اسلام میں نکاح کا مربوط اور جامع نظام

اسلام میں نکاح کا مربوط اور جامع نظام

مولانا محمد ابوبکر شیخوپوری

نکاح نسل انسانی کی بقاء کا ذریعہ اور خواہش نفسانی کی تکمیل کا مہذب طریقہ ہے۔مذہب اسلام میں اسے عبادت کادرجہ حاصل ہے،یہی وجہ ہے کہ اسے مسجد کے نورانی اورپاکیزہ ماحول میں منعقد کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ چناں چہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ کی روایت سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:”أعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ في المساجد“․ ”یہ نکاح اعلانیہ طورپر کرو اور مسجد میں اس کا اہتمام کرو“۔خودنبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے افضل المساجد یعنی مسجد حرام میں حرم کعبہ کے سائے اور لبیک اللھم لبیک کی روح پرور صدا وٴں میں حضرت میمونہ  سے رشتہ ازدواج منسلک کیاتھا۔نیزاس پرمسرت موقع پر خطبہ مسنونہ کے ذریعے خدااور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی حمد وثنا اور قول سدید اور تقوی ورع کی نصیحت نکاح کے مذہبی تشخص کو اجاگر کرتی اوراس کے عبودیت کے پہلو کوعیاں کرتی ہے۔اس کے بر عکس کفار کے ہاں نکاح محض نفس رانی اورخواہش پرستی کا نام ہے، اس لیے وہ بازاروں ،سینما گھروں، رقص وسرور کی محفلوں اورمعصیت کے متعفن زدہ ماحول میں اس کی تقریب کاانتظام کرتے ہیں ۔

نکاح کی اہمیت
اللہ رب العزت نے انسان کو رشتوں کی جس خوب صورت لڑی میں پرویا ہے ان میں سب سے اہم رشتہ عقد نکاح کے ذریعہ زوجین میں طے پانے والی نسبت ہے،یہی وہ ناطہ ہے جوابتدائے آفرینش میں سب سے پہلے وجود میں آنے والا اور فنائے عالم کے بعد بہشت بریں میں سدا قائم رہنے والاہے۔اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اس رشتے کونسبی رشتے کے ساتھ مقام نعمت میں ذکر فرمایا ہے،چناں چہ سورة الفرقان میں ارشاد باری تعالی ہے :﴿وھو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا وصہرا﴾ ”اوروہ (اللہ) ایسی ذات ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اوراس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا“۔نکاح نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مرغوب چیزوں میں سے ہے،ایک طویل حدیث میں ارشاد نبوی ہے: ”حبب إلي من دنیاکم ثلاث:الطیب والنساء وجعلت قرة عیني في الصلوة“ ”تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے مجھے تین چیزیں محبوب ہیں،خوش بو اور عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔“ اپنی اس پسندیدہ چیز کو عملًا اختیار کرتے ہوئے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے گیارہ عورتوں سے شادی فرمائی، جس سے نکاح کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ امت کوازدواجی زندگی کے زریں اصول بھی فراہم کیے۔پھر صرف اپنی ذات کی حد تک نہیں، بلکہ اسے اپنے سے پیشتر تمام انبیاء کی مشترکہ سنت قراردیا ،چناں چہ ترمذی میں حضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”أربع من سنن الأنبیاء: الحیاء والتعطر والسواک والنکاح“”چار چیزیں انبیاء کی(متفقہ) سنتیں ہیں: حیاء، خوش بو،مسواک اور نکاح“۔

