اتحاد واتفاق کا ماحول کیسے قائم کریں؟

اتحاد واتفاق کا ماحول کیسے قائم کریں؟

مولانا شبیر احمد

ایک دوسرے سے نہ کتراؤ
حدیث مبارک میں ہے : ”ولا تدابروا“ ایک دوسرے سے مت کتراؤ۔ جب دلوں میں کھوٹ ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے ملاقات کرنا اور ایک د وسرے کے سامنے ہونا اور ایک دوسرے سے دعا سلام کرنا، کسی طرح گوارہ نہیں کیا جاتا، اتفاقاً اگر دونوں آمنے سامنے ہو جائیں تو بڑی مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے اور دونوں کے چہرے لٹک جاتے ہیں اور اگر پہلے ہی سے کچھ گنجائش ایسی مل جائے کہ آمنے سامنے نہ ہونا پڑے تو دور سے ہی ایک دوسرے کو دیکھتے ہی کترا جاتے ہیں، کوئی ادھر کا راستہ اختیار کرتا ہے او رکوئی ادھر کا راستہ اختیار کرتا ہے۔

اس سے دو مسلمان بھائیوں کے درمیان بغض ، عناد اور افتراق پیدا ہو جاتا ہے، جو مسلمانوں کے اتحاد او رمحبت کے ماحول کو نفرت میں تبدیل کر دیتا ہے اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک دوسرے سے کترانے سے منع فرمایا ہے، بلکہ جب ایک دوسرے سے ملاقات ہو جائے، طوعاًو کرہا کیوں نہ ہو، اس طریقے سے دعا وسلام اور گفت گو ہونی چاہیے کہ دونوں کے درمیان کبھی کوئی بات ہی نہیں ہوئی او رایک دوسرے سے معافی تلافی کرلے کہ جو کچھ ہمارے درمیان میں ہوا ہے ، اس میں شیطان کا دخل ہے ،الله پاک ہم کو معاف فرمائے۔ آمین۔

آپس میں قطع تعلق اور قطع رحمی مت کرو
”ولا تقاطعوا“: آپس میں مسلمان، مسلمان کے ساتھ مقاطعہ اور قطع تعلق اور قطع رحمی کا معاملہ نہ کریں اور یہ عام طور پر اپنے رشتہ داروں، اعزہ اور اقارب کے ساتھ ایک دوسرے سے دشمنی کی بنا پر کر لیتے ہیں، یہ الله تعالیٰ کے نزدیک نہایت مبغوض ترین عمل ہے۔

قطع تعلق کرنے والا جنت سے محروم
ایک حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے: ”قطع تعلق کرنے والے جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔“ (ترمذی: 2/13) اور ایک دوسری روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”جو شخص اپنے رشتہ داروں اور خاندانی لوگوں کے ساتھ قطع تعلق کر لیتا ہے، اس سے الله تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے، ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا، یعنی سزا بھگتنے سے پہلے جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔“ (المعجم الاوسط:4/223 حدیث:3561)

زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والے تم پر رحم کریں گے
ایک حدیث شریف میں سید الکونین صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے: جو روئے زمین پر دوسروں کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ آسمان والا رحم وکرم کا معاملہ کرے گا ۔اور صلہ رحمی کا معاملہ کرنا نہایت خوش نصیبی کی چیز ہے، رحم وکرم کرنے کی صفت الله کی صفت رحمت کا جز ہے ،جو شخص رحم وکرم کی صفت کو اپنے ساتھ جوڑلے گا، الله بھی اس کے ساتھ ایسا ہی صلہ رحمی کا معاملہ کرے گا اور اس کو اپنی صفت رحمت کے ساتھ جوڑ لے گا اورجو شخص اپنے اندر سے اس صفت کو ختم کر لے گا او ررشتہ داروں او راعزہ کے ساتھ صلہ رحمی کو چھوڑ کر قطع تعلق اور قطع رحمی کا سلسلہ جاری کر لے گا، الله تعالیٰ بھی اس کو اپنی صفت رحمت سے منقطع کرکے دور پھینکے گا۔

صلہ رحمی سے تین بشارتیں
ایک چوتھی حدیث شریف میں سید الکونین صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی او رہم دردی کرنے سے آپس میں محبت کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور صلہ رحمی او رہم دردی کا ماحول پیدا کرنے والے کے لیے تین بشارتوں کا اعلان ہے:
1..خاندان اور ماحول میں اس کو سب لوگ محبت اور ہم دردی کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
2..اس کے مال ودولت میں منجانب الله برکت اور وسعت پیدا ہو گی۔
3..اس کی عمر میں اضافہ ہو گا۔

حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:”حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ تم اپنے خاندانی لوگوں کے رشتہ نسب معلوم کر لیا کرو ،تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے ذورحم رشتہ داروں اور اعزہ کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کر سکو، اس لیے کہ صلہ رحمی کا معاملہ کرنے سے خاندان میں محبت پیدا ہوتی ہے اور مال ودولت میں وسعت اور ترقی پیدا ہوتی ہے اور عمر میں اضافہ اور زیادتی ہوتی ہے۔“

آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو
سید الکونین صلی الله علیہ وسلم نے طویل حدیث کے درمیان یہ بھی فرمایا:”وکونوا عبادالله اخوانا“ اے مسلمانو! آپس میں الله کے ایسے بندے بن کر رہو جیسا کہ ایک باپ کی اولاد اور بھائی بھائی کے درمیان محبت اورتعلق کا رشتہ ہوتا ہے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے”کونوا عبادالله اخوانا“ کے ذریعہ ان تمام خطر ناک قسم کے نفرت کے اسباب کو ترک کرنے کا حکم فرمایا جو اتحاد کے شیرازہ کو بکھیر کر رکھ دیتے ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت ومودت، ہم دردی وغم خواری اور دکھ درد میں ایک ماں کی ایسی اولاد کی طرح ہو کر رہنا چاہیے جن کے درمیان ایک دوسرے کے لیے بے مثال ہم دردی ہو کہ جس سے کسی غیر کو کسی طرح کی ہمت وجرأت نہ ہو سکے کہ ان میں سے کسی کی طرف انگلی اٹھائے۔

”المسلم اخو المسلم لایظلمہ“: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، لہٰذا بھائی اپنے بھائی پر ظلم نہ کرے۔ ظلم وستم الله کے نزدیک منحوس ترین چیز ہے، قیامت کے دن ایک ظلم بہت سی تاریکیوں کا سبب ہو گا، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ دنیا کا ایک ظلم، ظالم کے لیے آخرت میں بہت ساری سیاہیوں اور تاریکیوں کا سبب بنے گا، جیسا کہ مومن کے آگے پیچھے ،دائیں بائیں نور ہی نور ہو گا، ایسا ہی ظالم کے آگے پیچھے دائیں بائیں ظلمت اور تاریکیاں ہی تاریکیاں ہوں گی۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے: حضرت عبدالله بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ایک ظلم ظالم کے لیے بہت سی تاریکیوں کا سبب بنے گا۔“ (ترمذی:2/23 شعب الایمان:6/46)

قیامت کے دن الله ہی ظلم کا بدلہ دلائے گا
ایک حدیث شریف میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دنیا کے اندر جس بندہ مومن پر ظلم ہوا ہے اور دنیا میں اس کو اس کا بدلہ نہیں ملا ہے تو الله تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن اس کو بدلہ دلائے گا۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:

”حضرت ابو سعید خدوی سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ دنیا کے اند رکوئی بندہ ایسا نہیں ہے جس نے کسی شخص پر ظلم کیا ہوا اور مظلوم کو اس کا بدلہ نہ ملا ہو، مگر الله تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن مظلوم کو اس سے ضرور بدلہ دلائے گا۔“ (شعب الایمان:6/55)

امت کو تین قسم کی برائیوں سے بچنے کی نصیحت
سید الکونین صلی الله علیہ وسلم نے امت کو خطرناک قسم کی تین برائیوں سے دور رہنے کی نصیحت فرمائی:
1..آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے آپ کو ظلم سے دور رکھو، اس لیے کہ قیامت کے دن ایک ظلم بہت سی تاریکیوں اور سیاہیوں کا سبب بنے گا، جب مومن کے دائیں بائیں آگے پیچھے نور ہی نور ہو گا تو اس ظالم کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف سے اندھیرا ہی اندھیرا ہو گا۔
2..آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے آپ کو بد کلامی اوربدگمانی سے دور رکھو اور کسی مسلمان بھائی کے ساتھ فحش گوئی اور گالی بکنے سے اپنے آپ کو دور رکھا کرو، الله تبارک وتعالی کے نزدیک ایسے لوگ کبھی محبوب نہیں بن سکتے جو فحش گوئی اور بد کلامی سے پیش آتے ہیں۔
3..آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے آپ کو خود غرضی اور لالچ سے دور رکھو اور اسی خود غرضی اور لالچ نے تم سے پچھلی امت کو تین قسم کی برائیوں پر آمادہ کر رکھا تھا: خود غرضی کی بنا پر جھوٹ بولنے پر آمادہ ہو جاتے تھے ۔ خود غرضی اور لالچ کی بنا پر کسی پر ظلم کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ یہی خود غرضی اور لالچ کی بنا پر اعزہ اور رشتے داروں سے قطع تعلق اور قطع رحمی کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ ایک صحابی نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا مسلمان زیادہ افضل ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ہاتھ او رزبان سے مسلمان محفوظ رہیں وہ سب سے افضل ترین مسلمان ہے۔

حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:
مسلمان بھائی کو بے یارو مدد گار مت چھوڑو
”المسلم اخو المسلم لایخذلہ“: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، دوسرے کو بے یارومدد گار نہ چھوڑے۔ اگر مسلمان کو بے یارومدد گار چھوڑیں گے تو ہر طرف سے مسلمان بے دست وپا ہو کر کم زور پڑ جائیں گے، جس سے غیر مسلم دشمنوں کو ہر طرف سے مسلمانوں کو زیر کرنے کا موقع فراہم ہو سکتا ہے اور دشمنوں کی نگاہوں میں تمہاری جو طاقت اور ہیبت جمی ہوئی ہے، وہ ہوا کی طرح اڑ جائے گی، اسی کو الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ کے ساتھ ارشاد فرمایا:

”اور الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے فرماں بردار بن جاؤ اور تم آپس میں جھگڑے اور اختلافات مت کرو اور اگر ایسا ہوا تو تم بزدل ہو کر پھسل جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور سختی اور آزمائش کے موقع پر صبر کرو، بے شک الله کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ (سورہٴ انفال:46)

ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ الله تعالیٰ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو اپنی رحمت سے دور کرکے بے یار ومدد گار، ذلت وخواری میں مبتلا کرے گا جو دنیا کے اندر کسی مسلمان کی بے حرمتی اور آبروریزی کرکے اس کو بے یارومدد گار چھوڑ دیتے ہیں اور الله تعالیٰ قیامت کے دن ایسے لوگوں کی اپنی رحمت سے مدد فرمائے گا، جنہوں نے دنیا کے اندر کسی مسلمان کی عزت وآبرو کی حفاظت میں مدد کی اور اس کو بے یارومدد گار نہ چھوڑا ہو، اس لیے کہ مسلمان کو بے یارومدد گار چھوڑنے میں مسلمانوں کا اتحاد ختم ہو جاتا ہے اور آپس کی ہم دردی او رمحبت کا جذبہ درمیان سے اٹھ جاتا ہے اس لیے حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا یخذلہ“ کہ مسلمان کو بے یارومدد گا رنہ چھوڑے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:

”حضرت جابر بن عبدالله انصاری اور ابو طلحہ انصاری رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسی جگہ ذلیل کرکے بے یارومدد گار چھوڑ دیتا ہے جہاں اس کی بے حرمتی اور آبروریزی ہوتی ہے تو ضرور الله تعالیٰ اس شخص کو ایسی جگہ بے دست وپا چھوڑ دے گا، جہاں وہ الله کی مدد کی ضرورت محسوس کرے گا او رجو شخص کسی مسلمان کی ایسی جگہ مدد کرے جہاں اس کی آبروریزی اور بے حرمتی ہو رہی ہو تو الله تعالیٰ اس کی ایسی جگہ مدد کرے گا، جہاں اس کو الله کی مدد کی ضرورت ہو گی۔“ (مسند احمد وابوداؤد)

مسلمان بھائی کو حقیر مت سمجھو
”المسلم اخوالمسلم لا یحقرہ“: مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ایک دوسرے کو حقیر نہ سمجھیں“ ایک دوسرے کو حقیر سمجھنا آپس میں اختلاف اور افتراق کا باعث ہے اور جو شخص حقیر سمجھ رہا ہے، اس کے اندر غرور اور کبر ہے، جو نہایت خطرناک ہے، ایسے لوگوں سے الله تعالیٰ سخت ناراض ہے، تمام مسلمان برابر درجہ کے ہیں، اگر کسی کا درجہ ومقام اونچا ہے تو صرف تقویٰ کے ذریعہ سے ہے اور کسی مسلمان کو حقیر سمجھنے والا کبھی متقی نہیں ہو سکتا۔

ایک حدیث شریف میں وارد ہے کہ دنیا اور آخرت میں کسی انسان کے بدترین ثابت ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان کو حقیر اور ذلیل سمجھے، کسی کو ذلیل او رحقیر سمجھنے کا مرض مسلمانوں کے دلوں میں اختلاف اور بغض وعناد پیدا کرنے کا اہم سبب ہے۔

سید الکونین صلی الله علیہ وسلم نے ایسے کبر اور اخلاق رذیلہ سے امت کو دور رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:

”حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، لہٰذا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی خیانت نہ کرے اور نہ اس کو جھٹلائے ا ور نہ ہی اس کو بے یار ومدد گار ذلیل کرکے چھوڑے، ہر ایک مسلمان کی عزت وآبرو او رجان ومال دوسرے پر حرام او رمحترم ہے او رتقوی کا تعلق دل سے ہے، اس کی طرف اشارہ فرمایا اور کسی انسان کے بدترین ثابت ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔“ (ترمذی:2/14)