آہ! مولانا نور عالم خلیل امینی رحمةالله علیہ

آہ! مولانا نور عالم خلیل امینی رحمةالله علیہ

مولانا سیّد محمد زین العابدین

یہ مارچ2014ء کی بات ہے، میں مولانا محمد زبیر الحسن کاندھلوی کا تذکرہ مرتب کر رہا تھا، مولانا شفیق احمد بستوی صاحب کے ذریعہ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے سابق ناظم تعلیمات مولانا عبدالرشید بستوی رحمة الله علیہ سے رابطہ ہوا، ان سے مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کا رابطہ نمبر لے کر حضرت مرحوم سے مولانا کاندھلوی پر ایک عدد مضمون لکھنے کی گزارش کی، حضرت نے کچھ ایام کے بعد نہ صرف یہ کہ مضمون دیا، بلکہ رابطہ فرماکر کچھ ہدایات بھی دیں، منجملہ ان میں یہ کہ مضمون میں کوئی تبدیلی نہ ہو، یہاں تک کہ الفاظ جس انداز سے لکھے گئے ہیں،نیز یہ کہ علامات ترقیم اور اعراب میں بھی تبدیلی نہ ہو، الایہ کہ اگر بعض الفاظ یا اعراب کو کمپیوٹر قبول نہ کرے تو بدلنے کی گنجائش ہو گی۔ کتاب میں شامل مضامین میں سب سے شان دار مضمون مولانا ہی کا تھا، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے مضمون سے میری کتاب میں جان آگئی تھی، بعد ازاں کتاب شائع ہوئی توایک صاحب کے ہاتھ مولانا بستوی مرحوم کو بھجوائی گئی، مولانا از خود دیوبند تشریف لے گئے اورحضرت امینی صاحب کی خدمت میں کتاب پیش کی، بعد میں میں نے رابطہ کیا تو بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ گفت گو فرمائی، مضمون ان کے ذوق کے مطابق اور کتاب میں درست جگہ لگا تھا، مقالات ومضامین کے گوشہ میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے بعد انہی کا مضمون تھا، کافی دیر گفت گو فرمائی، جس میں ”پس مرگ زندہ“ کے بعد لکھے گئے تعزیتی مضامین کے جمع وترتیب کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو نئے نام سے الگ کتاب کی صورت میں لاؤں گا، ”پس مرگ زندہ“ کی دوسری جلد نہیں بناؤں گا۔ چنا چہ ابھی چند دن قبل ہی مولانا نایاب حسن قاسمیکے ذریعہ معلوم ہوا کہ ”رفتگان ِ نارفتہ“ کے نام سے انہیں وفیاتی مضامین پر مشتمل مولانا کی نئی کتاب پریس چلی گئی ہے،جس میں ناچیز کی کتاب کے لیے لکھا گیا مضمون بھی شامل ہے، اس کے علاوہ اسی گفت گو میں یہ بھی فرمایا کہ ” میں نے شخصیات پر عربی میں بہت سے مضامین لکھے ہیں،خواہش ہے کہ وہ سب اردو میں منتقل ہو جائیں۔“ بہرحال یہ مولانا مرحوم سے میری آخری گفت گو تھی۔

الله تعالیٰ نے ان کو لکھنے کی بڑی اعلی صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہ دارالعلوم دیوبند کے عربی رسالہ ماہنامہ ”الداعی“ کے سالوں سے مدیر تھے، بیک وقت عربی اور اردو دونوں کے مایہ ناز ادیب اور قلم کار تھے، بڑا معیاری لکھتے، کسی کا خاکہ کھینچتے تو وہ شخصیت گویا نگاہوں کے سامنے آکھڑی ہوتی، جس موضوع پر بھی لکھتے، لکھنے کا حق ادا کر دیتے، گزشتہ دس سالوں میں عرب دنیا میں جو حالات رونما ہوئے، مولانا اپنے ”الداعی“ کے اداریوں میں ( جو عرب دنیا میں خوب پڑھے جاتے تھے ) بڑے زوردار انداز میں صلیبی وصہیونی چالوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے اوران کو سوتے سے جگانے کی کوشش کرتے تھے اور یہ وہی فریضہ تھا جو اپنے وقت میں مولاناعلی میاں ندوی انجام دیا کرتے تھے۔ مولانا سید ابوا لحسن علی ندوی رحمہ الله کے بعد عرب دنیا کے علمی حلقوں میں ہندی علما میں سے جس شخصیت کی تحریروں کی دھوم تھی وہ مولانا نور عالم خلیل امینی ہی تھے۔ مجھے ان کی کتابوں میں سے ”پس مرگ زندہ“، ”وہ کوہ کن کی بات“، ”مقالات ِ امینی“ اور”صلیبی وصہیونی جنگ“ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً مختلف رسائل وجرائد میں ان کے جو مقالات ومضامین شائع ہوتے تھے، وہ بھی نظر سے گزرتے تھے، ان کو پڑھ کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں وقت کو ضائع نہیں کرتے ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں سرسری نوعیت کی نہیں ہوتی تھیں، لکھنے پڑھنے والے احباب جانتے ہیں کہ کسی موضوع پر کوئی عام سی تحریر بھی اچھا خاصا وقت لے لیتی ہے او رپھر مولانا جو تحریریں لکھتے تھے وہ اپنے موضوع پر جامع، مانع ، علمی ، ادبی اور مفصل ومکمل ہوا کرتی تھیں، تو ان میں ان کی کس قدر محنت اور وقت صرف ہوتا ہو گا؟!

