیے وبال بن سکتے ہیں۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال میں تصحیح نیت کا اہتمام کرے اور صبح شام کے اعمال کو ان کی روح کے مطابق انجام دے، چاہے وہ عمل چھوٹا ہو یا بڑا، کیوں کہ ایک چھوٹا عمل نیت کی درستی کی وجہ سے بڑا بن سکتا ہے جب کہ ایک بڑا عمل نیت کی خرابی یا نیت سے خالی ہونے کی وجہ سے بے فائدہ بن سکتا ہے۔ اخلاص اور نیت کی درستگی کی اہمیت کے پیش نظر ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

”اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، لہٰذا وہ آدمی جس کی ہجرت الله اور اس کے رسول کے لیے ہو تو اس کی ہجرت الله اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اور جس آدمی کی ہجرت دنیا کے لیے ہو، یا عورت کے لیے ہو جس سے وہ نکاح کرنا چاہتا ہو تو اس کی ہجرت اس چیز کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔“ (صحیح بخاری)

لہٰذا صرف عمل کا اچھا ہونا ہی کافی نہیں بلکہ نیت کا ٹھیک اور درست ہونا بھی ضروری ہے، جو اعمال کی روح ہے او راس کے بغیر اعمال بے جان اوربے روح ہوتے ہیں اور ایسے اعمال ثواب کے بجائے عقاب وسزا کا سبب بن سکتے ہیں۔ چناں چہ ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”جو شخص وہ علم کہ جس کے ذریعے الله تعالیٰ کی رضا وخوش نودی طلب کی جاتی ہے، دنیا کے سازوسامان کے لیے حاصل کرے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوش بو بھی نہیں پائے گا۔“(سنن ابی داود)

یہ شوال المکرم کا مہینہ ہے اوراس میں مدارس دینیہ کے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے اور مدارس کی طرف طلبہ کی آمد آمد ہوتی ہے، جو دینی تعلیم وتربیت کی غرض سے مدارس کا رخ کرتے ہیں اور یہاں رہ کر اساتذہ کرام سے علم دین سیکھتے ہیں، اس کے لیے وہ بڑی قربانی اور مجاہدے سے گزرتے ہیں ، گھر بار کو چھوڑتے ہیں، عزیز واقارب، بہن بھائی اور والدین کی الفت ومحبت قربان کرتے ہیں، لہٰذا ایسے میں انہیں اپنی نیت کی تصحیح کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ ان کی یہ قربانی اور دین کا سیکھنا فائدہ مند ثابت ہو اور عندالله مقبول ہو۔ الله تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو اور ہمیں اعمال صالحہ اخلاص وللہیت کے ساتھ بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔

وما توفیقي إلا بالله، علیہ توکلت وإلیہ أنیب․