اسلام اور احترام انسانیت

اسلام اور احترام انسانیت

مولانا محمد سلمان منصورپوری

اسلام کی انسانی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے اعزہ واقربا اور رشتے داروں کے ساتھ بہترین برتاؤ کرے او ران کی حتی الامکان خبر گیری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے، حتی کہ اگر کوئی رشتے دار کسی وجہ سے ناراض بھی ہو جائے، پھر بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا انتہائی اجروثواب کا باعث ہے، اس لیے کہتجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا میں امن و امان کے قیام اور فتنہ وفساد سے حفاظت کے لیے سب سے پہلے گھر اور خاندان میں اتفاق و اتحاد اور ایک دوسرے پر اعتماد کاو جود لازم ہے، اگر گھر اور قبیلے میں امن کی فضا پیدا نہیں ہوگی تو پھر یہ دنیا فتنہ وفساد کی آما ج گاہ بن جائے گی، اس لیے اسلام نے نہایت ہی تاکید سے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی تلقین فرمائی ہے، جو لوگ صلہ رحمی کا خیال کرتے ہیں ان کی تعریف کی گئی ہے اور جو قطع رحمی کے مرتکب ہیں ، ان کی مذمت بیان ہوئی ہے، قرآن کریم میں صلہ رحمی کرنے کی مذمت بیان ہوئی ہے، قرآن کریم میں صلہ رحمی کرنے والوں کی تعریف میں فرمایا گیا ہے:

”اور وہ لوگ جوملاتے ہیں جس کو الله نے ملانے کو فرمایا ہے اور ڈرتے ہیں اپنے رب سے اور اندیشہ رکھتے ہیں برے حساب کا۔“ (سورہٴ رعد:21)

آگے ایسے لوگوں کو جنت کی خوش خبری سنائی گئی ہے، جب کہ ان کے برخلاف رشتے داریوں کو قطع کرنے والے لوگوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے انہیں جہنم کی وعید اس طرح سنائی گئی ہے :

”اور وہ لوگ جو توڑتے ہیں عہدالله کا، مضبوط کرنے کے بعد اور قطع کرتے ہیں اس چیز کو جس کو جوڑنے کا الله نے حکم فرمایا ہے اور فساد اٹھاتے ہیں ملک میں، ایسے لوگ ان کے واسطے ہے لعنت اور ان کے لیے ہے برا گھر۔“ (سورہٴ رعد:25)

نیز احادیث طیبہ میں بھی صلہ رحمی کی انتہائی تاکید وارد ہے:

٭…حضرت ابوہریرہ نے فرمایا ،میں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اس بات سے خوش ہو کہ اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس کی عمر میں اضافہ کیا جائے تو اسے چاہیے کہ رشتہ داریوں کو جوڑ کر رکھے۔ ( بخاری شریف:2/885، حدیث:5751، الترغیب والترہیب:3/227)

٭… حضرت عائشہ رضی الله عنہا آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرماتی ہیں کہ رشتہ داری عرش خداوندی پکڑے ہوئے ( قیامت میں ) کہے گی کہ جو مجھے جوڑے گا الله اسے جوڑے گا ( الله اس پر رحم وکرم فرمائے گا) اور جو شخص مجھے کاٹے گا ا، الله تعالیٰ بھی اسے کاٹ کر رکھ دے گا۔ (بخاری:2/886، مسلم:2/315، الترغیب:3/229)

٭… حضرت ام کلثوم بنت عقبہ فرماتی ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے سے بغض رکھنے والے رشتہ دار پر صدقہ کرے ۔ (رواہ الطبرانی، الترغیب والترہیب:3/231)

٭…حضرت علی کرم الله وجہہ نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں دنیا اور آخرت کے سب سے بہترین اخلاق کی جانب راہ نمائی نہ کروں؟ وہ یہ ہے کہ تم اپنے سے رشتہ داری کاٹنے والے کے ساتھ جوڑ کا معاملہ کرو اور جو تمہیں محروم کرے اس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کرو۔ ( الترغیب والترہیب:3/232)

٭…حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نیکیوں میں سب سے جلدی ثواب صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ملتا ہے اور برائیوں میں سب سے جلدی سزا بغاوت اور قطع رحمی کی ملتی ہے۔ (ابن ماجہ 320، الترغیب والترہیب:3/232)