اسلام اور رہبانیت
مذہب عیسائیت میں رہبانیت کا تصورپایا جاتاہے،جوقرآنی بیان:﴿وَرَہْبَانِیَّةً ابْتَدَعُوہَا﴾کی روسے خدائی پابندی کے بغیران کااپنا ایجادکردہ نظریہ ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عیسائی نکاح کو عبادت میں مخل سمجھتے ہیں،اس لیے ان کا ایک بڑاطبقہ نکاح کے عمل سے کنارہ کش ہوکرجنگلوں ،غاروں اورخلوت گاہوں کارخ کرلیتا ہے اور تمام زندگی وہیں گزار دیتا ہے ،جب کہ اسلام جیسے عالم گیر اورآفاقی مذہب میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ،نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے:” لا رہبانیة في الإسلام“”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے“۔بلکہ اسلامی نقطہ نظرسے تونکاح عبادت میں معین و مددگارثابت ہوتا ہے،کیوں کہ حدیث کی روشنی میں نکاح انسان کی شرم گاہ اورقلب ونظرکامحافظ ہے اورجس قدردل اور نگاہ پاک ہوں گے اسی قدرحق تعالی کی معرفت کاعکس اس میں شفاف ہو گا،پھرجتنی زیادہ معرفت حاصل ہوگی اتنا عبادت کی طرف میلان اوررجحان زیادہ ہوگا۔ صحیحین میں حضرت انس سے روایت ہے کہ تین آدمی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج کے پاس آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے آئے،جب انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی کثرت عبادت کے بارے میں سناتواپنی عبادت کو کم خیال کرنے لگے ۔ان میں سے ایک نے کہامیں تمام عمرشب بیداررہوں گا۔دوسرے نے کہامیں ساری زندگی روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہیں کروں گا ،تیسرے نے کہامیں عورتوں سے جدا رہوں گا اورکبھی شادی نہیں کروں گا۔اس دوران نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تشریف لے آئے اوران سے فرمایا: أما واللہ، إني أخشاکم للہ وأتقاکم لہ، لکني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد وأتزوج النساء․ فمن رغب عن سنتي فلیس مني“․”اللہ کی قسم ! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کاتقوی اختیارکرنے والا ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں،نماز بھی پڑھتا ہوں اورآرام بھی کرتا ہوں اورعورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ۔لہٰذا جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں“۔اس سے منشائے نبوت یہ تھاکہ انسان ان بشری تقاضوں کو پوراکرنے کے ساتھ بھی عبادت کا فریضہ بخوبی اور بکثرت سرانجام دے سکتا ہے،اس کے لیے طبعی حوائج کے ترک کی ضرورت نہیں۔

رشتہ ازدواج کی نزاکت
اپنی مسلمہ افادیت کے ساتھ ساتھ یہ اہم رشتہ نزاکت اورلطافت میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔سنجیدگی،مذاق، غصے،پیار،اجبار اور اختیار میں ایک لفظ قبول سے یہ قائم ہوجاتا ہے اور ان تمام صورتوں میں ایک لفظ طلاق یااس کے ہم معنی کنائی لفظ سے برسہا برس پر محیط تعلق پاش پاش ہوجاتا ہے۔ایک لحظے میں اپنائیت سے اجنبیت اور اجنبیت سے اپنائیت کاطویل سفر طے کرنے میں اس کا کوئی بدل نہیں۔لہٰذاکسی لمحہ بھی اس کے نزاکتی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ورنہ آتش غضب میں مشتعل ہوکر کیا گیاکوئی بھی جذباتی فیصلہ ہنستے بستے گھرکوویران کرکے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی زندگی کو حسرت وندامت کے اس تاریک غار میں دھکیل سکتا ہے جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن ہوجاتا ہے۔قرآنی فیصلے ﴿الذی بیدہ عقدة النکاح﴾ کے مطابق اس رشتے کے قیام اور انہدام کی ڈوری مرد کے ہاتھ میں پکڑائی گئی ہے،اس اختیار کاناجائز اوربے موقع استعمال کرکے اپنی عزت تک قربان کر دینے والی اور خاوند کی دل جوئی کے لیے ہر جتن کردینے والی رفیقہ حیات کے ساتھ یہ نازیبا سلوک شرعا اور عقلا کسی طرح بھی درست نہیں ،چناں چہ سنن ابی داوٴد اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابن عمرسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرما یا:” أبغض الحلال إلی اللہ تعالی الطلاق․“”اللہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض چیز طلاق ہے۔“

