آدھے سر کا درد

آدھے سر کا درد

پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان

آدھے سر کے درد کے بہت سے نام ہیں۔ عربی میں اسے شقیقہ کہا جاتا ہے۔ اس مرض میں سردو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ نصف سر تن درست رہتا ہے اور نصف میں شدید درد ہوتا ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام شقیقہ ( سرکود و شقوں یا دو حصوں میں تقسیم کرنے والا ) رکھا گیا ہے۔ عام بول چال میں آدھا سیسی کا درد کہلاتا ہے۔ لاطینی زبان میں اسے ہیمی کرینیا (=Hemicrania ہیمی کے معنی نصف اور کرینین کے معنی کھوپڑی) کے نام سے یاد کرتے ہیں ،انگریزی زبان میں یہ مائیگرین (Migraine) کے نام سے مشہور ہے۔

سر کے درد کی تمام قسموں میں یہ انتہائی شدید درد ہے، جو آدھے سر میں اٹھتا ہے او رکبھی کبھی پورے سر کو گھیر لیتا ہے۔ عموماً یہ دورے کی شکل میں شروع ہوتا ہے اور دورہ رفع ہونے کے بعد مریض خود کوپوری طرح صحت مند محسوس کرتا ہے۔ بعض لوگوں میں یہ طلوع آفتاب سے قبل شروع ہوتا ہے اور دن بڑھنے کے ساتھ بتدریج بڑھتا جاتا ہے او رجو جوں سورج ڈھلنے کے قریب ہوتا ہے درد کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو درد کے ساتھ متلی بھی ہوتی ہے اور کبھی قے بھی ہو جاتی ہے۔ قے ہو جانے کے بعد درد موقوف ہو جاتا ہے یا کمی ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجانا، نظر کا درست نہ رہنا بھی اس کی مخصوص علامات ہیں۔

چوں کہ یہ نہایت شدید درد ہے او راس کی علامات بھی بڑی واضح ہیں اس لیے اس کی تشخیص میں زیادہ دشواری پیش نہیں آتی او رمریض خود بھی اپنے مرض اور اس کے شروع ہونے کے انداز سے بخوبی واقف ہو جاتے ہیں۔

برطانیہ میں اس مرض کے شکار مریضوں کے اعداد وشمار اکٹھا کیے گئے تو وہاں ہر دسواں آدمی دردِ شقیقہ میں مبتلا ہے ،اس طرح سے تقریباً پچاس لاکھ لوگ متاثر ہیں اور ان میں سے نصف کام کرنے والا طبقہ ہے، اب اگر موٹا موٹا حساب لگایا جائے کہ ہر مریض نے سال میں ایک دن اس تکلیف کی وجہ سے کام نہیں کیا تو کام کے پچیس لاکھ دن اس مرض کی وجہ سے ضائع ہو گئے۔

یہ بات پورے وثوق سے تو نہیں کہی جاسکتی، مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ دماغی کام کرنے والے لوگ اس تکلیف کا زیادہ ہدف بنتے ہیں۔ گویا جن کے رتبے ہیں سِوا، ان کو سِوا مشکل ہے۔

خواتین جن میدانوں میں مردوں سے آگے ہیں، ان میں سے ایک میدان دردِ شقیقہ کا بھی ہے۔ ایک سروے کے مطابق اگرچار افراد اس مرضمیں مبتلا ہوں گے تو ان میں ایک مرد اور تین خواتین ہوں گی۔ اس کا سبب دوران ایام خصوصی ہارمونوں کی پیدائش ہے، اس لیے اس درد کے دورے عموماً ان خواتین کو زیادہ پڑتے ہیں، جنہیں ایام ٹھیک سے نہ آتے ہوں یا ان کی کثرت ہو۔ بچوں کو دودھ پلانے کے زمانے میں بھی درد کے دورے پڑ جاتے ہیں۔ بعض خواتین شادی کے بعد یادوران ِ حمل درد شقیقہ سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہیں یا اس کی شدت میں کمی ہوجاتی ہے۔

نوجوانوں میں لڑکے، لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں، مگر بلوغت کے بعد لڑکیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، جو بیس برس کی عمر کے بعد خاصی نمایاں ہو جاتی ہے۔

اگر عمر کے لحاظ سے اس مرض کا جائزہ لیا جائے تو یہ دو برس کی عمر کے بچوں میں بھی پایا گیا ہے اور اس کی انتہائی عمر پچاس برس ہے۔ پچاس کی عمر کے بعد یہ دیکھنے میں نہیں آیا اور اگر اس طرح کی علامات ملتی بھی ہیں تو وہ کسی اور مرض کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ چوں کہ پینتالیس برس کی عمر کے بعد ہارمونوں کی پیدائش میں تبدیلیاں رونما نہیں ہوتیں، اسی لیے شاید یہ مرض بھی معدوم ہو جاتا ہے۔

