احترامِ اقارب اور اِسلامی تعلیمات

احترامِ اقارب اور اِسلامی تعلیمات

مولانا ظہیر احمد صاحب مفتاحیؒ

آج دنیا اس حقیقت کا اعتراف کرتی جارہی ہے کہ اسلام ہی دنیا کا وہ سچا اور اچھا مذہب ہے جس کی تعلیمات انسان کوصحیح معنوں میں مکمل انسان بناتی ہیں اور جس نے اصلاحِ نفس، ترقی وتمدن، تہذیبِ اخلاق اور درستیٴ معاشرتِ عامہ کے وہ اصول بیان کیے ہیں جن پر علمی وعملی قوتوں کی شائستگی مبنی ہے، جن کو بجا طور پر نجاتِ انسانی اور امنِ عالم کا علم بردار کہنا مناسب ہے۔اسلامی تعلیمات غصہ، کینہ، بغض، حسد، عداوت، انتقام، خودغرضی اور نفس پرستی وغیرہ کے جذبات کا گلا گھونٹتی ہیں،مساوات وہم دردی، عدل وانصاف،خدا کی بندگی اور حق وصداقت کی حمایت کے جذبات اُبھارتی ہیں، ارشادِ بانی ہے:﴿إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَاء ذِیْ الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ﴾ (سورہ النحل:90)

اس آیت میں عدل وانصاف،احسان وسلوک اور اقربا کی اِمداد واعانت کا حکم اور فحاشی اور بے حیائی،نا پسندیدہ روِش اور ظلم زیادتی کرنے سے صاف اور صریح الفاظ میں ممانعت فرمادی گئی ہے۔

غور کیجیے انسانی زندگی کا کتنا مکمل ضابطہ اور لائحہ عمل ہے، اگر انسان صرف اسی ایک جملہ کے مطابق اپنی زندگی کا پروگرام بنا کر عمل پیرا ہوجائے تو وہ اپنی زندگی رضائے الٰہی کے مطابق امن وعافیت کے ساتھ کام یاب وخوش گوار گزارسکتا ہے ۔انسانیت کے معیار کو سمجھنے کے لیے انسانی تعلقات اور اُس کی ذمہ داریوں کو اوّل سمجھنا ضروری ہے، ان تعلقات میں انسان کا پہلا اور مقدم تعلق عبودیت کا اپنے خالق کے ساتھ ہے۔دوسرا معاشرتی تعلق بنی نوع کے ساتھ ہے۔انسانیت کی تکمیل ان ہی دونوں تعلقات کے صحیح ہونے پر منحصر ہے۔

یوں تو اسلام نے اپنے اعزاء اور ہر شخص کے ساتھ جس سے ہر انسان کا واسطہ اور سابقہ پڑتا ہے حقوق قائم کر دیے ہیں اور درجہ بدرجہ ہر ایک سے حسنِ سلوک سے پیش آنے کی شدد مد کے ساتھ تاکیدفرمائی ہے، مگر معاشرتی تعلقات میں سب سے مقدم اور اہم حق والدین کا ہے، پھر شوہر وبیوی کا باہمی تعلق ہے،اِبن واَب اور زوجین کی باہمی چپقلش ونفرت سارے نظامِ معاشرت کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے، اسلام نے ان رشتوں کے قیام واستحکام کے لیے ایک دوسرے کے مراتب وتعلقات کی اہمیت کو اس طرح اُجاگر کیا ہے اور ایسے اصول مقرر فرمائے ہیں کہ جن کو سمجھ کر اور اُن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے اندر صحیح انسانیت اور اعلیٰ کریکٹر پیدا کر سکتا ہے، جس پر حیاتِ قومی کا دارومدارہے۔اس مختصر مضمون میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانی تعلق کے دوسرے جز یعنی اِبن واَب اور میاں بیوی کے احترام اور تعلقات کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔

