آزمائشوں او رتکلیفوں پر رحمت ومغفرت کا وعدہ!

آزمائشوں او رتکلیفوں پر رحمت ومغفرت کا وعدہ!

محترم سجاد سعدی

الله تبارک وتعالی نے مسلمانوں کے لیے دنیا کو دار الامتحان بنایا ہے، اس دنیا میں مسلمانوں کوطرح طرح کی آزمائشوں اور مصیبتوں سے پرکھا جائے گا، اگر مسلمان دنیا کی ہر مصیبت اور مشقت کے موقع پر صبر سے کام لیتا ہے توالله کی طرف سے دنیا اور آخرت میں آسمانی مدد کا وعدہ ہے اور الله تبارک وتعالیٰ نے خود فرمایا کہ ہم تمہیں خاص طور پر پانچ چیزوں کے ذریعے آزمائیں گے۔ ” اے ایمان والو! (غم ہلکا کرنے کے لیے) صبر اور نماز کے سہارے سے مدد حاصل کرو، بے شک الله پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ (البقرہ)” اور یقینا ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے او رکچھ مالوں اور جانوں او رپھلوں کے نقصان سے، اور ( اے حبیب!) آپ (ان) صبرکرنے والوں کو خوش خبری سنا دیں۔ جب ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو الله ہی کی ملک ہیں اورہم سب الله ہی کے پاس جانے والے ہیں۔“(البقرہ)

﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْء ٍ مِّنَ الْخَوف﴾: یقینا ہم تم کو خوف وہراس کے ذریعہ سے آزمائیں گے۔ مسلمانوں کو دشمنان اسلام کی طرف سے خوف زدہ اورہراساں کیا جارہا ہے تو ایسے موقع پر مسلمانوں کو صبر وضبط اور رجوع الی الله سے کام لینے کی ضرورت ہے۔﴿وَالْجُوعِ﴾: فقروفاقہ کی مصیبت سے دو چار کیا جائے گا اور فقر وفاقہ کی وجہ سے مسلمانوں کو الله کی مدد سے نا امید نہیں ہونا چاہیے، اگر صبر وضبط سے کام لیا جائے تو الله کی طرف سے کبھی بھی مدد آتی ہے۔ ﴿وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ﴾: مالی نقصان کے ذریعے سے آزمایا جائے گا، آج دنیا کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ تجارت او رکاروبار کے اعتبار سے ہر جگہ مسلمان غیر مسلموں کے مقابلہ میں کم زور ہیں، یہ مسلمانوں کے ساتھ عمومی آزمائش ہے، انفرادی آزمائش یوں ہے کہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں، بہت سے مسلمانوں کے کاروبار کم زور ہو گئے اوربہت سوں کے بند ہو گئے، اس طرح کے انفرادی واقعات مسلمانوں کے ساتھ انفرادی آزمائش ہے اور ایسی آزمائشوں پر صبر وضبط سے کام لینے کا حکم ہے، پھر کبھی الله کی مدد ضرور آئے گی۔ ﴿وَالأنفُسِ﴾ : جانی نقصانات کے ذریعہ سے آزمائش کی جائے گی ، آج بھی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو ہر جگہ مسلمانوں کا جانی نقصان زیادہ ہے اورجانی نقصان میں جانی قربانیاں بھی داخل ہیں اور جانی قربانیوں کے ذریعہ سے الله تعالیٰ مسلمانوں کا امتحان کرتا ہے کہ اس پر مسلمان کہا ں تک صبر کرتے ہیں۔

والثمرات: باغات اور کھیتی اور دیگر پیدا وار میں نقصان کے ذریعہ سے آزمائش کی جائے گی، ان آزمائشوں میں مسلمان ایمان پر اور اپنے دین پر کس قدر قائم رہتے ہیں، دیکھا جائے گا…۔ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان آزمائشوں میں مسلمان صبر وضبط سے کام لیتے ہیں تو الله تعالیٰ کی طرف سے بڑی خوش خبری کا اعلان ہے۔

مصیبت میں الله سے مدد
الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں مصیبت کے موقع پر دو چیزوں کے ذریعہ سے الله تعالیٰ سے مدد مانگنے کا حکم فرمایا کہ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت آپڑے تو الله کی مدد کے لیے صبر کو سہارا بنائیں، صبر کرنے سے الله کی مدد کا اعلان ہے، الله نے فرمایا:﴿إِنَّ اللَّہَ مَعَ الصَّابِرِینَ﴾ (بے شک الله کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے )۔ ﴿وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ﴾: مصیبت اور صدمہ کے موقع پر رجوع الی الله ہی ایسا عمل ہے جو الله کو پسند ہے اور رجوع الی الله کے لیے سب سے بہترین چیز نماز اور عبادت ہے، اس لیے الله تعالیٰ نے نماز اور عبادت سے خدا کی مدد کا انتظار کرنے کا حکم فرمایا۔

