احکام میراث پر چند شبہات کا جائزہ

احکام میراث پر چند شبہات کا جائزہ

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

”کلالہ“کے متعلق تفسیری اقوال
”کلالہ“کی ایک تفسیر اوپر مذکور ہوئی ،یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، (یعنی میت نے اپنے پیچھے والدین اور اولاد نہ چھوڑی ہو)، علامہ بدرالدین عینی نے دس کے قریب اقوال نقل کیے ہیں۔ (عمدة القاری، کتاب تفسیر القرآن، النساء:18/261)

علامہ نووی رحمہ اللہ نے اہل علم کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ کلالہ اس مرد کو کہتے ہیں کہ جس کے نہ والدین ہوں نہ اولاد ہو،یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا موقف ہے، جس کی تائید حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، وہ فرماتے ہیں جب میں بیمار ہوا تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، مجھے بے ہوشی لاحق تھی، آپ علیہ السلام نے وضو فرما کر بچا ہوا پانی مجھ پر چھڑکا تو مجھے ہوش آگیا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنا مال کس طرح تقسیم کروں؟ آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔

﴿یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللَّہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ یَرِثُہَا إِن لَّمْ یَکُن لَّہَا وَلَدٌ فَإِن کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِن کَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاء ً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ ﴾․(إکمال اکمال المعلم:525)

”حکم پوچھتے ہیں تجھ سے سو کہہ دو اللہ حکم بتاتا ہے تم کو کلالہ کا، اگر کوئی مرد مر گیا ،اس کا کوئی بیٹانہیں تو اس کی ایک بہن ہے، تو اس کو پہنچا آدھا اس کا جو چھوڑا ہے اور وہ بھائی وارث ہے اس بہن کا ،اگرنہ ہو اس کا بیٹا، پھر اگر بہنیں دو ہیں تو پہنچے ان کو دو تہائی اس مال کا جو چھوڑ مرا اور اگر کئی شخص ہوں اس کے رشتہ کے کئی مرد اور کچھ عورتیں تو ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے۔“(النساء:176)

علامہ رازی شافعی رحمہ اللہ نے تفسیر کبیر میں اور علامہ ابو بکر احمد بن علی جصاص حنفی نے احکام القرآن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ (التفسیر الکبیر للرازي،أحکام القرآن للجصاص:النساء، ذیل آیت:۱۲)

چند شبہات
مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنے کی حکمتیں
مرد کا خرچ اور ذمہ دمہ داریاں عورت کے مقابلے میں زیادہ ہیں، مرد پر آل و اولاد کا نفقہ اور بعض اوقات دیگر عزیزو اقارب کا نفقہ بھی لازم ہوتا ہے، اس کا حصہ بھی دوگنا ہے، عورت اگر بیوی ہے اس کا نفقہ شوہر پر ہے، دیگر صورتوں میں بھی اس کے نفقہ کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے، اس کا خرچ کم ہے، اس لیے اس کا حصہ مرد کے مقابلے میں آدھا رکھا گیا ہے۔

عورت فطری طور پر جذباتیت اور دنیاوی معاملات سے لاتعلق رہنے کی وجہ سے ناتجربہ کار ہوتی ہے ،اگر اس کے حصہ میں زیادتی ہوتی تو وہ مال محفوظ کرنے کی بجائے اسے ضائع کردیتی اور اپنے عزیزو اقارب کو اس کے نفع سے محروم رکھتی۔

عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں آدھا رکھنے کی وجہ مرد کا افضل ہونا نہیں ہے، جس سے عورت کی تحقیر ہوتی ہے، اگر ایسا ہوتا تو مرد صالح کا حصہ مرد فاجر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا اور بچے کے مقابلے میں بڑے یا بزرگ کا حصہ زیادہ ہوتا۔