احترامِ والدین
یہ امر مسلمہ ہے کہ والدین اپنی اولاد سے بے حد محبت کرتے ہیں، ان کی تعلیم وتربیت ،پر داخت وپرورش اور نگہداشت وخواہشات پر اپنا سر مایہٴ عزیز وقت، دولت آرام سے کچھ قربان کرتے ہیں، مگر اولاد کی تکلیف، دُکھ، رنج وپریشانی، حزن وغم کبھی بھی برداشت نہیں کرتے، اس بنا پر اسلام کی نگاہ میں والدین کا مرتبہ بہت ہی ارفع اور اعلیٰ ہے۔ قرآن کہتا ہے:

﴿وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرا﴾․(سُورہ بنی اسرائیل:23)
”تمہارے خدا کا فیصلہ ہے کہ صرف اُس کی پر ستش کرنی چاہیے اور اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آوٴ،اگر تمہارے سامنے اُن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو اُن کی کسی بات پر اُف تک نہ کرو اور شریفانہ گفتگو اختیار کرو اورا ان کے ساتھ نرمی، شفقت اور ملائمت بر تو اور اُن کے حق میں دعا کرو کہ اے پرودگار! تو اِن پر رحمت فرما ،جیسا کہ اِنہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا“۔

غور کیجیے کہ کتنی وضاحت کے ساتھ یہ حکم دیا جاتا ہے کہ والدین کی خدمت کا سب سے اہم وقت بڑھاپے کا زمانہ ہے، جب اُن کے اعضاء وجوارح بے کار ہوجاتے ہیں، جب انسان بالکل مجبور ہوجاتا ہے، جب ہر طرف سے مایوسی ہی نظر آتی ہے تو اُس وقت کی خدمت اور اُس وقت کی اطاعت اکثر اطاعتوں سے افضل اور اچھی ہے،ماں باپ کی اطاعت وفرماں برداری کے لیے اِس قدر تا کید کہ اس عالم میں انہیں”اُف“ بھی نہ کہو، یعنی کوئی حرکت کبھی بھی تم سے سرزد نہ ہوجائے جو اُن کے لیے تکلیف دہ ہو اور جس سے ان کے نازک دلوں کو دکھ پہنچے جس سے ان کو رنج وملال ہو﴿وَاخْفِضْ لَھُمَا﴾ کا تکراربھی کس قدر جامع ہے، یعنی ان کی اطاعت میں پوری طرح جھک جاوٴ، بغیر پس وپیش کے ان کی خدمت گزاری میں لگ جاوٴ اور اس جھکنے میں تمہارے دلوں کی گہرائیوں سے محبت اور نرمی کے جذبات نمایاں رہیں، وقتی مصلحت یا وضعداری جیسی کوئی چیز نہ ہو۔ان آیاتِ قرآنی میں کتنے معانی پوشیدہ ہیں اسے اہل ِنظر ہی جانتے ہیں۔ماں باپ کی خدمت عظمت وبڑائی،ان کی عزت وفضیلت، ان کی اطاعت وفرماں برداری ہر چیز پر اِن آیات سے واضح طور پر روشنی پڑتی ہے ،ان آیات کے بعد رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی بھی سن لیجیے:
٭… نماز کے بعد افضل ترین عمل والدین کے ساتھ عمدہ سلوک ہے۔

٭… والدین کی اطاعت وفرماں برداری میں جہاد کا ثواب ہے۔ حضرت عبداللہ بن قیس بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص نے جہاد کی اجازت طلب کی ! فرمایا تیرے ماں باپ زندہ ہیں، اُس نے عرض کیا جی ہاں! زندہ ہیں، فرمایا ان ہی کی خدمت میں جہاد ثواب موجود ہے۔

٭…والدین کی اطاعت، خدا کی اطاعت ہے اور والدین کی نافرمانی ،خدا کی نافرمانی ہے۔

٭…والدین کی نافرمانی اس صورت میں بھی جائز نہیں جب کہ وہ گھر سے نکل جانے کا حکم صادر فرمائیں۔