اس کی پیدائش کے جو عام اسباب ہیں، ان میں خون کی کمی، عام جسمانی کم زوری، فاقہ کشی، بدہضمی، دائمی قبض، دماغی حسّاسیت (الرجی) یا تکان اور تیز چمک دار اور آنکھوں کو چکاچوند کر دینے والی روشنی شامل ہیں۔ بعض امراض کے نتیجے میں بھی دردِ شقیقہ شروع ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر امراض ِ گردہ، نظر کی کم زوری اور نزلہ وزکام کا غلط علاج، جس سے بلغم خشک ہو کر رک جائے وغیرہ۔ بہت سے کنبے ایسے ہیں، جن میں ایک یا ایک سے زیادہ افراد اس مرض کا شکار ہیں یا ان کے والدین یا خاندان کے بزرگ بھی اس اذیت میں مبتلا رہے اور ان سے ان کے بچوں میں یہ مرض منتقل ہوا۔

درد کے دورے کی شروعات مختلف لوگوں میں مختلف طریقے سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا ہے کہ غذا میں بے احتیاطی، دیر تک بھوکے رہنا، جاگنا، زیادہ مشقت یا ذہنی دباؤ کے نتیجے میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ ایک ہی مریض میں ایک یا ایک سے زیادہ اسباب مل سکتے ہیں۔

اگر کسی ڈائری میں اپنی چوبیس گھنٹے کی مصروفیات درج کر لی جائیں تو بار بار دورے پڑنے پر یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہوتا کہ کون سی چیز دورہ پڑتے وقت ہر بار مشترک رہی ہے اور مرض کا سبب بن رہی ہے۔

بعض لوگوں میں ایک سے زیادہ چیزیں مل کر درد کا باعث بن جاتی ہیں اور یہ اندازہ لگانا دشوار ہوجاتا ہے کہ اس میں سے کس چیز سے اجتناب برتا جائے، مگر زیادہ تر جسمانی تکان یا جذباتی دباؤ سے اس کی شروعات ہوتی ہے۔ دورہ شروع ہونے سے قبل جو علامات عام طور پر ظاہر ہوتی ہیں، ان میں کم زوری، سستی، سرکا بھاری پن اور آنکھوں کے سامنے چنگاریاں سی اڑتی نظر آنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ اس کی ابتدائی علامات ہیں۔ اس کے بعد کنپٹی او رماتھے کی رگیں تڑپتی ہیں۔ سرپھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حرکت کرنے، چھینکنے یا کھانسنے سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں، سر چھونے سے گرم محسوس ہوتا ہے، آواز اور روشنی سے نفرت ہو جاتی ہے، نبض کم زور ہوتی ہے متلی کا احساس رہتا ہے او رکبھی قے ہو جاتی ہے ،درد دور ہونے پر مریض کو نیند آجاتی ہے اور سو کر اٹھنے پر وہ خود کو بہتر محسوس کرتا ہے۔ یہ درد دو تین گھنٹے سے لے کر چوبیس گھنٹے تک اور بعض صورتوں میں دو تین روز تک رہتا ہے۔

شقیقہ کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صبح گھر سے نکلتے وقت اطمینان کے سا تھ اچھا ناشتا کریں، صرف چائے یا کافی پر اکتفا کرنا دانش مندی نہیں ہے۔ اگر مجبوری کی وجہ سے صبح ناشتانہ کیا جاسکتا ہو تو دودھ، پھلوں کا رس یا کوئی او رمناسب چیز کھالی جائے اور دوپہر کا کھانا جلد تناول کیا جائے۔

اسکول جانے والے بچے بھی اکثر جلدی میں ناشتا نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ نہ صرف دردِ شقیقہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بلکہ پڑھائی میں بھی پیچھے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنا جیب خرچ بھی چاکلیٹ اور ٹافیوں کی نذر کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے صحت مزید خراب ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں ۔

غذا سے کس طرح درد شروع ہو جاتا ہے، اس سے ابھی تک پوری طرح واقفیت نہیں ہے، بعض صورتوں میں کسی خاص غذا کا پتا چل جاتا ہے، جس کے کھانے کے بعد درد کا حملہ شروع ہو گیا تھا۔ یہ مخصوص غذا سے حسّاسیت کے نتیجے میں بھی ہو سکتا ہے۔

بہتر یہ ہے کہ جن غذاؤں پر شبہ ہو، ان کے نام الگ درج کر لیے جائیں اور ان میں سے ایک ایک غذا کو اتنی مدت کے لیے ترک کر دیا جائے جتنی مدت میں درد کا دورہ پڑتا ہے۔ اگر اس مدت میں درد کا دورہ نہیں پڑا تو سمجھ لیجیے کہ آپ کو غذا کا پتا چل گیا۔ اس غذا کو مکمل طور پر ترک کر دیجیے اوراگر اس کے چھوڑنے سے کوئی فرق نہ پڑے تو پھر باری باری دوسری غذاؤں کو آزمائیے۔

