اسلام… عدل وانصاف کا علم بردار!

اسلام… عدل وانصاف کا علم بردار!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

عدل وانصاف دین اسلام کا امتیاز او راس کی خوبی ہے، اسلام نے دنیا سے ظلم وستم کا خاتمہ کیا اور عدل انصاف کی گراں قدر تعلیمات سے مزین کیا، انسانی معاشرہ میں جو طبقہ بھی کسی بھی طرح کی ناانصافی، زیادتی اور ظلم کا شکار تھا، اسلام نے انہیں مظالم سے چھٹکارا دلایا اور اسلام کی عدل وانصاف والی ٹھنڈی چھاؤں کے سائے میں جگہ دی۔ قرآن وحدیث میں بہت اہتمام کے ساتھ عدل وانصاف کی تعلیم دی گئی اور اس کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا، ناانصافی سے بچنے او رانسانوں کے ساتھ زیادتی کا معاملہ کرنے سے سختی سے منع کیا۔ یقینا یہ اسلام کا ایک عظیم کارنامہ اور اس کی عظیم تعلیمات کا خوب صورت باب ہے۔ اسلام کے اسی حسن وکمال کو ایک موقع پر حضرت ربعی بن عامر نے بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے رستم کی درخواست پر حضرت ربعی بن عامر کو اس سے بات چیت کے لیے بھیجا گیا۔ ایرانیوں نے رستمکا دربار خوب سجا رکھا تھا، ریشم وحریر کے گدے، بہترین قالین، سونے چاندی کی اشیاء اور دیگر اسباب زینت سے آراستہ وپیراستہ کر دیا تھا۔ نہایت سادگی کے ساتھ حضرت ربعی بن عامر رستم کے دربار میں داخل ہوئے، دربار کا کرّوفران کو بالکل متاثر نہ کرسکا، رستم نے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ حضرت ربعی بن عامر نے جو جواب دیا وہ تاریخ کا ایک بے مثال اور یاد گار جواب بھی ہے او راسلام کے حقیقی مقصد کا بہترین تعارف بھی ۔ انہوں نے فرمایا: ”الله ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد الی عبادة الله، ومن ضیق الدنیا الی سَعتھا، ومن جور الأدیان الی عدل إلاسلام․“ (البدایہ والنہایہ:9/126)
ترجمہ:” الله نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم الله کے بندوں میں سے الله جس کو چاہے ان کو بندوں کی غلامی سے نکال کر الله کی بندگی کی طرف لائیں اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر اس کی وسعتوں میں لے جائیں اور دنیا کے مختلف مذاہب کے ظلم وجور سے اسلام کے عدل وانصاف کی طرف لائیں۔“

قرآن وحدیث میں عدل وانصاف کے قیام کی بہت زیادہ تعلیم دی گئی، جن میں سے چند ارشادات یہ ہیں:﴿إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْراً﴾․(النساء:58)
ترجمہ:”بے شک الله تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کردو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو، الله تعالیٰ تم کو اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک الله تعالیٰ سننے اوردیکھنے والا ہے۔“

حضرت داؤد علیہ السلام کو فرمایا گیا:﴿یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَیٰ فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیلِ اللَّہِ ﴾․(ص:26)
ترجمہ:”اے داؤد! ہم نے آپ کو ملک میں نائب بنایا ہے، لہٰذا آپ لوگوں میں انصاف سے حکومت کیجیے او راپنی نفسانی خواہش پر نہ چلیے کہ وہ آپ کو الله تعالیٰ کے راستہ سے ہٹا دے۔“

دشمنی میں بھی عدل وانصاف پر قائم رہنے او راسی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا، چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ لِلّہِ شُہَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی﴾․(المائدة:8)
ترجمہ:”اے ایمان والو! کھڑے ہو جایا کرو الله کے واسطے گواہی دینے کوانصاف کی او رکسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو، عدل کرو، یہی بات تقوی سے زیادہ نزدیک ہے۔“

قرآن کریم میں د یگر مقامات پر بھی نظام ِ حکومت کو عدل وانصاف کے ساتھ چلانے اور لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرنے کی تعلیم دی گئی۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی عدل وانصاف کو قائم کرنے اوربہترین نظام حکومت سنبھالنے کی ترغیب دی او رایسے انصاف پرور حکم رانوں کو کام یابی کی خوش خبری بھی سنائی۔

