اسلام سے بیزاری کیوں؟

اسلام سے بیزاری کیوں؟

مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی

آج کل کچھ لوگ محض اس بنا پر اسلام سے نفرت کرتے ہیں کہ انہیں اسلام کو اپنانے میں اپنا اقتدار اور بالادستی ، اپنے مادی اغراض اور ذاتی مفادات کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، حالاں کہ یہ خیال نہایت ہی غلط ہے اور یہ لوگ سخت دھوکہ میں ہیں، اسلام ہر گز ہرگز انسانی حقوق پر ظلم نہیں کرتا اور نہ اس کی صلاحیتوں پر کوئی بند لگاتا ہے، اسلام ہر انسان کو اس کا پورا پورا حق دیتا ہے، اس کے مقام ومرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے توازن واعتدال کے ساتھ اخلاقی اور اجتماعی تعلیمات کی روشنی میں اسے اس کا حق فراہم کرتاہے، اسلام ان خود ساختہ نظاموں اور انسانی قوانین سے بالکل مختلف ہے، کچھ لوگ انسان کی طاقت اور اس کی زندگی کا نہایت غلط استعمال کرتے ہیں، اور اس کا اس قدر استحصال کرتے ہیں کہ وہ مصیبت زدہ رہ کر دنیا سے چلا جاتا ہے، لیکن آقاؤں کے گھروں میں دولت کے چشمے بہہ رہے ہوتے ہیں، جس نظام میں کسی مخصوص طبقہ کے ایک فرد کو حکم رانی سونپ دی جاتی ہے اور اسے پورا اختیار فراہم کر دیا جاتا ہے کہ و ہ اپنی خواہش اور مرضی لوگوں پر تھوپتا رہے ،خواہ وہ منتخب حاکم، بدنام زمانہ ہی کیوں نہ ہو اور اپنے سیاہ کارناموں کے ساتھ شہرت رکھتا ہو، وہ نہایت بے باکی کے ساتھ ملک کی ساری دولت کے دہانے اپنی خواہش کی جانب پھیر لیتا ہے اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ سب جمہوریت کے خوش نما نام سے کیا جاتا ہے۔

یہ دور حاضر کی جمہورتیں ، آمریتیں اور سیکولر ازم کیا ہیں؟ قدرت سے بغاوت کرنے والے انسانی گھروندے، جن کا انجام بالآخر تباہی ہے، جو ایسے ڈھانچے ہیں جن کا ظاہر تو خوش نما، لیکن اندروں چنگیز سے تاریک تر، ان تمام انسانی نظاموں کے دوزخ نہایت خوش نما، روشن چمک دار ہوتے ہیں، سادہ لوح عوام اور بھولے بھالے انسان ان کی ظاہری چمک دمک کو دیکھ کر فریب کھا جاتے ہیں اور اس کے گرویدہ وحامی بن جاتے ہیں، دوسرا رخ نہایت بد نما اور تاریک ہوتا ہے، اس پر ظاہر داریوں کا پردہ پڑا ہوتا ہے اور خفیہ مواقع پر وہ اپنا کام کرتا ہے، یہ دوسرا رخ ہی اس کا حقیقی چہرہ ہے، اسی کے ارادوں کا وہ پابند ہوتا ہے، یہ چہرہ کیسا ہے؟ ناجائز نفع اندوزی کا چہرہ، فلم کا چہرہ اور ہر قسم کے جرم کا چہرہ، لیکن یہ چہرہ نمایاں نہیں ہوتا، لوگ اس چہرہ سے واقف نہیں ہو پاتے اور بیشتر اوقات تو اس کی شناخت بھی مشکل ہوتی ہے۔

اسلام اس موقع پر سامنے آتا ہے، اس بدنما، تاریک اور مجرمانہ چہرہ سے نقاب اٹھادیتا ہے، پھر دنیا دیکھ لیتی ہے کہ اس چہرہ کا کیا حال ہے، اس پر انانیت، ناجائز کمائی اور نفع اندوزی وجرائم کے کتنے داغ لگے ہوئے ہیں، اسلام انسان کی حقیقی تصویر اور اس کا اصلی روپ نظروں کے سامنے پیش کردیتا ہے، وہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تو وہ مقام بلند عطا کیا ہے جس میں کوئی دوسری مخلوق اس کی شریک نہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً﴾․ (اسرائیل:70)
(یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی، اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔)

اسلام تمام انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرتا ہے اور ان کے دلوں میں یہ حقیقت نقش کردیتا ہے کہ ساری انسانیت ایک آدم کی اولاد ہے، اور حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت مٹی سے ہوئی تھی، یہ حقیقت بھی ان کے دلوں میں بٹھا دیتا ہے کہ فضیلت وبرتری کا معیار صرف تقویٰ ہے، اگر تقویٰ اور خدا کا خوف کسی کے مرتبہ کو اونچا کرنے کا ذریعہ بن سکے تو پھر کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر، اسی طرح کالے کو گورے پر یا کسی گورے کو کالے پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں، خدائے ذوالجلال نے اپنی لافانی کتاب مقدس میں یہ حقیقت واشگاف کردی ہے، فرمایا:
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْر﴾․(حجرات:13)
(اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اورتمہاریکنبے اور قبیلے بنادیے ہیں، اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو،یقین مانو کہ الله دانا اور باخبر ہے)اس اسلامی مساوات کے نتیجے میں جب تمام انسان ایک مقام ومرتبہ پر کھڑے نظر آتے ہیں اور معیار فضیلت محض تقویٰ قرار پاتا ہے تو اسلام ہر فرد بشر کو عقیدہ وکردار کی بنیاد پر اپنی سیرت کی تعمیر کے مکمل مواقع فراہم کرتا ہے اور یہی نہیں، بلکہ اپنی قبائے کردار کو آراستہ کرنے کے لیے فضائل ومحاسن کے زریں نکتے بھی مہیا کرتا ہے اور سیرت کو داغ دار بنادینے والی چھوٹی بڑی تمام چیزوں سے متنبہ کردیتا ہے، قرآن حکیم اس قیمتی ہدایت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾․(حشر:7)
(اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ)۔

گویا اسلام نے پیغمبر اسلام کی مبارک زندگی کی صورت میں ایک مکمل آئیڈیل فراہم کردیا ہے، آپ کی جامع حیات طیبہ کے ہر گوشہ میں راہ نمائیاں بکھری ہوئی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت، اخلاق، اعمال واقوال، ارشادات اور احکامات، غرض مختلف سورتوں میں نہایت وضاحت اور تفصیل کے ساتھ تعلیمات وہدایات دی گئی ہیں، قرآن کا ارشاد ہے؛

﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیْراً﴾․(احزاب:21)
(یقیناتمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود)ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ کی یاد کرتا ہے۔)

اس پاکیزہ سیرت کے سانچہ میں ڈھلنے اور اس اسوہ نمونہ کو زندگی کے ہر گوشہ میں اپنالینے کے بعد سچی کام یابی اور سعادت یقینی ہے ، اس نمونہ زندگی اور پیکر حیات کے سامنے آنے کے بعد کوئی بھی انسان اسلام سے نفرت نہیں کرسکتا، اس کے حاشیہ خیال میں بھی اسلام کا کوئی نقش نہیں ابھرے گا، کیوں کہ اسلام کی یہ عملی تصویر اوراس کا سچا روپ انسانی فطرت کی متاع گمشدہ ہے، انسان اپنی طبیعت وفطرت کے عین تقاضوں کو پاکر ایک کیف ولذت محسوس کرتا ہے، ایک روحانی سرور، جس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا، اس جوہر نایاب کو پالینے کے بعد کیوں کسی انسان کو کوئی ڈر اور خوف محسوس ہوگا اور کیوں اسے دورخے پن اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئے گی؟! وہ منافقانہ رویہ کہ موقع ومنفعت کے لحاظ سے ایک چہرہ کو ظاہر کردے اور دوسرے کو چھپالے ، اسے چند کھنکناتے سکے اور عہدہ وکرسی اپنا اسیر نہیں بنا پاتے، وہ اپنی معمولی اغراض کی خاطر جمہوریت، اشتراکیت اور سیکولر ازم کے جھوٹے نعروں کے ہتھیار استعمال کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

واقعہ ہے کہ اسلام کے سائے تلے انسان کو سکون ومسرت اور قلبی شاد مانی کی عجیب اور عظیم دولت نصیب ہوتی ہے، ایک اندرونی فرحت واطمینان اسے بے خود کیے رہتا ہے، اس کے شب وروز امن وعافیت کے سائے میں بسر ہوتے ہیں، ان خوشیوں میں نہال ہو کر وہ عہدہ وکرسی اور مال ودولت کو بھلا دیتا ہے، زندگی کی الجھنوں میں الجھ کر وہ اپنی پرسکون زندگی کی مسرتوں کو بے مزہ نہیں کرنا چاہتا، اگر کچھ قبول کرتا بھی ہے تو محض رب کو خوش کرنے اور ضمیرکو مطمئن کرنے کی خاطر، اپنی دینی اور ایمانی ذمہ داریوں کو انجام دینے کی غرض سے اور اپنے فرائض کو ادا کرنے کے مقصد سے۔

اے کاش!آج لوگوں نے ان تعلیمات اور ان بے مثال ہدایات کی روشنی میں اسلام کو سمجھا ہوتا، اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈوں، افواہوں اور بے جا خوف کے دبیز پردوں کو اپنے ذہن ودماغ سے نوچ کر پھینک دیا ہوتا اور پھر بصیرت کی بے داغ روشنی میں حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