٭…حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے”گناہِ کبیرہ میں سے سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی معصیتہے۔“

٭…حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے کسی نے عرض کیا میں ہجرت کی بیعت کرنے آیا ہوں، جب میں چلا ہوں تو والدین کو روتا چھوڑ آیا تھا! فرمایا فوراً واپس جاوٴاور دونوں کو جس طرح رُ لایا ہے اسی طرح ہنساوٴ۔(ابو داوٴد)

٭…حضرت ابو اُمامہ بیان کرتے ہیں رحمت ِعالم صلی الله علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا حضور! ماں باپ کا حق اولاد پر کیا ہے؟ فرمایا وہ دونوں تیری بہشت اور دوزخ ہیں۔(ابن ماجہ)

٭…حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بڑے بڑے گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں پاپ کو گالی دے! لوگوں عرض کیا حضور یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دے؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوسرے کے ماں باپ کو گالی دینا ایسا ہی ہے جیسے اپنے ماں باپ کو گالی دینا، کیوں کہ جب دوسرے کے ماں باپ کو برا بھلا کہے گا تو وہ یقینا اس کے بدلے میں تمہارے ماں باپ کو برا بھلا کہے گا۔(مسلم وابو داوٴد)

٭…والدین کی خدمت کا یہ بھی تتمہ ہے کہ ان کے ملنے والوں سے بہتر سلوک واحسان کیا جائے۔حضرت مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں، رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کی خدمت اولاد کے ذمہ ہے! ارشاد فرمایا ہاں! ان کے لیے استغفار کرنا،ان کے وعدوں کو پورا کرنا، ان کے احباب واقارب کی عزت کرنا، یہ سب باتیں ماں باپ کی خدمت میں شامل ہیں۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک اعرابی راستہ میں ملا، اُس نے آپ کو سلام کیا، آپ نے اُس کو بڑے احترام سے جواب دیا،خود پیادہ ہوگئے، اُس کے سامنے اپنی سواری پیش کردی، پھر اپنے سر کا عمامہ بھی اُن کے سر پر رکھ دیا۔ آپ کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا جناب! یہ لوگ گنوار ہیں، تھوڑی سی چیز سے خوش ہوجاتے ہیں، اِس قدر لطف کی کیا ضرورت ہے!؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ سعادت مند اولاد کی بڑی خدمت یہ ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد باپ کے دوستوں سے اچھا سلوک اور بہتر ین برتاوٴ کرے،اس شخص کو میں نے اپنے والد ماجد کے پاس دیکھا ہے۔(مسلم شریف)

٭…والدین کی عزت کا پورا خیال رکھو ،اگر چہ وہ کافر ہوں۔

٭… حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی نے ایک مرتبہ عرض کیا یا رسول اللہ! خدا اور رسول کے بعد نیک سلوک اور اچھے برتاوٴ میں کس کو مقدم کرنا چاہیے؟ فرمایا ”ماں“ کو!سائل نے کہا پھر کس کو ؟فرمایا”ماں“کو!تین مرتبہ کے ذکر کے بعد چوتھی مرتبہ فرمایا باپ کی اطاعت فرض ہے۔(بخاری ومسلم)

٭… اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ فرمایااُس کی ماں کا۔(حاکم)

