اسلام میں نحو ست اور بد شگونی کا تصوّر

اسلام میں نحو ست اور بد شگونی کا تصوّر

مولانا ندیم احمد انصاری

اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار نعمتیں انسان کو دی ہیں ان میں ایک بنیادی اور عظیم و بیش قیمت نعمت وقت ہے۔وقت اور زمانہ وجودِ انسانی کا محل، اس کی بقا وسرگرمی اورافادے واستفادے کا میدان ہے۔قرآن مجید نے بھی اس بنیادی انعام کی عظمت اور دیگر انعامات کے مقابلے میں اس کی برتری کی طرف اشارہ کیا ہے۔چناں چہ بہت سی آیا ت سے وقت اور زمانے کی قدر وقیمت کا پتہ چلتا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے:سورہ ابراہیم:32-34، سورہ نحل:12، سورہ حم سجدہ:37، سورہ بنی اسرائیل:12، سورہ انعام:13وغیرہ۔نیز اسلام میں بعض خصوصیات کی بنا پر بعض اوقات میں فضیلت وبرکت کو تو بیان کیا گیا ہے،لیکن کسی زمانے اور وقت کی نحوست کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔
رسول اللہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، (وہ اس طرح کہ) وہ زمانے کو برا کہتا ہے، حالاں کہ زمانہ میں ہی ہوں۔ (یعنی) تمام کام میرے دستِ قدرت میں ہیں (جو کہ زمانے میں واقع ہوتے ہیں)۔ میں رات اور دن کو (جو کہ زمانے کے حصے ہیں)گردش دیتا ہوں (جس کی طرف آدمی واقعات کو منسوب کرتا ہے۔ سو زمانہ تو مع ان چیزوں کے جو اس میں رونما ہوتے ہیں، خود میرے قبضے میں ہے۔ پس یہ سب تصرفات میرے ہی ہیں، تو اس کو برا کہنے سے درحقیقت مجھ کو برا کہنا لازم آتا ہے)۔ (شریعت وطریقت، بخاری، مسلم)نیزرسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی ہائے زمانے کی بدبختی نہ کہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: زمانہ میں(بناتا)ہوں،رات اور دن کو میں چلاتا ہوں اور جب چاہوں انھیں روک دوں۔(الادب المفرد)
کوئی وقت، مہینہ یا زمانہ منحوس نہیں
اس لیے کسی وقت ، مہینے یا زمانے کو برا کہنا یا منحوس سمجھنا ہرگز درست نہیں۔نحوست وقت میں نہیں ہوتی، بلکہ اگر نحوست ہوتی ہے تو انسا ن کے اپنے اعمال میں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:جو نیک کام کرے گاتو اپنے لیے اور جو برے کام کرے گا،ان کا ضَرر اسی کو ہوگا اور تمھارا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔(فصلت)یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ہر قسم کی بدشگونی سے سختی سے منع فرمایا اور توکل سے کام لینے کا حکم فرمایا ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک ساتھ تین مرتبہ ارشاد فرمایا: بدشگونی لینا شرک ہے!بدشگونی لینا شرک ہے!بدشگونی لینا شرک ہے!اور ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے دل میں اس طرح کی کوئی بات نہ آتی ہو،مگر اللہ پر توکل سے یہ دور ہوجاتی ہے۔(ابو داود،ترمذی)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں،جس نے بد شگونی لی ہو یا اس کے لیے بد شگونی لی گئی ہو۔(معجم کبیر، طبرانی)
تین چیزوں میں نحوست والی حدیث
بعض لوگ ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ تین چیزوں میں تو نحوست خود حدیث شریف سے ثابت ہے گھرعورت گھوڑا۔اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے، ایک گھر،دوسرے عورت اور تیسرے گھوڑے میں۔(ابوداود، بخاری،مسلم)حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:نہ ہامہ ہے،نہ عدویٰ ہے اور نہ نحوست کوئی چیز ہے۔اگر نحوست ہوتی تو تین چیزوں میں ہوتی؛ایک گھوڑے میں،دوسرے عورت میں اور تیسرے گھر میں۔ (ابوداود)
یہ استدلال درست نہیں
یہ استدلال چند وجوہ سے درست نہیں۔یہ چیزیں بذاتِ خود منحوس نہیں ہوتیں،بلکہ اگر ان سے انسان کو نقصان پہنچتا ہو تو ہی انھیں منحوس کہا جا سکتا ہے۔ مثلاًعورت اگر نافرمان وبدکار ہو تو وہ منحوس ہے،ورنہ نہیں۔ رسول اللہا نے ارشاد فرمایا:دنیا محض استعمال کی ایک چیز ہے،لیکن دنیاکی عمدہ ترین نعمت نیک عورت(بیوی)ہے۔(مسلم)یعنی خوش نصیب ہے وہ شخص،جسے دین کے کاموں میں اعانت کرنے والی بیوی ملے اور یہ حال تو مرد کا بھی ہے۔
مختلف مطالب
فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ سے کسی نے مذکورہ بالا حدیث میں نحوست کے متعلق استفسار کیا تو آپ  نے ارشاد فرمایا:فتح الباری (کتاب الجہاد،باب ما یذکر من شوم الفرس)میں اس حدیث کی بہت طویل تقریر کی ہے۔اسی طرح ملّا علی قاری  نے مرقاةشرح مشکوٰة(کتاب النکاح)میں (اس کے) بہت سے مطلب بیان کیے ہیں اور حضرت مجدِّد الف ثانی  نے مکتوبات میں فرمایا ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے قبل (تک)ان تینوں چیزوں میں نحوست کے اثرات تھے اور لوگوں کو نقصان بھی پہنچتے تھے،مگر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رحمة للعالمین بنا کر بھیجا تو وہ نحوست کے اثرات بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی برکت سے ان اشیا میں سے اٹھا لیے گئے۔(فتاویٰ محمودیہ)
نیک فالی کی فضیلت
حضرت ابوہریرہروایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:کسی چیز سے بدشگونی لینا درست نہیں ہے ۔ ہاں! اچھا شگون لینا جائز ہے ۔ صحابہ نے پوچھا :اچھا شگون کیا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ اچھے بول جو تم میں کوئی سنتا ہے۔(الادب المفرد) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام بخاری نے نیا ترجمة الباب قائم کیا ہے باب فضل من لم یتطیریعنی اس شخص کی فضلیت جو بدشگونی نہیں لیتا اور اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں -حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے سامنے حج کے موسم میں میری امت پیش کی گئی ۔ میں نے اپنی امت کی کثرت کو دیکھ کر تعجب کیا۔ان سے پہاڑی اور نشیبی جگہیں پُر ہو گئی تھیں ۔ لوگوں نے کہا:اے محمد!کیا آپ ان سے راضی ہیں ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں، خدا کی قسم۔فرمایا گیا: ان لوگوں میں سے ستر ہزار لوگ جنت میں بغیر حساب کے داخل کر دیے جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے ، نہ داغ دلواتے ہیں ، نہ بدشگونی لیتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔ عکاشہ نے کہا :آپ اللہ سے دعا کر دیجیے کہ مجھے انھیں لوگوں میں رکھے!آپ صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا:”اللّٰہم اجعلہ منہم“۔اے اللہ!اسے انھیں لوگوں میں شامل فرما لے۔ایک اور شخص نے کہا:میرے لیے بھی دعا کر دیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرما لے!آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عکاشہ تم سے سبقت لے گئے۔(الادب المفرد)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے اوپر کامل توکل کرنے والا اور بد شگونی سے احتراز کرنے والا بنائے۔آمین!