اگرچہ مرد کا حصہ زیادہ ہے، مگر ذوالفرائض، یعنی جن ورثا کے حصے قرآن و حدیث سے متعین ہیں، ان میں عورتوں کی تعداد مردوں سے دوگنا ہے، ذوالفرائض میں مردوں کی تعداد چار اور عورتوں کی تعداد آٹھ ہے، مردوں میں باپ دادا، ماں شریک بھائی اور شوہر ہیں اور عورتوں میں بیوی ، بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، ماں شریک بہن، باپ شریک بہن، ماں، دادی، نانی ہیں۔

تقسیم حصص کی بعض صورتوں پر عورتوں کو مردوں کے برابر بھی حصہ ملتا ہے، بلکہ بعض صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں عورتوں کو مردوں سے زیادہ ملتا ہے۔

تعجب تو اس بات پر ہے کہ عورت کے حصہ پر احتجاج کرنے والے عموماً ان مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جن کے ہاں عورتوں کا حصہ ہی نہیں ہوتا۔

اسلام کے احکام میراث سے معلوم ہوا کہ اسلام ذاتی ملکیت کا قائل اور اس کی منصفانہ تقسیم کا علم بردار ہے۔

یتیم پوتے کی میراث سے محرومی کیوں؟
اگر کسی شخص کے چند بیٹے ہیں ان میں سے ایک بیٹے کا انتقال باپ کی زندگی میں ہو گیا، اس مرنے والے بیٹے کی اولاد موجود ہے، اب دادا کے مرنے پر اس یتیم کو میراث میں سے حصہ ملے گا یا نہیں؟

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے پہلے دو بنیادی باتیں سمجھنا ضروری ہیں:
پہلی بات:اسلام میں میراث کی تقسیم کا معیار قرابت ہے ضرورت و حاجت نہیں ہے، اگر ضرورت و حاجت ہوتا تو مال دار ورثاء بیٹے اور بیٹیاں محروم رہتے اور شہر کے فقراء و مسکین مستحق میراث بنتے، مگر ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اسے عقلاً درست سمجھتا ہے۔

دوسری بات:جب وراثت کا مدار قرابت پر ہے، تو ساری دنیا کے انسان اولاد آدم ہونے کے ناطے باہمی قربت رکھتے ہیں، کیا ساری دنیا کے انسانوں میں انسان کی میراث تقسیم ہونی چاہیے ؟یہ تقسیم عقلا ناممکن ہے، اس لیے اسلام نے ”الأ قرب فالأقرب“کا اصول پیش کیا، یعنی قریبی رشتہ دارکی موجودگی میں دور کا رشتہ دار یا تو بالکل محروم ہو جائے گایا اس کو کم حصہ ملے گا۔

ان دو بنیادی باتوں کو سمجھنے کے بعد اب اس مسئلے کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

قرآن کریم میں آیت و صیت میں لفظ اولادکا اطلاق حقیقی بلا واسطہ اولاد، یعنی بیٹے اور بیٹیوں پر ہوا ہے، چناں چہ قرآن کریم میں ہے:
﴿یوصیکم اللہ فی اولادکم﴾

عربی زبان میں لفظ ”اولاد“کا حقیقی اطلاق بلاواسطہ اولاد یعنی بیٹے اور بیٹیوں پر ہوتا ہے اور کبھی بطور توسع بالواسطہ اولاد، یعنی پوتے اور پوتیوں پر بھی بولا جاتا ہے، اس لیے اب ہم قرآن کریم کی اس آیت پر غور کریں ﴿یوصیکم اللہ فی اولادکم﴾یہاں لفظ ”اولاد“میں دو احتمال پیدا ہو گئے ہیں، اگر یہاں ”اولاد“سے بلاواسطہ اولاد مراد لی جائے تو لازم آئے گاکہ میراث کے حکم میں بیٹے اور بیٹیوں کے ساتھ پوتے اور پوتیاں بھی شامل ہو جائیں گی اور ان کو بھی برابر حصہ ملے گا، آیت کا یہ مفہوم نہ اصولی طور پر درست ہے کہ قریب اور دور دونوں طرح کے رشتہ داروں کو حصہ ملے اور نہ ہی عہد نبوی اور عہد صحابہ میں کبھی اس پر عمل ہوا ہے اور نہ ہی امت میں کوئی صاحب علم اس کا قائل ہوا ہے، اس لیے اولاد کا پہلا مفہوم یعنی بلاواسطہ اولاد حقیقی بیٹا اور بیٹی ہی متعین ہے۔

اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر کسی شخص کی بلاواسطہ اولاد ،یعنی حقیقی بیٹے بیٹیاں نہ ہوں، صرف بالواسطہ اولاد ہو، یعنی پوتے، پوتیاں ہوں تو ان کو میراث کس پیمانے پر ملے گی؟

اس بارے میں صحابہ کرام کا اتفاقی فیصلہ یہ تھا کہ ان میں میراث اسی تناسب سے تقسیم ہو گی جیسے قرآن کریم میں بیٹے اور بیٹیوں کے لیے مقرر ہے، چناں چہ بخاری شریف میں ہے۔

”قال ابن ثابت: ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم یکن دونہم ولد ذکر، ذکرھم کذکرھم، وأنثاھم کأنثاھم، یرثون کما یرثون، یحجبون کما یحجبون، ولا یرث ولد الابن مع الابن“․(صحیح البخاری ،کتاب الفرائض،باب میراث ابن الابن)

زید بن ثابت نے فرمایا:بیٹوں کی اولاد بیٹوں کے حکم میں ہے، جب کہ ان کے اور میت کے درمیان کوئی بیٹا موجود نہ ہو، ان میں لڑکے لڑکوں کی طرح اور لڑکیاں لڑکیوں کی طرح میراث پائیں گی اور جس طرح بیٹے پوتوں کے لیے حاجب، یعنی رکاوٹ ہوتے ہیں، اسی طرح پوتے پڑپوتیوں کے لیے حاجب ہوں گے اور بیٹے کے موجودگی میں پوتے کو میراث نہیں ملے گی، موطا امام مالک اور عمدة القاری میں بھی اس پر اجماع نقل کیا گیا ہے۔(موطا الامام مالک،کتاب الفرائض)

دین بے زار ملحدین اپنی عادت سے مجبور ہو کر میراث کے احکام پر بھی قیل و قال کرتے ہیں، یتیم پوتے کی میراث سے محرومی پر چیں بہ جبیں ہوتے ہیں، مگر یہی لوگ کبھی خواتین کی میراث سے عملی محرومی پر احتجاج نہیں کرتے، مسلمانوں کے جن علاقوں میں عورتوں کو حصہ دینا رسم و رواج کے خلاف سمجھا جاتا ہے وہاں کبھی عورتوں کے حقوق کی بات کر کے انہیں حقوق نہیں دلواتے، کیوں کہ عورتوں کو میراث سے حصہ دلوانے کے لیے قرآن وحدیث کا حوالہ دینا پڑتا ہے اور یہ کبھی قرآن و حدیث کاحوالہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، کیوں کہ انسانی حقوق اور نسوانی حقوق کا نعرہ صرف اسلام پسندی سے بے زاری پیدا کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے، نہ حقوق دلوانے کے لیے، ہاں! اس پر اعتراض کریں گے کہ عورتوں کو آدھا حصہ کیوں ملتا ہے، اورکبھی ان مذاہب کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے جن میں خواتین کا کوئی حصہ مقرر ہی نہیں ہوتا اور وہاں عورتیں ہمیشہ سے محروم چلی آئی ہیں، ایسے دین بے زار، ملحدین، متجددین کو یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی پر سخت رنج اور افسوس ہے، حجیت ِ حدیث کے منکرین بھی اس میں شامل ہیں، ان کے موٹے موٹے چند شبہات کا جواب ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔

یتیم پوتے کی میراث سے محرومی پر چند شبہات کا جائزہ
پہلا شبہ:بخاری شریف کی روایت میں ہے”لا یرث ولد الابن مع الابن“یتیم پوتے کا حصہ مقرر کرنے والوں کا کہنا ہے، یہاں ”ولد الابن“سے مراد وہ پوتا ہے جس کا باپ زندہ ہو اوردلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ معرفہ جب مکرر لایا جائے تو اس سے عین اول مراد ہوتا ہے، لہٰذا جوالابن ”ولد الابن“ میں مذکور ہے وہی مراد ہو گا۔