الغرض! مولانا امینی رحمة الله علیہ علمی وادبی دنیا کی بڑی قیمتی اور انوکھی شخصیت تھے، یہ شخصیت برسوں کی محنت ومشقت اور بڑی بڑی شخصیات کی صحبت سے تیار ہوکر کندن بنی تھی او رپھر کتنے ہی لوگوں نے بلا واسطہ اور بہتوں نے ان کی تحریروں کے ذریعہ ان سے استفادہ کیا اور علم و ادب کے اس روشن چراغ سے اپنے دل ودما غ کو منور کیا۔

مولانا کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ ان کا تعلیم کے حصول کا زمانہ بڑی مشقتوں اور تنگیوں والا تھا، مشکلات وپریشانیوں سے پُر حالات کے باوجود ثابت قدمی اور انتہائی محنت سے وقت کے جید مدرّسین اور علما و مصنّفین سے مستفید ہوئے، خصوصاً مولانا سید محمد میاں دہلوی او رمولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی سے بہت کچھ سیکھا اور پھر وہی کچھ پوری زندگی دوسروں کوسکھاتے رہے، مولانا کی آبائی وخاندانی کوئی اور اونچی نسبت نہ تھی، نہ ہی مالی اعتبار سے کوئی بڑا بیک گراؤنڈ تھا، وہ جو کچھ بھی بنے ، اپنی ہی محنت وجدوجہد اور علمی قابلیت سے بنے، اپنی صلاحیت ولیاقت ہی کا نتیجہ تھا کہ عربی زبان وادب کی خدمات پر انہیں ان کے ملک میں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ نیز یہ کہ ہندوپاکستان اور عرب دنیا کے دینی وعلمی حلقوں میں ایک عالمی ادیب ومایہ ناز مصنف وقلم کار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، ان کی زندگی میں سبق ہے ان احباب کے لیے جو اپنی صفر کارکردگی کے باوجود صرف اپنی خاندانی نسبتوں پر نازاں رہتے ہیں۔ بہرحال مولانا امینی رحمة الله علیہ کا خلا مدتوں پُر نہ ہوسکے گا۔ اب ضرورت ہے کہ مولانا کی تحریروں اور کتابوں ہی سے استفادہ کیا جائے۔ مولانا کی کتابوں میں سے ”وہ کوہ کن کی بات“ مکتبہ بیت العلم کراچی نے، ”صلیبی، صہیونی جنگ“ الرحیم اکیڈمی، لیاقت آباد کراچی نے اور”مقالات ِ امینی“ مکتبة الایمان کراچی نے شائع کی ہیں۔ جب کہ ”پس مرگ زندہ“ یہاں شائع تو نہیں ہوئی، البتہ اس کے کافی ہندی شائع شدہ نسخے مکتبہ رشیدیہ کراچی میں دست یاب رہے ہیں۔ دعا ہے الله تبارک وتعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے او ران کی حسنات کو قبول فرمائے، ان کے پس ماندگان اوربچوں کو صبر جمیل اور ان کی دست گیری فرمائے۔ یہ بھی تمنا ہے کہ مولانا کے چھوڑے ہوئے کاموں کی تکمیل ہو جائے، سنا تھا کہ وہ اپنی آپ بیتی لکھ رہے تھے، جس قدر بھی لکھی جاچکی ہے اس کو شائع ہونا چاہیے اوران کے عربی واردو کے مضامین بھی موضوعاتی صورت میں کتابی شکل میں آنے چاہییں۔