ارشاد نبو ی ہے :”ان المقسطین عند الله علی منابر من نور عن یمین الرحمن، وکلتا یدیہ یمین، الذین یعدلون في حکمھم وأھلیھم وما ولوا․“ (مسلم:2143)
ترجمہ:”عدل اونصاف سے کام لینے والے الله کے نزدیک نور کے منبروں پر رحمن کے دائیں جانب (اور اس کی دونوں جانبین دا ہنی ہی ہیں) تشریف فرما ہوں گے، جو اپنے فیصلوں میں او راپنے گھر والوں کے ساتھ او راپنی ذمہ داریوں میں عدل وانصاف کرتے ہیں۔“

اسی طرح ارشاد ہے :”أھل الجنة ثلاثة: ذو سلطان مقسط موفق، ورجل رحیم رقیق القلب، لکل ذی قربی مسلم، وعفیف متعفف ذو عیال․“ (مسلم:7682)
ترجمہ:” تین طرح کے لوگ جنتی ہیں 1..عادل حکم راں ،جسے الله تعالیٰ کی طرف سے توفیق نصیب ہو۔2.. وہ شخص جو ہر قریبی مسلمان رشتہ دار کے لیے مہربانی کرنے والا او رنرم دل ہو3.. وہ شخص جو پاک دامن اورپاک باز عیال دار ہو۔

قیامت کے سخت ترین دن میں جن لوگوں کو عرش ِ الہٰی کا سایہ نصیب ہو گا ان میں ایک عادل حکم راں او ربادشاہبھی ہو گا۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : ” عن أبي ھریرة عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: سبع یظلھم الله في ظلہ یوم لا ظل إلاظلہ: إلامام العادل…“․ (بخاری:660)
ترجمہ:”حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشا دفرمایا کہ سات قسم کے لوگوں کو الله تعالیٰ اس دن عرش کا سایہ عطا فرمائے گا جس دن عرش الہٰی کے علاہ کسی چیز کا سایہ نہ ہو گا۔ (جن میں ایک ) حاکم ِ عادل ہوگا۔“

انہی تعلیمات او رترغیبات ،نیز نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا عملی اسوہ اور نمونہ تھا جس نے حضرات صحابہ کرام رضوان الله عنہم اجمعین کو دنیا کا بہترین عادل حکم راں بنایا اورانہوں نے اپنے دور خلافت میں عدل وانصاف کا بے مثال نظام قائم فرمایا، حضرت ابوبکرصدیق جو سب سے پہلے خلیفہ ہیں، جب خلافت کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر آئی تو اس وقت آپ نے سب سے پہلے جو خطبہ دیا اس کا ایک ایک جملہ درس عبرت اور بالخصوص حکم رانوں کے لیے بیش قیمت نصیحت ہے۔ آپ نے جو خطبہ دیا، اس کی تلخیص یہ ہے کہ ”اے لوگو! مجھے تمہاری قیادت کی ذمہ داری دی گئی ہے، میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ لیکن قرآن کریم نازل ہوا اورپیغمبر نے سنتیں پیش فرماکر ہمیں سکھلایا، چناں چہ ہم نے انہیں سیکھ لیا۔ بے شک سب سے بڑی دانش مندی تقویٰ اور پرہیز گاری ہے او رسب سے بڑی بے وقوفی گناہ کا ارتکاب ہے۔ میرے نزدیک تم میں سے زیادہ طاقت ور ضعیف (مظلوم) شخص ہے، حتی کہ میں اس کا واقعی حق دلاکر رہوں گا اور میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ کم زور طاقت ور(ظالم) شخص ہے، حتی کہ میں اس سے ( دوسرے کا) حق لے کر رہوں گا، اے لوگو! میں سنت کا پیروکار ہوں اور بدعتی نہیں ہوں۔ پس اگر اچھا کام کروں تو تم میرا تعاون کرنا او راگر میں راہ ِ حق سے ادھر اُدھر ہونے لگوں تو تم مجھے سیدھے راستہ پر گام زن کر دینا ، میں یہ بات کہہ کر الله تعالیٰ سے تمہارے لیے او راپنے لیے مغفرت کا طلب گار ہوں۔“ (موسوعة آثار الصحابہ:1/53 ،بحوالہ لمحاتِ فکریہ:46)