تعجب ہے جن اصولوں کو یہ لوگ عجمی سازش اور عجمی اسلام سے تعبیر کرتے ہیں اس سے اپنے موقف پر استدلال بھی کرتے ہیں، یہ استدلال بھی ناقص ہے، کیوں کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں کہ جہاں بھی معرفہ مکرر لایا جائے تو اس سے عین اول ہی مراد ہو گا، نیز اس مقام پر یہ مفہوم اخذ کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے، کیوں کہ ابتدائی الفاظ”إذا لم یکن دونہم ولد“میں“ولد“ نکرہ آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو۔

دوسراشبہ:اگر مرنے والے کی اولاد کے ساتھ اس کا یعنی اولاد کا دادا موجود ہو تو اسے باپ کے قائم مقام قرار دے کر حصہ دیا جاتا ہے، تو پھر دادا کے مرنے کے بعد پوتے کو محروم بیٹے کے قائم مقام قرار دے کر حصہ دار کیوں نہیں بنایا جاتا؟

اس کا جواب یہ ہے پوتے کو باپ پر قیاس کرنا صحیح نہیں، اس لیے کہ پوتے کو قائم مقام کر کے دادا کے دوسرے بیٹے کے برابر کر دینے سے ”الاقرب فالاقرب“کااصول ٹوٹ جاتا ہے اور دادا کو باپ کے قائم مقام کر کے اس کو حصہ دینے سے یہ اصول نہیں ٹوٹتا:بلکہ اصول کے موافق ہی ہوتا ہے، کیوں کہ ”الأقرب فالأقرب“کے اصول کا حاصل یہ ہے کہ درجہ اول میں سے جب تک کوئی فرد موجود ہو تو درجہ دوم کا کوئی شخص بھی وارث نہ ہو گا، درجہ اول میں سے اگر کوئی موجود نہیں تو درجہ دوم کے افراد درجہ اول کے قائم مقام ہوں گے۔

باپ کے مرنے پر دادا کو اس کا قائم مقام اس لیے کہا جاتا ہے کہ درجہ اول خالی ہے، کیوں کہ باپ ایک ہی ہو سکتا ہے اور بیٹے کی موجودگی میں پوتے کو باپ کے قائم مقام اس لیے نہیں بنایا جا سکتا کہ درجہ اول خالی نہیں ہے ،بلکہ اس میں دادا کے دوسرے بیٹے موجود ہیں۔

تیسرا شبہ:ایک شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ ایک شخص کے تین بیٹے ہیں، ان میں سے ایک بیٹا باپ کی زندگی میں ہی انتقال کر گیا، اب شریعت کی رو سے باپ کے انتقال کے بعد ان دو بیٹوں کو توحصہ ملے گا جو زندہ ہیں اور ان کی اولاد کو بھی باپ کے واسطے سے حصہ مل جائے گا، مگر جو بیٹا باپ کی زندگی میں انتقال کر گیا تھا اس کی اولاد محروم رہے گی، حالاں کہ وہ یتیم پوتے دوسرے کے مقابلے میں زیادہ حاجت مند اور قابلِ رحم بھی ہیں۔

اس اشکال اور شبہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے اور وہ دونوں چیزیں غلط ہیں۔

یہ کہنا کہ جن پوتوں کے والد زندہ ہیں انہیں دادا کے ترکہ سے بواسطہ والد حصہ ملا اور جن پوتوں کا والد فوت ہو چکا وہ محروم رہے، ان کو کچھ نہیں ملا غلط ہے، کیوں کہ باپ کی ملکیت کو بیٹوں کی ملکیت قرار دینا یہ عقلاً درست ہے نہ شرعاً۔