گرمی وسردی کی شدت بھی دور کے شروع ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ بہت زیادہ ٹھنڈا پانی پینے، نہانے یا تیرنے کے بعد مرض کا حملہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تیز دھوپ میں چلنا پھرنا یا سورج کی چمک کو براہ راست دیکھنے یا اس کے عکس کو پانی، برف یا شیشے میں دیکھنے سے بھی یہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

بہت گرم وخشک موسم، آندھی، شدید برف باری اور گردوغبار، ان سب کا تعلق درد کے حملے سے ہے۔ مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ موسمی تبدیلیاں براہ ِ راست مرض کا سبب نہ بن رہی ہوں، بلکہ ان سے پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ درد کا موجب بن رہا ہو۔

جدید طریق ِ علاج میں اس مرض کا یقینی تدارک ابھی تک نامعلوم ہے۔ دوا کے طور پر بہ کثرت درد ختم کرنے والی ادویہ کھلائی جاتی ہیں۔ ان دواؤں میں قباحت یہ ہے کہ ایک تو یہ وقتی طور پر درد کو کم کر دیتی ہیں۔ دوسرے ایسپرین کے دوسرے مضراثرات بھی پڑتے ہیں، خصوصاًان لوگوں پر، جن کا ہاضمہ خراب رہتا ہو یا آنتوں سے خون خارج ہوتا ہو۔ طب یونانی میں جو ادویہ اس مرض کے لیے کھائی جاتی ہیں، وہ نہ صرف بے ضرر ہوتی ہیں، بلکہ اگر انہیں پابندی سے کھایا جائے تو یقینی نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔

ہمدرد لیبارٹریز کے شعبہ ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ نے اس تکلیف دہ مرض کو اپنی تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔ طویل عرصے کی جدجہد کے بعد ’حَب ِ شقیقہ“ کے نام سے گولیاں تیار کی گی ہیں او رانہیں تمام لازمی تحقیقی مدارج سے گزارا گیا ہے۔ الله تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ ”حب ِ شقیقہ“اس مرض کا آسان، بے ضرر اور کم قیمت علاج ثابت ہو گئی ہے۔ حب ِ شقیقہ2+2 اور افتیمونی2+2 چائے کے چمچے پانی سے صبح نہار منھ اور سوتے وقت کھانے ے مریض صحت یاب ہو رہے ہیں۔ فی الوقت یہ دوا ہمدرد کے بڑے مطبوں پر دست یاب ہے، مگر جلد ہی اسے پیک کرکے مارکیٹ میں متعارف بھی کرا دیا جائے گا، تاکہ تمام مریضوں کو سہولت کے ساتھ دست یاب ہو سکے۔

درد شقیقہ کے مریضوں کو ذیل میں دی گئی احتیاطی تدابیر پر بھی عمل کرنا چاہیے۔ دردِ شقیقہ شروع ہوتے ہی مکمل آرام بہترین علاج ہے۔ وہ لوگ جو آرام دہ ماحول میں لیٹ کر سونے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ان لوگوں کی نسبت جو اپنے روز مرّہ کے کام کاج جاری رکھنا چاہتے ہیں، جلد ہی درد سے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں، سر کو آہستہ آہستہ دباتے رہنا بھی اچھا علاج ہے۔ اگر آپ دہنی دباؤ یا تفکرات میں مبتلا ہیں تو انہیں دور کرنے کی کوشش کیجیے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے چہرے اور پیشانی کے عضلات کو ڈھیلا چھوڑ دیجیے، ایک یا دونوں کنپٹیوں پر خون کی رگیں بہت تیز تڑپتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، انہیں انگلیوں سے اگر دبائے رکھا جائے تو سکون ملتا ہے۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں سے انہیں دبائے رکھنا چاہیے۔

شور وغل، ڈرائیونگ، سائیکل چلانا اور دوسرے محنت و مشقت کے کام در د کی شدت میں مزید اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو درد شقیقہ کے دوران کبھی بھی یہ احساس ہو کہ آپ کی نظر میں فرق پڑ گیا ہے تو ایسی حالت میں باریک اور پُر خطر کام، مثلاً کار وغیرہ نہ چلائیے،خصوصاً رات میں اگر کار چلاتے ہوئے یہ تکلیف شروع ہو جائے تو بہتر ہے کہ کار پارکنگ کی جگہ پر کھڑی کر دی جائے اور سیٹ کو مکمل طور پر پیچھے کرکے آرام دہ بنا لیا جائے او راس وقت تک وہاں آرام کیا جائے، جب تک درد کی شدت کم نہ ہوجائے یا کار چلانے کا کوئی متبادل انتظام نہ ہو جائے۔

اگر ان سب تدابیر پر عمل کرکے آپ اپنے دردِ شقیقہ پر قابو پاسکیں یا اس کی شدت کو اس حد تک کم کرسکیں کہ وہ آپ کے روزانہ کے معمولات پر اثر انداز نہ ہو تو بہت اچھا ہے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کو اپنے معالج سے رجوع کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ مرض کا صحیح اور مکمل علاج معالج کے مشورے سے ہی ممکن ہے۔