حضرت عمر رضی الله عنہ نے زمام خلافت سنبھالنے کے بعد جو خطبات فرمائے، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ:
”میں کسی شخص کو کسی پر زیادتی کرنے کا موقع نہ دوں گا۔ ایسا کرنے والے کا ایک گال زمین پر ہو گا اور دوسرا میرے قدموں کے نیچے، یہاں تک کہ وہ حق کے آگے سپر انداز ہو جائے۔ لوگو! مجھ پر تمہارے کچھ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں۔ میں انہیں شمار کرتا ہوں، تاکہ تم ان کے متعلق میرا احتساب کرسکو۔ میری یہ ذمہ داری ہے کہ تمہارا خراج اور وظیفے کی رقم مقررہ طریقوں سے وصول کروں اور جب اموال میرے ہاتھ آجائیں تو انہیں ٹھیک ٹھیک مصرف میں صرف کردوں۔ میری ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ میں تمہارے وظائف میں اضافہ کروں، تمہاری سرحدوں کا تحفظ کروں، تمہیں ہلاکت کے منھ میں نہ دھکیلوں اور سرحدوں پر طویل عرصے تک مامورنہ کیے رکھوں۔ اپنے عمال وحکام کو خطاب کرکے فرمایا: لوگو! میں تمہیں شہروں کے گورنروں پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں اس لیے بھیجا ہے کہ عوام کو دین برحق کی تعلیم دیں، نبی کی سنت سکھائیں ، ان کا مال غنیمت ان کے درمیان تقسیم کریں اور ان کے ساتھ عدل وانصاف برتیں۔“ (حکم ران صحابہ:51)

اسلام کا نظام عدل کس قدر پیارا اور نرالا ہے اس کا اندازہ حضرت علی رضی الله عنہ کے واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی  کی زرہ کھو گئی، آپ نے وہ زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی، آپ نے یہودی سے فرمایا( جب کہ آپ خلیفة المسلمین تھے) اے یہودی! یہ زرہ جو تمہارے پاس ہے میری ہے، فلاں روز مجھ سے کھو گئی تھی۔ یہودی کہنے لگا: میرے قبضے میں موجود زرہ کے بارے میں آپ کیسی بات کررہے ہیں؟ اگر آپ میری زرہ پر دعویٰ کرتے ہیں تو اب یہی ایک چارہ ہے کہ میرے اور آپ کے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے۔ چناں چہ حضرت علی رضی الله عنہ اور وہ یہودی دونوں فیصلے کے لیے قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے، جب قاضی شریح کی نگاہ امیر المومنین پرپڑی تو اپنی مجلس سے اٹھ کر کھڑے ہوئے، حضرت علی  نے فرمایا: بیٹھے رہیں، قاضی شریح بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ میری زرہ کھو گئی تھی، میں نے اس یہودی کے پاس دیکھی ہے، قاضی شریح نے یہودی سے پوچھا تمہیں کچھ کہنا ہے؟ یہودی نے کہا: میری زرہ میرے قبضے میں ہے اور میری ملکیت ہے۔ قاضی شریح نے زرہ دیکھی اور یوں گویا ہوئے کہ: الله تعالیٰ کی قسم! اے امیر المومنین! آپ کا دعوی بالکل سچ ہے، یہ آپ کی زرہ ہے، لیکن قانون کے مطابق آپ کے لیے گواہ پیش کرنا واجب ہے۔ حضرت علی نے بطور گواہ اپنے غلام قنبر کو پیش کیا، اس نے آپ کے حق میں گواہی دی، پھر آپ نے حسن  اور حسین کو عدالت میں پیش کیا، ان دونوں نے بھی آپ کے حق میں گواہی دی۔ قاضی شریح نے کہا: آپ کے غلام کی گواہی تو میں قبول کرتا ہوں، لیکن ایک گواہ مزید درکار ہے اور آپ کے دونوں صاحب زادوں میں سے کسی کی گواہی قبول نہیں کرسکتا۔ پھر حضرت علی نے فرمایا: الله کی قسم! میں نے عمر بن خطاب کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے : ”حسن او رحسین نوجوانان ِ جنت کے سردار ہیں۔“ قاضی شریح نے کہا: بالکل ،یہ حق ہے۔ حضرت علی نے فرمایا: پھر آپ نوجوانان جنت کے سرداروں کی گواہی کیوں قبول نہیں کریں گے؟ قاضی شریح نے کہا کہ یہ دونوں آپ کے صاحب زادے ہیں، باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی مقبول نہیں۔ یہ کہہ کر قاضی شریح نے حضرت علی کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور زرہ یہودی کے حوالے کر دی۔ یہودی نے تعجب سے کہا: مسلمانوں کا امیر مجھے اپنے قاضی کی عدالت میں لایا اور قاضی نے اس کے خلاف میرے حق میں فیصلہ صادر فرمایا اور امیر المومنین نے اس فیصلہ کو بلاچوں وچرا قبول بھی کر لیا! پھر یہودی نے امیر المومنین علی بن ابی طالب  کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہنے لگا: امیر المومنین! آپ کا دعوی بالکل سچ ہے۔ یہ زرہ آپ ہی کی ہے ، فلاں دن یہ آپ سے گر گئی تھی تو میں نے اسے اٹھا لیا تھا، لہٰذا یہ آپ ہی کی ملکیت ہے، آپ لے لیں، پھر کلمہٴ شہادت پڑھ لیا۔حضرت علی نے فرمایا: میری زرہ بھی اور یہ گھوڑا بھی تمہارا ہے۔“ (سنہرے فیصلے:62)