اشکال کی دوسری بنیاد یتیم پوتوں کا زیادہ حاجت مند ہونا اور قابلِ رحم ہونا ہے۔

گزشتہ صفحات میں ہم نے واضح کیا تھا کہ میراث میں استحقاق کا معیار حاجت مند ہونا نہیں، بلکہ قرابت ہے۔

رحم و شفقت کے جذبہ سے قرآن کریم کے اصل قطعی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پھر ایسی صورتیں بھی بہت نادر ہوتی ہیں جس میں یتیم پوتے دوسرے ورثاء کے مقابلے میں زیادہ حاجت مند پائے جاتے ہیں، ایسی شاذ صورتوں سے قواعد نہیں بدلتے،پھر مواقع رحم میں صرف یتیم ہونا نہیں ہے، دیگر لوگ بھی مستحق نکل آئیں گے، خود میراث میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، مثلاً: بھائی کے مقابلے میں بہن کو نصف حصہ ملتا ہے، اگر یہ بہن بیوہ بچے دار ہو، خاوند نے بھی کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہوایسی صورت میں آپ یہی کہیں گے، ”شریعت ایسی بے رحم نہیں ہو سکتی کہ ایسی بہن کو نصف حصہ بھائی کے مقابلے میں دیا جائے۔“پس اگر جذبہ رحمت و شفقت کو معیار بنا لیا جائے تو پھر اسلامی احکام بازیچہ اطفال بن کر درہم برہم ہو جائیں گے، ہاں! یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ یتیم پوتوں کی پرورش کے لیے کیا اصول وضع کیے گئے ہیں؟ اسلام اس کے مستقبل کے معاشی مسائل کا تحفظ کیسے کر تا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے بے سہارا لوگوں کے معاش کی دوصورتیں ہیں ۔

پہلی صورت:آپ علیہ السلام کی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے ،”ومن ترکا کلاً أو ضیاعا فإلي․“(صحیح البخاری، رقم الحدیث:5371) جس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کا انتقال ہو جائے اور اس پر قرضوں کا بوجھ ہو یا وہ بے سہارا رشتہ دار یا عیال چھوڑ جائے تو میں اس کا ولی ہوں، اس سلسلے میں مجھ سے مدد لی جائے۔

ایک اور حدیث میں ہے ”فالسلطان ولي من لا وليّ لہ“․(مشکوٰة المصابیح، رقم الحدیث:3067)جس کا کوئی ولی نہ ہو حاکم وقت اس کا ولی ہے، ان دونوں حدیثوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بے سہارا نابالغ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے۔ حضرت خلفائے راشدین کے مبارک دور میں اس پر عمل ہوتا رہا ہے، چناں چہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب بچہ پیدا ہو جاتا تو اس کو سو درہم اور پھر جب دس سال کا ہوتا تو اس کو دو سو درہم بطورِ وظیفہ دیا جاتا، بلوغ کے بعد اس میں مزید اضافہ ہو جاتا، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔

”وکان یفرض للمنفوس (ای للمولود) إذا طرحتہ أمہ مائة فإذا ترعرع بلغ مائتین ، فاذا بلغ زادہ“․(إزالة الخفاء عن تاریخ الخلفاء. حکایات سیاست فاروقی:2/68سہیل اکیڈمی۔)۔

امیر المؤمنین حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں بھی اس کفالت کا اہتمام ہوتا تھا، چناں چہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

کان معاویة یبعث رجلاً، یقال لہ أبو الجیش، فی کل یوم فیدور علیہ علی المجالس یسأل: ھل ولد لأحد مولود؟…فإذا أخبر بذلک أثبت فی الدیوان یعنی․ لیجری علیہ الرزق․(البدایة والنھایة ذکر معاویہ“․(2/53،حقانیہ)

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں نومولود بچوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے ہر قبیلے میں ایک شخص مقرر تھا، وہ فجر کے بعد مختلف مجلسوں میں جا جا کر یہ اعلان کرتا کہ کیا کسی کے ہاں کسی بچے کی ولادت ہوئی ہے؟ تاکہ تو اس کانام اور کوائف رجسٹر میں درج کر دے، تاکہ بیت المال سے اس کا وظیفہ جاری کر دیا جائے۔ منہاج السنہ میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس معمول کا تذکرہ خصوصی طور پر فرمایا۔(دیکھئے منہاج السنة النبویة،الجزء الثالث، ص:1،المکتبة السلفیة)

