اتباع سنت کا ذوق بیدار کیجیے

اتباع سنت کا ذوق بیدار کیجیے

مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی

حضورصلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ شریعت اسلامی کا اہم ماخذ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی زندگی کے لیے واجب التقلید نمونہ ہے، اس سے ایک طرف شریعت کے بہت سے احکام وہدایات ملتی ہیں، تو دوسری طرف اسی سے ہم کو اسلامی زندگی کا مثالی نمونہ بھی ملتا ہے۔ اس حیات طیبہ کو سن کر او رپڑھ کر مسلمان کا دل ودماغ جو کچھ اخذ کرتا ہے، اس سے اس کی دنیا بھی بنتی ہے اور دین بھی بنتا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو فرمایا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو دیکھا اور ہونے دیا، ان سب کو حدیث کا نام دیا جاتا ہے اور حدیث شریعت اسلامی کا ایک بہت بڑا ستون ہے، لہٰذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا جی لگا کر مطالعہ کرے، اپنے جلسوں میں، تقریروں میں، گفت گو میں ان کی باتوں کا چرچا کرے، ان باتوں سے سبق لے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرے جن کو مستند کتابوں میں نقل کیا گیا ہے او رجن کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے، خواہ وہ زندگی دین کے معاملات کی ہو، خواہ دُنیا کے معاملات کی۔

اس سلسلہ میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کتنے لوگوں کی زندگیوں میں ان کے سننے او رجاننے سے تبدیلی آئی، کتنے لوگوں کی زندگی شریعت اسلامی کے سانچے میں ڈھلی؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اس کا مطلب ہے کہ جلسہ کرنے والوں میں کوئی نہ کوئی بے خیالی ہے کہ جو فائدہ حاصل کرسکتے تھے، وہ حاصل نہ کرسکے او راس مقصد کو پورا نہ کرسکے، جس مقصد کے نام پر یہ جلسے کیے جاتے ہیں، وہ صرف معجزات یا ایسے کمالات کے بیان میں محدود ہو کر رہ گئے ہیں، جن پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے امتیوں کا عمل ممکن نہیں یا بہت ہی مشکل ہے، دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ نہ مقررین اس کا خیال کرتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارک کے نصیحت آمیز پہلوؤں کو بیان کریں اور نہ سامعین کو اس کا شوق کہ وہ باتیں سنیں جن سے ان کو سبق ملتا ہو، ہاں چمک دمک ، ذوق وپسند کی باتوں سے خوش کن جلسہ تو ہو جاتا ہے، لیکن اس سے فائدہ پہنچنے کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ان سب میں حیات طیبہ مبارکہ کی عملی روح بیان کی جاتی اور حیات طیبہ کا مقصد چمکتا نظر آتا تو زندگیوں کو روشن کر دیتا اور اعمال کی اصلاح کر دیتا، جس کی اس وقت امت کو بہت ضرورت ہے او رامت اس سے بہت ہٹ گئی ہے۔

حضور صلی الله علیہ وسلم اس دُنیا میں جب تشرف لائے تو پیدا ہونے سے قبل اور پیدا ہونے کے چند سال بعد والد اور والدہ کی شفقتوں سے محرومی برداشت کرنا پڑی، ذرا بڑے ہوئے تو شفیق دادا بھی نہ رہے، صرف چچا کی ہم دردی وشفقت باقی رہی، لیکن چچا کو غربت کا سامنا تھا، لہٰذا آپ کو بھی غربت کا سامنا کرنا پڑا، یتیمی پھر غربت ، دہری دشواری، آپ کچھ بڑے ہوئے تو معاشی لحاظ سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی تدبیر کی، آپ نے اپنے قبیلہ کے دستور کے مطابق کاروبارو تجارت کی طرف توجہ دی، آپ کی ذہانت وامانت رنگ لائی اورکاروبار کے ذریعہ آپ کے اقتصادی حالات میں تبدیلی آئی، اس سے آپ نے شفیق چچا کی مدد بھی کی اور وہ اس طرح کہ ان کے ایک صاحب زادہ کو آپ نے اپنی کفالت میں لے کر ان کے بوجھ کو ہلکا کیا، دوسری طرف قوم کے سامنے آپ کے جو اعلی انسانی اخلاق وکردار آئے، ان سے آپ کو سب کی محبت وقدر حاصل ہوئی ، آپ کا نام سب نے امانت دار رکھ دیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم سب کی آنکھوں کا تارہ بن گئے، ہر ایک بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔

لیکن جب نبوت کی ذمہ دار ی ملی او راس کا کام سپرد ہوا، اس کام کے کرنے سے لوگوں کا سابقہ رویہ بد ل گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے درپے آزار ہو گئے، اگر پہلے جیسے رہتے تو قریش میں آپ سے زیادہ پسندیدہ اورمحترم شخص کوئی اور نہ ہوتا،آپ صلی الله علیہ وسلم قریش کے بادشاہ کی طرح ہو جاتے او رآپ کو دنیاوی وجاہت انتہا درجہ کی حاصل ہوتی، آپ جو کہتے قریش اس کوبجا لاتے، آپ کے لیے سب اپنی نگاہیں فرش راہ کرتے، لیکن خدا کو آپ سے دعوت واصلاح کا کام لینا تھا، آپ کو حکم ہوا کہ قوم کے عقیدوں اور مذہبی عادتوں کی جو بگڑی ہوئی شکلیں چل رہی تھیں، ان کی اصلاح کا پیغام سنائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے رسالت کی ذمہ داری اٹھالی اور اس کی انجام دہی سے جو تکلیفوں کا سلسلہ شروع ہونا تھا، اس کے لیے تیار ہو گئے، آپ کو آرام مطلوب نہ تھا، آپ کوانسانوں کی خیر خواہی مطلوب تھی، چناں چہ عداوت کا جو طوفان اٹھا وہ زبردست تھا، آپ کو امانت دار او رنیک کردار کہنے والے اور عزت واحترام سے پکارنے والے بگڑ گئے، پہلے جو تعریف کرتے تھے، اب برائی کرنے لگے، پہلے آنکھوں پر بٹھانے کے لیے تیار رہتے تھے، اب پتھر مارنے لگے، عزت کرنے والے مذاق اڑانے لگے، گندگی اور کیچڑ ڈالنے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سب جھیلا اور پیغام خدا وندی سناتے رہے، حق وانسانیت کے لیے حکم الہٰی کی بجا آوری کے لیے سب برداشت کرتے، جواب نہ دیتے، صبر آزما معاملہ تھا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے عظیم صبر سے کام لیا، برداشت سے باہر تھا، پھر بھی برداشت کیا، کیوں کہ حکم الہی تھا کہ برداشت کرو، جواب نہ دو مخالفت کے باوجود نیکی کی تلقین کرتے او رحق کا پیغام پہنچاتے رہے۔

تیرہ سال اسی جدوجہد اور صبر میں گزرے اور برداشت اور صبر کا حکم جاری رہا،حتی کہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے او ردوسری جگہ منتقل ہونا پڑا، بالآخر خدا کی طرف سے اجازت ملی کہ بہت ظلم ہو چکا، اب جواب دے سکتے ہو، اب مقابلہ پڑے تو مقابلہ کرسکتے ہو، الله تعالیٰ کی مدد ہوگی، یہاں سے مقابلہ کا آغاز ہوا اور الله تعالیٰ کی جو مدد تکلیف جھیلنے اور برداشت کرنے میں آتی تھی، وہ مقابلہ کی اجازت کے بعد جاری رہی او رمیدان جنگ میں آئی، آپ پر دشمن حملہ آور ہوتا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے نئے وطن مدینہ پر چڑھائی کرتا، آپ مقابلہ کرتے اور بہادری کا ثبوت دیتے، یہ سب حق کے لیے تھا، اپنے پروردگار کی رضا کے حصول کے لیے تھا، نفس کشی تھی، راحت کی قربانی تھی، مکہ کی تیرہ سالہ مدت میں بھی قربانی اور مدینہ کی دس سالہ مدت میں بھی خطرات کا مقابلہ اور قربانی، اعلیٰ اور پاکیزہ زندگی، انسانیت، رواداری، برداشت، ثابت قدمی، بہادری، شرافت وعظمت، کردار کے طرح طرح کے انداز، یہ تھی انسانیت نواز مثالی زندگی۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کا مقام بحیثیت نبی کے بہت اونچا ہے، لیکن اسی کے ساتھ بحیثیت انسان کے اخلاق، محبت، ہم دردی، انسان نوازی، خوش اخلاقی، خاکساری، تواضع، مہمان داری، غرباء پروری، مصیبت زدوں کے ساتھ ہم دردی بھی انتہائی بڑھی ہوئی تھی، ایک طرف آپ صلی ا لله علیہ وسلم نبوت کے کمالات کا مظہر تھے اور دوسری طرف انسانی خوبیوں کا اعلی پیکر تھے۔

ہم کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ دونوں پہلوؤں سے کرنا چاہیے، ایک طرف یہ کہ اس سے ہم کو شریعت کی تعلیمات ملتی ہیں، جن پر عمل کرکے خدا کو راضی کرسکتے ہیں او راپنی آخرت بنا سکتے ہیں، دوسری طرف یہ کہ انسانی وبشری خوبیوں اور خصلتوں کے کیسے کیسے اعلیٰ نمونے سامنے آتے ہیں،جن کے اختیار کرنے سے دنیاوی اعتبار سے اورسماج کے اندر ہم ایک اعلیٰ خصلتوں کے انسان بن سکتے ہیں۔

ہم صرف روشنی کرکے اور صرف معجزات بیان کرکے خو داپنے کو بہت خوش تو کر لیتے ہیں، لیکن رسول پاک کو خوش کرنے کے لیے یہ روشنی اور شاندار مظاہر مفید نہیں، مفید تو آپ کی حیات طیبہ کے اخذ فیض سے آپ کی سنت کی اتباع کرنا ہے، انسانوں کے لیے ہم دردی او رمحبت وعنایت کا اختیار کرنا ہے، ہم کو دیکھنا چاہیے کہ ہم اپنے ذوق کی تسکین اور دکھاوا کرنا چاہتے ہیں یا رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی خوشی کے کام کرنا چاہتے ہیں؟ ہمیں سیرت پاک کی محفلوں میں اتباع سنت رسول صلی الله علیہ وسلم کو ضرور سامنے لانا چاہیے، تاکہ آخرت میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے اگر ملاقات مقدر ہو تو آپ یہ نہ فرمائیں کہ تم نے ہم کو تو خوش نہیں کیا، صرف اپنے کو ہی خوش کرتے رہے اورشان وشکوہ سے اپنا دل بہلاتے رہے اور ہماری سنتیں مٹتی رہیں، کتنے غریب غربت برداشت کرتے رہے اور دولت مند دولت کو صرف ذوق اور دکھاوے میں اڑاتے رہے، امت پریشان رہی اور خوش حال لوگ مزے اڑاتے رہے۔