یہ ہے رشتہ داری کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ! اس کے برخلاف آج دنیا میں روز بہ روز رشتے ناتوں کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے اور قرابت داری کے بندھن ٹوٹتے جارہے ہیں، بالخصوص مغربی دنیا میں ہر شخص مادر پدر آزاد ہے اور ہر انسان صرف اپنے مفاد کو فوقیت دیتا ہے، قرابت اور عزیز داری کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی، ایسا بے نیاز اور خود غرض معاشرہ بھلا انسانیت نواز کیسے ہوسکتا ہے؟

یتیموں کی خبرگیری
اسلام نے ان معصوم بچوں کی خبرگیری کی تاکید کی ہے جو بچپن ہی میں باپ کے سایہٴ شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر دنیا میں یتیموں کا حال ناگفتہ بہ ہوتا ہے، اجنبی تو دور کی بات، خود ان کے رشتے دار ان بے سہارا یتیموں کے حقوق غصب کرنے کے درپے رہتے ہیں اور یہ معصوم بچے انتہائی گھٹن اور تنگی میں زندگی گزار دیتے ہیں، اسلام نے جہاں ان پر ظلم اور ان کے مال میں خیانت کو عظیم جرم قرار دیا ہے، وہیں ان کی خبر گیری او ران کے ساتھ خیر خواہی کو عظیم ثواب کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں یتیموں کے مال کو غصب کرنے والے ظالموں کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

”جو لوگ کہ کھاتے ہیں مال یتیموں کا، ناحق وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب داخل ہوں گے آگ میں ۔“ (النساء:10)

اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے یتیم کی کفالت کرنے والے کو خوش خبری سناتے ہوئے فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں دونوں اس طرح ساتھ ہوں گے جیسا کہ شہادت کی اور بیچ کی انگلی۔ (بخاری:2/888، الترغیب والترہیب:3/243)

اور ایک روایت میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی مسلم یتیم بچے کو کفالت میں لے کر اس کے کھانے پینے کا نظم کرے تو اسے الله تعالیٰ جنت میں ضرور داخل کرے گا، الایہ کہ وہ ( خدانخواستہ) ایسا گناہ کر بیٹھے جو ناقابل معافی ہو۔(ترمذی شریف:2/13، والترغیب والترہیب:3/235)

حضرت ابن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله کی نظر میں سب سے اچھا وہ ہے جس گھر میں کوئی یتیم باعزت طریقے پر رہتا ہو اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت میں یہ ہے کہ مسلمانوں کا سب سے اچھا گھرانہ وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہو۔ اور سب سے بدترین گھرانہ وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بُرا سلوک برتا جاتا ہو۔(الترغیب والترہیب:3/236)

حضرت ابوالدرداء رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر اپنے دل کی سختی کی شکایت کرنے لگا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے دل میں نرمی آجائے او رتمہاری ضرورت پوری ہو جائے؟ توتم یتیم پر رحم کیا کرو اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اوراپنا کھانا اسے کھلا دیا کرو تو تمہارا دل نرم ہو جائے گا اور تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔ (راہ الطبرانی، الترغیب والترہیب:3/237)

بہرحال اسلام نے یتیموں کی خبرگیری پر بڑا زور دیا ہے، جو اسلام کی انسانیت نوازی کی واضح علامت ہے۔

بیواؤں او رمسکینوں کی رعایت
معاشرے کے دبے کچلے افراد، جن کا کوئی سہارا نہ ہو اور جن کی طرف سے کوئی وکالت کرنے کو تیار نہ ہو، ان کی حمایت او ران کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد بھی اسلام میں انتہائی اہم ترین عمل ہے، قرآن کریم میں جابجا مسکینوں پر رحم وکرم کی تلقین کی گئی ہے، نیز احادیث طیبہ میں بھی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ایسے کم زور لوگوں کی حمایت کو انتہائی باعث اجروثواب عمل قرار دیا ہے۔

حضرت صفوان بن سلیم رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والا شخص الله کے راستے میں مسلسل نماز پڑھنے والے اور دن میں مسلسل روزے رکھنے والے شخص کی طرح ہے۔(بخاری شریف:2/888، الترغیب والترہیب:3/238)