دوسری صورت:اسلام کے قانون میراث میں ہر آدمی کو نا صرف یہ حق حاصل ہے، بلکہ قرآن کریم اور احادیث میں جا بجا ترغیب بھی دی ہے کہ ایسا غریب رشتہ دارجن کا ازروئے شریعت میراث میں حصہ نہیں ہے، ان کو اپنے مال میں سے بقدر ضرورت ہبہ کر سکتا ہے۔

لہٰذا دادااپنی زندگی میں یتیم پوتوں ور بیوہ بہو کو اپنے مملوکہ مال میں سے جس قدر چاہے ہدیہ کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس ہبہ کا مقصد ان کی ضروریات کی تکمیل ہو، ورثاء کو قصداً محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو۔

اور اگر اپنی زندگی میں نہیں دیتا تو ان کے لیے تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے، مرنے کے بعد اس کے تہائی مال سے ان کا تعاون کرنے کے بعد بقیہ مال ورثاء میں باہمی حصص کے مطابق تقسیم ہو گا۔

بالفرض اگر دادا نے زندگی میں ہبہ نہیں کیا یا تہائی مال میں وصیت بھی نہیں کی، دوسری طرف یتیم پوتے نا بالغ غریب نادار یا اپاہج ہیں ان کے خرچ کی تمام ذمہ داری چچاؤں پر ہے۔

اب لوگ جہالت کی وجہ سے شریعت کی طرف سے دیے گئے ان راہوں کو تو استعمال نہ کریں اور اصرار کریں کہ یتیم پوتے کو بھی میراث دی جائے تو ایسے لوگوں کو احمقوں کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔

یہ بات بھی ذہن نشین رکھیے کہ انسان کی معاش کی بنیاد میراث نہیں ہے، میراث تو اضافی نوعیت کی چیز ہے، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے ہیں کہ ان کے ترکہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا تو کیا ان کے ورثاء عزیزو اقارب، اہل و عیال بھوکے مر جاتے ہیں؟پس میراث کو معاش کا سب سے مضبوط ستون بنا کر پیش کرنا بھی درست نہیں ہے۔

قرآنی اسلوب میں وصیت کو قرض پر مقدم کرنے کی حکمت؟
آیات میراث میں وصیت کو قرض سے پہلے بیان کیا گیا ہے، جیسے: (من بعد وصیة یوصی بہاأودین) دوسری جگہ میں ہے:(من بعد وصیة یوصی بہا أو دین) تیسری جگہ ہے (من بعد وصیة توصون بہا أو دین) اس کی کیا حکمت ہے؟ حالاں کہ عملاً قرض کو وصیت کی تکمیل سے پہلے ادا کرنے کا حکم ہے؟ چناں چہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”انکم تقرؤن ھذہ الاٰیة(من بعد وصیة توصون بہا أو دین)“وإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضی بالدین قبل الوصیة“․(مشکوة المصابیح، کتاب الفرائض رقم2095،وابن ماجة،رقم:2739)

”یعنی تم اس آیت کو پڑھتے ہو جس میں وصیت کی ادائیگی قرض پر مقدم ہے حالاں کہ حضورا نے وصیت سے پہلے ادائیگی قرض کا حکم دیا ہے۔“

گویا وصیت ایک احسان ہے اور قرض ایک حق ہے، حق کی ادائیگی احسان کرنے سے مقدم ہے، مگر آیت کریمہ میں وصیت کو مقدم کرنے کی یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ قرض کا مطالبہ کرنے والے موجود ہوتے ہیں، تکمیل وصیت کا مطالبہ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، اس لیے اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اسے قرض پر مقدم رکھا ہے، تاکہ اس سے غفلت نہ برتی جائے۔ (جاری)