٭… حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” ماں باپ کے پاوٴں کے نیچے جنت ہے“ مختصر یہ کہ والدین کے احترام وتعظیم کی بہت تاکید فرمائی گئی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ بنو سعد کے ایک نوجوان کی نسبت حضور صلی الله علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا کہ وہ اپنے والدین کے سامنے گستاخی سے پیش آتا ہے۔آپ نے اُسے طلب کیا اور فرمایا کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تمہارے والدین نے تمہاری تربیت اور پرورش میں اُس وقت تکالیف برداشت کیں جب تمہیں ہوش نہ تھا،انہوں نے تیری خاطر کتنی تکلیفیں جھیلیں؟ کتنے دُکھ درد کا سامنا کیا؟ اور تمہارے لیے کتنی راتیں بیداری میں کاٹیں؟ ان کے احسانات کا یہ صلہ ہے کہ تم انہیں حقیر سمجھتے ہو اور اُن پر ظلم ڈھاتے ہو؟ اس کے بعد فرمایا:”مَن اَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ وَلَا یُحْسِنُ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنِّةَ“یعنی جس نے اپنے والدین کے ساتھ حالتِ ضعیفی میں اچھا سلوک نہیں کیا وہ ہر گز جنت میں داخل نہ ہوگا۔

احترام ِ شوہر
یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ عورت کے لیے شوہر ہی مرکز عیش اور سرمایہ سکون وحیات ہے، بلکہ دکھانا یہ ہے کہ اسلام نے احترامِ شوہر اور اُس کی رضاکے لیے کتنا زور دیا اور مسلم عورتوں نے تعلیماتِ اسلامی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے شوہروں کا کتنا احترام کیا ہے؟کس طرح خدمت کی ہے؟ اور اُن کی رضا جوئی اور خوش نودی کے لیے کس طرح خندہ پیشانی کے ساتھ مصائب ومشکلات برداشت کی ہیں۔ فرامینِ نبوی ملاحظہ فرمائیں:

٭…حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا”کسی بشر کو یہ لائق نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے،اگر میں انسان کو سجدہ کی اجازت دیتا تو عورت کو اجازت دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے“۔

٭…حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے”قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! جو عورت اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی وہ اپنے رب کی نافرمان ہے،اپنے رب کا حق ادا کرنااِس پر موقوف ہے کہ خاوند کا حق ادا کرے۔“(ابن ماجہ)

٭…حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”عورت خدا کا حق نہیں ادا کرتی جب تک وہ شوہر کا حق ادا نہ کرے۔“(طبرانی)

٭…حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے”اگر شوہر پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دینے کا حکم کرے تو اُس کی تعمیل کی کوشش کرنی چاہیے۔“(پہاڑ یقینا اپنی جگہ سے نہیں ہٹایا جا سکتا، مگر دو چار پتھر ہٹا کر تعمیلِ حکم کی صورت تو پیدا کی جاسکتی ہے)

٭… ایک جگہ آپ نے فرمایا”جو عورت اپنے خاوند سے ناراض رہتی ہے اُس پر اللہ کی لعنت ہے“۔

٭…دوسری جگہ ارشاد ہے”جو عورت مرگئی ایسی حالت میں کہ اُس کا خاوند اُس کی زندگی میں خوش رہا وہ بلاشبہ جنت میں داخل ہوگی۔“(ابن ماجہ)

٭…ایک جگہ ارشاد ہے”جو عورت مرگئی ایسی حالت میں کہ اُس کا خاوند اُس کی زندگی میں خوش رہا وہ بلا شبہ جنت میں داخل ہوگی۔“(ابن ماجہ)

٭…ایک جگہ ارشاد ہے”اے عورت دیکھ! بس تیری جنت اور دوزخ خاوندہے“یعنی عورت کے لیے خاوند کی خوشی میں جنت اور اُس کی نا خوشی میں جہنم ہے۔

٭…کہیں یہ فرمایا ہے”سب سے اچھی عورت وہ ہے جسے دیکھ کر اُس کا خاوند خوش ہو اور جب اسے حکم دے فوراً بجا لائے اور ہر وقت شوہر کی رضا وخوش نودی میں لگی رہے اور اُس کی عدم موجودگی میں اپنی عصمت اور خاوند کے مال کی حفاظت کرے“۔(بیہقی وابن ماجہ)