مصیبت میں مومن کی مثال عمدہ کھیتی کی طرح
حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال عمدہ ترین کھیت کی طرح ہے، جس کو ہر وقت ہوا ادھر ادھر جھکاتی پھرتی ہے اور مومن پر بھی اسی طرح ہر وقت مصیبتیں آتی رہتی ہیں او رمنافق کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے، جس کو ہوا ادھر ادھر مائل نہیں کرتی، حتی کہ اسے کاٹ دیا جائے۔“ (مسلم وترمذی شریف)

مصیبت سے گناہ جھڑنا
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم سخت بخارمیں مبتلا ہیں، میں نے کہا: یا رسول الله! آپ سخت ترین بخار میں مبتلا ہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جی ہاں! بے شک میرا بخار تمہارے دو آدمی کے برابر ہے۔ تو میں نے کہا کہ پھر آپ کو دہرا اجر دیا جائے گا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں! ایسا ہی ہو گا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بھی مسلمان کو کوئی پریشانی پہنچ جائے، چاہے ایک کانٹا یا اس سے زیادہ کی تکلیف کیوں نہ ہو الله تعالیٰ اس تکلیف کی وجہ سے ضرور اس کے گناہ معاف فرما دے گا او رتکلیف سے گناہ اس طرح جھڑجاتے ہیں جیسا کہ موسم سرما کے زمانہ میں درختوں سے پتے جھڑ جاتے ہیں۔“ (بخاری شریف، شعب الایمان)

ایک حدیث شریف میں او روضاحت کے ساتھ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب کسی مومن کو جسمانی ، ذہنی یا فکری تکلیف اور پریشانی لاحق ہوتی ہے تو الله تعالیٰ ہر ایک الجھن کے بدلہ میں اس کی خطاؤں اور گناہوں کی مغفرت کا اعلان کرتا ہے۔حدیث پاک کے اندر چھ قسم کی تکلیفوں کو گن کر بتلایا ہے کہ ہر ایک تکلیف سے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے۔النصب: جسمانی تھکاوٹ کی تکلیف، جب مومن جسمانی محنت کرتا ہے اور اس سے تھکاوٹ محسوس کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس تھکاوٹ کی تکلیف کی وجہ سے اس کا گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ الوصب: بدن میں کوئی درد کی تکلیف ہوتی ہے، مثلاً سر میں درد ہے، پنڈلی میں درد ہے، گھٹنوں میں درد ہے یا پھوڑے پھنسی کی تکلیف ہے، الله تعالیٰ ان تکلیفوں کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔ الھم: ذہنی فکر او رالجھن میں مبتلا ہو جائے تو الله تعالیٰ اس کی وجہ سے بھی مومن کا گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ الحزن: دماغی رنج او رخطرہ لاحق ہو جائے تو اس کو بھی الله تعالیٰ مومن کے گناہوں کے لیے کفارہ قرار دیتا ہے۔ الأذیٰ: مومن کو کہیں سے بھی ایذا پہنچتی ہو اور ستایا جاتا ہو تو الله تعالیٰ اس کوبھی گناہوں کے لیے کفارہ قرار دیتا ہے۔ الغم: ذہنی غم اور کوفت میں مبتلا ہو جائے تو الله تعالیٰ اس کو بھی گناہوں کے لیے کفارہ قرار دیتا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو جسمانی تھکاوٹ اورجسمانی تکلیف اور ذہنی فکر اور دماغی رنج او رکسی کی طرف سے ایذاء اورستائے جانے کی تکلیف اور قلبی کوفت اور رنج نہیں پہنچے گا، مگر الله تعالیٰ ان میں سے ہر چیز کے بدلہ میں اس کے گناہوں کو معاف فرما دے گا، حتیٰ کہ وہ کانٹے جو مومن کے بدن میں لگتے ہیں، اس کی وجہ سے بھی گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔(بخاری، مسلم، ترمذی) بہرحال جو لوگ آزمائشوں اورتکلیفوں پر صبر کرتے ہیں تو ان کے لیے رحمت ومغفرت کا وعدہ ہے۔ الله پاک ہمیں ہر آزمائش ومصیبت کے وقت صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!