اس طرح اسلام نے اپنے ماننے والوں کو عدل وانصاف قائم کرنے کی تعلیم دی او راسلام کے جیالوں نے اسلامی عدل کے نظام کو ایسے نافذ کیا کہ لوگ اس سے متاثر ہو کر دائرہ اسلا م میں داخل ہو جاتے۔ اپنے اور پرائے کی تفریق کیے بغیر حقائق اور سچائیوں کی بنیاد پر فیصلے کرنا، تعلقات او ررشتوں کا خیال کیے بغیر درست او رحق کو بیان کرنا او رحق دار کو اس کا حق دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کروانا یہ صرف اسلام کا امتیاز ہے۔

آج دنیا بہت سے مسائل او رمشکلات کا شکار ہے، ناانصافی، ظلم وزیادتی حکومتوں کا امتیاز بن چکا ہے، بے قصوروں پر تشدد کرنا،حق اور سچ کو دبا دینا، عدل وانصاف کو پامال کرنا، مظلوموں پر ستم ڈھانا، ظالموں کو راحت دلانا، قصورواروں کو آزادی مہیا کرنا، مجرموں کو غلط فیصلوں کے ذریعہ بری کرنا، اس وقت ارباب اقتدار کا طرہٴ امتیاز ہے، سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرنا،حقائق کو چھپانا اور شواہد وگواہیوں کو ناانصافی کی بھینٹ چڑھانا ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ ایسے دور میں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ہمیں عدل وانصاف کو قائم کرنا چاہیے او رمعاشرہ کو عدل وانصاف کی تعلیمات پر استوار کرنا اہل ایمان کی ذمہ دار ی ہے، ہم کہیں اپنے اردگردناانصافی کرنے والے نہ بنیں کہ جن پر ہمارا حق چلتا ہے، انہیں ظلم کا نشانہ بنائیں، دنیا کی حکومت، کرسی کے غرور وگھمنڈ او ر اقتدار کے نشے میں جو اپنے اختیارات کو ناجائز استعمال کر رہے ہیں او راپنی عدالتوں کے ذریعہ ناانصافی پر مبنی فیصلے صادر کروارہے ہیں، ایک دن کائنات کے رب کی عدالت میں یقینا مجرم بن کر پیش کیے جائیں گے او رانہیں ان کے ظلم وستم اور ناانصافیوں کی سزا ضرور ملے گی، یہ دنیا ہے، چند دن کے بعد ختم ہوجائے گی، عہدے اور منصب بھی چھوٹ جائیں گے، پھر ایک دن سب سے بڑے انصاف کرنے والے کی بارگاہ میں پیش ہونا ہو گا اور وہاں کوئی ظالم ناانصاف چھوٹ کر بھاگ نہیں سکتا۔