اس قسم کی اور بھی حدیثیں ہیں جن میں شوہر کی اطاعت کو نہ صرف دنیاوی فلاح، بلکہ آخرت میں نجات اور مغفرت کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے ،مگر یہ بات کبھی بھی فراموش نہ ہونی چاہیے کہ یہ اطاعت ان ہی اُمور میں لازم ہے جو شرعاً جائز اور مباح ہوں، ناجائز اور غیر شرعی اُمور میں یہ حکم نہیں، کیوں کہ ضابطہ یہ ہے: لَا طَا عَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَا لِقْ یعنی ایسے کسی معاملہ میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے جس میں خالق کی نافرمانی ہوتی ہو۔

اب کچھ واقعات ملا حظہ فرمایئے کہ مسلم خواتین نے ان احکامات کی تعمیل کس طرح کی ہے۔ سب سے پہلے سیدة النساء حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مثال لیجیے۔

ایک ناز پروردہ، صاحبِ دولت وثرورت خاتون، جن کو ان کی عظیم الشان کام یاب تجارت کے باعث”ملکہ عرب“کہا جا تا تھا، جب رسولِ خدا کے شرف ازدواجی سے مشرف ہوئیں اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کوہِ حرا کے غار میں گوشہ نشینی اختیار کی تو یہی ملکہ عرب تھیں ،جو سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے لیے خود پا پیادہ پہاڑی پتھروں کو طے کرتے ہوئے غار تک جاتی تھیں۔ایثاروفدائیت کی شان یہ تھی کہ خود اپنے نوکروں یا باندی اور غلاموں کی اِمداد بھی گوارا نہیں تھی۔دعوتِ تبلیغ کا سلسلہ شروع ہوا تو نہ صرف یہ کہ سب سے پہلے تسلیم واطاعت کے لیے سرِ نیاززخم کردیا، بلکہ اپنی پوری دولت خدمتِ دین کے لیے وقف کردی اور جب مخالفینِ اسلام نے ہر طرف سے ہجوم کر کے رحمت دو عالم صلی الله علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کی تو یہی جانثار خاتون تھیں جنہوں نے اپنے تمام وسائل آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ذاتِ مقدس کی راحت وآسانی کے لیے آڑ بنادیے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی صاحب زادی زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا(اُس وقت تک مسلمان عورتوں کا نکاح غیر مسلموں سے حرام نہیں ہوا تھا) جب غزوہٴ بدر پیش آیا تو ابو العاص، جو اُس وقت تک کافر تھے، مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار ہوئے۔حضرت زینب یعنی ایک مسلمان خاتون کی اپنے غیر مسلم شوہر کے لیے وفاداری ملا حظہ فرمائیے،جیسے ہی انہیں شوہر کی گرفتاری کا علم ہوا بے چین ہوگئیں اور جب معلوم ہوا کہ فدیہ لے کر چھوڑنے کا بھی قانون بنا دیا گیا ہے تو اپنی ماں کی یادگار( سب سے زیادہ قیمتی ذخیرہ جو اُن کے پاس تھا وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار تھا، جو اُنہوں نے اِن کو جہیز میں دیا تھا) اپنے شوہر کے فدیہ کے لیے سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے دربار میں بھیج دیا، فدیہ منظور ہوا اور حضرت ابو العاص رہا ہوئے، جو کچھ ہی عرصہ بعد حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔ اس طرح کے واقعات تو بہت ہیں، میں نے بطورِ نمونہ کے یہ دو واقعات پیش کردیے۔