نکاح میں سادگی
نکاح چوں کہ ہر امیرو غریب اورمردوزن کی یکساں بشری ضرورت ہے،اس لیے شریعت اسلامیہ نے اس کو سادگی کے ساتھ منعقد کرنے اورخواہ مخواہ کے تکلفات سے دور رکھنے کی ہدایت کی ہے۔شعب الایمان میں حضرت عائشہ  کی روایت سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کافرمان ہے:”إن أعظم النکاح برکة أیسرہ موٴنة“”سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم تکلف ہو“۔بدقسمتی سے سادگی اور بے تکلفی کی اس اہم دینی ہدایت کو ہمارے مسلم معاشرے میں یکسر نظرانداز کرکے اس طبعی اورفطری عمل کومشکل سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔متحدہ ہندوستان میں دس صدیوں پر محیط اسلامی سلطنت میں چوں کہ ہندو بھی بطوراقلیت کے مسلمانوں کے ساتھ رہے،پھراسلامی حکومت کے زوال کے بعدسلطنت برطانیہ میں بھی دونوں قومیں ایک ساتھ رہیں ،اس لیے ہندووٴں کی بہت سی رسومات اورخرافات مسلم سماج کاحصہ بن گئیں، جو تقسیم ہند کے تہتر سال بعد بھی بدستور رائج ہیں، جن پر عمل کرنا فرض اور واجب عمل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔اس موقع پر رسم حناء،نیوتہ،جہیز اوربیسیوں قسم کی غیرعقلی اور غیرشرعی رسومات ادا کی جاتی ہیں، جن کے بغیر نکاح کی تقریب کونامکمل تصور کیا جاتا ہے،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہورہا ہے ۔ان رسومات کا نقصان یہ ہے کہ ان کی ادائیگی کے لیے مطلوب رقم نہ ہونے کی وجہ سے قوم کی لاکھوں بچیاں نکاح کی عمرسے متجاوزہوجاتی ہیں اورشوہر کی صورت میں ایک محفوظ سائبان سے محروم رہ جاتی ہیں،ان کے بے بس والدین کی راتیں زندگی میں بیٹیوں کواپنے ہاتھوں سے رخصت کرنے کاخواب سراب بنتے دیکھ کر دکھ اورکرب میں گزرتی ہیں ،مستعاررقم سے ان رسومات کی ادائیگی کر کے بیٹیاں بیاہ دیں توتمام عمرقرض کے منڈلاتے سائے ان کی زندگی اجیرن کیے رکھتے ہیں ۔اس تشویش ناک صورت حال میں ان رسومات کے انسداد اور سد باب کے لیے معاشرے کے بااثر اور سرکردہ افراد کوموٴثر آواز بلند کرنی چاہیے اور انسانی حقوق کی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں اورارباب حل وعقد کوسنجیدگی سے قانونی جدوجہد کرنی چاہیے۔

رفیقہ حیات کی تلاش
نکاح کے سلسلہ کی اہم ترین کڑی شریک حیات کی تلاش ہے۔اس حوالے سے شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ عورت کے حسب ونسب،مال وزراورحسن وجمال سے زیادہ اس کی دین داری کے پہلو کو دیکھا جائے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے:” تنکح المرأة لأربع خصال: لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا، فاظفر بذات الدین، تربت یداک․“”چارخصلتوں کی وجہ سے عورت سے نکاح کیا جاتا ہے،اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب کی وجہ سے،اس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے،لہذا تودین والی کو اختیارکر(پھربطورتکیہ کلام کے فرمایا)تیرے ہاتھ خاک آلود ہو جائیں“۔اس میں حکمت یہ ہے کہ ماں کی گوداولاد کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے،جب عورت نیک ہوگی تواس کی پارسائی اولاد کی تربیت پراثرانداز ہوگی، پھریہ اولادنبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان أو ولد صالح یدعو لہ کی روشنی میں صدقہ جاریہ بن کروالدین کے لیے نجات کاسبب ہوگی۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ حکایت اہل علم میں مشہور ہے۔معروف حنفی فقیہ شیخ محمد بن احمدسمرقندی کی صاحب زادی کانام فاطمہ تھا،جوعلم و فضل میں اپنے والد کی طرح تھی،موصوفہ کی علمی شہرت کی وجہ سے روم اورعرب کے بہت سے مسلم سلاطین وحکام کی جانب سے انہیں نکاح کی پیشکش کی گئی،لیکن فاطمہ کی ایک ہی شرط تھی کہ میں اس شخص سے نکاح کروں گی جو میرے والدقابل قدر کی کتاب”تحفة الفقہاء“کی شرح لکھے گا۔شیخ محمدبن احمد سمرقندی کے مایہ ناز شاگردعلاء الدین کاسانی نے”بدائع الصنائع“ کے نام سے اس کتاب کی شرح تحریر کی ۔والد نے اپنی بیٹی کی شرط کے مطابق اپنے اسی شاگرد کے ساتھ، باوجود ان کے مفلس اورغریب ہونے کے نکاح کر کے رخصت کر دیا۔بعد میں اللہ نے انہیں مالی وسعت بھی عطا فرمائی اور ایسا علمی فضل وکمال عطا فرمایا کہ ان کی تصدیق کے بغیر سمرقند میں کوئی فتوی معتبر نہیں مانا جاتا تھا۔