احترام بیوی
اسلام سے پہلے جب کہ جاہلیت کا زمانہ تھا، عورتوں کی عصمت وعفت کی کوئی قدر نہ تھی،باہمی رضا سے زنا کاری جائز تھی،معصوم لڑکیاں پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کردی جاتی تھیں،تعدادِ ازدواج کی کوئی حد مقرر نہ تھی،مساوی درجہ دینا انسان اپنے لیے توہین وہتک سمجھتا تھا اور اس کے لیے شوہر کی موت پراُس کے ساتھ ہی ستی ہونا لازم وملزوم سمجھا جا تا تھا،المختصر یہ کہ عورت تفریح کا ایک آلہ اور بچہ پیدا کرنے کی مشین سے زیادہ قوت کی مالک نہ تھی۔

یکا یک ہادیٴ برحق، مصلح اعظم اور رسولِ عربی صلی الله علیہ وسلم کا ظہور ہوا، آپ نے عورتوں سے اِن مظالم کو دورکیا، آپ نے عورتوں کو مملوکیت کے درجہ سے نکال کرمالکیت کا درجہ بخشا اور اس کو پہلا شرعی وارِث قرار دیا،تعدادِ ازدواج کی حد قائم کی،عقد بیوگان کا رواج دیا اور اعلان کیا کہ شوہر وبیوی دونوں کے ذمہ ایک دوسرے کے فرائض کی حدود مقرر ہیں، پس دونوں کا فرض ہے کہ ان حدود کی پوری پوری رعایت کریں، تا کہ پاک سعید زندگی گزرے۔اور ظلم ومعصیت ہے اگر وہ ایک دوسرے کے حقوق کا پاس ولحاظ نہ کریں اورغفلت وتساہل برتیں۔عورت کا حق ہے کہ وہ نکاح کے وقت ایک رقم بطور مہر مقرر کرائے اور جس وقت چاہے شوہر سے طلب کرے اور ضروریات زندگی کا پورا نفقہ اس سے وصول کرے۔اگر خاوند ظالم ہے دیوانہ ہے،مفقود الخبر(لاپتہ)ہے تو عورت کو حقِ علیحدگی کا اختیار حاصل ہے، اُس کو اجازت ہے کہ وہ ظالم شوہر سے نجات حاصل کرلے۔عورت ہی کی عزت واحترام کی خاطر مردوں سے کہا گیا”اپنی عورتوں کو نا پسند نہ کرو،تمہیں کیا معلوم جس چیز کو ناپسند کرتے ہو اُس میں تمہارے لیے بھلائی ہو“۔

مردوں پر عورتوں کے حقوق اسی طرح ہیں جس طرح ان کے حقوق، عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہواان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آوٴ ،ان کو مضرت نہ پہنچاوٴ،انہیں لٹکائے نہ رکھو، ان کی خبر گیری کرو۔مال دار اپنی حیثیت کے مطابق اور غریب اپنی طاقت کے بمو جب عورتوں کے ساتھ سلوک کرے،عورتیں تمہاری کھیتی ہیں اگر تعلقات نہیں نبھتے ہیں تو بیک وقت طلاق نہ دو ۔تا کہ اگر اعادہ کرنا چاہو تو با آسانی کرسکو،اگر اختلاف ہو ہی جائے تو الگ کرنے میں ان کی عزت واحترام کا پورا لحاظ رکھو، ان کو حسن وخوبی کے ساتھ رُخصت کرو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے مشہور اقوال یہ ہیں:

عورتوں کی عزت کرنے والا عزیز وکریم ہے،تو ہین کرنے والا ذلیل وبد بخت ہے۔

دنیا کی بہترین دولت اَلْمَرْاَةُالصَا لِحَة ،یعنی نیک بیوی ہے۔

عورت اپنے خاوند کے گھر کی محافظ ہے: اَلْمَرْأَہُ رَاعِیَہ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِھَا․

عورتوں میں صورةً یا سیرةً کوئی عیب نہ نکالو، نہ اِلزام اور نہ بہتان تراشو۔

عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اِتَّقُوااللہ َ فِی النِّسَاءِ․

تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل وعورت کی نظر میں اچھا ہے اور اسے تم سے کوئی شکایت نہیں۔

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہ وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَاءِ․